کشمیر کے ہونٹ سل دیےگئے ہیں اور اس کے سینے پر ہندوستانی ریاست کے بوٹ ہیں

01:08 PM Aug 07, 2024 | اپوروانند

پانچ اگست 2019 کے بعد کا کشمیرہندوستان کے لیے آئینہ ہے۔ اس کے بعد ہندوستان کا کشمیرائزیشن تیز رفتاری سے ہوا ہے۔ شہریوں کے حقوق کی پامالی، گورنروں کی ہنگامہ آرائی ، وفاقی حکومت کی من مانی۔

کشمیر کی ایک علامتی تصویر۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

ذلت، ناانصافی اور ظلم کا ایک اور برس  بیت گیا۔ ایک اور شروع ہونے والا ہے۔ اگر میں کشمیری ہوتا تو کیلنڈر میں 5 اگست کی تاریخ دیکھ کر میرے ذہن میں یہی بات آتی۔ اس ذلت، ناانصافی اور ظلم کا میں کچھ نہیں کر سکتا، یہ خیال  مجھے اپنی نگاہوں میں حقیر  بنا تاہے۔ میں کچھ دکھ اور درد کے ساتھ یہ بھی دیکھتا کہ جو تاریخ مجھے ذلت اور ظلم کی یاد دلاتی ہے ،وہ باقی ہندوستانیوں کے لیےجشن کا دن ہے۔

زمین کے ایک ٹکڑے کو مکمل طور پر ہندوستان کا حصہ بنالینے کی شیطانی مسرت۔ یا اگر وہ سچ بولنے کے اہل  ہوں  تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ خوشی دراصل کسی ایک پوری آبادی کو کچل دینے کی  ہے۔ اس کا وجود ختم کر دینے کی ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

پانچ  اگست کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے عظمت بخشی جاتی ہے کہ اس دن کشمیر نے ہندوستانی آئین کو مکمل طور پر اپنایا۔ اس سے بڑا جھوٹ یا فریب کچھ نہیں ہو سکتا۔خود  ہندوستان کی پارلیامنٹ نے ہندوستانی آئین کی روح کو اسی دن مار ڈالا جب اس نے آئین کے آرٹیکل 370 کو غیر مؤثر بنایا۔ ایک طرح سے یہ اس دھاگے کو توڑنا تھا جس نے کشمیریوں کو ہندوستان  سے باندھ رکھا تھا۔

آرٹیکل 370 ہندوستان  اور کشمیر کے درمیان کوئی دیوار نہیں تھی جسے توڑ کر ہی ان کے دل مل سکتے تھے۔ وہ ایک  وعدہ تھا جو ہندوستان نے کشمیر سے کیا تھا، اور جسے ہندوستان  کی حکومت یا پارلیامنٹ تن تنہا نہیں بدل سکتی تھی۔ کسی بھی تبدیلی کے لیے جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی منظوری لازمی تھی۔ ان کی غیر موجودگی میں ریاستی اسمبلی کی منظوری سے ہی کوئی تبدیلی کی جا سکتی تھی۔ لیکن جب اسمبلی ہی ملتوی کر دی گئی اور مرکزی راج نافذ کر دیا گیا تو پھر گورنر کی منظوری کو اسمبلی کی منظوری کے برابر کیسے مانا جا سکتا تھا؟

اسمبلی میں عوامی نمائندے ہوتےہیں۔ وہ ریاست کے لوگوں کی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ گورنر عوام کا نمائندہ نہیں، وفاقی حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے۔ پھر اسے قانون ساز اسمبلی کے برابر کیسے سمجھا گیا؟ لیکن یہ سینہ زوری کی گئی اور اس کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے بھی  درست مان لیا!

