موئے مقدس کی چوری محض ایک چوری نہیں تھی ۔یہ ایک چنگاری تھی جس نے کشمیر کی دیرینہ جدوجہد برائے انصاف اور شناخت کو زندہ کردیا تھا۔ جس کی جدوجہد آج بھی جاری ہے۔ تاہم، تاریخ دان اور سابق بیوروکریٹ خالد بشیر احمد کی کتاب تاریخ کشمیر کے اس اہم واقعہ کے کئی گوشوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔
کتاب کا سرورق اور خالد بشیر احمد
یہ دسمبر 1963 کی ایک یخ بستہ رات تھی۔ پوری وادی کشمیر برف کی سفید چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔ ویسے تو پچھلے دس سالوں سے جب سے شیخ محمد عبد اللہ کو معزول اور گرفتار کیا گیا تھا، جبرو مراعات کے مرکب نے فضا میں ایک گہری خاموشی طاری کی ہوئی تھی۔ مگر پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف اس خاموشی کو توڑ دیا بلکہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے کشمیری عوام کے بارے میں قائم دیرینہ تصورات کو بھی چکنا چور کر دیا۔
درگاہ حضرت بل سے پیغمبر حضرت محمد کے موئے مقدس کی چوری محض ایک مذہبی سانحہ نہ تھا بلکہ یہ ایک سیاسی زلزلہ بھی تھا جس نے کشمیر کی دہائیوں سے جمی ہوئی سیاسی برف کو پگھلا دیا اور ہندوستان کے کنٹرول کو چیلنج کر دیا۔
تاریخ دان اور سابق بیوروکریٹ خالد بشیر احمد کی حالیہ کتاب ’
کشمیر: شاک، فُیوری، ٹرمائل‘ تاریخ کشمیر کے اس اہم واقعہ کے کئی گوشوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔
سوال ہے کہ ایسا حیران کن واقعہ جس کی وجہ سے نہرو کو اپنی کشمیر پالیسی پر نظر ثانی کرنی پڑی، ایک دہائی سے قید شیخ عبداللہ کی رہائی عمل میں آئی اور ان کو پاکستان کا دورہ کرایا گیا۔ جس کے نتیجے میں صدر ایوب خان نے جولائی 1964 میں دہلی آ کر صرف مسئلہ کشمیر پر بات چیت پر آمادگی ظاہر کی۔ مگر شیخ عبداللہ کے دورہ کے دوران ہی نہرو کی وفات نے تمام امکانات پر پانی پھیر دیا، اور صرف ایک سال کے اندر حالات نے وہ کروٹ لی جس کے نتیجے میں 1965 کی ہندوپاک جنگ چھڑ گئی۔
کسی ایک واقعہ کی اس قدر بازگشت یا ما بعد اثرات شاید ہی دنیا کی تاریخ میں کہیں اور دیکھے گئے ہوں گے۔ مگر اس کے باوجود ابھی تک اس پورے معاملے پر کوئی باضابطہ تحقیق نہیں ہوئی ہے۔
یہ سانحہ اب بھی اسرار کے پردوں میں چھپا ہوا ہے۔خالد بشیر، جنہوں نے اس سے قبل 1947میں جموں میں ہوئے قتل عام کی بھی تحقیق کی ہے، کی اس کتاب نے موئے مقدس کی چوری کے سانحہ کے کئی کرداروں پر نہ صرف بحث کی ہے، بلکہ کشمیر مسئلہ پر اس واقعے کے عالمی اثرات کا بھی جائزہ لیا ہے۔
نہرو نے 1952 میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ کشمیر کی نئی دستور ساز اسمبلی کے ذریعے ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی توثیق کروا کے اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔ جب انہیں اس قدم پر کشمیری عوام کی ممکنہ مخالفت کی نشاندہی کی گئی تو انہوں نے کشمیریوں کے کردار کے بارے میں بتایا کہ؛
وادی کشمیر اور اس کے آس پاس کے لوگ بے پناہ ذہانت اور فنکارانہ صلاحیت رکھنے کے باوجود کوئی مزاحمتی قوت رکھنے والے لوگ نہیں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ؛
یہ لوگ نرم خو ہیں اور سادہ زندگی کے عادی ہیں … عام آدمی کو بنیادی طور پر صرف چند چیزوں میں دلچسپی ہے۔ ایماندار حکومت اور سستا وافر کھانا۔ اگر انہیں یہ مل جائے تو وہ زیادہ تر مطمئن رہنے والے لوگ ہیں۔
شیخ عبد اللہ کی معزولی اور گرفتاری کے بعد جس طرح حکومت نے حالات کو سنبھالا، نہرو کے کشمیری عوام کے بارے میں اس رائے کو توقیت مل گئی۔
بخشی غلام محمد، جو 1953 میں شیخ محمد عبداللہ کی معزولی کے بعد کشمیر کے وزیراعظم مقرر کیے گئے تھے نے اگلی دہائی تک جبر اور معاشی مراعات کے ایک عمدہ امتزاج کے ذریعے کامیابی کے ساتھ حکومت کی۔
