تین سالہ بچی کے ساتھ مبینہ طور پرریپ سے قبل وادی میں ریپ اور خواتین کے خلاف دوسرے جرائم ‘خاموش جرائم’ بن کر رہ گئے تھے۔ ریپ کے خلاف عوامی حلقوں میں تب ہی کوئی آواز اٹھتی تھی جب ہندو اکثریتی خطہ جموں میں متاثرین یا ملزم کا تعلق مختلف طبقوں سے ہوتا تھا یا پھر ریپ یا جنسی زیادتی کرنے والے فورسز اہلکار ہوتے تھے۔
8مئی کی شام کو افطار کے وقت شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے تحصیل سمبل کے ملک پورہ ترہگام میں ایک
تین سالہ بچی کے ساتھ مبینہ طور پر ریپ ہوتا ہے۔ مبینہ ملزم جو اسی گاؤں کا رہنے والا ہے کو اس انسانیت سوز حرکت کے فوراً بعد دبوچ کر پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے۔ یہاں تک تو سب کچھ ٹھیک تھا کیونکہ مبینہ ملزم کو یہ سوچ کر پولیس کے حوالے کیا گیا تھا کہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے سے بہتر ہے کہ قانون کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ لیکن اس کا الٹ ہوا۔ بعض افراد ملزم کو بچانے کی سازش میں جٹ گئے اور اس کو ‘نابالغ’ قرار دینے کی کوشش کے طور پر مقامی اسکول سے تاریخ پیدائش کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا گیا جس میں اس کو بہت چھوٹا بتایا گیا۔
8سے11 مئی تک ملک پورہ ترہگام کو چھوڑ کر کہیں بھی بچی کے ساتھ مبینہ ریپ یا مبینہ ملزم کو بچانے کی سازشوں کے خلاف احتجاج نہیں ہوتا ہے۔ تاہم اس دوران سوشل میڈیا پر ایک مہم چھڑ جاتی ہے کہ چونکہ متاثرہ بچی مسلمانوں کے ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھتی ہے اسی وجہ سے کوئی احتجاج نہیں کرتا۔ کشمیر کی علاحدگی پسند لیڈرشپ جو اب وادی میں مشترکہ مزاحمتی قیادت کہلاتی ہے اور جس کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ لوگوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی ہے سے شکوے شکایات کئے گئے۔
پھر کیا تھا کہ اہلیان کشمیر جو اس فخر میں غرق تھے کہ ‘ہم مہذب قوم ہیں جہاں نیچ و بداخلاقی پر مبنی حرکتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے’ کا پہلی مرتبہ وادی کے اندر ہونے والے ریپ کے خلاف غصہ پھوٹ پڑا اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ 12 مئی کو وادی کے تقریباً ایک درجن علاقوں میں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر متاثرہ بچی کو انصاف دلانے کے لئے احتجاج کیا۔ اس دوران چند ایک مقامات بشمول وسطی ضلع بڈگام کے ماگام اور خمینی چوک میں احتجاج پُرتشدد مظاہروں میں بدل گئے اور احتجاجیوں کی پولیس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں افراد زخمی ہوئے۔
اسی دن ‘جموں وکشمیر اتحاد المسلمین’ نامی مذہبی جماعت جو میرواعظ مولوی عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس کی ایک اکائی ہے، کی طرف سے 13 مئی کو ‘کشمیر بند’ کی کال دی گئی۔ 13 مئی کو جہاں وادی بھر میں ہڑتال کی گئی وہاں درجنوں مقامات پر لوگوں نے سڑکوں پر آکر احتجاج کیا۔ احتجاجیوں کا مجموعی مطالبہ تھا کہ ملزم کو پھانسی دی جائے یا شریعت کے مطابق جو سزا بنتی ہے وہ دی جائے۔
وادی کے تعلیمی اداروں بالخصوص کشمیر یونیورسٹی، اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی اونتی پورہ، سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر اور سری نگر کے کالجوں میں احتجاج کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ 13 مئی کو جہاں تعلیمی اداروں میں ریپ مخالف احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے وہیں شمالی کشمیر میں سری نگر بارہمولہ ہائی وے کے دونوں اطراف آباد بعض علاقوں بشمول ژینہ بل، میرگنڈ، ہانجی ویرا پائین، سنگھ پورہ اور دوسرے علاقوں میں احتجاجیوں کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں درجنوں احتجاجی زخمی ہوئے۔ ان میں سے ژینہ بل پٹن سے تعلق رکھنے والا 23 سالہ نوجوان ارشد حسین ڈار ولد غلام محمد ڈار جو سر میں آنسو گیس کا گولہ لگنے سے شدید زخمی ہوا تھا سری نگر کے شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں تین روز تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد 15 مئی کی رات دیر گئے دم توڑ گیا۔
