ہری دوار کی سمت جانے والے سہارنپور، مظفر نگر اور بجنور کے راستوں پر ہزاروں ڈھابے ہیں۔ جن ڈھابوں کے مالک مسلمان ہیں وہاں تمام ملازم ہندو ہیں اور جن ڈھابوں کے مالک ہندو ہیں وہاں تمام ملازم مسلمان ہیں۔ اس طرح لاکھوں لوگ اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ آج ان تمام ڈھابوں کے مالک تناؤ سے گزر رہے ہیں۔
مظفر نگر کے میراپور تھانہ حلقہ میں مقامی دکان مالکان کے ساتھ میٹنگ کرتے ہوئے پولیس اہلکار۔ (تمام تصویریں: آس محمد)
مظفر نگر: دہلی سے 110 کلومیٹر دور مظفر نگر ضلع کے میراپور سے ہری دوار جانے والی دلی-پوڑی شاہراہ پر لکی شدھ بھوجنالیہ کے سامنے 46 سالہ اروند شرما ایک ڈھابہ مالک گلشاد سےکانوڑ یاترا کے دوران 10 سے 12 دن تک ڈھابہ بند رہنے کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ اروند شرما سیلز مین ہیں۔ وہ ان ڈھابوں کو اشیائے خوردونوش سپلائی کرتے ہیں۔ اروند بتاتے ہیں کہ ان کے 6 ڈھابہ مالک گراہک مسلمان ہیں۔ ان کے ڈھابہ بند رہنے سے ان کے کاروبار پر اثر پڑے گا۔ نان ویجیٹیرین ڈھابے بند رہتے ہیں تو یہ سمجھ میں آتا ہے، لیکن ویج ڈھابوں پر یہ فیصلہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہاں تو سب مل جل کر رہتے ہیں۔
اروند شرما کہتےہیں’مسلمانوں کا ڈھابہ بند کروانے سےکیا فائدہ ہے؟ جو گوشت بیچ رہے ہیں ان کی دکانیں بند کراناٹھیک ہے۔ لیکن جو دال، روٹی، نمکین اور کولڈ ڈرنکس بیچ رہے ہیں ،ان کی دکانیں کیوں بند کروا رہے ہیں؟ یہ تو غلط بات ہے۔’
شرما کا مزید کہنا ہے کہ ‘مسلمان ہوتےہوئے انھوں نے ہندوؤں کا نام رکھ لیا، چلو اس میں ان کی غلطی ہے، انھیں اپنا نام ہی رکھنا چاہیے۔ ان کو مسلم نام لکھنا چاہیے اور اس کے آگے ’شدھ شاکاہاری‘ لکھنا چاہیے۔ پھر تو کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے۔‘
اس وقت اتر پردیش کے مظفر نگر میں ڈھابوں کے نام بدلے جانے کو لے کر کافی چرچہ ہے۔ بتادیں کہ کانوڑ یاترا کے دوران مظفر نگر کی سڑکوں سےتمام کانوڑیے گزرتے ہیں۔
ڈھابوں کا حال
ڈھابوں میں پژمردگی چھائی ہوئی ہے۔ لکی شدھ بھوجنالیہ ڈھابے کے مالک گلشاد خان کہتے ہیں’ان کے 18 ملازمین میں سے 17 ہندو ہیں۔ اس کے علاوہ دودھ والا، چپس والا سیلز مین، راشن والا دکاندار اور سبزی والا سب ہندو ہیں۔ ڈھابہ بند رہنے کی صورت میں یہ متاثر ہوں گے۔ نام بدلنے سے گاہک نہیں آئیں گے!اس سے سماج میں بٹوارہ ہو رہا ہے۔‘
لکی شدھ بھوجنالیہ اور اس کے مالک گلشاد خان۔
کانوڑ روٹ پر ڈھابوں کے نام بدلنے کی کہانی صرف مظفر نگر تک محدود نہیں ہے بلکہ ہری دوار تک جانے والی ہر سڑک کی یہی کہانی ہے۔ سہارنپور، شاملی، مظفر نگر کے علاوہ دلی پوڑی نیشنل ہائی وے بھی اس کی زد میں ہے۔ سینکڑوں ڈھابہ چلانے والے اور ہزاروں خاندان کےاس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ریستوراں کے مالک، شدت پسند ہندو تنظیموں سے جڑے کچھ لیڈر اور اس پورے معاملے کے ماسٹر مائنڈ بگھرا کے ایک آشرم کے یشویر مہاراج اور ان کے کچھ چیلوں کے علاوہ کوئی بھی اس کارروائی سے خوش نہیں ہے۔
