کبیر کا بنیادی مقصد، آزادی، اخوت، اتحاد، مساوات اور ہر انسانی فرد کا ممکنہ ارتقا تھا۔
کبیر تکثیری سماج میں تہذیبی وحدت کی ایک روشن علامت تھے۔ انھوں نے تشخص کی ان علامتوں کوتوڑا جو ذات، رنگ، نسل، مذہب اور بھاشا نے اپنی بالادستی اور اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے وضع کی تھیں۔ وہ ہیومنزم اور انسان دوستی کے لوک کوی تھے۔ پریم لیلا جن کی پہچان تھی اور انسانی محبت جن کی شناخت۔
کبیر نے ان مذہبی رسومات کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا جو اپنے مفاد اور منفعت کے لیے مذہبی ٹھیکیداروں نے معاشرے میں رائج کر رکھا تھا۔ کبیر موحد تھے مگر ترک رسوم پر ان کا یقین تھا اس لیے مذہب کے تخلیقی ذہن پر نہیں بلکہ مذہب پرستوں کے میکانکی ذہن پر انھوں نے وار کیا،اور ہر اس تصور کی نفی کی جو تعصب، تفریق اور تشدد کو بڑھاوا دیتا ہے۔ انھوں نے انسان کو ذات، زبان، دھرم یا بھاشا سے نہیں بلکہ انسانیت سے پہچاننے کا درس دیا۔
کبیر کا بنیادی مقصد، آزادی، اخوت، اتحاد، مساوات اور ہر انسانی فرد کا ممکنہ ارتقا تھا۔ وہ Indoctrination سے آزاد اعلیٰ انسانی سماج اور تمام طبقات میں ایک جذباتی ہم آہنگی کے قائل تھے۔ انسانوں کی فلاح و بہبود پر ان کا یقین کامل تھا۔
کبیر نے نسلی اور نسبی برتری کے تصور کو بھی مسمار کیا اور اچھے اعمال اور اقدار کو افضلیت کا معیار قرار دیا۔ کبیر نے یہ بتایا کہ ہر انسان میں ایک ہی وجود کی خوشبو بسی ہوئی ہے اور ہر ایک کے باطن کا روحانی آہنگ ایک ہے اور یہ بھی کہ ہریجن سے محبت کے بغیر ہری سے عشق مکمل نہیں ہوسکتا۔
کبیر بین مذاہب ہم آہنگی (Interfaith Harmony) کے مبلغ تھے۔ انھوں نے تصوف اور بھکتی سے اپنا رشتہ جوڑ کر رواداری، محبت، اخوت اور یگانگت کا پیغام پہنچایا۔ اور مذہبی تصادم اور تہذیبی آویزش کو ختم کرنے کے لیے دوہوں اور کتھاؤں کے ذریعہ سماج سے سوالات بھی کیے۔
کبیر کا ہر کلام سماج کے لیے ایک استفہامیہ تھا۔ کبیر کے کلامیے میں جو نشتریت تھی وہ آج بھی کند نہیں ہوئی ہے۔ جس طرح کا معاشرہ کبیر کے عہد میں تھا، کم و بیش ہمارے آج کے معاشرے کی صورت حال ویسی ہی ہے۔ دانشوروں، مفکروں اور مدبروں نے بھی کچھ اسی نوع کے سوالات قائم کیے۔ مگر جو قوت استدلال کبیر کے یہاں ملتی ہے وہ ان دانشوروں کے یہاں نہیں ہے کیو ں کہ کبیر نے ’کاگد کی لیکھی‘ پر نہیں بلکہ ’آنکھن دیکھی‘ پر اعتبار کیا۔ ان کا انداز فکر علمیاتی نہیں وجودیاتی تھا۔ ویسے بھی کبیر اَن پڑھ تھے۔ خود انھوں نے کہا تھا؛
ودیا نہ پڑھوں واد نہیں جانوں
کبیر کا علم کتابی نہیں تجرباتی تھا۔ مگر انھوں نے حیات و کائنات کا مشاہدہ اس تیسری آنکھ سے کیا تھا جس سے ساری جہتیں اور طرفیں روشن ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ تیسری آنکھ ہے جو شیوجی کے پاس تھی۔ عرفان و وجدان کی آنکھ جو ایک اعلیٰ شعور کی علامت ہے۔
ایک چشم دانش جس سے سارے حقائق عیاں ہو جاتے ہیں۔ یہی تیسری آنکھ ہے جس نے کبیر کو اَن پڑھ ہونے کے باوجود اعلیٰ شعور عطا کیا اور اسی کی وجہ سے انھوں نے وہ ساری کائناتی حقیقتیں دیکھ لیں جن میں بہت سی دانشورانہ آنکھیں صدیوں تک الجھی رہیں۔ قدرت نے کبیر کو ’آتم درشٹ‘ عطا کیا تھا۔
