سال 2018میں اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن نے پایا کہ 1990سے کشمیر میں 506مجسٹریل انکوائریا ں تشکیل دی گئی تھیں، ان میں 108انکوائیریوں میں خاطیوں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔ مگر کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکی۔ایک جائزے کے مطابق 2011میں گیارہ، 2012میں آٹھ، 2013میں سات، 2014میں سات، 2015میں دس، 2016میں آٹھ، 2017میں سات اور 2018میں انکوائریوں کا حکم دیا گیا تھا۔ مگر ان سبھی انکوائریوں کا حال ابھی تک پس پردہ ہے۔
جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے حال ہی میں سیاستدانوں، صحافیوں و سول سوسائٹی سے وابستہ افراد کو خبردار کیا کہ سری نگر میں حالیہ پولیس انکاونٹر کی جو تحقیقاتی رپورٹ جاری کی گئی ہے، اس پر سوالیہ نشان اٹھانے سے گریز کریں، ورنہ ان پر کاروائی ہوسکتی ہے۔ ایک اور افسر نے اس انکاؤنٹر میں مرنے والے لواحقین کو بھی وارننگ دی کہ وہ اس تحقیق پر انگلی نہ اٹھائیں اور سیاستدانوں پر الزام لگایا کہ وہ لاشوں کی سیاست کرکے عوام کو برانگیختہ کرنے کا کام کرتے ہیں۔
ویسے یہ کسی حد تک صحیح ہے، کیونکہ جب یہ سیاستدان پاور میں تھے تو ان کے دور میں بھی ایسی ہلاکتوں کی ایک لمبی سی فہرست ہے، جن کی تحقیق کبھی منظر عام پر نہیں آئی۔ 2018میں اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن نے پایا کہ 1990سے کشمیر میں 506مجسٹریل انکوائریا ں تشکیل دی گئی تھیں، ان میں 108انکوائیریوں میں خاطیوں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔ مگر کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکی۔
ان مجسٹریل انکوائریوں کے علاوہ دس کمیشن بھی تشکیل دیے گئے تھے، جن میں سے غالباً صرف جسٹس پانڈین اور جسٹس کوچھے کمیشن نے اپنا کام مکمل کرکے ملزمین کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف عدالتی کارروائی کی سفارش کی تھی۔
سال 2010میں بارہمولہ کے تین افراد کو عسکریت پسند بتاکر ان کو لائن آف کنٹرول کے پاس لےجاکر موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا، جب معلوم ہوا کہ یہ مقامی مزدور تھے، تو اس پر لوگوں نے سڑکوں پر آکر مظاہرے کیے، جن کو روکنے کے لیے دو ماہ میں 112افراد کوہلاک کیا گیا۔ان ہلاکتوں پر بھی اس وقت کے وزیرا علیٰ عمر عبداللہ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
ایک جائزے کے مطابق 2011میں گیارہ، 2012میں آٹھ، 2013میں سات، 2014میں سات، 2015میں دس، 2016میں آٹھ، 2017میں سات اور 2018میں انکوائریوں کا حکم دیا گیا تھا۔ مگر ان سبھی انکوائریوں کا حال ابھی تک پس پردہ ہے۔
کشمیر میں تحقیقاتی کمیشن کس طرح کام کرتے آئے ہیں، اس کی مثال جسٹس امر سنگھ چودھری کمیشن کی کارکردگی ہے۔ 6 جنوری1993کوشمالی کشمیر کے اہم قصبہ اور تجارتی مرکز سوپور میں آگ وخون کی ہولی کھیلی گئی، جس میں 50افراد کو ہلاک کرنے کے علاوہ تقریباً آدھے شہر کو آگ کے حوالے کردیاگیا۔
چند روز بعد عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جوڈیشیل انکوائری کے احکامات صادرکیے گئے اور 30 جنوری کو پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس امر سنگھ چودھری کو تحقیقاتی آفیسر مقرر کیا گیا۔ دوسال گزر جانے کے بعد کمیشن کو تحلیل کر دیاگیا۔