غورطلب ہے کہ ایسا صرف تین سالوں سے ہو رہا ہے، جبکہ اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت سات سال سے برسراقتدار ہے۔ اس بار جتنی تیزی کا مظاہرہ کیاگیا ہے اتناپہلےکبھی نہیں کیا گیا۔ ایسے میں ایک بات جو سمجھ میں آتی ہے کہ حالیہ انتخابات میں اس علاقے میں ہونے والی شکست کا غصہ اس کی وجہ ہے۔
اس کی بنیاد کیسے رکھی گئی؟
مظفر نگر ضلع میں شاملی روڈ پر یشویر مہاراج نامی شخص کا آشرم ہے۔ یشویر مہاراج ہندوتوا دی امیج رکھتے ہیں۔ کورونا کے دور کے بعد جب کانوڑ یاترا دوبارہ شروع ہوئی تو یشویر مہاراج نے مظفر نگر پولیس کو 50 سے زائد ڈھابوں کی فہرست پیش کی، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ شدھ شاکاہاری کا بورڈ لگائے ان ہندو ناموں والے ڈھابوں کے مالکان اصل میں مسلمان ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ کانوڑ یاترا کے دوران کانوڑیوں کو دھوکہ ہوتا ہے۔ کانوڑ یاترا کے دوران ان ڈھابوں کو بند کر دینا چاہیے یا پھر انہیں اپنے ڈھابوں پر اپنی پہچان لکھ دینی چاہیے، کیونکہ یہاں کا کھانا کھانے سے کانوڑیوں کا ’دھرم بھرشٹ‘ ہو جاتا ہے۔
پولیس نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس سے یشویر مہاراج ناراض ہوگئے اور انہوں نے مظفر نگر میں دھرنا دیا۔ جارحانہ تقریریں کی جانے لگیں۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بگڑنے کے خوف کے درمیان یہ بحث لکھنؤ تک پہنچ گئی۔ 2022 میں ایسے تمام ڈھابوں کی تصدیق کی گئی تھی۔ ڈھابہ کے مالک اور وہاں کام کرنے والے ملازمین کی فہرست تیار کی گئی۔ 2023 میں بغیر کسی تحریری حکم کےتمام مسلم مالکان کے ڈھابوں کو بند کرا دیا گیا۔ اس بار اس سے بھی آگے بڑھ کر 230 کلومیٹر کانوڑ روٹ پرہر قسم کی دکانوں کو ان کی پہچان ظاہر کرنے کی ہدایات جاری کی جارہی ہیں۔ ہندو ڈھابہ مالکان سے کہا گیا ہے کہ وہ مسلمان ملازمین کو چھٹی دیں۔ مسلم ڈھابہ کے مالکان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مسلم نام رکھیں یا ڈھابہ بند رکھیں۔ مزید یہ کہ روزمرہ کی اشیاء فروخت کرنے والی دکانوں اورمیوہ فروشوں سے بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پہچان ظاہر کریں۔ اس پورے واقعہ نے اس علاقے کی سماجی ہم آہنگی کو بگاڑ دیا ہے۔ اسے مسلمانوں کے بائیکاٹ کی مہم قرار دیا جا رہا ہے۔
سماجی، معاشی اور ہم آہنگی کے لیے خطرناک ہے یہ مہم
گزشتہ چند سالوں میں مقامی انتظامیہ نے اس مسلم اکثریتی علاقے میں کانوڑ یاترا کو کامیاب بنانے کے لیے مسلمانوں کا تعاون لیا ہے۔
