جموں و کشمیر کے ایوارڈ یافتہ صحافی آصف سلطان کو 2018 میں دہشت گردوں کے ساتھ مبینہ روابط کے الزام میں پہلی بار گرفتار کیا گیا تھا۔ تقریباً 3 سال بعد 2022 میں انہیں ضمانت ملی تو رہا ہونے سے پہلے ہی دوبارہ پی ایس اے کے تحت حراست میں لے لیا گیا۔ جب اس معاملے میں بھی ضمانت ملی تو ایک اور کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔
نئی دہلی: کشمیری صحافی آصف سلطان کو جموں و کشمیر پولیس کے ذریعے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت گرفتار کیے جانے کے تقریباً دو ماہ بعد سری نگر کی ایک عدالت نے انہیں ضمانت دے دی ہے۔ ان کے وکیل اور اہل خانہ نے بدھ (15 مئی) کو یہ جانکاری دی۔
سال 2019 کے جان اوبچون پریس فریڈم ایوارڈ کے فاتح صحافی آصف اگست 2018 سے جیل میں تھے، جب انہیں پولیس نے ان کی سری نگر واقع رہائش گاہ پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
سلطان کے وکیل عادل پنڈت نے دی وائر کو بتایا، ‘انہیں 10 مئی کو سری نگر کی این آئی اے عدالت نے ضمانت دی تھی۔’ انہوں نے کہا کہ سلطان اب اپنے خاندان کے ساتھ ہیں۔
سلطان کے دفاع میں پنڈت نے این آئی اے عدالت کے سامنے دلیل دی تھی کہ حکام کے پاس سلطان کے خلاف کوئی براہ راست ثبوت نہیں ہے۔ ان کا ‘ایف آئی آر میں درج مبینہ جرم سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔’
بتا دیں کہ سلطان کی گرفتاری اسی سال 9 فروری کو ہوئی تھی۔ رین واڑی پولیس نے ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 147 اور 148 (فساد اور فساد کے لیے سزا) 149 (غیر قانونی اجتماع کے لیے کسی بھی رکن کی طرف سے کیا گیا جرم)، 336 (انسانی جان کو خطرے میں ڈالنا) اور 307 (قتل کی کوشش) کے علاوہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کی دفعہ 13 (غیر قانونی سرگرمی کی وکالت یا اس کے لیے اکسانا) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
پولیس کے مطابق، یہ معاملہ 2019 میں سری نگر کی سینٹرل جیل میں دنگے کے واقعے سے متعلق ہے،جس میں سلطان سمیت 26 قیدیوں نے جیل کے عملے کے ساتھ کچھ بحث کے بعد مبینہ طور پر بیرک میں توڑ پھوڑ کی تھی، جو بعد میں پرتشدد ہو گئی تھی۔ قیدیوں نے الزام لگایا تھا کہ یہ واقعہ قرآن مجید کی توہین کے باعث پیش آیا تھا، حالانکہ جیل انتظامیہ نے اس الزام کی تردید کی تھی۔ سلطان اس وقت جیل میں ہی تھے اور ان کے خلاف تشدد میں ملوث ہونے کے الزام تھے۔
تاہم، ان کے وکیل پنڈت نے ضمانت کی درخواست کرتے ہوئے اس الزام کو مسترد کر دیا تھا۔ پنڈت نے این آئی اے عدالت میں کہا تھا، ‘جب کوئی شخص پہلے سے ہی حراست میں ہے تو وہ جرم کیسے کر سکتا ہے؟’ انہوں نے دلیل دی تھی کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے قانون کی نظر میں ملزم بے قصور ہوتاہے۔
دلائل سننے کے بعد عدالت نے کہا کہ دنگے کا واقعہ پانچ سال سے زیادہ عرصہ قبل پیش آیا تھا اور سلطان سے حراست میں پوچھ گچھ کے لیے جانچ ایجنسیوں کو 72 دنوں کا ‘خاطر خواہ وقت’ دیا گیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ سلطان کی حراست میں لمبے عرصے تک توسیع سے کوئی مقصد پورا نہیں ہونے والا ہے۔ انہیں ضمانت دینے سے ’انصاف کا مفاد‘ ضرور مکمل ہونے جا رہا ہے۔ تاہم، عدالت نے صحافی کو انکرپٹڈ میسجنگ ایپ اور وی پی این استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔
سری نگر کے بٹ مالو کے رہنے والے سلطان اپنی گرفتاری کے وقت (اب بند ہوچکے) انگریزی کے ماہانہ رسالے ‘کشمیر نیریٹر’ کے ساتھ کام کر رہے تھے، جب انہیں سری نگر پولیس نے ایف آئی آر نمبر 73/2018 (بٹ مالو پولیس اسٹیشن میں درج) کے تحت یو اے پی اے کی مختلف دفعات اور انڈین پینل کوڈ کی کچھ دفعات کے تحت گرفتار کیا تھا۔
سلطان کے اہل خانہ اور وکیل نے مسلسل ان کے خلاف عائد الزامات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ صحافی کو صرف اپنا کام کرنے کے لیے نشانہ بنایا گیا۔
سری نگر کی ایک عدالت نے دہشت گردوں کے ساتھ مبینہ روابط کے الزام میں گرفتاری کے تقریباً تین سال بعد 5 اپریل 2022 کو انہیں اس کیس میں ضمانت دی تھی، اور ان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے سلطان کے کسی دہشت گرد گروپ سے تعلق کے ثبوت فراہم کرنے میں جانچ کرنے والوں کی ناکامی کا حوالہ دیا تھا۔ عدالت نے ان کی رہائی کا حکم بھی دیا تھا۔
اس سے پہلے کہ وہ جیل سے باہر آ پاتے، حکام نے ان کے خلاف ‘معلوم عسکریت پسندوں کو مدد پہنچانے’، ‘مجرمانہ سازش’ اور ‘دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مدد اور حصہ لینے’ کا الزام لگاتے ہوئے متنازعہ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) دائر کر دیا۔ انہیں احتیاطی تحویل میں لے لیا گیا اور بعد میں اتر پردیش کی امبیڈ نگر جیل منتقل کر دیا گیا۔
تاہم، پی ایس اے کے تحت سلطان کی حراست کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے گزشتہ سال دسمبر میں مسترد کر دیا تھا، جس نے ان کے خلاف الزامات کو ‘بے بنیاد’ قرار دیا تھا اور حکام سے ان کی ‘غیر قانونی’ حراست کو ختم کرنے اور انہیں رہا کرنے کو کہا تھا۔
پی ایس اے ڈوزئیر نے عجیب و غریب طریقے سے سلطان پر حزب المجاہدین کا اوور گراؤنڈ ورکر ہونے کا الزام لگایا تھا، جو جیل میں رہتے ہوئے القاعدہ سے وابستہ تنظیم انصار غزوات الہند میں شامل ہوگئے۔
ڈوزیئر میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ سلطان ‘دی ریزسٹنس فرنٹ’ کے ایک اوور گراؤنڈ ورکر تھا، جو ایک دہشت گرد گروپ ہے، جو 2018 میں سلطان کی گرفتاری کے چند ماہ بعد تشکیل دیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کی شاخ ہے۔
تاہم، پی ایس اے کیس میں ہائی کورٹ سے راحت ملنے کے بعد انہیں فروری کے مہینے میں رہا کر دیا گیا تھا، لیکن گھر پہنچنے کے چند گھنٹوں بعد انہیں سنٹرل جیل 2019 کے فسادات سے متعلق کیس میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