ایسی شاعری جس کی ہمہ وقت ضرورت محسوس ہو جس کی لذت، جس کا لطف کبھی کم نہ ہو جو ذہن کو مہمیز کرے۔ بہت معصوم، بہت پیاری ہوتی ہے جو شریانوں میں لہو کی طرح دوڑتی ہے، آنکھوں سے آنسو کی طرح ٹپکتی ہے۔ اکیلی رات میں چاند کا روپ دھار لیتی ہے۔ ایسی کیفیت کیفی اعظمی کی شاعری میں ہے جس کی ساحری میں، میں اب تک قید ہوں۔
بنارس کی بتان طناز کا سحر تو کب کا ٹوٹ گیا…مگر موہنی پیکر شاعری کی مورت اب بھی آنکھوں میں روشن ہے۔ اس شاعری نے میرے ساتھ بہت سے شہروں کا سفر کیا ہے اور کوئی بھی یاترا، اس کے بغیر مجھے نامکمل سی لگتی ہے۔ جب کوئی شاعری ذہنی سفر کا ایک لاینفک حصہ بن جائے تو وہ شاعری اندھیری راتوں میں چاند بن جاتی ہے۔ میں اور میری تنہائی اکثر ایسی شاعری کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔
وہ شاعری شاید میرے ثقافتی، سیاسی خلقیے سے الگ تھی، پھر بھی یہ میرے ساتھ رہی، کبھی اجنبی نہیں لگی۔ مجھے بہت ساری شاعری اجنبی سی لگتی ہے۔ مگر یہ شاعری دیوبند کے نودرے اور مولسری میں بھی میرے ساتھ رہی اور اس جناتی دارالتفسیر میں بھی جہاں بلاتخصیص ساعت ہر شے کھوجاتی ہے اور پھر وہی شاعری علی گڑھ میں میرس روڈ پر شام کے لمحوں میں مہکتی رہی اور پھر دلی کے فٹ پاتھوں پر میرے ساتھ بلکتی بھی رہی۔
ایسی شاعری جس کی ہمہ وقت ضرورت محسوس ہو جس کی لذت، جس کا لطف کبھی کم نہ ہو جو ذہن کو مہمیز کرے۔ بہت معصوم، بہت پیاری ہوتی ہے جو شریانوں میں لہو کی طرح دوڑتی ہے، آنکھوں سے آنسو کی طرح ٹپکتی ہے۔ اکیلی رات میں چاند کا روپ دھار لیتی ہے۔ ایسی کیفیت کیفی اعظمی کی شاعری میں ہے جس کی ساحری میں، میں اب تک قید ہوں۔
کیفی اعظمی کا تعلق اس انقلابی قافلے سے رہا ہے جس کی آنکھوں میں نئے انسان کے خواب، نئے عہد کی بشارتیں تھیں۔ یہ شاید وہی قافلہ تھا جس نے یوسف بے کارواں کو’غیابۃ الجب’سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔ ’ہیومنزم‘ کیفی اعظمی کا شعری شناس نامہ ہے۔ اس تمام انسانی سلسلے سے ان کا ذہنی و فکری رشتہ جڑا ہے جس کا مبدا حضرت آدم ہیں تو منتہا حضرت محمدؐ، صحابہ کرام اور اہل بیت ہیں۔
کیفی اعظمی کا سیاسی، معاشی جغرافیہ خواہ کچھ بھی رہا ہو مگر مساوات، ان کا ایسا شعری جغرافیہ اور فکری منطقہ ہے جس کی سیر کرکے دلوں میں درد کے انسانی چراغ جلنے لگتے ہیں۔ ’عورت‘ ان کی ایک ایسی نظم ہے جس کا فاعلی فکری عنصر صنفی مساوات سے عبارت ہے۔ یہ نظم ’آدھی دنیا‘ کے لیے صدائے جرس بھی ہے۔ کیفی صاحب قافلہ اناث کے لیے یوں حدی خواں ہیں:
اٹھ میری جان، میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
گوشے گوشے میں سلگتی ہے چتا تیرے لیے
فرض کا بھیس بدل لیتی ہے قضا تیرے لیے
قہر ہے تیری ہر ایک نرم ادا تیرے لیے
زہر ہی زہر دنیا کی ہوا تیرے لیے
رت بدل ڈال اگر پھولنا پھلنا ہے تجھے
تو فلاطون وارسطو ہے تو زہرہ پرویں —