محکمہ قانون، جسٹس چودھری کو مسلسل لکھتا آیا کہ وہ ریاست بالخصوص سری نگر کا گرمیوں میں دورہ کریں تاکہ گواہ، جن میں سینئر افسران شامل ہیں،کے بیانات قلمبند کیے جاسکیں۔ وہ سری نگر آنے سے گریزاں رہے تاہم جموں آنے پر آمادگی ظاہر کی اور گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے لیے15سے17دسمبر 1993ء کا وقت دیا۔کمیشن کی میعاد جو پہلے ہی ختم ہوچکی تھی 30جنوری 1994ء تک بڑھا دی گئی۔
کمیشن کی میعاد بڑھتے ہی جسٹس چودھری نے مجوزہ دورہ پھر منسوخ کردیا اور اطلاع دی کہ سماعت کی اگلی تاریخ سے ریاستی حکومت کو مطلع کیاجائے گا۔ اس کے بعد کمیشن نے مطلع کیا کہ وہ اپنی کارروائی جموں میں چلائے گا اور خواہش ظاہر کی کہ گواہوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے علاوہ کمیشن کے عملے کی سکیورٹی کا معقول بندوبست کیاجائے۔ لیکن یہ دورہ بھی منسوخ کر دیاگیا اور اطلاع دی گئی کہ اب وہ سماعت مارچ 1994ء کے دوسرے ہفتے میں کرے گا۔
وہ اس کے بعد بھی وعدے سے مکر گیا اور یوں اپریل 1994ء میں کمیشن کی میعاد پھر ختم ہوگئی۔ریاستی چیف سکریٹری بی کے گوسوامی نے فائل میں اپنے تاثرات کچھ یوں لکھے؛
ہمیں یہ ڈرامہ ختم کرنا چاہیے،گزشتہ 15ماہ سے کوئی سماعت نہیں ہوئی۔
گوسوامی نے18اپریل 1995کو مرکزکے داخلہ سکریٹری کے پدمنا بھیا کو لکھا؛
کمیشن کی جانب سے جموں میں سماعت کا انعقاد عوامی مفاد میں پہلے ہی نہیں تھا لیکن اس کے بعد کمیشن کا رویہ سراسر حوصلہ شکن رہا اور تین ماہ میں انکوائری مکمل نہ کرنے سے لوگوں میں حکومت کے اعتبارکو شدید زک پہنچی ہے۔
گوسوامی نے پدمنا بھیا کے نام مزید لکھاکہ کمیشن کے قیام کا مقصد فوت ہو چکا ہے اور اب اسے تحلیل کر دینا چاہیے لیکن کوئی کارروائی کرنے سے قبل ہم سارا ماجرا حکومت ہند کی نوٹس میں لانا چاہتے ہیں۔ اس مکتوب کے بعد مذکورہ کمیشن کا باب بند کردیا گیااور ہمیشہ کے لیے انصاف کو دفن کردیا گیا۔
جموں وکشمیر کی تاریخ نہ صرف خونیں سانحوں سے بھری پڑی ہے، بلکہ باضابطہ ایک منصوبہ کے تحت ان میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہچاننے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا۔ بیشتر واقعات میں سرکاری مشنری نے ان کو بچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ایسا ہی ایک اور دلدوز سانحہ 21اور22مارچ 2000کی رات کو جنوبی کشمیر کے چھٹی سنگھ پورہ گاؤں میں پیش آیا، جب امریکی صدر بل کلنٹن کی دہلی آمد کے چند گھنٹوں کے بعد ہی اس گاؤں 35نہتے اور معصوم سکھ افراد ہلاک کیے گئے۔ اس کے چند روز بعد ہی جب کلنٹن ابھی ہندوستان میں ہی تھے کہ بتایا گیا کہ اس سانحہ میں لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین سے وابستہ بیرونی عسکری ملوث تھے، اور پتھری بل کی پہاڑیوں میں ان کو فوج اور پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ یعنی ایس او جی نے گھیر کر ہلاک کر دیا۔
