گزشتہ کئی سالوں میں میڈیا کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں یہ تاثرپیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ مودی-شاہ کی جوڑی ایک ایسی ناقابل تسخیر انتخابی مشین ہے، جسے کوئی بھی پارٹی شکست نہیں دے سکتی، لیکن ہماچل پردیش اور کرناٹک کے لوگوں نے ثابت کر دیا کہ جمہوریت میں کسی ایک شخص کا چہرہ نہیں ،عام لوگوں کامفاد سب سے اوپر ہوتاہے۔
نریندر مودی اور امت شاہ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
کرناٹک کے لوگوں نے کانگریس کو تاریخی مینڈیٹ دےکر پورے ملک کو ایک پیغام دیا ہے۔ یہ پیغام گزشتہ 9 سالوں میں میڈیا کے ذریعے بنائے گئے تصورات کے برعکس ہے۔ ان سالوں میں غیر اعلانیہ دباؤ میں کام کر رہے میڈیا کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں بعض غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہیں۔
وہ غلط فہمیاں یہ ہیں کہ مودی-شاہ کی جوڑی نے ایک انوکھی الیکشن مشین ایجاد کی ہے، جسے شکست دینا ناممکن ہے۔ اپوزیشن ختم ہو چکا ہے۔ نریندر مودی بےحدکرشمائی شخصیت کے مالک ہیں اور لوگ صرف ان کے چہرے پر ہی بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں۔ بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کی کوئی کاٹ کسی پارٹی کے پاس نہیں ہے۔ آئیے کرناٹک انتخابات کی روشنی میں ان غلط فہمیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
عوام کے لیے اس کا مفاد ہی سب سےاوپرہے
پہلے ہماچل پردیش اور پھر کرناٹک میں کانگریس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے عام لوگوں کے مسائل پر جارحانہ انداز میں آگے بڑھ کر بی جے پی کو شکست دی۔
اس کے بعدکرناٹک انتخابات میں عوام نے واضح طورپر یہ پیغام دیا کہ عوام کے حقیقی مسائل ہی انتخابی مسائل ہونے چاہیے۔ دیہی، غریب، مزدور، کسان، دلت، پسماندہ، آدی واسی، خواتین اور نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے مسائل، بڑھتی ہوئی مہنگائی، ریکارڈ بے روزگاری اور معاشی بحران ملک کے حقیقی مسائل ہیں اورانتخابات کو ان مسائل کے حل پرہی مرکوز ہونا چاہیے۔
کرناٹک میں بی جے پی اور کانگریس آمنے سامنے تھیں۔ بی جے پی نے مذہبی، جذباتی اور اشتعال انگیز مسائل کو ہوا دے کر الیکشن کو گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن کانگریس نے اپنی توجہ لوگوں کی پریشانی اور عوام کے حقیقی مسائل پر مرکوزکی۔ ریاست کے ہر طبقے کے مسائل کی نشاندہی کی گئی، ان کے درست حل کی ضمانت عوام کے سامنے پیش کی گئی اور عوام نے ان پر اعتماد کیا۔
ہماچل پردیش میں جیت حاصل کرنےکے بعد کانگریس نے کرناٹک میں بھی طے کیا تھا کہ پارٹی سماجی، اقتصادی اور جمہوری ایجنڈے پر الیکشن لڑے گی۔
کانگریس مہنگائی کی وجہ سے بڑھتے ہوئے معاشی مسائل، کسانوں کی کم آمدنی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، دلتوں اور پسماندہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی سماجی ناانصافی، خواتین کو بااختیار بنانے، مختلف اقتصادی گروپوں کو مضبوط کرنے جیسے ایشوز کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری۔