وہ روحانی نظر، وہ نور بصر جس نے ان پر کائنات کے سارے اسرار و رموز منکشف کر دیے اور اس وجود سے آشنا کردیا جس کا جلوہ ہر شے میں ہے۔ اسی میں انھوں نے اس انسانی وجود کو تلاش کیا جس میں انھیں چاند، سورج، ستارے نظر آئے، کاشی، کعبہ اور دوارکا بھی۔ آتم گیان نے ہی انھیں بتایا کہ انسانوں کے درمیان تفریق بے معنی ہے۔
نہ کوئی اعلیٰ نہ ادنیٰ، نہ کوئی برہمن نہ شودر، سب خدا کے بندے ہیں اور بندوں میں امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی آتم گیان کی قوت تھی کہ کبیرنے موروثی برہمن ازم کی مخالفت کی جب کہ ایک روایت کے مطابق وہ برہمن تھے۔یا برہمن بیوہ کی اولاد تھے۔
اسی کے ساتھ مسلمانوں کے مذہبی رسومات پر بھی طنز کیاجب کہ کبیر خود مسلمان تھے۔نعیمہ اور نورو کے بیٹے، جولاہے،کوری یا کمینہ ذات سے تعلق رکھنے والے اور شیخ تقی کے مرید مگر ماتھے پر تلک لگاتے تھے اور جنیو پہنتے تھے اور علی الاعلان یہ کہتے تھے کہ میں نہ ہندو ہوں اور نہ مسلمان؛
ہندو کہو تو میں نہیں مو مسلمان بھی ناہیں
پانچ تتو کا پوتلا گیبی کھیلے ماہیں
ناتھ پنتھی کبیر کی بغاوت اندھی مذہب پرستی سے تھی یا ان رسومات سے جن کا مذہب کی روح اور روایت سے کوئی رشتہ نہیں تھا۔ انھوں نے دین پر نہیں دینیات اور مذہب کی شعریات مرتب کرنے والوں پر سوالات قائم کئے کہ مذہبی بنیاد پر ہی سب سے زیادہ تنازعے ہوتے ہیں اوریہ تنازعے جنگ و جدال، قتل و غارت گری کا موجب بن جاتے ہیں۔
جب کہ حقیقی مذہب امن،محبت، مساوات، مواساۃ اور ہم آہنگی پر زور دیتا ہے اور انسانوں کے مابین نفرت اور تعصبات کو ختم کرتا ہے۔ کبیر نے مذاہب کے مشترکہ اقدار اور تمام مذاہب کی روح کو سمجھتے ہوئے غیر طبقاتی انسانی معاشرہ کی تشکیل پر زور دیا۔
انھوں نے تنوع میں وحدت (Unity in Diversity) کی تلاش کی اور یہ بتایا کہ جتنے بھی مذاہب ہیں سب ایک ہیں۔ انھوں نے اپنے دوہوں میں یہ اشارہ کیا کہ ہندوؤں کے رام اور مسلمانوں کے رحیم میں کوئی فرق نہیں ہے ؛
وہی مہادیو وہی محمد برہما آدم کہیے
کوئی ہندو کوئی ترک کہاوے ایک زمیں پر رہیے
وید کتاب پڑھے وے کتبہ وے مولانا وے پانڈے
وِگت وِگت کے نام دھرایو اک ماٹی کے بھانڈے
(—جو مہادیو ہیں وہی محمد ہیں، برہما کو آدم کہنا چاہیے کوئی ہندو کہلاتا ہے کوئی مسلمان، رہتے سب ایک ہی زمین پر ہیں۔ وہ وید پڑھتے ہیں وہ کتاب کتبہ، وہ مولانا ہیں وہ پنڈت ہیں۔علاحدہ علاحدہ نام رکھ لیے گئے ہیں لیکن سب ایک ہی مٹی کے برتن ہیں —
متن اور ترجمہ: کبیر و چناولی، تالیف ہری اودھ، مترجم: سرسوتی سرن کیف، ساہتیہ اکادمی نئی دہلی، 1990)
یہ ویسے ہی خیالات ہیں جو حافظ، بابا فغانی، غزالی، فیضی، عرفی، صائب وغیرہ کے ہاں بھی ملتے ہیں۔ فیضی کا ایک شعر ہے ؛
کعبہ و بتکدہ یک رنگ و حریفان دو بین
خود مسلمانی و خود برہمنی ساختہ اند
(—کعبہ و بت خانہ تو ایک ہیں لیکن مخالفین انھیں دو سمجھتے ہیں اور خود کو انھوں نے مسلمان اور برہمن بنا رکھا ہے—)