تیرے قبضے میں ہے گردوں، تیری ٹھوکر میں زمیں
ہاں اٹھا، جلد اٹھا پائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں، وقت بھی رکنے کا نہیں
لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلنا ہے تجھے
اٹھ میری جاں! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
یہ ہے نظم کا انسانی خدوخال، انسانی سوچ کے سلک گہر میں گتھی ہوئی ایک نظم، جہاں حوا اور آدم کا کوئی امتیاز نہیں۔ کیفی اعظمی کی نظموں میں فکر کے روشن مینار ہیں۔ یہ نظمیں نہیں، دراصل ہمارا سیاسی، سماجی، تہذیبی منظرنامہ ہیں۔ ’چراغاں‘ کو ان کی فکری عظمت کا سدرۃ المنتہیٰ، انسانی فکر کی معراج کہوں تو شاید غلط نہ ہو۔ اس میں رجا اور امید کا بہت ہی تابناک ذہنی اور فکری استعارہ ہے۔ کیفی صاحب کے سارے خواب بھی اس امید کی روشن ردا سے لپٹے ہوئے ہیں۔ بجھتے چراغوں کی بھیڑ میں بھی ایک شمع جلتی رہتی ہے، آخر سحر تک اور وہ شمع، امید کہلاتی ہے;
ایک دو بھی نہیں چھبیس دیے/ ایک ایک کرکے جلائے میں نے/ ایک دیا نام کا یک جہتی کے/ روشنی اس کی جہاں تک پہنچی/ قوم کو لڑتے جھگڑتے دیکھا/ ماں کے آنچل میں ہیں جتنے پیوند/سب کو ایک ساتھ ادھڑتے دیکھا/ دور سے بیوی نے جھلا کے کہا/ تیل مہنگا بھی ہے، ملتا بھی نہیں / کیوں دیے اتنے جلا رکھے ہیں /اپنے گھر میں نہ جھروکہ نہ منڈیر/ طاق سپنوں کے سجا رکھے ہیں / آیا غصے کا ایک ایسا جھونکا/ بجھ گئے سارے دیے/ ہاں مگر ایک دیا نام ہے جس کا امید/ جھلملاتا ہی چلا جاتا ہے
کیفی اعظمی کی غزل اور نظم، دونوں میں جمال و جلال کا کیف آگیں امتزاج ملتا ہے۔ شعلہ افکار بھی ہے، نرمی اظہار بھی،ندی کی سبک خرامی بھی، دریا کی طغیانی بھی۔ کیفی صاحب، دراصل انسانی موسموں کے شاعر ہیں، جذبات و احساسات کے ڈھیر سارے رنگ ہیں ان کی شاعری میں ان کا حکائی لہجہ، ان کا انداز تخاطب کسی بزرگ برگد کے پیڑ جیسا لگتا ہے جس کی چھاؤں میں دیر تک قیام کرنے کو جی چاہتا ہے۔
ان کی شاعری، اس ندی کی طرح ہے جس میں زندگی کے سارے رمز مضمر ہیں اور جو ندی نروان عطا کرتی ہے۔
کیفی اعظمی کی شاعری، مردہ شہر اور زندہ گاؤں کی کہانیاں سناتی ہے۔ اس شہر کی کہانی جو شام ہوتے ہی مرجاتا ہے اور اس گاؤں کی حکایت، جو ہر لمحہ زندہ رہتا ہے۔
کیفی اعظمی، انسانی احساس کے شاعر ہیں۔ انہیں انسان کا غم ستاتا ہے، رُلاتا ہے۔ ان کی نظمیں، قصر و ایوان میں پھنکارتی ہیں اور فٹ پاتھ پہ نیند کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہیں تو کبھی محرومیوں کے مینار کھڑا کرتی ہیں تو کبھی حسرتوں کے کوہ البرز، ان کی نظمیں دراصل اس جگر سوختہ، انسان کی مانند ہیں جس کے بدن پہ ہزاروں زخم ہیں۔
تمام بدن پہ داغ ہیں، ایسا بدن جو درد سے کراہتا رہتا ہے۔ سارے جہاں کا درد، جس شاعری کے سینے میں محسوس ہوتا ہے، وہ شاعری کیفی اعظمی کی ہے… مگر اس درد، کے باوجود علوئے انسانیت، احترام آدمیت کے خواب روشن ہیں۔