ایک لمحے کے لیے تسلیم کربھی  لیں کہ آرٹیکل 370 ہندوستان اور کشمیر کے آپسی میل  میں آخری رکاوٹ تھی جسے ہٹانے کی ضرورت تھی ، تو پھر اس کے ساتھ ہی جموں و کشمیر سے ریاست کا درجہ چھیننے، اس کی اسمبلی کو تحلیل کرنے اور اسے دولخت کرنے کی وجہ اور مقصد کیا تھا؟ اگر یہ کشمیریوں کی توہین کے لیے نہیں کیا گیا تو اور کیا تھا؟ انہیں یہ بتانا کہ اب وہ پوری طرح دہلی کے رحم و کرم پر ہیں اور دہلی کے اقدام کی کہیں کوئی شنوائی نہیں۔

آج تک ہندوستان میں کسی بھی ریاست کی حیثیت کو کم نہیں کیا گیا ہے۔ کسی مکمل ریاست کو توڑ کر یونین ٹیریٹری میں تبدیل نہیں کیا گیا۔ یہ جموں و کشمیر کے ساتھ کیا گیا۔ حکومت کچھ بھی کہتی رہی، اس کا مطلب سب پر واضح تھا۔ یہ جموں و کشمیر کو دی گئی سزا تھی۔ یہ اس کے وجود کے احساس کمتری کو مستقل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

اس کا ایک اور مطلب تھا۔ جموں و کشمیر واحد ریاست تھی جہاں کے وزیر اعلیٰ مسلمان ہوا کرتے تھے۔ جہاں سیاسی طور پر مسلمانوں کا غلبہ تھا۔ یہ مکمل طور پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے نظریے کے خلاف تھا۔ آخرکار آر ایس ایس کی سب سے خاکسار شخصیت دین دیال اپادھیائے نے بھی تو یہی کہا تھا کہ مسلمانوں کو سیاسی طور پر شکست دینا ہی مقصد ہے۔ وہ رہ سکتے ہیں، زندہ رہ سکتے ہیں، لیکن انہیں سیاسی طور پر کہیں بھی اہم نہیں رہنے دیا جا سکتا۔ یہ بھی 5 اگست کو کی گئی کارروائی کا ایک مقصد تھا۔

دہلی نے مسلم آبادی کو نظم و ضبط میں لانےکے لیے لیفٹیننٹ گورنر کی شکل میں اپنے آدمی بھیجے۔ وہ اب دہلی کے فرمان وہاں نافذ کریں گے۔ یہ ہندوستان کے ہندوائزیشن کی راہ میں آخری رکاوٹ تھی، یعنی جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی نمائندگی کا خاتمہ۔

یہ ہندوستان کے ہندوائزیشن کے منصوبے کا ایک حصہ تھا۔ اس لیے یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ 5 اگست کو ہندوستان  کے ساتھ جموں و کشمیر کے معاہدے کی علامت آرٹیکل 370 کو غیر مؤثر بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے ایک سال بعد 5 اگست کو ہی ایودھیا میں بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کی تعمیر کے لیے بھومی پوجن کیا گیا۔ یہ رام مندر بھی مسلم شناخت کو  مٹا کر ہندوؤں کے قبضے کو ظاہر کرنے کی علامت ہے۔

جس طرح بابری مسجد کو گرایا گیا، اسی طرح جموں و کشمیر کے ساتھ بھی سلوک کیا گیا۔ جس طرح بابری مسجد کی زمین پر قبضہ کیا گیا، اسی طرح کشمیر کی زمین پر بھی قبضہ کیا گیا۔ دونوں کا قبضہ ہندوؤں کے خزانے میں اضافہ تھا۔

لہٰذا، اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ باقی ہندوستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اب کشمیر میں زمین حاصل کی جاسکتی ہے اور کشمیری لڑکیاں اپنی ہو سکتی ہیں۔ یہ فحش خوشی آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حامیوں کی حقیقی جذبات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کے پیچھے جو ایک جنسی کمتری یا جنسی حسد کا احساس ہے، کشمیر کے حوالے سے کیے جانے والے اس فحش اور مکروہ پروپیگنڈے سے ظاہر ہوتا ہے۔

پانچ  اگست 2019 کے بعد کشمیر زیادہ تر خاموش  رہا ہے۔ بہت سے لوگ حیران ہیں کہ کشمیر میں کسی بڑی مزاحمت کا مشاہدہ نہیں کیا گیا۔ کشمیر کے تمام لیڈروں کو گرفتار یا نظر بند کر دیا گیا۔ ان کے معاشرے کے نامور لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ کشمیر کے ممتاز صحافیوں کو گرفتار کیا گیا یا سب کو  بولنے کے انجام  کی دھمکی دی گئی۔

ایسے میں کشمیریوں نے خاموش رہ کر شاید زیادہ دانشمندی  کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب چپے چپے پر فوج ہو جس کے لیے کشمیریوں کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں تو پھر مزاحمت کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کرنا پڑے گا۔ خودکشی نہیں کی جا سکتی۔