جلد ہی معلوم ہوا کہ یہ پانچوں افراد مقامی کشمیر ی دیہاتی تھے اور ان کو گھروں سے پٹرول پارٹی کو گائیڈ کرنے کے لیے اٹھا یا گیا تھا۔ ان میں ایک دکاندار تھا، جس کو دکان بند کرتے وقت جیپ میں بٹھایا گیا تھا۔ جب متعلقین اس ہلاکت پر احتجاج درج کراوانے کے لیےضلعی ہیڈکوارٹر کی طرف مارچ کررہے تھے تو راستے میں براک پورہ کے مقام پر ان پر فائرنگ کرکے نو افراد کو ہلاک کیا گیا۔ پورے کشمیر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔
دوسری طرف کشمیر اور باہر پنجاب میں سکھ برادری کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج جسٹس ایس آر پانڈین کی قیاد ت میں یک رکنی کمیشن تشکیل دیکر تحقیقات کا حکم دے دیا۔ ایک سال بعد جب کلکتہ اور حیدرآباد کی فارنسک لیبارٹریوں نے بتایا کہ مہلوکین اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے ڈی این اے جو ٹیسٹ کے لیے بھیجے گئے تھے، نقلی تھے، اس پر ایک اورعدالتی کمیشن جسٹس جی اے کوچھے کی سربراہی میں مقرر کیا گیا۔
خیر دونوں عدالتی کمیشنوں نے دیگر سیکورٹی اداروں کے علاوہ جنوبی کشمیر میں پولیس کی اسپیشل گروپ کے سربراہ فاروق احمد خان کو نامزد کرکے اس کے خلاف کارروائی کرنے کی سفار ش کی۔ یہ حضرت آجکل حکومت کے مشیر ہیں۔ فاروق عبداللہ کی حکومت نے ان کو معطل کر دیا تھا۔ ان کے جانشین مفتی محمد سعید پر ہندوستان کی وزارت داخلہ نے ان کو بحال کرنے کے لیے خاصا دباؤ ڈالا، مگر وہ ڈٹے رہے۔ سال 2005میں جب کانگریسی وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے قلمدان سنبھالا، تو انہوں نے فاروق خان کی بحالی کے احکامات صادر کر دیے۔
وہ 2013میں ڈی آئی جی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے اور فوراً ہی بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوکر قومی سکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ہندوستانی آئین کی دفعہ 370کی منسوخی سے متعلق پہلی رٹ پیٹیشن انہوں نے ہی کورٹ میں دائر کی تھی۔
جسٹس پانڈین کمیشن کی تقرری ہی چھٹی سنگھ پورہ اور اس کے بعد رونما پذیر واقعات کی تفتیش کے لیے کی گئی تھی۔ چارج سنبھالنے کے بعد جب جج صاحب نے ان علاقوں کا دورہ مکمل کیا، توحیرت انگیز طور پر ان کو بتایا گیا کہ اپنی تحقیق و تفتیش صرف براک پورہ میں ہجوم پر ہوئی فائرنگ تک ہی محدود رکھیں۔
اکتوبر 2000میں وہ نئی دہلی کے کشمیر ہاؤس میں اپنی رپورٹ مکمل کر رہے تھے۔ اسی دوران ایک دن میں ان سے ملنے پہنچا تو ایک ہی کمرے میں ایک طرف ان کے اہل خانہ مقیم تھے اور دوسرے کونہ میں وہ اسٹینو اور سکریٹری کو رپورٹ ڈکٹیٹ کرا رہے تھے۔ وہ ابھی بھی مصر تھے کہ چونکہ چھٹی سنگھ پورہ، پتھری بل اور براک پورہ کے واقعات ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں، اس لیے ان کو سکھوں کے قتل عام کی تفتیش کی بھی اجازت دی جائے۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاید کوئی کڑی ان کے ہاتھ لگ گئی ہے۔
اکتوبر کے اواخر میں جب انہوں نے سری نگر میں وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو رپورٹ پیش کی تو اس وقت بھی انہوں نے چھٹی سنگھ پورہ کے واقعہ کی تحقیق کی اجازت طلب کی۔ کابینہ کی میٹنگ میں پانڈین کمیشن آف انکوائری کی رپورٹ کو تسلیم کرنے کے بعد پریس کانفرنس میں فاروق عبداللہ نے ا علان کیا کہ جوڈیشیل کمیشن سکھوں کے قتل عام کی بھی تحقیقات کرے گا اور کابینہ نے اس سفارش کو منظوری دی ہے۔
