سال 2012 میں آنجہانی بی جے پی لیڈر اور سابق وزیر قانون ارون جیٹلی نے ایک پروگرام میں ریٹائرمنٹ کے بعد ججوں کی تقرری کے چلن پرسوال اٹھائے تھے۔ اسی تقریب میں موجود بی جے پی کے اس وقت کے صدر نتن گڈکری نے کہا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد (تقرری سے پہلے) دو سال کا وقفہ ہونا چاہیے ورنہ حکومت عدالتوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور ایک آزاد، غیر جانبدار عدلیہ کبھی بھی حقیقت نہیں بن سکے گی۔
نئی دہلی: اتوار کو صدر دروپدی مرمونے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے چار رہنما اور سپریم کورٹ کے سابق جج ایس اے عبدالنذیر سمیت چھ افراد کو مختلف ریاستوں کا گورنر مقرر کیا۔
آندھرا پردیش کے گورنر کے طور پرتقرری پانے والے جسٹس نذیر سپریم کورٹ ایودھیا کیس پر فیصلہ سنانے والی بنچ کے رکن تھے اور جنوری میں ہی وہ سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
اپوزیشن نے ان کی تقرری پر اعتراض کرتے ہوئے حکومت کوتنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس طرح کی تقرریوں کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے آنجہانی رہنما ارون جیٹلی کے تبصروں کا حوالہ دیا ہے۔
سال 2012 میں پارٹی کے لیگل سیل کے ایک پروگرام میں انہوں نے کہا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ججوں کی تقرری کاچلن عدلیہ کو متاثر کر رہا ہے۔
جیٹلی نے کہا تھا، دو طرح کے جج ہوتے ہیں – وہ جو قانون جانتے ہیں اور دوسرے وہ جو وزیر قانون کو جانتے ہیں۔ ہم دنیا میں واحد ملک ہیں جہاں جج ہی ججوں کی تقرری کرتے ہیں۔ یہاں ریٹائرمنٹ کی ایک عمردی گئی ہے لیکن جج ریٹائرمنٹ کی عمر کے باوجود اس کے خواہش مند نہیں ہوتے۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے کیے گئے فیصلے ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے عہدے کی حسرت سے متاثر ہوتے ہیں۔
اس وقت اپوزیشن کے لیڈر جیٹلی نے یہ بھی کہا تھا، عدلیہ کی غیر جانبداری کو برقرار رکھنے کے لیے ججوں کو ریٹائرمنٹ کے وقت ملنے والی تنخواہ کے برابر پنشن دینے پراور ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد ججوں کی تقرری سے عدلیہ متاثر ہو رہی ہے۔
یہ پروگرام پارٹی کے لیگل سیل کے زیر اہتمام منعقدہ نیشنل ایڈوکیٹ کنونشن تھا، جس میں اس وقت کے بی جے پی صدر نتن گڈکری نے بھی شرکت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ججوں کو ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد ہی تقرری ملنی چاہیے۔
گڈکری کا کہنا تھا، … میرا مشورہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد (تقرری سے پہلے) دو سال کا وقفہ ہونا چاہیے ورنہ حکومت براہ راست یا بالواسطہ طور پر عدالتوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور ایک آزاد، منصفانہ اور ایماندار عدلیہ کبھی بھی حقیقت نہیں بن سکے گی۔
اس وقت اپوزیشن کی تنقید کو لے کر مرکزی وزیر قانون دفاع میں اترے ہیں، ٹھیک اسی طرح 2012 میں جیٹلی کے بیان کے بعد کانگریس کے اس وقت کے ترجمان منیش تیواری نے کہا تھا کہ انہیں (جیٹلی) سابق وزیر قانون ہونے کے ناطے معلوم ہونا چاہیے کہ کچھ آئینی عہدوں کی سربراہی صرف موجودہ اور ریٹائرڈ جج ہی کر سکتے ہیں۔
جسٹس نذیر کون ہیں؟
قابل ذکر ہے کہ 5 جنوری 1958 کو کرناٹک کے جنوبی کنڑ ضلع کے بیلوئی میں پیدا ہونے والے جسٹس عبدالنذیر نے 1983 میں وکالت کی شروعات کی تھی۔ یہاں انہوں نے 20 سال تک کرناٹک ہائی کورٹ میں پریکٹس کی، جس کے بعد 2003 میں انہیں کرناٹک ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کیا گیا۔
بعد میں 17 فروری 2017 کو سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات ہوئے جہاں سے وہ 4 جنوری کو ریٹائر ہوئے ہیں۔
جسٹس نذیر اس حکومت کے لیے کئی اہم فیصلےدینے والی آئینی بنچ کا حصہ تھے، جن میں تین طلاق کے آئینی جواز کا معاملہ، پرائیویسی کا حق، ایودھیا کیس اور حال ہی میں مرکز کا 2016 کا نوٹ بندی کا فیصلہ اور ارکان پارلیامنٹ کی اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ شامل ہے۔ وہ تین طلاق کیس میں اختلاف رائے رکھنے والے جج تھے، جنہوں نے کہا تھا کہ یہ غیر قانونی نہیں ہے۔
قابل ذکر ہے کہ نومبر 2109 میں ایودھیا کیس میں فیصلہ سنانے والی پانچ ججوں کی بنچ کے وہ تیسرے ایسے جج ہیں، جنہیں مودی حکومت نے ریٹائرمنٹ کے بعد کسی اور عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔
بنچ نے اپنے متنازعہ فیصلے میں کہا تھا کہ دسمبر 1992 میں ہندوتوا کارکنوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر مسمارکیے جانے سے پہلے جہاں بابری مسجد پانچ صدیوں تک کھڑی تھی، اسے مسمار کرنے میں ملوث تنظیموں کے حوالے کیا جانا چاہیے تاکہ وہ رام مندر کی تعمیر کر سکیں۔
بنچ کی سربراہی کرنے والے اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کو ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد راجیہ سبھا کا رکن بنا یا گیا تھا۔ اس کے بعد جولائی2021 میں ریٹائر ہونے والے جسٹس اشوک بھوشن کو اسی سال نیشنل کمپنی لا اپیل ٹریبونل (این سی اے ایل ٹی) کا سربراہ بنایا گیا تھا۔
سابق سی جے آئی گگوئی نومبر 2019 میں ریٹائر ہوئے تھے اور مارچ 2020 میں راجیہ سبھا کے رکن کے طور پر نامزدکیےگئے تھے۔ بھوشن جولائی2021 میں ریٹائر ہوئے اور اکتوبر2021 میں این سی ایل اے ٹی کی تقرری حاصل کی، جبکہ جسٹس نذیر جنوری 2023 میں ریٹائر ہوئے اور اگلے ہی مہینے فروری 2023 میں گورنر بنائے گئے۔
تاریخ کیا کہتی ہے
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں جسٹس نذیر سپریم کورٹ کے تیسرے ریٹائرڈ جج ہیں جنہیں گورنر مقرر کیا گیا ہے۔
اس سے قبل 1997 میں جسٹس فاطمہ بی بی کو سپریم کورٹ سے ریٹائر ہونے کے پانچ سال بعد ایچ ڈی دیوے گوڑا حکومت نے گورنر بنایا تھا، لیکن مودی حکومت میں یہ دوسرا موقع ہے کہ سپریم کورٹ کے کسی ریٹائرڈ جج کو ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد گورنر بنایا گیا ہے۔
سال 2014 میں اس نے سابق چیف جسٹس آف انڈیا پی سداشوم کو کیرالہ کا گورنر مقرر کیا تھا۔ اس فیصلے پر یہ کہتے ہوئے بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی تھی کہ انہیں حکمراں جماعت کی مدد کرنے کا انعام ملا ہے۔
جسٹس سداشوم نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ ان کی تقرری کا تلسی رام پرجاپتی کیس میں بی جے پی صدر امت شاہ کے خلاف درج دوسری ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کے ان کے فیصلے سے کوئی لینا دینا ہے۔
کیرالہ کے گورنر کے طور پر جسٹس سداشوم کو اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کو پلٹنے کے لیےلائے گئے ایک سرکاری آرڈیننس پر دستخط کرنا تھااور اس پر بعد میں سپریم کورٹ نے روک لگا دی تھی۔
سال 2018 میں ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد حکومت کی جانب سے پیش کردہ تقرریوں کو قبول کرنے کے حوالے سے ججوں کی صوابدید پر بحث ہوئی تھی۔اس وقت کیرالہ ہائی کورٹ کے وکیل اور قانون کی رپورٹنگ کرنے والی ویب سائٹ لائیو لاکے منیجنگ ایڈیٹر منو سیبسٹین نے دی وائر پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا تھاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد کی فوری تقرریوں کو قبول کرنے سے عدلیہ کی آزادی پرعوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
آرٹیکل میں بتایا گیاتھاکہ کیسے سپریم کورٹ کے اس وقت کے جج جسٹس چیلمیشور نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی طرف سے کسی بھی تقرری کو قبول نہیں کریں گے۔ ان کے ساتھی جج جسٹس کورین جوزف نے بھی اس طرح کی کسی بھی تقرری کو نہیں قبول کرنے کی بات کہی تھی۔ دونوں کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور ایگزیکٹو کو ایک دوسرے کے تئیں تعریف وتحسین کا جذبہ رکھنے کے بجائے ایک دوسرے کی نگرانی کرنی چاہیے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ہونے والی تقرریاں اکثر عدلیہ کی آزادی میں گراوٹ کی وجہ بن سکتی ہیں۔
سال 2018 میں ہی کیرالہ ہائی کورٹ سے ریٹائر ہونے والے جج جسٹس بی کمال پاشا نے اپنی الوداعی تقریب میں اس چلن کے خلاف بیان دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، جب ایک جج ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت سے تقرری کی توقع کرتا ہے، تو وہ عام طور پر اپنی ریٹائرمنٹ کے آخری سال میں حکومت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ یہ ایک عام شکایت ہے کہ ایسے جج ریٹائرمنٹ کے بعد تقرریوں کی امید میں حکومت کو ناراض کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔
انہوں نے جسٹس ایس ایچ کپاڑیہ اور جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کے لفظوں کو یاد کرتے ہوئے کہا تھاکہ کسی بھی جج کو کسی بھی حکومت سے تنخواہ والی نوکریوں کو ، ریٹائرمنٹ کے بعد کم از کم تین سال کے ‘کولنگ پیریڈ’ میں قبول نہیں کرنا چاہیے۔