فتح پور کے صحافی اجئے بھدوریا نے گزشتہ13 مئی کو ٹوئٹ کیا تھا، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ فتح پور کے وجئے پور میں ایک کمیونٹی کچن کو بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد جھوٹی خبر پھیلانے کے الزام میں انتظامیہ نے ان کے خلاف معاملہ درج کر لیا۔
فتح پور میں جل ستیاگرہ کرتے صحافی۔ (فوٹوبہ شکریہ : ٹوئٹر)
نئی دہلی : اتر پردیش کے فتح پور میں انتظامیہ کے استحصال کے خلاف مقامی صحافیوں نے گنگا ندی میں اتر کر جل ستیاگرہ شروع کیا ہے۔
نیوزلانڈری کی رپورٹ کے مطابق، مقامی انتظامیہ کے ذریعےصحافیوں کو ہراساں کرنے اور ان پر مقدمے درج کرنے خلاف مقامی صحافی سات جون سے جل ستیاگرہ کر رہے ہیں۔
دو مقامی صحافیوں اجئے بھدوریا (57) اور وویک مشرا(35)کے خلاف معاملہ درج ہونے کے خلاف صحافیوں نے یہ ستیاگرہ شروع کیا ہے۔صحافی اجئے بھدوریا کا کہنا ہے، ‘انہوں نے گزشتہ13 مئی کو ٹوئٹ کیا تھا، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ فتح پور کے وجئےپور میں ایک کمیونٹی کچن کو بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد جھوٹی خبریں پھیلانے کے الزام میں انتظامیہ نے ان کے خلاف معاملہ درج کر لیا۔’
بھدوریا نے کہا، ‘میں نے بتایا کہ وجئے پور کا کمیونٹی کچن بند ہو گیا ہے۔ میرے پاس اس کے ثبوت ہیں لیکن پولیس شکایت میں کہا گیا کہ میں نے فتح پور کے سبھی کمیونٹی کچن کے بند ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔’صحافی اجئے بھدوریا نے بتایا کہ اس مقدمے کے خلاف مقامی صحافیوں نے متحدہوکر ضلع انتظامیہ کو چھ جون تک ایف آئی آر خارج کرنے کا وقت دیا تھا لیکن انہوں نے ایف آئی آر نہیں ہٹائی اور نہ ہی صحافیوں سے اس بارے میں کوئی بات چیت کی۔
اسی وجہ سےایک درجن سے زیادہ مقامی صحافیوں نے متحد ہوکر یہاں کی گنگا ندی میں اتر کر جل ستیاگرہ شروع کر دیا۔صحافیوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کی مانگیں نہیں سنی گئیں تو ضلع کے سارے صحافی مل کر انتظامیہ کے خلاف تحریک کریں گے۔
دراصل لاک ڈاؤن کے دوران غریبوں کے لیے چلائی جانے والی کمیونٹی کچن بند ہونے کی خبر کے لیے بھدوریا او ردوسرےکے خلاف ضلع انتظامیہ نے آئی پی سی کی 505، 385،188، 270 و 269 دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔اس کے علاوہ مجرمانہ سازش کی دفعہ 120بی بھی لگا دی گئی ہے۔
ایف آئی آر میں صحافی پرالزام لگایا گیا ہے کہ کمیونٹی کچن بند ہونے کی خبر سے بدنظمی پھیل گئی۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کمیونٹی کچن بند ہونے کی خبر سے کورنٹائن سینٹرس، جہاں پر یہاں سے کھانا پہنچایا جاتا ہے، وہاں بدنظمی پھیل گئی جس وجہ سے وبا پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
پورے ضلع میں
الگ الگ جگہوں پر صحافیوں نے جل ستیاگرہ کرتے ہوئے ضلع انتظامیہ کے خلاف گھنٹوں نعرےبازی کی۔صحافیوں نے لگ بھگ دو گھنٹے ندی میں کھڑے ہوکر جل ستیاگرہ کیا، گورنر کے نام میمورنڈم دیا اور ڈی ایم کے خلاف کارروائی کی مانگ کی۔ اس کے ساتھ ہی صحافیوں پر درج فرضی مقدمے بھی واپس لینے کی مانگ کی۔
فتح پور کے ڈی ایم نے سات جون کو جاری پریس نوٹ میں کہا کہ ضلع انفارمیشن افسر کے ذریعےکی گئی جانچ میں پتہ چلا ہے کہ گزشتہ 32 سالوں سے صحافت کر رہے اجئے بھدوریا سال 2020 میں کسی پرنٹ یا الکٹرانک میڈیا سے جڑے ہوئے نہیں ہیں۔ یہ ایک سرکاری تردید ہے کہ بھدوریا صحافی ہیں۔
پریس نوٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بھدوریا لگاتار اپنے نجی ٹوئٹر اکاؤنٹ کا استعمال کر کےایک طرفہ اور افواہیں پھیلاکر انتظامیہ کی امیج کو خراب کرتے ہیں۔جل ستیاگرہ کر رہے صحافیوں کی مانگ ہے کہ ضلع مجسٹریٹ کا تبادلہ کیا جائے اور صحافیوں کے استحصال اور ہراساں کیے جانے کے معاملے کی جانچ ہو۔
بتا دیں کہ اس سے پہلے وویک مشرا نام کے مقامی صحافی پر گئوشالا کا حال دکھانے پر دسمبر 2019 میں فتح پور پرانتظامیہ کے ذریعے مقدمہ درج کرایا جا چکا ہے۔جل ستیاگرہ کی حمایت کر رہے وویک مشرا کہتے ہیں، ‘پورے ضلع میں گئوشالاؤں میں گائیں مر رہی ہیں۔ میں نے دینک بھاسکر کے لیے اسے کور کیا تھا۔ ضلع مجسٹریٹ نے میرے خلاف ایف آئی آر درج کر دی لیکن میرے پاس میرے دعووں کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت ہیں۔’
مقامی صحافیوں کے اس جل ستیاگرہ کی کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے بھی حمایت کی ہے۔
انہوں نے ٹوئٹ کر کےکہا، ‘صحافی ساتھیوں نے آفت کے دور میں کو رونا سے جڑی بدنظمیوں کو اجاگر کرکےمثبت دخل اندازی کی۔ حیرانی کی بات ہے کہ یوپی سرکار کی انتظامیہ نے فتح پور میں صحافیوں پر ان کا کام کرنے کے لیے مقدمہ کر دیا۔ صحافی ستیاگرہ کر رہے ہیں۔ سرکار سچائی سے ڈر کیوں رہی ہے؟’