کرناٹک کے اسکولی تعلیم کے وزیر بی سی ناگیش نے اعلان کیا ہے کہ ‘ویویکا’ اسکیم کے تحت بنائے جانے والے نئے کلاس روم ایک جیسے ہوں گے اور ان کوبھگوا رنگ سے پینٹ کیا جائے گا۔ انہوں نے مبینہ طور پر کہا کہ بھگوا رنگ کا مشورہ آرکیٹیکٹس نے دیا ہے اور یہ کسی نظریے کی پیروی نہیں ہے۔
بسواراج بومئی۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)
نئی دہلی: کرناٹک کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی حکومت میں اسکولی تعلیم کے وزیر بی سی ناگیش ایک بار پھر ‘تعلیم کے بھگوا کرن’کے معاملے کو لے کر تنازعات کے مرکز میں ہیں۔ انہوں نے ایک پروگرام کے دوران کہا کہ ریاست میں 7500 سے زیادہ نئے کلاس روم کو بھگوا رنگ میں رنگا جائے گا۔
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، اتوار کو ریاست کے گڈگ ضلع میں ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے اسکولی تعلیم کے وزیر نے کہا کہ ‘ویویکا’ اسکیم کے تحت بنائے جانے والے نئے کلاس روم ایک جیسے ہوں گے اور ان پر بھگوا رنگ کیا جائے گا۔
تاہم، انہوں نے مبینہ طور پر کہا کہ بھگوا رنگ کی تجویز آرکیٹیکٹس نے پیش کی تھی اور یہ ‘کسی نظریے کی پیروی نہیں ہے۔’اس قدم کو ماہرین تعلیم اور اپوزیشن نے یکساں طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
نیوز ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کرناٹک کے کانگریس ایم ایل اے پریانک کھڑگے نے اس قدم پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ‘ سوال بھگوا کی مخالفت کا نہیں، بلکہ حکومت کی ترجیحات کا ہے۔ اسکولوں میں انفراسٹرکچر کی ناقص صورتحال،، اساتذہ کی کمی، بنیادی انفراسٹرکچر کے لیے کوئی بجٹ مختص نہیں ہونے کی وجہ سے بچوں کے پڑھائی چھوڑنے کے بڑھتے معاملے جیسے بہت سے مسائل ہیں اور حکومت کی ترجیحات کیا ہے… دیوار کی پینٹنگ؟
انہوں نے مزید کہا کہ بھگوا ہی کیوں؟ آپ آزاد ہندوستان کی سب سے زیادہ قوم پرست پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس لیے اسے ترنگے میں رنگ دیں۔ آپ عذر پیش کر رہے ہیں کہ آرکیٹیکٹس نے یہ مشورہ دیا ہے۔ کیا حکومت اور محکمے اب آرکیٹیکٹس اور راج مستری چلا رہے ہیں؟
سوامی وویکانند کے نام پر وویکا یوجنا کے تحت، ریاستی حکومت کا ہدف ریاست بھر میں 7601 نئے کلاس روم کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پرانے اور خستہ حال کلاس روم میں تبدیلی لانا ہے۔
دریں اثنا،
چیف منسٹر بسواراج بومئی نے کلبرگی ضلع کے مڑیال میں گورنمنٹ اپر پرائمری اسکول میں یوم اطفال (14 نومبر) پراس کا سنگ بنیاد رکھ کر سرکاری طور پراس اسکیم کاافتتاح کیا۔
اس دوران چیف منسٹر نے اس اسکیم کے تحت بنائےجانے والے ہزاروں اسکولوں کے کلاس روم کو بھگوا رنگ سے پینٹ کرنے کے حکومتی اقدام کا دفاع بھی کیا۔
کلاس روم کو بھگوا رنگ سے رنگنے کے قدم پر تنازعہ کے بارے میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ‘بھگوا رنگ میں کیا غلط ہے؟ (قومی) ترنگے میں بھگوا رنگ ہے۔ سوامی وویکانند خود بھگوا کپڑے پہنتے تھے۔
بومئی نے الزام لگایا، وہ (کانگریس) تعلیم کی جامع ترقی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔‘ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ترقی پسند تبدیلی پر تنازعہ پیدا کرنا ان کی فطرت ہے۔
چیف منسٹر نے کہا، اسکولوں کا نام سوامی وویکانند کے نام پر رکھنے سے بچوں کو ان سے تحریک لینے اور اسکولوں میں اچھا ماحول بنانے میں مدد ملے گی۔
اسکولی تعلیم کے وزیر بی سی ناگیش نے کہا کہ اگر آرکیٹیکٹس حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ بھگوا رنگ کلاس روم کو سوٹ کرتا ہے تو یہی رنگ کا استعمال کیا جائے گا۔
ناگیش نے کہا، ‘ہم نے فیصلہ آرکیٹیکٹس پر چھوڑ دیا ہے۔ حکومت یہ فیصلہ نہیں کرتی کہ کس طرح کا پینٹ، کھڑکیاں، دروازے اور سیڑھیاں بنائی جانی ہے۔ وہ (آرکیٹیکٹس) کیا کہیں گے، ہم اس پر فیصلہ کریں گے ۔
انہوں نے کہا، کچھ لوگوں کو بھگوا رنگ سے الرجی ہے۔
کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے وزیر نے کہا، ‘میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان کے (پارٹی) کے جھنڈے میں رنگ بھگوا ہے۔ آپ نے اسے کیوں رکھا؟ اسے ہٹادیں.’