جنہوں نے اس خاموشی کو اعترافِ جرم سمجھا تھا وہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج میں کشمیری عوام کا جواب سن چکے ہوں گے۔ بی جے پی کشمیر میں کہیں بھی اپنا امیدوار کھڑا نہیں کر سکی۔ آخر بی جے پی پچھلے 5 سالوں سے لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے ہی حکومت کر رہی ہے! اگر یہ اتنا اچھا اور مقبول ہے تو بی جے پی میں عوام کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت کیوں نہیں ہوئی؟ اس نے پیچھے سے جس کو سپورٹ کیا وہ سب بری طرح ہار گئے۔

یہی نہیں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جو اپنی تقدیر کو ہندوستان سے جوڑنے کی وکالت کرتے ہیں ان کو بھی عوام نے شکست دی۔ اس کا مفہوم بہت گہرا ہے۔ ایک طرح سے یہ ہندوستانی  ریاست کی نفی ہے۔

اب کہا جا رہا ہے کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کی تیاریاں کی جاری ہیں۔ لیکن اس سے پہلے لیفٹیننٹ گورنر کو غیر معمولی اختیارات دیے گئے ہیں۔ ایسے آمرانہ لیفٹیننٹ گورنر کے ساتھ کسی اسمبلی کا کوئی مطلب  نہیں ہے۔

ان 5 سالوں میں کشمیریوں نے اپنی زندگی کے ہر حصے میں ہندوستانی ریاست کے تشدد کا سامنا کیا ہے۔ کسی بھی ملازم کو بغیر وجہ بتائے برطرف کیا جا سکتا ہے۔ تمام اصول و ضوابط میں نرمی کرکے کشمیر کی زمین سرمایہ داروں کے حوالے کی جاسکتی ہے۔ کشمیر کے سیب کے کاروبار کوتباہ کیا جا سکتا ہے۔

لیکن ہندوستانی ریاست جانتی ہے کہ کشمیریوں کی خاموشی میں گہرا انکار ہے۔ اسی لیے ہندوستانی ریاست اپنی طاقت کے ذریعے بار بار ان سے لگاؤ کا اظہار کرنا چاہتی ہے۔

حال ہی میں وزیر اعظم نے کشمیر میں یوگا ڈے منانے کا فیصلہ کیا۔ سرکاری ملازمین اور اساتذہ کو وزیراعظم کے پروگرام میں لازمی شرکت کا حکم دے دیا گیا۔ پروگرام میں جانے کے لیےوہ  رات 3 بجے سے ہی بسوں کا انتظار کرنے پر مجبور کیے گئے۔ جلسہ گاہ میں جانے سے پہلے سب کے جوتے اتروا  دیے گئے۔ اس اجتماعی توہین کے بعد بند اسٹیڈیم میں ان کی تصویر کو ہندوستان میں نشر کیا گیا۔ یہ محض ہندوستانی ریاست کی طاقت کا مظاہرہ تھا۔ فحش اور پرتشدد نمائش!

کشمیر کے ہونٹ سل دیے گئے ہیں اور اس کے سینے پرہندوستانی ریاست کے جوتے ہیں۔ کیا کشمیر کی رضامندی حاصل کرنے کا یہی ہندوستانی طریقہ ہے؟

پانچ  اگست 2019 کے بعدکا  کشمیر ہندوستان کے لیے آئینہ ہے۔ اس کے بعد کشمیر میں ہندوستان کا کشمیرائزیشن تیز رفتاری سےہوا ہے۔ شہریوں کے حقوق کی پامالی، گورنروں کی ہنگامہ آرائی ، وفاقی حکومت کی من مانی۔ رفتہ رفتہ لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ انہیں سلطنت کی توسیع کی خوشنودی دے کر بالکل بے اختیار کر دیا گیا ہے۔

لیکن اگر وہ اپنی خودمختاری واپس چاہتے ہیں تو انہیں کشمیریوں کی خود مختاری کے لیے بھی لڑنا پڑے گا۔ جب تک کشمیر کے خلاف کیے گئے جرم کا کفارہ نہیں ادا نہیں کیا جاتا،ہندوستان  کو امن میسر نہیں ہونے والا۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)