اس دوران استصوابِ رائے کی تحریک کی قیادت کرنے والے محاذ رائے شماری کی تحریک جمود کا شکار ہو چکی تھی۔ لیکن موئے مقدس کی چوری کے خلاف اٹھنے والی تحریک نے عوامی جذبے کو دوبارہ زندہ کر دیا اور مختلف نظریاتی گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا۔ جس کا نام عوامی ایکشن کمیٹی رکھا گیا۔ 1930 کی دہائی کے بعد پہلی بار شیخ عبداللہ کے حامی اور مخالف ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے۔
اس وقت سری نگر جامع مسجد کے میر واعظ مولوی یوسف شاہ پاکستان ہجرت کر چکے تھے، اور ان کی غیر موجودگی میں نو جوان مولوی محمد فاروق کو ایکشن کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا، جبکہ مولوی عباس انصاری کو ترجمان بنایا گیا۔
یہ کشمیری عوام کے جدید سیاسی سفر میں ایک فیصلہ کن لمحہ تھا، جس نے نئی دہلی کی قیادت کو اپنی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔ عوامی جذبات صرف تبرک کی واپسی تک محدود نہیں تھے، بلکہ یہ ایک وسیع تر جبر کے خلاف بغاوت کی صورت اختیار کر گئے۔
مظاہرین محض ایک مقدس شے کی بازیابی نہیں چاہتے تھے، بلکہ وہ ہندوستان کے کشمیر پر حکمرانی کے جواز پر ہی سوال اٹھا رہے تھے۔ یہ واقعہ کشمیر کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے موڑ کا آغاز ثابت ہوا۔ اسی تحریک کے دوران دو سیاستدانوں نے عوامی زندگی میں قدم رکھا ۔یہ واقعہ نہ صرف مولو ی محمد فاروق کی سیاست میں آنے کی باضابط وجہ بنا۔ بلکہ ایک اور سیاستدان شیخ محمد عبداللہ کے بڑے بیٹے، فاروق عبداللہ بھی عوامی سیاست میں متعارف ہوگئے۔
اس واقعہ سے چند ماہ قبل ہی بخشی غلام محمد وزارت اعظمیٰ سے مستعفی ہوگئے تھے اور اپنے ایک پٹھو شمس الدین کو تخت پر بٹھا کر عملا حکومت چلا رہے تھے۔ موئے مقدس کی چوری کے خلاف برف باری کی پروا نہ کرتے ہوئے، جب ایک ہجوم سرینگر کے لال چوک میں جمع ہوا، تو بخشی کے بااثر رشتہ دار بخشی عبدالرشید، اپنے حواریوں کے ہمراہ نمودار ہوئے۔
انہوں نے مظاہرین کو منتشر ہونے اور شور و غل نہ کرنے کی تلقین کی۔ ان کے سکیورٹی گارڈ نے مظاہرین کی غربت کا مذاق اڑاتے ہوئے طنزاً پوچھا، ”کیا تمہیں حکومت کا راشن مل گیا ہے؟“یہ سن کر ایک شخص نے شدید غصے میں اپنی کانگری (کشمیر کی روایتی مٹی کی انگیٹھی) ان پر اور ان کے گارڈ پر دے ماری۔
بخشی عبدالرشید کسی نہ کسی طرح وہاں سے جان بچا کر ایک ہوٹل میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے، مگر ان کے حواریوں کو زدوکوب کیا گیا اور ان کی گاڑی کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ چند قدم کے فاصلے پر ایک اور مشتعل ہجوم نے دو سینما گھروں اور ایک ہوٹل کو آگ لگا دی۔
یہ ہوٹل بخشی خاندان کی ملکیت تھا۔ اسی دوران بدنامِ زمانہ اسپیشل پولیس کے ہیڈکوارٹر کو بھی جلا دیا گیا۔ پولیس اسٹیشن کا وہ حصہ، جہاں شیخ غلام قادر گاندربلی، جو ایک ناپسندیدہ سینئر پولیس افسر تھے، کا دفتر تھا، شعلوں کی نذر کر دیا گیا۔ ایس پی شیخ اسلم نے ہجوم پر گولی چلا دی، جس کے نتیجے میں تین افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس غیر متوقع حملے کے بعد بخشی کے حامیوں کو چپ سادھنی پڑی۔ طنزیہ طور پر یہ کہا جانے لگا کہ،’ایک کانگڑی نے گاندر بلی راج کو زمین بوس کردیا۔’ یہ اس طویل عرصے پر طنز تھا جب حکومت نئی دہلی کی ایما پر بخشی حکومت کے مظالم اور پولیس کی زیادتیوں نے عوام کو کچل کر رکھ دیا تھا۔
سرینگر میں صورتِ حال بگڑتی دیکھ کر فوج طلب کر لی گئی۔ ڈل گیٹ سے بڈشاہ چوک کی جانب بیس ہزار کے قریب مشتعل مظاہرین کا جلوس بڑھنے لگا۔ فوج نے مورچے سنبھال لیے اور فائرنگ کے لیے تیار ہو گئی۔