خیر رپورٹ پیش کرنے کے بعد جسٹس پانڈین واپس دہلی آکر نئے آرڈر کا انتظار کر رہے تھےکہ میں ان سے ملنے کے لیے کشمیر ہاؤس پہنچا۔ دیکھا کہ جسٹس صاحب اور ان کی فیملی ریفوجیوں کی طرح ریسپشن کے پاس کھڑے ہیں۔ لابی میں ان کا سامان بکھرا پڑا ہے۔ ان کا سکریٹری کشمیر ہاؤس کے ذمہ داروں کو قائل کروانے کی کوشش کر رہا تھا کہ کمیشن کو اگر توسیع نہیں ملتی ہے تو بھی یہ ابھی تحلیل نہیں ہوا ہے، اور کئی انتظامی امور کے مرحلے ابھی باقی ہیں۔آخر وہ کیسے سپریم کورٹ کے ایک سابق جسٹس جس کی خدمات ریاستی حکومت نے مستعار لی ہیں، کمرے سے اس طرح بے دخل کرسکتے ہیں۔
مگر افسران کا کہنا تھا کہ ان کو بتایا گیا ہے کہ جسٹس صاحب سے کمرہ خالی کروانا ہے اور کسی وزیر کو اس میں قیام کرنا ہے۔ بعد میں قریب میں ہی تمل ناڈو ہاؤس نے جسٹس پانڈین اور ان کے اہل خانہ کو ٹھہرایا اور اس کے چند روز بعد وہ مدراس (چنئی) روانہ ہوگئے۔ روانہ ہونے سے قبل انہوں نے بتایا کہ مرکزی حکومت میں اعلیٰ سطح پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ چھٹی سنگھ پورہ اور بعد میں جولائی2000 میں پہلگام میں ہندو یاتریوں کے قتل عام کی تحقیقات کرنے والی لیفٹنٹ جنرل جے آر مکرجی کمیٹی رپورٹ کے مندرجات اور ان کی سفارشوں پر کوئی کارروائی نہ کی جائے۔
کور کماندڑ جنرل مکرجی کی رپورٹ نے پہلگام میں ہندو زائرین کی ہلاکتوں کے لیےنیم فوجی تنظیم سی آر پی ایف اور پولیس کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ آخر حکومت ان سانحوں میں ملوث افراد کو بے نقاب کیوں نہیں کرنا چاہتی تھی؟کس کو بچایا جا رہا تھا؟
پچھلے 30برسوں میں کشمیر میں متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے، جو عسکریت پسندوں کے کھاتے میں ڈالے گئے، مگر بعد میں معلوم ہواکہ یا تو ان میں ہندوستانی سیکورٹی ادراوں کے اہلکار براہ راست ملوث تھے یا جانکاری ہوتے ہوئے بھی انہوں نے ان واقعات کو طول دےکرپروپیگنڈہ کے لیے بخوبی استعمال کیا۔
اپنی معرکتہ الآرا تفتیشی کتاب The Meadowsمیں برطانوی مصنفین ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکارٹ نے بتایا ہے کہ 1995میں جنوبی کشمیر میں مغربی ممالک کے پانچ سیاحوں کو جب ایک غیر معروف تنظیم الفاران نے اغوا کیا، تو ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کو ان کے ٹھکانوں کے بارے میں پوری معلومات تھی۔
ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کے طیارے مسلسل ان کی تصویریں لے رہے تھے۔ مگر ان کو ہدایت تھی کہ سیاحوں کو چھڑانے کا کوئی آپریشن نہ کیا جائے، بلکہ اس کو طول دیا جائے۔ بعد میں ان سیاحوں کو ہندوستانی آرمی کی راشٹریہ رائفلز نے اپنی تحویل میں لے لیا۔مگر بازیابی کا اعلان کرنے کے بجائے ان کو موت کی نیند سلایا دیاگیا۔
مقصد تھا کہ مغربی ممالک تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی سے منسلک کرکے اس کی حمایت سے ہاتھ کھنچیں اور جتنی دیر سیاح مبینہ عسکریت پسندوں کے قبضہ میں رہیں گے، پاکستانی مندوبین کے لیے مغربی ممالک میں جواب دینا اتنا ہی مشکل ہو جائےگا۔اس واقعہ کے ایک سال قبل ہی مغربی ممالک انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے ہندوستان پر اقتصادی پابندیا ں عائد کرنے پر غور کر رہے تھے۔یہ واقعہ واقعی کشمیر کی جدوجہد میں ایک تاریخی موڑ ثابت ہوا۔