اسی طرح ایک اور شعر ہے؛
در حیرتم کہ دشمنی کفر و دیں، چرا است
ازیک چراغ کعبہ و بت خانہ روشن است
(—میں کفر اور اسلام کی دشمنی پر حیران ہوں جب کہ ایک ہی چراغ سے کعبہ و بت خانہ روشن ہیں —)
کبیر کا سلسلہ خیال ایسے ہی روشن خیال اور وسیع النظر صوفی شعراء سے ملتا ہے۔کبیر نے جہاں مذہبی وحدت پر زور دیا ہے وہیں متھیا چار پر زبردست وار بھی کیا ہے۔ وہ اپنے ایک دوہے میں کہتے ہیں؛
میں توہے پوچھوں مسلمانا
لال زرد کا تانا بانا
قاضی کاج کرو تم کیسا
گھر گھر ذبح کراؤ ویسا
(—اے مسلمان میں تجھ سے پوچھتا ہوں، تو نے لال پیلا تانا بانا کیسا بن لیا ہے۔ اے قاضی تم کیسا کام کرتے ہو، گھر گھر جا کر ذبیحہ کرواتے ہو—
متن اور ترجمہ: کبیر و چناولی-سرسوتی سرن کیف)
کبیر نے صرف شیخ، قاضی اور ملاؤں پر طنز کے تیر نہیں برسائے بلکہ سادھوؤں کو بھی نشانہ بنایا ہے؛
سادھو بھیا تو کیا بھیا مالا پہری چار
باہر بھیس بنائیا بھیتر بھری بھنگار
(—چار چار مالائیں پہن کر سادھو بننے سے کیا ہوتا ہے۔ باہر سے تو بھیس بنا لیا اندر یعنی دل میں کوڑا کرکٹ بھرا ہے—
(کبیر و چناولی تالیف ہری اودھ ترجمہ: سرسوتی سرن کیف، ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی)
کبیر نے مذاہب کی حقیقی روح پر کبھی وار نہیں کیا بلکہ مذاہب کے ظاہری لبادہ پر طنز کیا۔ کبیر کو جہاں پنیہ، پاپ، پوجا پاٹھ، ہون یگ، سبھی بے معنی رسومات لگتے تھے۔ وہیں مالا، تسبیح، مسجد، مندر، کعبہ، کیلاش سے بھی ان کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ وہ ان سب چیزوں کو مذہب کی ایک ظاہری علامت کے طور پر دیکھتے تھے۔
وہ یہ مانتے تھے کہ ہر انسان کے اندر کعبہ اور کیلاش ہے۔ اور خدا تک پہنچنے کا اصل ذریعہ عرفان نفس ہے۔ عشق الٰہی ہے۔ اگر خدا اور خدا کے بندوں سے محبت نہیں ہے تو اس طرح کے ظاہری مذہبی اعمال پورا کرنے پر بھی وہ خدا کا برگزیدہ بندہ نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کبیر نے مذہبی ریاکاری اور نمائش پسندی، مکاری، منافقت پر سوالات اٹھائے۔
کبیر کا ہر سوال نہایت منطقی اور معروضی ہوتا تھا۔ کبیر ریشنل انسان تھے۔ اس لیے انھوں نے بہت ہی لوجیکل سوالات کیے ہیں۔ ان کے ہرسوال میں ایک سائنٹفک انداز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پتھر کو پوجنے سے کسی کو خدا مل سکتا ہے تو میں بڑے پہاڑ کو کیوں نہ پوجوں۔ غوطے لگانے سے نجات کے دروازے کھل سکتے ہیں تو پھر مینڈک تو روز ہی غوطے لگاتے ہیں۔
کبیر کا یہ بھی سوال ہے کہ کیا ایشور یا اللہ صرف مندر اور مسجد میں رہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر باقی جگہ پر کون ہے۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ برہمن صرف 24 دن ہی برت رکھتے ہیں اور مسلمان رمضان میں صرف تیس روزے رکھتے ہیں تو کیا سال کے باقی دن منحوس ہیں۔