اس حوالے سےمظفر نگر کا میناکشی چوک کافی چرچے میں رہتا ہے۔دراصل پچھلے 10 سالوں سے اس میناکشی چوک پر کانوڑیوں کی خدمت کے لیے کیمپ لگائے جاتے ہیں۔ مظفر نگر کی کئی تنظیمیں مثلاً پیغامِ انسانیت، آواز حق اور سیکولر فرنٹ ہر سال اسی میناکشی چوک پر بھنڈارے کا اہتمام کرتی ہیں اور میڈیکل کیمپ لگا کر کانوڑیوں کی خدمت کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ شاملی، سہارنپور اور کھتولی میں بھی اسی طرح کے کیمپ لگائے جاتے ہیں جو صرف مسلمان چلاتے ہیں۔ سینکڑوں مسلم نوجوان سماجی کارکن، عوامی نمائندے اور رضاکار کے طور پر انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ مظفر نگر کے آصف راہی، دلشاد پہلوان، گوہر صدیقی، محبوب علی، ستار منصوری، عمر احمد ایڈوکیٹ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے یہ کام کر رہے ہیں۔
مظفر نگر کے میناکشی چوک میں پیغام انسانیت کی جانب سے کانوڑیوں کے لیے پچھلے سال لگائے گئے کیمپ میں بھنڈارہ۔
قدوائی نگر کے رہائشی عمر احمد ایڈوکیٹ کہتے ہیں، ‘یہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوششیں ہیں۔’ عمر بتاتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں سے کانواڑیوں کے پاؤں دباچکے ہیں۔ ان کی مرہم پٹی کی ہے۔ انہیں پھل اور کھانا کھلایا ہے۔ اب جو ماحول بنایا جا رہا ہے اس میں مسلمانوں کو ولن ثابت کیاجا رہا ہے۔ اب انہیں ڈر ہے کہ ایسی حالت میں اگر برقع یا ٹوپی پہن کر باہر نکل گئے تو کیا ہو گا۔ ‘اب تو صرف ایک حکم ہی رہ گیا ہے کہ جب تک کانوڑ یاترا ہو مسلمان گھر سے باہر نہ نکلیں۔’
مسلمان اور ہندو سماج کے درمیان ہے روزگار کا سنگم
ہری دوارجانے کے لیے سہارنپور، مظفر نگر اور بجنور اہم راستے ہیں۔ اس راستے پر ہزاروں ڈھابے ہیں۔ جن ڈھابوں کے مالک مسلمان ہیں وہاں تمام کارساز (ملازمین) ہندو ہیں اور جن ڈھابوں کے مالک ہندو ہیں وہاں تمام کارساز مسلمان ہیں۔ اس طرح لاکھوں لوگ اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ آج یہ تمام ڈھابہ چلانے والے تناؤ میں ہیں۔ مظفر نگر اور کھتولی میں کچھ ڈھابہ مالکان سے کہا گیا ہے کہ وہ مسلم ملازمین کو چھٹی دیں۔ ڈھابہ مالک اور ان کے ملازمین خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں کیونکہ ان کے ڈھابہ بند کرنے کافرمان آگیا ہے۔
دلی-پوڑی روڈ پر مظفر نگر ضلع کے میرا پور قصبے میں لکی شدھ بھوجنالیہ میں کام کرنے والے پون کمار کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 18 سالوں سے یہاں باورچی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہیں اپنے مذہب کی وجہ سے کبھی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پون کے چار بچے ہیں۔ پون ہر سال کانوڑ یاترا کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں کیونکہ اس میں زیادہ گاہک آتے ہیں۔
پون کہتے ہیں، ‘پہلے پولیس صرف ریٹ لسٹ لگانے کے لیے کہا کرتی تھی۔ میرے ڈھابے کا مالک مسلمان ہے اور مجھے ان کے ساتھ کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ میں 18 سال سے اسی ڈھابے پر کام کر رہا ہوں۔ ڈھابہ 15 دن بند رہے تو میری مالی حالت خراب ہو جائے گی۔ میرے بچے اچھے سکول میں پڑھ رہے ہیں۔‘وہ کہتےہیں کہ ہماری سال بھر کی امیدیں ان 15 دنوں پر ٹکی رہتی ہیں۔
