یاسین ملک کو دو جرائم – آئی پی سی کی دفعہ 121 (حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنا) اور یو اے پی اے کی دفعہ 17 (دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنا) – کے لیے قصوروار ٹھہراتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ 10 مئی کو ملک نے 2017 میں وادی میں مبینہ دہشت گردی اور علیحدگی پسند سرگرمیوں سے متعلق ایک معاملے میں عدالت کے سامنے تمام الزامات کو قبول کر لیا تھا۔
علیحدگی پسند کشمیری رہنما یاسین ملک کو بدھ کے روز دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں پیش کیا گیا جہاں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: قومی دارالحکومت کی ایک عدالت نے بدھ کو کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کو ٹیرر فنڈنگ کے معاملے میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ عدالت نے ملک پر 10 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔
خصوصی جج پروین سنگھ نے یو اے پی اے اور آئی پی سی کے تحت مختلف جرائم کے لیے الگ الگ مدت کے لیے سزا سنائی۔ تمام سزائیں ساتھ ساتھ چلیں گے۔
ملک کو دو جرائم – آئی پی سی کی دفعہ 121 (حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنا) اور یو اے پی اےکی دفعہ 17 (دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنا) -کے لیے قصوروار ٹھہراتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
این آئی اے نے ملک کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا۔
گزشتہ10 مئی کو جموں و کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما
محمد یاسین ملک نے 2017 میں وادی میں مبینہ دہشت گردی اور علیحدگی پسند سرگرمیوں سے متعلق ایک معاملے میں دہلی کی ایک عدالت کے سامنےیو اے پی اے سمیت تمام الزامات کو قبول کرلیا تھا۔
ملک کا اس معاملے میں کوئی وکیل نہیں تھا۔ عدالت کی طرف سے مقرر کردہ امیکس کیوری نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ملزم اپنے خلاف عائدالزامات کی مخالفت نہیں کر رہا ہے۔
بدھ کے روز ایجنسی نے خصوصی جج پروین سنگھ کے سامنے اپنی دلیل پیش کی، جبکہ ملک کی مدد کے لیے عدالت کی طرف سے مقرر کردہ امیکس کیوری نے عمر قید کی مانگ کی، جو اس معاملے میں کم سے کم سزا ہے۔
اس دوران ملک نے جج سے کہا کہ وہ سزا طے کرنے کا ذمہ عدالت پر چھوڑ رہے ہیں۔
عدالت نے 19 مئی کو ملک کو قصوروار ٹھہرایا تھا اور این آئی اے حکام کو ہدایت دی تھی کہ وہ ان کی مالی حالت کا جائزہ لیں تاکہ جرمانے کی رقم کا تعین کیا جا سکے۔
ملک نے 10 مئی کو عدالت کو بتایا تھا کہ وہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی مخالفت نہیں کر رہے ہیں، جس میں یو اے پی اے کی دفعہ 16 (دہشت گردانہ ایکٹ)، 17 (دہشت گردانہ کارروائی کے لیے فنڈز اکٹھا کرنا)، 18 (دہشت گردانہ کارروائی کی سازش) اور 20 (دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونا) اور آئی پی سی کی دفعہ 120بی (مجرمانہ سازش) اور 124 اے(سیڈیشن) شامل ہیں۔
دریں اثنا، عدالت نے کشمیری علیحدگی پسند رہنماؤں- فاروق احمد ڈار عرف بٹا کراٹے، شبیر شاہ، مسرت عالم، محمد یوسف شاہ، آفتاب احمد شاہ، الطاف احمد شاہ، نعیم خان، محمد اکبر کھانڈے، راجہ معراج الدین کلوال، بشیر احمد بھٹ، ظہور شاہ وٹالی، شبیر احمد شاہ، عبدالرشید شیخ اور نول کشور کپور کے خلاف بھی رسمی طور پرفرد جرم عائد کر دی تھی۔
لشکر طیبہ کے بانی حافظ سعید اور حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کے خلاف بھی چارج شیٹ داخل کی گئی تھی، جنہیں اس کیس میں مفرور قرار دیا گیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،گزشتہ مارچ میں اس کیس میں الزامات طے کرتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ یہ پہلی نظر میں ثابت ہے کہ شبیر شاہ، یاسین ملک، راشد انجینئر، الطاف فنتوش، مسرت اور حریت/مشترکہ مزاحمتی قیادت (جے آر ایل)، براہ راست ٹیرر فنڈ کے وصول کنندہ تھے۔
عدالت نے یہ بھی کہاکہ پہلی نظر میں ایک مجرمانہ سازش تھی، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے، جس کے نتیجے میں وادی میں بڑے پیمانے پر تشدد اور آگ زنی ہوئی تھی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)