اگلے دن یعنی 14 مئی کو وادی کے درجنوں تعلیمی اداروں سے ہزاروں کی تعداد میں طلباء بالخصوص طالبات سڑکوں پر نکل آئیں اور تین سالہ بچی کے مبینہ ریپسٹ کو فوری طور پر سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ سری نگر کے دو بڑے کالجوں امرسنگھ کالج اور بمنہ ڈگری کالج کے طلباء کی ریاستی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں کیونکہ انہیں سڑکوں پر نکل آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ چونکہ تعلیمی اداروں میں طلباء کا احتجاج جاری رہا اس وجہ سے حکام کو مجبوراً درس وتدریس کا عمل معطل کرنا پڑا۔ تین سالہ بچی کے مبینہ ریپ کے خلاف عوامی غصہ وادی کشمیر تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ ریاست کے دیگر دو صوبوں لداخ اور جموں بالخصوص کرگل اور پیرپنچال میں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر اپنا احتجاج درج کیا۔
عوامی احتجاج اور مظاہروں کے بیچ کچھ مثبت پیش رفت سامنے آئیں جو عوامی غصے کو کسی حد تک کم کرنے کا موجب بنیں۔
15 مئی کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے کمسن بچی کے ساتھ مبینہ ریپ کا از خود نوٹس لیا اور اس حوالے سے ریاستی پولیس کے نام ضروری ہدایات جاری کیں۔ چیف جسٹس جسٹس گیتا متل اور جسٹس تاشی ربستان پر مشتمل ہائی کورٹ کے ڈویژنل بنچ نے ضروری ہدایات جاری کرنے کے ساتھ دوٹوک الفاظ میں کہا کہ بچوں کو ریپ جیسے وحشت ناک واقعات سے محفوظ رکھنا ہے۔ قبل ازیں صوبائی کمشنر کشمیر بصیر احمد خان نے ایک پریس کانفرنس کرکے لوگوں کو یقین دلایا کہ بچی کے ساتھ مبینہ ریپ کے واقعہ کی تحقیقات تیز تر بنیادوں پر کی جارہی ہے اور وہ ذاتی طور پر اس کی نگرانی کر رہے ہیں تاکہ تحقیقات کے عمل کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔ ساتھ ہی انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ امن، آپسی بھائی چارے اور امن و قانون کی صورتحال کو برقرار رکھیں۔
ریاستی پولیس جس نے واقعہ کی تحقیقات کے لئے خصوصی تحقیقات ٹیم تشکیل دے رکھی ہے، نے مبینہ ملزم کی عمر کے حوالے سے پیدا ہونے والے شک وشبہات کا ازالہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسکول کی طرف سے جاری تاریخ پیدائش کا سرٹیفکیٹ کوئی مستنند دستاویز نہیں ہے اور مبینہ ملزم کی اصل عمر کا پتہ لگانے کے لئے سائنسی طریقہ کار استعمال کیا جائے گا۔ شمالی کشمیر کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس محمد سلیمان چودھری نے کہا کہ معاملے کی تحقیقات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی اور اس کی پیشہ ورانہ انداز میں تحقیقات ہوگی۔
چونکہ متاثرہ بچی اور مبینہ ملزم کا تعلق مسلمانوں کے دو مختلف فرقوں سے تھا اس کو دیکھتے ہوئے مشترکہ مزاحمتی قیادت اور کشمیری علماء کی تنظیم ‘متحدہ مجلس علماء جموں وکشمیر’ نے بیانات جاری کرکے اتحاد و آپسی بھائی چارہ قائم رکھنے کی اپیلیں کیں۔ کشمیر کی مین اسٹریم یا ہند نواز تنظیموں نے بھی بیانات جاری کرکے متاثرہ بچی کو فوری طور پر انصاف دلانے کی مانگ کی۔
سمبل میں تین سالہ بچی کے مبینہ ریپ نے کشمیریوں کے اجتماعی ضمیر کو حرارت بخشی اور وہ پہلی مرتبہ ریپ جیسے بھیانک جرم اور ناسور کے خلاف کھل کر سامنے آئے۔ ایسا نہیں ہے کہ کشمیر میں ریپ کے واقعات پیش نہیں آتے لیکن ان کے ساتھ منسلک نام نہاد شرم وحیاء کے چلتے ان پر بات ہوتی تھی نہ زانیوں کے خلاف احتجاج ہوتا تھا۔ ضلع بانڈی پورہ جہاں پر تین سالہ بچی کے ساتھ مبینہ بربریت کا واقعہ پیش آیا وہاں محض ایک ماہ قبل یعنی اپریل میں ایک لڑکی نے اس وجہ سے مبینہ طور پر اپنی جان لی کیونکہ اس کا اپنا سگا باپ ہی گزشتہ کئی برسوں سے اس کا ریپ کررہا تھا۔ مہلوک لڑکی کی بہن نے یہ انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے چچا اپنی بیٹی کا ریپ کرتے تھے اور جب ریپسٹ باپ کے بھائی کو یہ معلوم ہوا تو اس نے بھی اپنی بیٹیوں کا ریپ کرنا شروع کردیا۔