واضح ہو کہ کرناٹک میں حالیہ دنوں میں تعلیم کے مبینہ بھگوا کرن کو لے کر کئی تنازعات دیکھنے میں آئے ہیں۔
اس سال مئی میں ریاستی حکومت کی ایک کمیٹی کی طرف سے کلاس 6-10 کی سوشل سائنس کی نصابی کتابوں اور کلاس 1-10 کی کنڑ زبان کی نصابی کتابوں میں کی گئی ترمیم پر
ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔
اس کے تحت انقلابی اور مجاہد آزادی بھگت سنگھ، میسور کے حکمران ٹیپو سلطان، لنگایت سماجی مصلح بسوانا، دراوڑ تحریک کے علمبردار پیریار اور مصلح نارائن گرو کے ابواب کو مبینہ طور پر نصاب سے ہٹا دیا گیا یاان میں نمایاں طور پر تبدیلی کی گئی ہے۔ کنڑ شاعر کوویمپو سے متعلق حقائق کو بھی مبینہ طور پر توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے بانی کیشو بلی رام ہیڈگیوار کی ایک تقریر کو بھی کلاس 10 کنڑ کی ترمیم شدہ نصابی کتاب میں شامل کیا گیا تھا۔
طلبہ تنظیموں، حقوق کی تنظیموں، ماہرین تعلیم، ماہرین اور سیاست دانوں کی مخالفت کے باوجود اسکولی تعلیم کے وزیر بی سی ناگیش نے تبدیلیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھاکہ کرناٹک حکومت طلبہ کو ‘حقیقی’ تاریخ پڑھانے جارہی ہے۔
دسمبر 2021 میں ریاست میں ایک اور تنازعہ اس وقت کھڑا ہو گیا جب اڈوپی کے ایک پری یونیورسٹی کالج میں چھ مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس میں بیٹھنے نہیں دیا گیا تھا۔
بعد کے مہینوں میں یہ تنازعہ ایک قومی مسئلہ میں تبدیل ہوگیا۔
فروری میں کرناٹک حکومت نے اسکولوں اور کالجوں میں مساوات، سالمیت اور امن عامہ کی خلاف ورزی کرنے والے کپڑے پہننے پر پابندی لگا دی تھی، جسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ اس تنازعہ کے درمیان ان طالبات نے کرناٹک ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں انہیں کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کا حق دینے کی درخواست کی گئی تھی۔
تعلیمی اداروں میں حجاب پر تنازعہ سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ نے 15 مارچ کو کہا تھا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے اور اس نے کلاس روم میں حجاب پہننے کی اجازت دینے سے متعلق مسلم طالبات کی عرضیاں خارج کر دی تھیں اور ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا تھا۔
اس حکم کو اسی دن سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کی دو ججوں کی بنچ نے اکتوبر 2022 میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر
الگ الگ فیصلہ سنایا تھا۔ بنچ میں شامل جسٹس ہیمنت گپتا نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کو خارج کر دیا ،جبکہ جسٹس سدھانشو دھولیا نے اس کی اجازت دے دی تھی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)