بی جے پی کی بھرپور کوششوں کے باوجود کانگریس نے اپنی انتخابی مہم کو بھٹکنے نہیں دیا، بلکہ بی جے پی کی گمراہ کن پولرائزنگ سیاست کو براہ راست چیلنج کیا۔ عوام نے کانگریس کے جمہوری ایجنڈے پر یقین کیا اور اپنے روشن مستقبل کے لیے ترقی اور عوامی مفاد کی سیاست پر مہر ثبت کی۔
‘ناقابل تسخیر الیکشن مشین’ ایک غبارہ
میڈیا اور آئی ٹی سیل کی مشینری نے مل کر نریندر مودی کے نام کا غبارہ پھُلایا کہ وہ ایک بے حد کرشمائی شخصیت کے حامل ناقابل تسخیر لیڈرہیں۔ کرناٹک کے لوگوں نے جھوٹ کے اس غبارے کی بھی ہوا نکال دی۔
اگر آپ کو ہماچل پردیش کا الیکشن یاد ہے تو نریندر مودی نے اپنے عہدے کے وقار کو طاق پر رکھتے ہوئے عوام سے اپیل کی تھی کہ اپنے امیدواروں کو بھول جائیے اور دہلی میں بیٹھے ‘آپ کے بیٹے’ کو ووٹ دیجیے۔ ہماچل کے لوگوں نے اس اپیل کو مسترد کرتے ہوئے بی جے پی کو اقتدار سے باہر کر دیا۔
کرناٹک میں بھی اسی کو بھرپور طریقے سے دہرایا گیا۔ کرناٹک کی مقامی بی جے پی قیادت کہیں نظر نہیں آئی۔ وزیر اعظم اپنی مرکزی کابینہ اور پوری سرکاری مشینری کے ساتھ ایک ریاستی الیکشن لڑ رہے تھے۔ ان کا چہرہ ہی بی جے پی کا چہرہ تھا۔ وزیراعظم اپنی ہر تقریر میں صرف اپنے بارے میں بات کرتے تھے۔ کانگریس قیادت نے اسے براہ راست چیلنج کیا اور عوام سے اپنے مسائل پر ووٹ دینے کی اپیل کی۔ اور لوگوں نے کسی شخص کے بجائے اپنی جیت کا انتخاب کیا۔
کرناٹک میں 65 فیصد مراکز پر کراری شکست کے بعد یہ متھ بھی ٹوٹ گیا کہ بی جے پی کے بوتھ مینجمنٹ کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ بی جے پی کی تنظیم مضبوط ہے، لیکن یہ بات مبالغہ آرائی کے ساتھ مشتہر کی جاتی ہے۔ کرناٹک میں بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کی گئی۔
ایگزٹ پول کے نتائج کے ساتھ ہی بی جے پی لیڈر بی ایل سنتوش نے دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی 31000 بوتھوں پر لیڈکرے گی۔ تاہم نتیجہ بالکل برعکس نکلا۔ کرناٹک کے لوگوں نے ثابت کر دیا ہے کہ بی جے پی کی نام نہاد ناقابل تسخیر الیکشن مشین کو آسانی سے شکست دی جا سکتی ہے۔
عوام نے مذہب کے غلط استعمال کو بھی مسترد کر دیا
پچھلے کئی سالوں سے بی جے پی ہر الیکشن میں مذہبی پولرائزیشن کو اپنا ہتھیار بنانے کی کوشش کرتی ہے، کئی بار اسے کامیابی بھی ملی۔ جس کی وجہ سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ بی جے پی مذہب اور عقیدے کا نامناسب استعمال کرکے ہر حال میں الیکشن جیت سکتی ہے۔
بی جے پی نے کرناٹک میں کھل کر فرقہ وارانہ کارڈ کھیلا۔ وزیر اعظم نے خود اسٹیج سے فرقہ وارانہ اپیل کی اور بجرنگ بلی کے نام پر ووٹ مانگے۔
یہ بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کی انتہاتھی، جب ملک کے وزیر اعظم نے بھی تمام حدیں پار کر دیں، لیکن لوگ سمجھ گئے کہ یہ ایک ناکام لیڈر اور تفرقہ انگیز سیاست کی بے شرم چال ہے۔