لکی شدھ بھوجنالیہ میں کام کرنے والے پون کمار۔
پون کمار کا کہنا ہے کہ ڈھابوں پر نام لکھوانا غلط ہے۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندو سماج کے لوگ تلک لگا کر بیٹھیں؟ ’ہزاروں ہندو لوگ مسلمانوں کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ ان کی روٹی بھی چھین رہے ہیں، یہ کیسی پالیسی ہے؟ ہم محنت کرکے کماتے ہیں۔ بینک کا لون بھی چکانا ہے۔ کام بندہوگا تو پھر قرض لینا پڑے گا۔‘
’الیکشن ہارنے کے بعد زہر کا ڈوز بڑھا رہی ہے بی جے پی‘
اکثرتنازعہ میں رہنے والے جس یشویر مہاراج کی شکایت پر یہ کارروائی کی جا رہی ہے، وہ 2018 سے یہ مطالبہ کر رہے تھے۔ انہیں جون 2022 میں دھرنے پر بیٹھنا پڑا۔ برسوں پولیس انتظامیہ نے انہیں نظر انداز کیا تو پھر حالیہ دنوں میں ایسا کیا ہوگیا؟
لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس کے پس پردہ خالص سیاست ہے۔ سہارنپور ڈویژن سے بی جے پی کا صفایا ہو چکا ہے۔ سہارنپور، کیرانہ اور مظفر نگر لوک سبھا میں اب بی جے پی کا ایم پی نہیں ہے۔ ہری دوار سے ملحق منگلور اسمبلی سیٹ بھی کانگریس نے جیت لی ہے۔ میرٹھ میں بی جے پی ہارتے ہارتے بچی ہے۔ 2013 کے فسادات کے بعد بی جے پی کو جو آکسیجن مغربی اتر پردیش کے اس علاقے سے ملی تھی، وہ ختم ہوگئی ہے۔ مظفر نگر کے سینئر وکیل اور سماج وادی پارٹی کے لیڈر پرمود تیاگی کا کہنا ہے کہ ‘بھارتیہ جنتا پارٹی کو سماجی تانا بانا مضبوط ہوتے دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔یہ الیکشن ہار گئے، انہیں لگتا ہے کہ نفرت کے زہر کا اثر کچھ کم ہو گیا ہے۔ اس لیے ڈوزبڑھا رہے ہیں۔‘
ایک اور لیڈر راکیش شرما کا کہنا ہے کہ ‘میں ہندو ہوں۔ یہ غلط ہے۔ ہمارے معاشرے میں مسلمانوں کے تئیں ہمدردی پیدا ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں یہاں کے بڑے بڑے ریستوراں اور ڈھابہ مالکان نے یہ سازش رچی ہے تاکہ وہ زیادہ منافع کما سکیں۔ اس کے لیے انہوں نے مذہب کا سہارا لیا ہے۔‘
پولیس انتظامیہ نے کیا وضاحت پیش کی؟
مظفر نگر کے ایس ایس پی ابھیشیک سنگھ کہہ رہے ہیں کہ ایسا فیصلہ اس لیے لیا گیا ہے تاکہ امن و امان کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔ کانوڑیوں میں کوئی بھرم پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ کئی بار کھانے پینے کے معاملے میں کانوڑیوں کے ساتھ جھگڑے ہوتے ہیں، نام دیکھ کر بھی کانوڑیے کچھ خریدنے کے خواہش مند ہیں تو پولیس انتظامیہ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ نام لکھوانے کا یہ فیصلہ رضاکارانہ طور پر لیا گیا ہے۔
سہارنپور کے ڈی آئی جی نے بھی ایس ایس پی کی یہی بات دہرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی ترجیح کانوڑ یاترا کو محفوظ طریقے سے مکمل کرانا ہے۔
(آس محمد آزاد صحافی ہیں۔)