پولیس سربراہ ایل، ڈی، ٹھاکر نے حالات بچالئے۔ مظاہرین نے بھی وعدہ کیا کہ وہ اشتعال انگیزی نہیں کریں گے اور پر امن رہیں گے۔ آئی جی پی نے ڈیوٹی مجسٹریٹ کو تلاش کیا، مگر جب وہ نظر نہ آیا تو اس کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا۔
کتاب کے مطابق اس واقعہ کے چشم دید گواہ پولیس افسر ولی شاہ کے نزدیک یہ ٹھاکر کی دور اندیشی تھی جس نے شہر کو خون میں نہانے سے بچا لیا، ورنہ حالات مزید پیچیدہ ہو جاتے۔
ادھر نئی دہلی میں وزیرِاعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی نیند اڑ ی ہوئی تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ اس واقعے نے ہندوستان کی کشمیر پر پوزیشن کو سنگین خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ ان کے الفاظ میں؛
‘کشمیر میں گزشتہ پندرہ برسوں میں جو کچھ کیا گیا تھا، وہ سب کچھ اس ایک واقعے سے ضائع ہونے جا رہا ہے۔’
حیرت انگیز طور پر، مقدس تبرک کی تحریک کے دوران کشمیر میں کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں ہوئی، لیکن اس کا اثر مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور پھر مغربی بنگال تک جا پہنچا۔ کھلنا اور جیسور کے اضلاع میں ہندو اقلیت پر شدید حملے ہوئے، جس کے ردعمل میں کلکتہ، جمشید پور اور راؤڑکیلا میں مسلمانوں پر بھی حملے کیے گئے۔
جب 4 جنوری 1964 کو موئے مقدس کی بازیابی کا اعلان حکومت کی جانب سے کیا گیا تو توقع تھی کہ اس سے حالات پرسکون ہو جائیں گے۔ مگر تحریک مزید شدت اختیار کر گئی اور عوام نے اس کی تصدیق اور چوروں کی نشاندہی کا مطالبہ کر دیا۔
حکومت نے پہلے ایکشن کمیٹی کے ذریعے تصدیق کروانے میں ہچکچاہٹ دکھائی مگر پھر جھکنے پر مجبور ہو گئی۔ احتجاج کا رخ اب اقوام متحدہ کے زیرِ نگرانی استصوابِ رائے کے وعدے کی تکمیل کی طرف مڑ گیا۔
اسی روز لال چوک میں ایک عظیم الشان مظاہرہ ہوا، جس میں مولوی محمد سعید مسعودی نے شیخ عبداللہ کی رہائی کا مطالبہ کردیا۔ دس برسوں سے جمی سیاسی جمود کی برف پگھل گئی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے موسم سرما میں کشمیر میں بہار آ گئی ہو، چاہے دنیا نے اسے سننے یا دیکھنے کے لیے کان اور آنکھیں بند ہی کیوں نہ کر رکھے ہوں۔
سابق ڈائریکٹر انٹلی جنس بیورو آر کے کپور، جو اس وقت جونیئر افسر کی حیثیت سے کشمیر میں تعینات تھے، مگر 4 جنوری کو جموں میں تھے، انہوں نے اپنے گھر میں ہونے والے ڈرامائی واقعات کو بیان کیا۔
ان کے مطابق، اسی روز ان کے سرینگر والے گھر کا تالا توڑا گیا اور بازیاب شدہ موئے مقدس ان کے ڈرائنگ روم میں رکھی گئی۔ وادی بھر سے ممتاز دینی شخصیات اور علماء کو بلایا گیا۔ ہر ایک کو باری باری نشانی دکھائی گئی، اور پھر انہوں نے قریبی کمرے میں بیٹھے مجسٹریٹ کے سامنے حلفیہ بیان دے کر اس کی تصدیق کی۔
مگر چونکہ ایکشن کمیٹی کو بازیاب شدہ نشانی دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی، عوام کا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا، جس کے نتیجے میں 25 جنوری کو سرینگر کی سڑکیں خون سے رنگین ہو گئیں۔
پنجاب آرمڈ پولیس نے نہتے مظاہرین پر فائرنگ کر دی، جس میں کئی افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ ایکشن کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ کم از کم دو درجن افراد شہید ہوگئے۔ معصوم شہریوں پر بے رحمانہ طاقت کے استعمال نے عوام میں شدید غصے اور بے چینی کو جنم دیا۔
پنڈت نہرو اب وزارتِ داخلہ کے حکام سے سخت نالاں ہو چکے تھے۔ انہوں نے سینئر کانگریسی لیڈر لال بہادر شاستری کو خصوصی مشن پرسرینگر بھیجا۔ ان کا مسئلہ تھا کہ اگر ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران نے موئے مقدس کی تصدیق نہیں کی تو کیا ہوگا؟