درندہ صفت باپ کے کرتوت کا انکشاف کرنے والی لڑکی کو ایک ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے: ‘پہلے شروعات میرے چچا نے کی۔ وہ بھی پہلے اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے۔ اس کو دیکھ کر میرے پاپا نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس نے پہلے اپنی بڑی بیٹی کے ساتھ کیا، اب مجھے بول رہا تھا۔ میں نے اس کی خبر اپنے رشتہ داروں کو دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوئی حل نکالیں گے۔ میرے چچا نے میری بڑی بہن سے کہا کہ اگر پولیس آگئی تو تم بھی پھنسو گی، اس کے بعد اس نے زہر کھالیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس نے خود زہر کھائی یا پاپا نے اسے زہر دیا۔ میں پھر پولیس اسٹیشن گئی اور وہاں رپورٹ لکھائی’۔
اس واقعہ کے خلاف متاثرہ لڑکی کے آبائی گاؤں کو چھوڑ کر کہیں پر بھی احتجاج نہیں ہوا۔ وادی کے کسی بھی حصے میں لوگ مہلوک لڑکی کو انصاف دلانے اور ملزم باپ کو سخت سے سخت سزا دلانے کے لئے سڑکوں پر نہیں آئے۔ علماء کی تنظیم ‘متحدہ مجلس علماء جموں وکشمیر’ نے ایک بیان جاری کرکے اس واقعہ کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے علماء، ائمہ اور والدین پر زور دیا تھا کہ وہ اس طرح کے شرمناک اور گھناؤنے واقعات کو روکنے کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ علماء کی تنظیم نے کہا تھا کہ یہ واقعہ کشمیر میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی اس طرح کے افسوسناک اور دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جو کشمیری سماج کی تنزلی اور پستی کو ظاہر کررہے ہیں۔ تاہم واقعہ پر کسی دوسرے حلقے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا تھا۔
سرکاری اعداد وشمارکے مطابق وادی میں گزشتہ برس یعنی سنہ 2018 ء میں ریپ کے کم از کم 142 واقعات درج کئے گئے۔ علاوہ ازیں خواتین کی اغوا کاری کے 667 واقعات، ایو ٹیزنگ کے 35 واقعات اور گھریلو تشدد کے 143 واقعات درج کئے گئے۔ ریاستی کمیشن برائے خواتین کے ساتھ کئی برس تک وابستہ رہنے والے ڈاکٹر امتیاز احمد وانی کا کہنا ہے کہ،دنیا کے مختلف حصوں کی طرح وادی کشمیر میں بھی ریپ، ایو ٹیزنگ، گھریلو تشدد اور خواتین کے خلاف دوسرے جرائم کے اکثر واقعات رپورٹ ہوتے ہیں نہ ان کے خلاف عوامی سطح پر کوئی مؤثر آواز اٹھتی ہے جس کے نتیجے میں خواتین کے خلاف جرائم و تشدد کو عروج ملتا ہے اور مرتکبین کا حوصلہ پست ہونے کے بجائے بلند ہورہا ہے۔
بعض مبصرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ بانڈی پورہ میں تین سالہ بچی کے ساتھ پیش آئے مبینہ واقعہ سے قبل وادی کشمیر میں ریپ اور خواتین کے خلاف دوسرے جرائم ‘خاموش جرائم’ بن کر رہ گئے تھے۔ یہ جرائم بالخصوص ‘ریپ’ کے واقعات تب ہی اخبارات میں جگہ پاتے تھے جب پولیس ان کے حوالے سے پریس بیان جاری کرتا تھا۔ ‘ریپ’ کے خلاف وادی میں عوامی حلقوں میں تب ہی کوئی آواز اٹھتی تھی جب ہندو اکثریتی خطہ جموں میں متاثرین یا ریپسٹوں کا تعلق مختلف طبقوں سے ہوتا تھا جیسے
کٹھوعہ میں گزشتہ برس جنوری میں آٹھ سالہ بچی کا ریپ اور قتل کا واقعہ سامنے آیا جس پر وادی میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا۔ یا تب آواز اٹھتی تھی جب وادی کے اندر ‘ریپ’ یا ‘جنسی زیادتی’ کرنے والے فورسز اہلکار ہوتے تھے۔ تاہم تین سالہ بچی کے مبینہ ریپ نے روایت کو ختم کرکے کشمیریوں کو اس بھیانک جرم جو وادی میں اب تک ‘ایک خاموش جرم’ بن کر رہ گیا تھا، کے خلاف آواز اٹھانے کا حوصلہ بخشا ہے۔
جہاں تک متاثرین کو انصاف دلانے کی بات ہے، ریاستی حکومت بالخصوص پولیس پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سمبل کی تین سالہ بچی اور کٹھوعہ کی آٹھ سالہ بچی کے معاملوں کی سریع الرفتار تحقیقات کرکے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ انصاف کی جلد فراہمی سے ایک تو لوگوں کا قانون پر بھروسہ بڑھے گا، دوم ایسے جرائم کو چھپانے کا رجحان ختم ہوگا اور سوم متاثرین کو انصاف فراہم ہوگا۔
(مضمون نگار کشمیری صحافی ہیں)