کبیر نے مذہب پرست معاشرہ سے جتنے بھی سوالات کیے ہیں وہ معقول ہیں۔ کبیر کے ہر سوال میں ایک زبردست کاٹ ہے۔ ایک طنز ہے ان تصورات پر جو مذہب کے نام پر لوگوں نے وضع کر لیے ہیں۔کبیریہ جانتے ہیں ہر وہ سوچ جس میں تفریق یا تعصب کی بو ہو وہ خدائی یا اُلوہی فکر نہیں ہو سکتی ہے۔ اسی لیے کبیر کا یہ بھی خیال ہے کہ پیدائشی اعتبار سے کوئی برہمن یا شودر نہیں ہوتا۔ ان کا یہ اعتراض بھی معقول ہے کہ اگر جینیو پہن کر کوئی برہمن بن جاتا ہے تو برہمن اپنی عورتوں کو جینیو کیوں نہیں پہناتے۔ مسلمان ختنہ کراکر مسلمان بن جاتے ہیں تو پھرعورتوں کا ختنہ کیو ں نہیں کرایا جاتا؟
ایک معقولیت پسند انسان کے ذہن میں ہی اس طرح کے دندان شکن سوالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اور کبیر کے تمام تصورات اور خیالات کی عمارت ایسے ہی سوالات پر کھڑی ہے۔ کبیر کا جو استفہامیہ ہے وہ ہر مذہبی معاشرہ کے لیے ہے۔ کبیر نے ہر اس تصور پر سوال اٹھائے ہیں جس کے اردگرد تقدس کا ہالا بن دیا گیا ہے۔ اور یہ انتباہ بھی دیا گیا ہے کہ یہ مقدس تصورات تنقید سے بالاتر ہیں۔ مگر کبیر نے ان تصورات کو بھی منہدم اور مسمار کرنے کی کوشش کی کہ دراصل ان تصورات کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ ہی ایسے افکار کی کوئی معروضی منطق ہے۔
کبیر نے اس تصور کو بھی مسترد کیا کہ کاشی میں مرنے سے مکتی مل جاتی ہے اور مگہر میں مرنے والے کو گدھے کی صورت میں جنم لینا پڑتا ہے۔ ”کاشی مرے سو مکتی پاوے مگہر مرے سو گدھا“
کیا کاشی کیا وسر مگہر رام ہردے بس مورا
جو کاشی تن تجے کبیرا دامے کون ہنورا
(—کاشی ہو یا اجاڑ مگہر میرے لیے دونوں برابر ہیں کیونکہ میرے دل میں بھگوان بسا ہوا ہے اگر کبیر کی روح کاشی میں نجات حاصل کرے تو اس میں رام کا کون سا احسان ہے—)
کبیر کے کلام میں بہت سارے سوالات ہیں اور ایسے ہی سوالات کو عقیدتوں میں محصور معاشرہ برداشت نہیں کر پایا۔ اسی لیے کبیر کو زاہد تنگ نظر نے کافر وز ندیق اور دہریہ کہا اور ہندوؤں نے اَدھرم اور ان کی کردار کشی کرتے ہوئے یہ بھی الزام لگایا کہ کبیر کے بدکردار عورتوں سے ناجائز تعلقات رہے ہیں۔
جبکہ کبیرتو کائنات کے ورق پر ایک حرف محبت تھے۔ بس کبیر کا گناہ کبیرہ یہ تھا کہ انھوں نے ہندو ؤں اور مسلمانوں کے ظاہری مذہبی رسومات اور تخیلات کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا اور یہ احساس دلایا کہ مذہب کی بنیاد پر پہچان بے معنی ہے۔ نہ کوئی ہندو ہے نہ کوئی مسلمان۔ کعبہ اور کاشی ایک ہیں؛
کہے کبیر رام رم رہیا ہندو ترک نہ کوئی
(—کبیر کہتے ہیں کہ سبھی میں رام بسے ہوئے ہیں نہ کوئی ہندو ہے نہ مسلمان—)
’سم درشتا‘ فکر کبیر کا ایک خصوصی وصف ہے۔ وہ ایک ہی نظر سے سارے انسان اور جہان کو دیکھتے ہیں۔
کبیر نے جو مذہبی ڈسکورس قائم کیا تھا آج بھی بہت سے دانشور اور مفکر انہی خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ دراصل ہمارے سائنسی عہد نے مذہب کے تعلق سے بھی ذہنوں میں بہت سے سوالات قائم کر دیے ہیں۔ کبیر نے جب یہ سوالات پوچھے تھے تو اس وقت شاید سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ یا لوگوں کا ذہن نہ اتنا سائنٹفک تھا نہ اتنے ذرائع تھے۔ لیکن کبیر کو جو وژن ملا تھا اس کی وجہ سے انھوں نے مذہب کی تہوں میں اتر کر ایسے سوالات کیے تاکہ مذہب کا حقیقی اور اصلی روپ لوگوں کے ذہن میں نقش ہو جائے۔