جب انہوں نے یہ سوال سید میر قاسم سے کیا، تو انہوں نے ان کو بتایا کہ موئے مقدس کی وجہ سے ہی حضرت بل درگاہ کو کشمیر میں مرکزیت حاصل ہے۔ اگر ایکشن کمیٹی اس کو اصل ماننے سے انکار کرتی ہے تو یہ مرکزیت ختم ہو جائےگی۔
درگاہ حضرت بل شیخ عبد اللہ کی ڈوگرہ حکومت کے خلاف تحریک اور بعد میں رائے شماری تحریک کا ایک مرکز رہا ہے۔ شاستری نے مولانا محمد سعید مسعودی سے کہا کہ اگر ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران برآمد شدہ تبرک کو اصل ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، تو حکومت اسے اجمیر شریف منتقل کر دے گی۔ دہلی روانگی سے قبل، انہوں نے سری نگر ایئرپورٹ پر مسعودی سے کہا؛
جو چیز کھو گئی تھی، وہ مل چکی ہے۔ اب اگر لوگ اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، تو ہم اجمیر شریف کے متولیوں کو بلائیں گے اور پوری عقیدت کے ساتھ اسے وہاں لے جائیں گے۔
دہلی پہنچتے ہی، شاستری وزیر اعظم کی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ نہرو وزارت داخلہ، خصوصاً وزیر گلزاری لال نندا اور ان کے ساتھیوں سے سخت ناراض تھے، کیونکہ انہوں نے تبرک کو ایکشن کمیٹی کو دکھانے پر اعتراض کیا تھا۔
جب شاستری نے پچھلے تین دنوں میں وزارت داخلہ کے طرزِ عمل کی کچھ تفصیلات بتائیں، تو نہرو کا غصہ اور بھی بڑھ گیا۔ اسی لمحے انہوں نے شیخ محمد عبداللہ کے خلاف ‘کشمیر سازش کیس’ ختم کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا اور شاستری اور دیگر افسران کو دو ٹوک انداز میں کہا؛’اگر کوئی الزام (شیخ عبداللہ کے خلاف) چار سال میں ثابت نہیں ہو سکا، اور چھ سال میں بھی کچھ سامنے نہیں آیا، تو ظاہر ہے کہ ثابت کرنے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔
خالد بشیر احمد کی کتاب کا سرورق
وادی میں کشیدگی عروج پر تھی، اور دوسری جانب مظفرآباد اور راولپنڈی میں بھی کشمیری رہنما صورتحال کو مزید گرما رہے تھے۔ 2 فروری 1964 کو ان رہنماؤں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ختم کرے اور ‘کشمیر لبریشن کونسل’ سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے اقدامات کرے۔
جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل میں چوہدری غلام عباس نے پاکستانی حکومت سے اپیل کی کہ وہ جنگ بندی معاہدے پر عمل کرنے کی اپنی ذمہ داری ختم کرے اور کشمیریوں کو اپنے مسلمان بھائیوں کی آزادی کے لیے سرحد پار کرنے کی اجازت دے۔
صدر کے ایچ خورشید نے کشمیری عوام سے اپیل کی کہ وہ کمر کس لیں اور آزادی کی اس آخری جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس دوران انہوں نے ‘مجاہد فنڈ’ کے قیام کا اعلان بھی کیا تاکہ جدوجہدِ آزادی کے دوران معذور ہونے والے افراد کی مدد کی جا سکے۔
اسی طرح 8 فروری 1964 کو کے ایچ خورشید نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوامِ متحدہ کو دی گئی تمام یقین دہانیاں واپس لے۔
ان رہنماؤں کے بیانات اور جنگ بندی لائن توڑنے کی کھلی اپیلوں نے ایک ایسے ماحول کو جنم دیا جو بالآخر اگست 1965 میں ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کر گیا، جب پاکستان سے ہزاروں مسلح افراد جموں و کشمیر میں بھیجے گئے، اور ایک ماہ بعد یہ صورتِحال ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک بھرپور جنگ میں تبدیل ہو گئی۔
موئے مقدس کی بازیابی اس کی چوری سے بھی زیادہ حیران کن تھی۔ مرکزی حکومت نے پنجاب سے فنگر پرنٹ بیورو کی ٹیم جائے وقوع کا جائزہ لینے کے لیے بھیجی تھی۔ مگر ڈی آئی جی گاندربلی اس کو جائے وقوع لیجانے لیں لیت و لعل سے کام لے رہے تھے۔
