دہلی فسادات: پولیس نے کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ان کا کوئی رول نہیں ہے

07:19 PM Mar 06, 2025 | دی وائر اسٹاف

دہلی کے یمنا وہار کے رہنے والے محمد الیاس نے دہلی فسادات کے سلسلے میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا اور دیگر چھ افراد کے کردار کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے دسمبر 2024 میں عدالت سے رجوع کیا تھا۔ دہلی پولیس نے اس کی مخالفت کی ہے۔

موج پور لال بتی کے قریب ڈی سی پی(نارتھ-ایسٹ)وید پرکاش سوریہ کےساتھ بی جے پی رہنما کپل مشرا(فوٹو : ویڈیو اسکرین گریب/ٹوئٹر)

نئی دہلی: دہلی پولیس نے بدھ (5 مارچ) کو 2020 کے دہلی فسادات میں مبینہ کردار کے لیےبھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور موجودہ ایم ایل اے کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر کا مطالبہ کرنے والی عرضی کی مخالفت کی۔

رپورٹ کے مطابق ، یمنا وہار کے محمد الیاس کی طرف سے دائر درخواست کا جواب دیتے ہوئےپولیس نے کہا کہ فرقہ وارانہ تشدد میں مشرا کے مبینہ کردار کی پہلے ہی جانچ کی جا چکی ہے اور کچھ بھی  قابل اعتراض نہیں پایا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ الیاس نے دسمبر 2024 میں دہلی فسادات کے سلسلے میں کپل مشرا اور چھ دیگر کے کردار کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ اس دنگے میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

اس کیس کی سماعت ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ ویبھو چورسیا کی عدالت  میں کی گئی۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق،اس  درخواست میں فسادات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے لیے کپل مشرا کے ساتھ ہی مصطفیٰ آباد کے ایم ایل اے اور ڈپٹی اسپیکر موہن سنگھ بشٹ، اس وقت کے ڈی سی پی (نارتھ ایسٹ)، دیال پور تھانے کے اس وقت کے ایس ایچ او اور سابق بی جے پی ایم ایل اے جگدیش پردھان کو نامزد کیا گیا ہے۔

الیاس نے دعویٰ کیا ہے کہ 23 فروری 2020 کو اس نے مشرا اور دیگر کو کردم پوری میں ایک سڑک کو بلاک کرتے اور سڑک پر ٹھیلوں کو تباہ کرتے ہوئے  دیکھا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ سابق (نارتھ ایسٹ) ڈی سی پی اور کچھ دیگر افسران مشرا کے ساتھ کھڑے تھے، جب انہوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں کو دھمکی دی تھی۔

الیاس نے اپنی درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا  ہےکہ انہوں نے دیال پور کے سابق ایس ایچ او اور دیگر کو شمال -مشرقی دہلی میں مساجد میں توڑ پھوڑ کرتے دیکھا تھا۔

معلوم ہو کہ عدالت اس درخواست پر اپنا فیصلہ 24 مارچ کو اگلی سماعت میں سنائے گی۔

دہلی فسادات کیس اور مشرا کی اشتعال انگیز تقریر

غورطلب  ہے کہ 2020 کے دہلی فسادات کے سلسلے میں پولیس نے عمر خالد، گلفشاں  فاطمہ اور شرجیل امام سمیت کئی طلبہ رہنماؤں اور کارکنوں کو فسادات کی  سازش کرنے والوں کے طور پر نامزد کیا ہے۔

تاہم، اس معاملے میں دہلی اقلیتی کمیشن کی طرف سے تشکیل دی گئی 10 رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے کہا تھا کہ دہلی میں تشدد ‘منصوبہ بند تھااور ہدف بنا کرکیا گیا’ تھا اور اس کے لیےکمیٹی  نے کپل مشرا کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ 23 فروری 2020 کو موج پور میں کپل مشرا کی مختصر تقریر کے فوراً بعد مختلف علاقوں میں تشدد پھوٹ پڑا، جس میں انہوں نےکھلے طور پر شمال -مشرقی دہلی کے جعفرآباد میں مظاہرین کو زبردستی ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے باوجود ان  کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔

اس میں کہا گیاتھا کہ مشرا نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اور ان کے حامی اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیں گے، ‘اگر تین دن کے بعد سڑکیں خالی نہیں کی گئیں تو ہم پولیس کی بات نہیں سنیں گے…’

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ دہلی فسادات کیس کی تحقیقات امتیازی تھی۔ زیادہ تر معاملات میں پولیس نے  پہلے مسلم ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی ہے۔

کمیٹی نے کہا کہ پولیس کی بات ‘نہ سننے’ کا کھلا اعتراف اور ماورائے قانونی حربوں کو وہاں موجود افسران کے تشدد پر اکسانے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے تھا۔ لیکن ڈی سی پی وید پرکاش سوریا کے ساتھ کھڑہونے کے باوجود پولیس کے مشرا کو گرفتار نہیں کرنے پرکمیٹی نے کہا کہ وہ تشدد کو روکنے اور جان و مال کی حفاظت کے لیے ضروری پہلا اور فوری حفاظتی قدم اٹھانے میں ناکام رہے۔

واضح ہو کہ کپل مشرا اب بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی دہلی حکومت میں قانون اور انصاف کے وزیر ہیں۔

بتادیں کہ دہلی میں دنگا بھڑکنے سے ایک دن پہلے 23 فروری کو کپل مشرا نے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا تھا، جس میں وہ موج پور ٹریفک سگنل کے پاس سی اے اےکی حمایت میں جمع ہوئی بھیڑ کوخطاب کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس دوران ان کے ساتھ شمال مشرقی دہلی کے ڈی ایس پی ویدپرکاش سوریہ بھی کھڑے ہیں۔

مشراکہتے ہیں،‘وہ(مظاہرین)دہلی میں کشیدگی پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے انہوں نے سڑکیں بند کر دی ہیں۔ اس لیے انہوں نے یہاں فسادات  جیسے حالات پیدا کر دیے ہیں۔ ہم نے کوئی پتھراؤ نہیں کیا۔ ہمارے سامنے ڈی ایس پی کھڑے ہیں اور آپ کی طرف سے میں ان کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان  میں رہنے تک ہم علاقے کو پرامن چھوڑ رہے ہیں۔ اگر تب تک سڑکیں خالی نہیں ہوئیں تو ہم آپ کی(پولیس)بھی نہیں سنیں گے۔ ہمیں سڑکوں پر اترنا پڑےگا۔’

اس سے پہلے دہلی کی ایک عدالت نے ان دو درخواستوں پر پولیس سے جواب طلب کیا تھا، جس میں شمال -مشرقی دہلی فسادات کے سلسلے میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی مانگ کی گئی تھی۔

شمال- مشرقی دہلی کے رہنے والے دو شکایت کنندگان نے کڑکڑڈوما کورٹ میں عرضی دائر کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کے خلاف ان کے علاقے کے امن اور ہم آہنگی کو خراب کرنے اور فسادات بھڑکانے میں مدد کرنے کے لیے ایف آئی آر درج کی جائے۔

اسی معاملے میں دہلی کی ایک عدالت نے و سماجی کارکن ہرش مندر کی شکایت پر بھی دہلی پولیس کوایکشن رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس درخواست میں کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی بھی درخواست کی گئی تھی۔

وہیں، ستمبر 2020 میں دہلی پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں کہا تھا کہ جولائی کے آخری ہفتے میں دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے شمال -مشرقی دہلی میں فسادات کے سلسلے میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا سے  پوچھ گچھ کی تھی ۔ پوچھ گچھ کے دوران انہوں نے دعویٰ کیا تھاکہ وہ اس علاقے میں معاملے کو حل کرنے کے لیے گئے  تھے۔

مشرا نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے وہاں تقریر نہیں کی تھی  اور ایک ڈی سی پی کے ساتھ کھڑے ہوکر انہوں نے جو کچھ کہا اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ وہ سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف دھرنا شروع کریں گے۔