مٹھوں، مندروں اور مضبوط مذہبی روایات والے کرناٹک کے عقیدت مند لوگوں نے مذہب کے چالاک استعمال کو مسترد کر دیا اور اپنے بہتر مستقبل کے لیے ایک مثبت راہ کا انتخاب کیا۔
سماج کے ہر طبقے کو کانگریس سے امید
ہر انتخابی نتیجے کے بعد تجزیہ کار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کس پارٹی کو کس طبقے، ذات اور مذہب سے کتنے ووٹ ملے ۔ کرناٹک نے اس تھیوری کو مسترد کردیا۔
نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئےہمیں پتہ چلتا ہے کہ کرناٹک کےکسان، غریب، مزدور، دلت، او بی سی، مسلمان، خواتین، بے روزگار اور کم و بیش ہر طبقہ کے لوگوں نے کانگریس پر بھروسہ کیا۔
کرناٹک کا نتیجہ کسی ذات، طبقے یا مذہب کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ مہنگائی، بے روزگاری اور حکومت کے ساتھ کارپوریٹ کے گٹھ جوڑ کے خلاف غریبی کی اکثریت ہے۔ یہی وہ اصل طاقت ہے جو سرمایہ داروں کی کرپٹ طاقت کے ساتھ پروان چڑھتی کرپٹ سیاست کو روک سکتی ہے۔
کرناٹک کے نتائج کے بعد کانگریس قیادت نے جو پیغام دیا ہے وہ بہت اہم ہے۔
کانگریس کے صدر ملیکارجن کھڑگے نے کہا، کرناٹک کے لوگوں نے اپنے ترقی پسند مستقبل، عوامی بہبود اور سماجی انصاف کے لیے ووٹ دیا ہے۔
دوسری طرف سابق صدر راہل گاندھی نے کہا، کرناٹک انتخابات میں ایک طرف کرونی سرمایہ داروں کی طاقت تھی، دوسری طرف عوام کی طاقت تھی۔ غریبوں کی طاقت نے بی جے پی کے سرمایہ دار دوستوں کی طاقت کو شکست دی ہے۔
کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے کہا، کرناٹک کے لوگوں نے دکھایا ہے کہ وہ ایسی سیاست چاہتے ہیں، جہاں ان کے مسائل پر بات کی جائے۔ پہلے ہماچل پردیش اور اب کرناٹک نے ثابت کر دیا ہے کہ گمراہ کن سیاست اب نہیں چلے گی۔
کانگریس پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے یہ پیغامات مستقبل کی سیاست کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ سامنے کیسی بھی طاقت ہو، کانگریس مستقبل میں بھی عوامی مفاد کے لیے مثبت سیاست کرے گی، کیونکہ کانگریس کا مقصد صرف انتخابات میں جیت حاصل کرنا نہیں ہے۔
بڑھتے ہوئے معاشی بحران، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، اثاثوں اور وسائل کے بڑھتے ہوئے ارتکاز (سینٹرلائزیشن)کے درمیان آج سماجی و اقتصادی انصاف کے ایک نئے پروگرام کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مساوات اور مواقع کی برابری کے اصول کو بھرپور طریقے سے نافذ کیا جا سکے۔
کانگریس سمیت تمام اپوزیشن پارٹیاں اس سمت میں اتفاق رائے کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔ ہماری جمہوریت کی سیکولر اور جامعیت کو برقرار رکھتے ہوئے نئی صدی کے لوگوں کے عزائم کو وسعت دینے کا کام ترجیحی بنیادوں پر کیا جانا چاہیے اور کانگریس کی قیادت میں ملک کی اپوزیشن اس سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔
( سندیپ سنگھ جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر ہیں اور کانگریس سے وابستہ ہیں۔)