اسی طرح جب معروف قانون دان اور حقوق انسانی کے کارکن جلیل اندارابی کے قتل میں ملوث میجر اوتار سنگھ کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے عدلیہ نے سیکورٹی ایجنسیوں پر دباؤ بنایا تو مذکورہ میجر کو راتوں رات پاسپورٹ اور ٹکٹ دےکر کینیڈا پہنچایا گیا۔ بعد میں وہ وہاں سے امریکہ منتقل ہوا۔
یہ الگ بات ہے کہ 2012 میں وہ خود ہی مکافات عمل کا شکار ہوگیا۔جب امریکہ میں اس کی موجودگی کا پتہ چلا تو اس نے دھمکی دی کہ اگر اس کوہندوستان ڈیپورٹ کیا گیا تو وہ کئی راز طشت از بام کرےگا، جس کی لپیٹ میں سیکورٹی اداروں کے اعلیٰ ذمہ داران آئیں گے۔
مجھے یاد ہے کہ فروری 1996رمضان کا مہینہ تھا۔ دہلی میں ایک سفارت کار کے یہاں میں ایک افطار پارٹی میں مدعو تھا۔ وہاں اندرابی صاحب سے ملاقات ہوئی۔سیکورٹی فورسز کے خلاف کئی کیسوں کی پیروی کرنے کی وجہ سے و ہ خاصا نام کما چکے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کو کشمیر میں دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔
چند روز قبل ان کے گھر پر چند نامعلوم ا فراد ان کواغوا کرنے کی نیت سے آئے تھے۔ اپنے مکان کی بالائی منزل میں چھپ کر انہوں نے ان کی کیمرے سے تصویریں اتاری تھیں۔ ان کی اہلیہ ان افراد سے بحث کر رہی تھی کہ کالونی کے دیگر افراد اکٹھے ہوئے اور وہ فرار ہوگئے۔ کیمرے کے ساتھ جلیل پہلی فرصت میں فلائٹ لےکر دہلی آپہنچے۔
ان افراد کی شناخت آرمی کے راشٹریہ رائفلز کے راول پورہ کیمپ کے انچارج میجر اوتار سنگھ کے مخبروں کے طور پر ہو گئی تھی۔ دہلی میں انہوں نے وزیر داخلہ ایس بی چوان، نائب وزیرداخلہ راجیش پائلٹ، امریکی سفیر فرینک وائزنر اور دیگر رہنماؤں سے ملاقاتیں کی اور ان کو بتایا کہ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے اور ان کی جان کی حفاظت کی جائے۔
یا د آتا ہے کہ انہوں نے مجھے بھی یہ تصویریں دکھائی تھیں۔جلیل اندرابی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا ان کا سری نگر واپس لوٹنا مناسب رہے گا۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ چونکہ انہوں نے اپنی جان کو لاحق خطرہ کے بارے میں حکومت وقت کے اعلیٰ ترین ارباب حل وعقد کو آگاہ کردیا ہے اس لیے اگر ایسے لوگوں کا سرکار سے کسی بھی طرح کا تعلق ہوگا تو وہ آپ کو نقصان پہنچانے کی اب شاید جرأ ت نہیں کریں گے۔ اس محفل میں موجود دیگر افراد کی بھی یہی رائے تھی۔
چونکہ عید کے دن قریب تھے اس لیے وہ میرے مشورے اور سیاسی لیڈروں اور رہنماؤ ں کی یقین دہانیوں سے کسی طرح مطمئن ہوکر باد ل ناخواستہ سری نگر لوٹ گئے۔لیکن ہمارا مشورہ اور ہماری امیدیں غلط ثابت ہوئیں۔عید کے روز 8مارچ 1996کو جب جلیل اندرابی اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنی کار میں گھر لوٹ رہے تھے کہ میجر اوتار سنگھ کی سربراہی میں مسلح سیکورٹی اہلکاروں نے انہیں روکا اور کار سے اتار کر اپنی گاڑی میں لے گئے۔ اسی شام کو تھانے میں اغوا کا ایک کیس درج کرایا گیا۔