تین دن تک ان کو ٹالنے کے بعد اس نے پولیس افسر ولی شاہ کو ان کے ہمراہ حضرت بل جانے کے لیے کہا۔ جس وقت یہ ٹیم حضرت بل میں داخل ہوگئی، تو اسی وقت صدر ریاست کرن سنگھ بھی وہاں پہنچے تھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ پولیس کے افسران کی ترجیح اب موئے مقدس یا فنگر پرنٹ بیورو کے بجائے کرن سنگھ کی پذیرائی کرنی تھی، وہ اسی میں مصروف ہوگئے۔
اس دوران فنگر پرنٹ بیورو کی ٹیم کو درگاہ کے خادم غلام حسن نے حجرہ خاص دکھایا، جہاں ایک قلمدان رکھا ہوا تھا۔ جب قلمدان کھولا گیا، تو اس میں ایک قندیل شریف رکھی ہوئی تھی۔ فنگر پرنٹ بیورو کے ماہرین نے اس شیشی کو غور سے دیکھا اور اس میں ایک مقدس موئے مبارک موجود تھا۔
جب تک پولیس افسران کرن سنگھ کو الوداع کرنے کے بعد واپس اندر آتے، غلام حسن اور فنگر پرنٹ ٹیم نے اس کی بازیابی کا اعلان کردیا۔ انٹلی جنس بیورو کے سربراہ بھولا ناتھ ملک، جو سرینگر میں ہی تھے، نے پہلے تو ان کی غیر موجودگی میں بازیابی پر ناراضگی جتائی، پھر فوراً نہرو کو فون کرکے بتایا کہ مقدس تبرک وہیں سے برآمد ہوا ہے جہاں سے اسے چوری کیا گیا تھا۔
پولیس نے تین افراد عبد الرحیم بانڈے، عبد الرشید اور قادر بھٹ کو بطور ملزم نامزد کر دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بھٹ کا وجود ہی نہیں تھا، بلکہ وہ ایک فرضی کردار تھا۔
مقدس تبرک کی چوری کے مقدمے کی کارروائی ایک مضحکہ خیز تماشا بن کر رہ گئی۔ جس انداز میں یہ مقدمہ چلایا گیا، اس نے حکومت کی بدنیتی کو مزید آشکار کر دیا، اور یہ شک پیدا ہوا کہ یا تو اصل مجرم کو بچایا جا رہا ہے، یا حکومت خود اس معاملے میں ملوث ہے اور حقیقت پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔
تحقیقات خفیہ ایجنسی کے سربراہ بی این ملک کی نگرانی میں کی جا رہی تھی۔ اگرچہ ریاست میں ایک باقاعدہ حکومت موجود تھی اور ایک وزیر اعظم بھی تھا، لیکن ہندوستان کی مرکزی حکومت نے درحقیقت قانون اور امن و امان کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔
اس مقصد کے لیے بی این ملک، وشوا ناتھن اور دیگر افسران جیسے پی کے دوے اور سوشیتال بنرجی کو کشمیر بھیجا گیا اور انہیں مجسٹریٹی اختیارات تفویض کیے گئے۔ بی این ملک کی سخت ہدایات کے تحت، اس مقدمے کی کاروائیاں مؤخر کر دی گئیں۔
یہ صورتحال آٹھ سال تک برقرار رہی، یہاں تک کہ 20 دسمبر 1972 کو جج جی ایم میر نے مقدمے کی فائل بند کر کے ریکارڈ میں محفوظ کر دی۔سید میر قاسم، جو 12 دسمبر 1971 کو جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ بنے، یاد کرتے ہیں کہ جب ان کے پیشرو غلام محمد صادق وزیر اعظم بنے، تو انہوں نےبی این ملک سے ملاقات کی اور ان افراد کے ناموں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جو ملزمان کے طور پر پیش کیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ چوری کے اصل مجرموں کو بے نقاب کیا جانا چاہیے۔ ملک نے جواب میں کہا؛
اصل مجرم کون تھا؟ وہ کہاں سے تعلق رکھتا تھا؟ اور اس نے مقدس تبرک کیوں چرایا؟ یہ راز ہمیشہ میرے سینے میں دفن رہے گا اور میرے ساتھ ہی قبر میں چلا جائے گا۔ میں کسی بھی مصلحت کے تحت اسے ظاہر کرنے کو تیار نہیں۔
موئے مقدس کے غائب ہونے کے آٹھ ماہ بعد، سری نگر میں ایک پولیس افسر پُراسرار حالات میں ہلاک ہو گیا۔ 20 اگست 1964 کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس غلام حسن کاؤسہ اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔ سرکاری طور پر ان کی موت کو خودکشی قرار دیا گیا، لیکن زیادہ تر لوگ اس سرکاری موقف پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
