کرناٹک میں دائیں بازو کے کئی گروپوں نے حلال گوشت کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔ ‘اوگادی’ کے بعد ریاست کی مختلف کمیونٹی نان ویجیٹیرین کھانے کا اہتمام کرتی ہیں۔ اوگادی کو ہندو نیا سال ماناجاتا ہے اور اس کے اگلے دن گوشت چڑھانے کی روایت ہے۔ لیکن، سوشل میڈیا پر کچھ دائیں بازو کی تنظیمیں حلال گوشت نہ خریدنے کی اپیل کر رہی ہیں۔ بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی نے تو حلال گوشت کو ‘اقتصادی جہاد’ بھی قرار دیا ہے۔
چیف منسٹر بسواراج بومئی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی نے بدھ کو کہا کہ ریاستی حکومت حلال گوشت پر لوگوں کے ‘گمبھیراعتراضات’ پر غور کرے گی۔ کچھ دائیں بازو کے گروپوں نے اس طرح کے گوشت کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جہاں تک ان کی حکومت کا تعلق ہے تو اس میں صرف ترقیاتی کاموں کو فروغ دیا گیا ہے اور کوئی دائیں بازو یا بائیں بازو نہیں ہے۔
حلال کے معاملے پر حکومت کے موقف پر ایک سوال کے جواب میں، بومئی نے کہا، یہ (حلال معاملہ) ابھی ابھی شروع ہوا ہے۔ ہمیں اس کا اچھی طرح سے مطالعہ کرنا ہوگا، کیونکہ اس کا اصولوں سے کوئی لینادینا نہیں ہے۔ یہ ایک روایت ہے جو جاری ہے۔ اب اس حوالے سے شدید اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ ہم انہیں دیکھیں گے۔
ہندو تنظیموں کی جانب سے حلال گوشت کے بائیکاٹ کی مہم چلانے کے سوال پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت اس معاملے پر اپنا موقف بعد میں بتائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ کس بات پر ردعمل ظاہر کرنا ہے اور کس پر نہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگر ضرورت پیش نہ آئی تو حکومت کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرے گی۔
‘ورشادوداکو’ کے پہلے بہت سے دائیں بازو کے گروپوں نے حلال گوشت کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔ ‘اوگادی’ کے بعد ریاست کی مختلف کمیونٹی اس دن نان ویجیٹیرین کھانے کا اہتمام کرتی ہیں۔
این بی ٹی کی خبر کے مطابق، اوگادی کو ہندو نئے سال کے طور پر مانا جاتا ہے، اس کے اگلے دن گوشت چڑھانے کی روایت ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر، کچھ دائیں بازو کی تنظیمیں حلال گوشت نہ خریدنے کی اپیل کر رہی ہیں۔ اس میں اوگادی تہوار یعنی ہندو نئے سال پر حلال گوشت کا استعمال نہ کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ اوگادی کے اگلے دن ہندو برادری میں دیوتا کو گوشت چڑھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد گوشت کے پکوان بنائے جاتے ہیں اور نیا سال منایا جاتا ہے۔
وہیں،
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جب وزیر اعلیٰ بومئی سے پوچھا گیا کہ کیا اس معاملے کی وجہ سے تنازعہ یا بدامنی کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے، تو وزیر اعلیٰ نے کہا، ان تمام واقعات کے بعد بھی امن و امان ریاست میں برقرار ہے۔مختلف تنظیمیں اپنی اپنی مہم چلا رہی ہیں، ہم جانتے ہیں کہ کس پر رد عمل دینا ہے اور کس پر نہیں۔ جہاں ضرورت ہو گی ہم جواب دیں گے۔ جب ضرورت نہیں ہوتی تو ہم (رد عمل) نہیں دیتے۔
دریں اثنا، جے ڈی (ایس) لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمارسوامی نے اس معاملے پر حکومت کی خاموشی پر سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں اس سے پہلے کبھی کسی مذہب کے درمیان اس طرح کا بٹوارہ نہیں ہوا تھا، پہلے ایک خوشگوار رشتہ ہوا کرتا تھا۔
انہوں نے کہا، دیہی علاقوں میں جو لوگ گوشت کھاتے ہیں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ حلال گوشت ہے یا نہیں۔ اتنے سالوں سے یہ کوئی ایشو نہیں تھا اور اب کیوں اٹھ کھڑا ہوا ہے؟
دریں اثنا، مختلف مذہبی رہنماؤں نے بدھ کے روز اُڈوپی میں پیجاور مٹھ کے سنت سے ملاقات کی اور ان سے اس صورتحال پر غور کرنے کو کہا جہاں مسلم تاجروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بتا دیں کہ اس سے قبل بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی نے منگل کو حلال فوڈ کو ‘اقتصادی جہاد’ قرار دیا تھا۔
روی نے کہا تھا، ‘حلال ایک معاشی جہاد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے جہاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان دوسروں کے ساتھ تجارت نہ کر سکیں۔ یہ نافذ ہو چکا ہے۔ جب وہ سمجھتے ہیں کہ حلال گوشت کااستعمال کرنا چاہیے تو یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ اسے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا تھا کہ حلال گوشت ان کے خدا کو چڑھایا جاتا ہے، اس لیے انہیں (مسلمان) پسند ہوتا ہے، لیکن ہندوؤں کے لیے یہ کسی کا بچا ہوا (جوٹھا) ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حلال کو ایک منظم طریقے سے تیار کیا گیا ہے تاکہ اسے صرف مسلمانوں سے خریدا جائے دوسروں سے نہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)