اس دوران جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ہائی کورٹ میں ایک عرضی بھی دائر کی لیکن آرمی اور بی ایس ایف نے جلیل اندرابی کی حراست کی تردید کی۔ جلیل اندرابی کے اغوا کے 19روز بعد 27مارچ کو جہلم میں ان کی لاش بہتی ہو ئی ملی۔ ان کے سر پر گولیاں ماری گئی تھیں اور ان کا بدن زخموں سے چھلنی تھا۔ان کی لاش ملتے ہی حکومت نے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی جس نے معمول کے کارروائیوں اور تفتیش کے بعد بالآخر10 اپریل1997کو عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کی۔
اس رپورٹ میں میجر اوتار سنگھ کا نام لیا گیا تھا۔عدالت نے مرکزی حکومت کو میجر اوتار سنگھ کا پاسپورٹ ضبط کرنے اور نیا پاسپورٹ فراہم کرنے سے روکنے کا حکم دیا۔ اس نے میجر کی سروس فائلیں بھی چار ہفتے کے اندر پیش کرنے کی ہدایت دی۔ چونکہ کیس ایک معروف قانون دان کا تھا، جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے میجر اوتار سنگھ کی گرفتاری کے احکامات صادر کردیے۔ مگر اوتار سنگھ روپوش ہوچکا تھا۔ 2012میں 47 سالہ میجر نے امریکی شہر کیلی فورنیامیں اپنی بیوی اوردو بچوں کو قتل کرنے کے بعد اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔
میجر نے مقامی پولیس کو فون کرکے پہلے اپنے کنبے کو ہلاک کرنے کے بدترین جرم کی اطلاع دی جس کے بعد اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کرلیا۔پولیس کے مطابق اوتار سنگھ کی بیوی اور تین سالہ بچے کی لاشیں ان کے بیڈروم میں ملیں۔اس کے دوسرے بیٹے‘ جس کی عمر پندرہ سال بتائی گئی ہے کی لاش دوسرے کمرے میں پائی گئی‘ خود اوتار سنگھ کی لاش بھی ایک کمرے میں ملی۔اس کے علاوہ پولیس نے اوتار سنگھ کے ایک اور بیٹے‘ جس کی عمر سترہ سال بتائی گئی ہے کو انتہائی زخمی حالت میں مکان سے برآمد کیا۔
یہ انصاف کا گلا گھونٹ دینے کا ہی انجام تھا کہ میجر اوتار سنگھ کے بیوی اور بچے بھی ان کے خونی کھیل کا شکار ہونے سے بچ نہیں سکے۔ان کے سیاہ کارناموں کی فہرست اتنی طویل تھی کہ شاید ہی دنیا کی کوئی عدالت انہیں اْن کے گناہوں کے برابر اور قرار واقعی سزا دیتی۔ اوتار سنگھ نے 90 کی دہائی میں کشمیر میں اپنی تعیناتی کے دوران مبینہ طور پر متعدد بے گناہوں کوموت کے گھات اتار دیا تھا۔
حکومت میجر کی ظالمانہ حرکتوں اور بھیانک جرائم سے پوری طرح واقف تھی، مگر اس کے باوجود نہ صرف انہیں ملک سے بھاگنے میں سرکاری طور پر مدد فراہم کی گئی بلکہ امریکہ میں اپنا بزنس قائم کرنے اور قانون کے شکنجے سے دور رکھنے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔
یہ قتل ایسے لوگوں نے کیا تھاجو کشمیر میں حکومت کی نمائندگی کرتے تھے‘جو خود کو قانون سے بالا ترسمجھتے تھے‘ جنہیں غیر قانونی حرکتوں پر کسی طرح کی شرمندگی یا پشیمانی نہیں تھی اور جنہیں قانون و انصاف کا کوئی خوف نہیں تھا۔اس طرح کے واقعات اور ان کی تفتیش کا انجام جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، وہ کس طرح اب مجسٹریل انکوائریوں پر بھروسہ کرسکتے ہیں اور وہ بھی اس حال میں جب وہ پولیس کو بری الذمہ قرار دیتے ہوں۔عوام کا اعتماد جیتے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے اور ملزمین کو کیفر کردار تک پہچانے کی ضرورت ہے۔ورنہ ہر انکوائری پر انگلیوں کا اٹھنا لازمی ہے۔