قیاس آرائیاں گردش کر رہی تھیں کہ وہ ایسی اہم معلومات رکھتے تھے، جو ان کے قتل یا جبری خودکشی کا باعث بنی۔ وہ بَخشی غلام محمد کے کافی قریب سمجھے جاتے تھے۔ ان کے ہمسائے ڈاکٹر گردھاری لال، جنہیں ان کی گھبرائی ہوئی بیوی نے معائنہ کے لیے بلایا تھا، نے دو افراد کو کاؤسہ کے گھر سے نکل کر پولیس لائن کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔
غلام نبی گوہر، جو بعد میں جج بنے، نے اس کیس کا تجزیہ کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ ایک جعلی خودکشی کا منظرنامہ تھا۔ ان کے مطابق، مقتول کو کسی اور کمرے میں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا اور بعد میں لاش کو اوپری منزل کے ایک کمرہ میں لٹکا دیا گیا تاکہ معاملہ خودکشی کا معلوم ہو۔
اس سانحہ کے دوران کشمیری اور گوجروں کے درمیان بھی نسلی فساد کروانے کی کوشش کی گئی۔ سر بلند خان، جو ایک تحصیل اوڑی کے جاگیردار راجہ خاندان سے تعلق رکھتا تھانے بخشی دور میں بے پناہ طاقت حاصل کی اورعلاقے کے غریب عوام کے خلاف اسے بے دریغ استعمال کیا۔ اس کے مظالم کا شکار زیادہ تر غریب گوجر طبقے کے لوگ تھے۔
ڈی آئی جی گاندربلی سر بلند خان کی مدد سے دو دن تک گوجر برادری کے کئی افراد کو اوڑی سے لاتی رہی اور انہیں سر بلند خان کے سرائے بالا، سری نگر میں واقع مکان میں خفیہ طور پر رکھا جاتا رہا۔اسی دوران 30 دسمبر کو یہ افواہ پھیلائی گئی کہ دو گوجر افراد کو کنگن کے قریب گرفتار کیا گیا ہے، جب وہ مبینہ طور پر مقدس تبرک کو پاکستان اسمگل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
خیر 8 اپریل 1964 کو شیخ محمد عبداللہ کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔ اس سے قبل، 5 اپریل کو جموں و کشمیر کے وزیر اعظم جی ایم صادق نے ‘کشمیر سازش کیس’ کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔اس سے قبل 4 اپریل کو نہرو سری نگر کے دورہ پر پہنچے۔ جو بعد میں ان کا آخری دورہ ثابت ہوا۔
ان کے دورے کے دوران احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ لوگ لال چوک میں جمع ہو گئے، خوش آمدیدی بینرز اور نہرو کے استقبال کے لیے لگائے گئے محرابیں گرا دیں۔ میونسپل پارک میں نہرو کے خطاب کے دوران، مظاہرین نے اسٹیج کا سایہ دار حصہ اکھاڑ دیا اور مائک و لاوڈ اسپیکر کو نقصان پہنچایا۔اگلے روز، دہلی میں نہرو نے اپنی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا۔
اس اجلاس میں انہوں نے کہا کہ اگر پندرہ سال کی وابستگی کے بعد بھی کشمیر اس قدر غیر مستحکم ہے کہ لوگ موئے مقدس جیسے معاملے پر حکومت کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں، تو کشمیر کے بارے میں سوچنے کا نیا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ یہ محسوس کیا گیا کہ شیخ محمد عبداللہ اب بھی کشمیری عوام پر گہرا اثر رکھتے ہیں اور وادی میں کسی بھی سیاسی تصفیے کا تصور ان کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
اس بنیاد پر ان کی رہائی کو ضروری سمجھا گیا۔ بی این ملک کے مطابق، کابینہ میں اس فیصلے کے خلاف کچھ آوازیں اٹھیں، جن میں وزیر داخلہ نندا اور وزیر قانون اے کے سین کی مخالفت بھی شامل تھی۔
کتاب کے مطابق عبداللہ کا ماننا تھا کہ موئے مقدس تحریک نے نہرو کو یہ یقین دلا دیا کہ ان کے تمام اقدامات کشمیر کے حوالے سے غلط تھے، اور اب وہ اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے تھے، خاص طور پر 6 جنوری 1964 کو فالج کا حملہ سہنے کے بعد۔
رہائی کے بعد، شیخ عبداللہ نے 20 اپریل کو پہلی بڑی عوامی تقریر کی۔ انہوں نے اپنی گیارہ سالہ قید کو ایک تلخ تجربہ قرار دیا اور کہا کہ جموں و کشمیر کے غیر مستحکم حالات آج بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ ان کے مطابق، نہرو کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ طاقت کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔
