گزشتہ ہفتے بنگلورو پولیس نے ایک خصوصی عدالت کی ہدایت پر این جی او جنادھیکارسنگھرش پریشد کی جانب سے مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے خلاف الیکٹورل بانڈ کے ذریعے وصولی میں ملوث ہونے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی تھی۔ اب ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ شکایت کنندہ متاثرہ فریق نہیں ہے۔
کرناٹک ہائی کورٹ، فوٹو: پی ٹی آئی
نئی دہلی: کرناٹک ہائی کورٹ نے سوموار (30 ستمبر) کو گزشتہ ہفتے دائر کی گئی ایک شکایت تحقیقات پر روک لگا دی ہے، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن اور دیگر نے الیکٹورل بانڈ کے ذریعے 8000 کروڑ روپے سے زیادہ کی جبراً وصولی کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، معاملے کی اگلی سماعت کی تاریخ 22 اکتوبر تک مزید تفتیش پر روک لگاتے ہوئے ہائی کورٹ کے جسٹس ایم ناگاپرسنا نے کہا کہ مبینہ طور پر جبراً وصولی کے معاملے میں شکایت کنندہ متاثرہ فریق نہیں ہے۔
جسٹس ناگاپرسنا نے کہا، ‘یہ قانون کا طے شدہ اصول ہے کہ کسی بھی شخص کی طرف سے فوجداری قانون کی درخواست کی جا سکتی ہے، لیکن آئی پی سی کے تحت یہ اہتمام ہے کہ ان کا نفاذ صرف متاثرہ شخص کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر آئی پی سی کی دفعہ 379 کے تحت حملہ، چوری کے جرم یا آئی پی سی کی دفعہ 383 کے تحت جبراً وصولی۔’
انہوں نے کہا کہ یہ شکایت کنندہ – آدرش آر ائیر، جو این جی او جنادھیکار سنگھرش پریشد (جے ایس پی) کے شریک چیئرمین ہیں، کا معاملہ نہیں ہےکہ انھیں کسی بھی جائیداد کو حوالے کرنے کے لیے ڈرایا گیا یا وہ کسی املاک سے الگ ہو گئے۔
واضح ہو کہ آدرش آرائیر نے شکایت درج کرائی کہ ملزم الیکٹورل بانڈ کے نام پرجبراً وصولی میں ملوث تھے۔ شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ وزیر خزانہ نے ای ڈی ، جو وزارت خزانہ کے تحت کام کرتی ہے اور آئینی عہدوں پر فائزکئی لوگوں کے ساتھ مل کر سازش رچی، جس کے تحت ایلومینیم اور کاپر کی بڑی کمپنیوں ویدانتا، سٹرلائٹ اور اوروبندو فارما پر الیکٹورل بانڈز کے ذریعے 8000 کروڑ روپے سے زیادہ کی وصولی کے لیے چھاپے مارے گئے۔
انہوں نے مزید الزام لگایا کہ نرملا سیتارامن نے ای ڈی حکام کی خفیہ مدد سے ریاستی اور قومی فورمز پر مختلف افراد کے فائدے کے لیے بھاری رقم کی ہیرا پھیری کی۔ انہوں نے کہا کہ جبراً وصولی کی یہ پوری اسکیم کئی سطحوں پر بی جے پی عہدیداروں کی ملی بھگت سے چلائی گئی تھی۔
جج نے کہا، ‘لہذا اس معاملے میں اگر شکایت کنندہ تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 384 کے تحت الزام لگانا چاہتا ہے، تو اسے آئی پی سی کی دفعہ 383 کے تحت متاثرہ فریق ہونا چاہیے، جو وہ نہیں ہے۔’
آئی پی سی کی دفعہ 383 جبراً وصولی کے جرم کی وضاحت کرتی ہے جبکہ دفعہ 384 اس کے لیے سزا کا تعین کرتی ہے۔
جسٹس ناگاپرسنا کے مطابق، ائیر کی جانب سے پیش ہوئے پرشانت بھوشن نے کہا کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) – جو اس معاملے میں ملزمین میں سے ایک ہے – کے ڈر سے کوئی بھی شخص شکایت کرنے کے لیے کبھی آگے نہیں آئے گا اور اس لیے اس معاملے میں تفتیش کی اجازت دی جانی چاہیے۔
لیکن جسٹس ناگاپرسنا نے کہا، ‘(بھوشن کی) دلیل کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ جرم آئی پی سی کی دفعہ 384 کے تحت آتا ہے، تواس کو یقینی طور پر متاثرہ فریق ہونا چاہیے جس نے ملزم کے ہاتھوں جبراً وصولی کا سامنا کیا ہو۔ یہ شکایت کنندہ کا معاملہ نہیں ہے۔’
شنوائی کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ ‘اس معاملے میں پہلی نظر میں آئی پی سی کی دفعہ 383 کے عناصر موجود نہیں ہیں، جس سے کہ یہ آئی پی سی کی دفعہ 384 کے تحت جرم بن سکے۔’
انہوں نے کہا، ‘اس لیے مذکورہ جرم کی مزید تفتیش کی اجازت دینا بنیادی طور پر قانون کے عمل کا غلط استعمال ہوگا۔ اس لیے کیس کی مزید تفتیش آئندہ سماعت تک ملتوی کی جاتی ہے۔’
معلوم ہو کہ سنیچر کو بنگلورو پولیس نے شہر کی ایک خصوصی عدالت کی ہدایت پر اس معاملے میں
ایف آئی آر درج کی تھی ۔ 27 ستمبر کو بنگلورو کی ایک
عدالت نے این جی او جنادھیکار سنگھرش پریشد کی طرف سے دائر ایک درخواست پر مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دی تھی، جس میں ان پر اب بند ہو چکے الیکٹورل بانڈ کے ذریعے جبراً وصولی میں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔
اس معاملے میں ملوث افراد میں کرناٹک بی جے پی کے صدر بی وائی وجیندر اور پارٹی لیڈر نلن کمار کٹیل کے علاوہ بی جے پی کے سرکردہ لیڈران اور ای ڈی کے اہلکار شامل ہیں۔