صدیوں پہلے جس کبیر نے جنم لیا تھا اور جس کی فکر نے معاشرے کے ایک بڑے طبقے پر اپنا اثر ڈالا تھا اس کے فکر کی معنویت آج بھی کم نہیں ہوئی ہے۔ کیونکہ کبیر ایک ایسے سورج کی مانند تھا جس کے وجود میں بہت ساری توانائیاں تھیں۔
انھوں نے اس عہد میں جو چراغ جلایا تھا اس کی لَو مدھم ضرور ہے لیکن بجھی نہیں ہے۔ محبت کا جو چراغ کبیر نے روشن کیا تھا آج ہمارے معاشرے کو اسی چراغ کی ضرورت ہے۔ علی سردار جعفری نے بڑی اچھی بات لکھی تھی کہ ”پنڈت کا منتر اور مُلّا کی اذان آسمان کے سناٹوں میں گُم ہو جاتی ہے اور کبیر کا حرف محبت دھرتی کے سینے میں دھڑکتا رہتا ہے۔“ میں سمجھتا ہوں کہ روح کے کاغذ پر کبیر نے جو حرف محبت لکھا تھا وہ سورج، چاند، ستاروں کی طرح ہمیشہ چمکتا رہے گا۔
موجودہ سماجی اور سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو کبیر کی معنویت اور بڑھ جاتی ہے کیوں کہ ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں۔ مذہب، ذات،پات اور زبان کی بنیاد پر تنازعے بڑھ رہے ہیں۔
پوری دنیا میں علامتوں کی جنگ (War of Symbols) جاری ہے۔ سمویل ہن ٹن گٹن کے تہذیبی تصادم Clash of Civilisation نے خطرناک صورت اختیار کر لی ہے۔ سماجی اور سیاسی Dissonance بڑھتا جا رہا ہے۔ مذہبی تکثیریت کے اس ماحول میں پُرامن بقائے باہم اور بین مذاہب ہم آہنگی کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ Inter civlisational Discord کو ختم کرنے کے لیے Harmony without Uniformity کے اصول کو اختیار کرنا ہوگا۔
کبیر نے یہی راہ اختیار کی تھی کہ مختلف اعتقاد رکھنے والے امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکیں۔ جیو اور جینے دو کے فلسفے پر عمل کر سکیں۔ کبیر نے اس زمانے میں جمہوریت اور حقوق انسانی کی آواز بلند کی تھی جب جمہوریت کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ انھوں نے انسانی زندگی کے وجودیاتی مسائل کو اپنی شاعری کا مرکز بنایا اور انسانی سچائی اور صداقت کی تلاش کا عمل جاری رکھا۔
اس راہ میں وہ معتوب اور مقہور بھی ہوئے۔ مگر اپنی کج کلاہی قائم رکھی۔ انھوں نے بڑی جرأت اور استقامت کے ساتھ مذہبی معاشرے کی خامیو ں، بدعملیوں اور مغالطوں کو بیان کیا اور جو بداعمالیاں مذہب کی راہ سے معاشرے میں در آئی تھیں ان کی شدید مذمت کی۔
سادہ لوح عوام کو اس دجل و فریب اور تلبیس کے جال سے باہر نکالا جو کٹّر مذہبی لوگوں نے عوام کے ارد گرد بن رکھا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ سب اللہ کی مخلوق ہیں تو ایک مشترکہ زمین پر مشترک دکھ،درد اور خوشی کے ساتھ رہنا چاہئے اور سب کی بھلائی سوچنی چاہیے؛
کبیرا کھڑا بازارمیں مانگے سب کی خیر
نہ کاہو سے دوستی نہ کاہو سے بیر
یہی کبیر کی زندگی کا منشور تھا اور یہی ان کی شاعری کا ایجنڈا بھی۔ اور وہ اپنی وفات تک اسی منشور پر قائم رہے۔ آج ہم جس عہد میں جی رہے ہیں اس میں کبیر بانی کا احیا ضروری ہے کہ ہمیں نفرت نہیں محبت کے چراغوں کی ضرورت ہے۔