اپنی اگلی تقریر میں، جو حضرت بل میں کی گئی، عبداللہ نے ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کو ناقابلِ واپسی ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ جب تک جلاوطن کشمیری رہنما میرواعظ محمد یوسف شاہ اور چودھری غلام عباس پاکستان سے واپس نہیں آتے اور مذاکرات میں شامل نہیں ہوتے، تب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے یہ دعویٰ بھی چیلنج کیا کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے۔ 29 اپریل کو، نہرو کی دعوت پر عبداللہ دہلی گئے اور وزیر اعظم ہاؤس میں قیام کیا۔ ان کی ملاقاتوں کے نتیجے میں نہرو نے انہیں پاکستان جانے اور صدر ایوب سے بات کرنے کی اجازت دے دی۔
انہی دنوں چین-ہندوستان جنگ (اکتوبر 1962) کے بعد، دسمبر 1962 سے مئی 1964 کے درمیان پاکستان اور ہندوستان کے درمیان چھ دور کے مذاکرات ہو چکے تھے، جو برطانیہ اور امریکہ کے دباؤ میں ہو رہے تھے۔
ان مذاکرات میں ہندوستان، جنگ بندی لائن کی نئی حد بندی کے حق میں تھا تاکہ اسے بین الاقوامی سرحد قرار دیا جا سکے۔ یہ وہی وقت تھا جب عبداللہ دہلی میں رہنماؤں سے ملاقات کر رہے تھے اور پاکستان جانے پر آمادہ ہو چکے تھے۔
مئی 1964 کے دوسرے نصف میں دو اہم واقعات رونما ہوئے۔ پہلا، شیخ محمد عبداللہ کا دورہ پاکستان، اور دوسرا، جواہر لعل نہرو کی وفات۔ نہرو کی موت کے ساتھ ہی شیخ عبداللہ کے دورہ پاکستان سے پیدا ہونے والی امیدوں پر پانی پھر گیا اور کشمیر کے مسئلے کے کسی ممکنہ حل کی راہ مسدود ہو گئی۔
یہ 25 مئی کا دن تھا جب عبداللہ پاکستان پہنچے۔ ان کے ہمراہ وفد میں محمد افضل بیگ، محمد سعید مسعودی، مبارک شاہ، خواجہ مبارک شاہ نقشبندی (سابق جج)، چودھری محمد شفیع اور فاروق عبداللہ شامل تھے۔غلام محی الدین قرہ اور میر واعظ محمد فاروق کو نئی دہلی کے اشارے پر وفد سے خارج کر دیا گیا تھا۔
بین الاقوامی محاذ پر، 10 فروری 1964 کو ہندوستان کو ایک بڑا سفارتی دھچکا لگا، جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تین اراکین—برطانیہ، مراکش اور آئیوری کوسٹ—نےہندوستان کے اس دعوے کو چیلنج کیا کہ کشمیر اس کا داخلی معاملہ ہے اور یہ کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اب غیر مؤثر ہو چکی ہیں۔
برطانوی نمائندے سر پیٹرک ڈین نے دوٹوک انداز میں کہا کہ جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے، جو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک آزاد اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے سامنے آئے۔
ایک اور دھچکا سلامتی کونسل کے صدر، برازیل کے سینئر کارلوس الفریڈو برنارڈیز کے بیان سے لگا، جنہوں نے کہا کہ ان کا ملک کشمیر میں خودارادیت کے اصول کو عزیز رکھتا ہے اور وقت گزرنے سے اقوام متحدہ کی سابقہ قراردادوں کی حیثیت متاثر نہیں ہو سکتی۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ چھ دہائیاں گزرنے کے باوجود، حیران کن طور پر، حکومت مقدس تبرک کے پراسرار غائب ہونے کی سازش پر پردہ ڈالے بیٹھی ہے، اور اصل مجرموں کو بے نقاب نہیں کیا گیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے نہ صرف کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ دنیا بھر میں ایک ہلچل مچا دی۔
اس کے باوجود، اسے تاریخ کے صفحات میں ایک غیر حل شدہ راز کے طور پر چھوڑ دیا گیا۔شیخ عبداللہ، جو 1975 میں اقتدار میں واپس آئے اور تمام سرکاری ریکارڈ تک رسائی رکھتے تھے، اس معاملے پر خاموش رہے۔
