آٹھویں جماعت کی کنڑ کی نصابی کتاب کے ایک حصے میں وی ڈی ساورکر کی عظمت کو پیش کرتے ہوئےلکھا گیا ہے کہ وہ جیل کے جس کمرے میں قید تھے، اس میں ایک چھوٹا سا بھی سوراخ نہیں تھا، لیکن کہیں سے ایک بلبل آجاتی تھی، جس کے پروں پر سوار ہوکر ساورکر ہر روز اپنے مادر وطن کا دورہ کیا کرتے تھے۔
ساورکر،فوٹو بشکریہ: ٹوئٹر
نئی دہلی: آٹھویں جماعت کی کنڑ کی نصابی کتاب نے کرناٹک میں ایک نئے تنازعہ کو جنم دیا ہےکہ اس کے ایک اقتباس میں ونایک دامودر ساورکر کے ہندوتوا نظریے کی’عظمت’ کو پیش کیا گیا ہے۔
جس پیراگراف پر سوال کیا جا رہا ہے وہ مصنف کے ٹی گٹی کے کلاونو گیداوارو (وہ جو وقت کے خلاف جیتے)سے لیا گیا ہے اور کلاس 8 کے طلباء کے لیے کنڑ سکینڈ لنگویج کی نصابی کتاب میں ساورکر کا تعارف کرواتا ہے۔
اس نے سبق نے وجے ناتھ رنگناتھ کے’بلڈ گروپ’ نام کے پرانے سبق کی جگہ لی ہے۔
تنازعہ اس بات سے پیدا ہوا ہے کہ نصابی کتاب کےلیے ذمہ داروں کی جانب سے اس عبارت کو ‘تمثیلی’ اور نثر کوخوبصورت بنانے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کو تمثیل کے طور پر نہیں پڑھاجاسکتا، اس کے بجائے یہ زیادہ لفظی معلوم ہو رہا ہے۔
یہ حصہ ایک سفر نامہ کا خلاصہ ہے ،جس میں مصنف انڈمان سیلولر جیل میں ساورکر سے ملاقات کرنے جاتا ہے اور جیل میں ساورکر کی زندگی کو پیش کرتا ہے۔
متنازعہ متن میں کہا گیا ہے، جیل کےجس کمرے میں ساورکربند تھے، وہاں ایک چھوٹا سا چابی کا بھی سوراخ بھی نہیں تھا۔ حالاں کہ، ایک بلبل (پرندہ) کمرے میں کہیں سے آجاتی تھی، جس کے پروں پر بیٹھ کر ساورکر ہر روز اپنے مادر وطن کو جاتے تھے۔
دی ہندو کی ایک
رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ جیسے ہی یہ حصہ آن لائن وائرل ہوا، روہت چکرتیرتھ کی سربراہی والی اب تحلیل ہوچکی کرناٹک ٹیکسٹ بک ریویژن کمیٹی کو زبانی اعتراضات موصول ہونے لگے۔
ان شکایات میں ساورکر کی عظمت بیان کرنے والے اقتباس پر تنقید کی گئی، اساتذہ نے بھی نصابی کتاب میں اس کی شمولیت پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ طلباء کے سامنے اس تمثیل کی وضاحت کرنے میں مشکل پیش آئے گی۔
ایسے ہی ایک ٹیچر نے اخبار کو بتایا کہ اس اقتباس کو ‘لفظی حقائق کے طور پر’ لکھا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی پوچھا کہ استاد کیا کرے گا اگر کوئی طالبعلم اس حقیقت کا ثبوت مانگے کہ بلبل ہندوتوا کےمفکر کو جیل سے باہر لے گئی۔
دریں اثنا، چکرتیرتھ نے ایک بیان جاری کر کے ٹیکسٹ بک میں مذکورہ حوالے کو شامل کرنے کے جواز کو صحیح ٹھہرایا ہے۔
نیوز منٹ کے مطابق، انہوں نے کہا ہے کہ مجھے حیرت ہے کہ کیا کچھ لوگوں کی سمجھ اتنی کم ہو گئی ہے کہ وہ اس کا مطلب نہیں سمجھ سکتے۔
اسکولی تعلیم کے وزیر بی سی ناگیش نے بھی پیراگراف کے اضافے کی حمایت کی اور ساورکر کو ایک ‘عظیم مجاہد آزادی’ قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ، ساورکر ایک عظیم مجاہد آزادی تھے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ان کی عظمت کو کس طرح سےپیش کیا گیا، یہ ان کی قربانی کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔ مصنف نے متن میں جو کچھ بھی بیان کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔
ریاست میں اس سال نصابی کتب پر کافی تنازعہ دیکھنے میں آیا ہے، خاص طور پر چکرتیرتھ کی سربراہی والی کمیٹی کی جانب سے ‘تعلیم کے بھگوا کرن’ کے حوالے سے کی گئی ترامیم تنازعات کے مرکز میں رہی ہیں۔
مئی 2022 میں کرناٹک کے کئی اسکالرز اور ماہرین تعلیم نے ریاستی حکومت کی کمیٹیوں اور اداروں سے استعفیٰ دے کر ریاست میں ‘
تعلیم کے ‘بھگواکرن ‘کی مخالفت کی تھی۔
کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعدسوشل سائنس اور زبان کی نصابی کتابوں کی جانچ کے لیے 2020 میں روہت چکرتیرتھ کی سربراہی میں ایک ریویو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
اس کمیٹی نے کلاس 6 سے 10 کے لیے سوشل سائنس اور کلاس 1 سے 10 کی کنڑ زبان کی نصابی کتابوں میں ترمیم کی تھی۔
اس کے تحت انقلابی اور مجاہد آزادی بھگت سنگھ، میسور کے حکمران ٹیپو سلطان، لنگایت سماجی مصلح بسوانا، دراوڑ تحریک کے علمبردار پیریار اور مصلح نارائن گرو کے ابواب کو مبینہ طور پر نصاب سے ہٹا دیا گیا یاان میں نمایاں طور پر تبدیلی کی گئی ہے۔ کنڑ شاعر کوویمپو سے متعلق حقائق کو بھی مبینہ طور پر توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے بانی کیشو بلی رام ہیڈگیوار کی ایک تقریر کو بھی کلاس 10 کنڑ کی ترمیم شدہ نصابی کتاب میں جگہ دی گئی ہے۔
دی وائر اس حوالے سے پہلے ہی رپورٹ کر چکا ہے۔
متعدد حقوق گروپوں ، مصنفین اور طلباء تنظیموں کے احتجاج کے بعد ٹیکسٹ بک کمیٹی کو جون میں تحلیل کر دیا گیا تھا۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)