اسی طرح، وزیر اعلیٰ سید میر قاسم نے بھی اس راز کو افشا کرنے سے گریز کیا۔ حتیٰ کہ بخشی غلام محمد، جنہیں اس معاملے میں موردِ الزام ٹھہرایا گیا، انہوں نے بھی اپنے دفاع میں کوئی کوشش نہ کی۔
یہ افواہیں گردش میں رہیں کہ بخشی غلام محمد اپنی یادداشتیں لکھ رہے تھے، جس میں وہ تمام حقائق سے پردہ اٹھانے والے تھے۔ ان کے بھتیجے، مرحوم بخشی عبد الحمید کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دباؤ کی وجہ سے بخشی غلام محمد نے اپنی یادداشتیں شائع کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
خالد بشیر کی کتاب کے مطابق 1975 میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد، شیخ عبداللہ نے مقدس تبرک کے غائب ہونے اور اس کی بازیابی کے متعلق تمام فائلیں طلب کیں۔ وہ اس سازش کے تمام پہلوؤں کو منظرِ عام پر لانے اور اصل مجرموں کو بے نقاب کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
اطلاعات کے مطابق، انہوں نے اپنی کابینہ کے ایک قانونی ماہر وزیر سے مشورہ بھی کیا کہ اس معاملے کو کس طرح آگے بڑھایا جائے۔ تاہم، فائلوں کا جائزہ لینے کے بعد شیخ عبداللہ نے اچانک یہ ارادہ ترک کر دیا اور وہ وزیر پھر کبھی اس موضوع پر ان سے کچھ سن نہ سکا۔
اس معاملے کی حقیقت آشکار کرنے والا ایک اور ذریعہ مولوی محمد سعید مسعودی کی خود نوشت ہو سکتی تھی، جو ایک اہم رہنما تھے۔ لیکن ان کا مسودہ پراسرار طور پر غائب ہو گیا۔ 13 دسمبر 1990 کو، جب انہیں ان کے گھر میں گولی مار کر قتل کیا گیا، تو ان کی مکمل شدہ خود نوشت ان کے سرہانے ایک بیگ میں رکھی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ ان کے بااعتماد معاون محی الدین صوفی نے فوراً وہ بیگ اٹھایا اور عجلت میں اپنے گھر لے گئے۔ جب گھر کا سربراہ آخری سانسیں لے رہا ہو یا قتل کیا گیا ہو، اس وقت صوفی صاحب کا بیگ اٹھا کر گھر سے باہر لے جانا خالی از علت نہیں ہوسکتا ہے۔
بعد میں، جب مسعودی کے بیٹے ایڈوکیٹ شبیر احمد نے مسودہ واپس کرنے کا مطالبہ کیا، تو صوفی نے وعدہ کیا کہ وہ اسے واپس کر دیں گے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے اسے مشترکہ طور پر شائع کرنے کی تجویز بھی دے دی۔ بعد میں، جب صوفی سے دوبارہ رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے سرے سے اس مسودے کی موجودگی سے انکار کر دیا۔
مقامی پولیس افسران، جو اس کیس کی تفتیش میں شامل تھے، انہوں نے بھی خاموشی اختیار کی۔ جب مصنف خالد بشیر نے کشمیر کے طویل عرصہ تک رہے پولیس چیف پیر غلام حسن شاہ کا انٹرویو طے کیا، جو اس وقت کے انٹلی جنس بیورو کے سربراہ بی این ملک کے ساتھ کام کر چکے تھے، تو عین وقت پر انہوں نے انٹرویو منسوخ کر دیا۔
اتنے بڑے واقعات کو جنم دینے کے باوجود، یہ معاملہ اب بھی اسرار کے پردے میں لپٹا ہوا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کے پیچھے کون تھا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ہندوستان کے لیے کشمیر کی صورتحال بظاہر مستحکم تھی۔ لیکن یہ چوری ایک ایسے پتھر کی مانند تھی جو جبر کے مصنوعی سکون پر پھینکا گیا ہو اور جس کے نتیجے میں شدید ارتعاش پیدا ہو گیا۔
یہی تحریک بخشی غلام محمد کی حکومت اور اس کے اثر و نفوذ کے خاتمے کا سبب بنی۔ اس کے خاندان نے کشمیر میں اپنے اثر و نفوذ کی جڑیں اتنی گہری کی ہوئی تھیں، کہ ان کا زوال کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ ان کے قریبی رشتہ دار بخشی رشید نے جو بدنامِ زمانہ غنڈوں کی فوج ‘پیِس بریگیڈ’ کھڑی کی تھی، وہ ہوا ہوگئی۔
موئے مقدس کی چوری محض ایک چوری نہیں تھی ۔یہ ایک چنگاری تھی جس نے کشمیر کی دیرینہ جدوجہد برائے انصاف اور شناخت کو زندہ کردیا تھا۔ جس کی جدوجہد آج بھی جاری ہے۔