راجدھانی دہلی کے براڑی علاقے میں اتوار کو ‘سیو انڈیا فاؤنڈیشن’ کی جانب سے ہندو مہاپنچایت کا انعقاد کیا گیا تھا، جس کو یتی نرسنہانند کے ایک حامی پریت سنگھ چلا تے ہیں۔ نرسنہانند نے بھی اس تقریب میں شرکت کی تھی۔ یہاں مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے نرسنہانند نے ہندوؤں سے ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی۔
نئی دہلی: دارالحکومت دہلی کے براڑی علاقے میں گزشتہ 3 اپریل (اتوار) کو منعقد ہندو مہاپنچایت کے دوران دائیں بازو کے ایک ہجوم کی جانب سے پانچ صحافیوں کے ساتھ مبینہ طور پر مارپیٹ کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے، جس میں چار مسلمان صحافی بھی شامل تھے۔
ان میں آزاد صحافی ارباب علی اور میر فیضل، فوٹو جرنلسٹ محمد مہربان اور دی کوئنٹ کے پرنسپل کوریسپانڈنٹ میگھناد بوس شامل تھے۔ پانچویں صحافی نے خوف کی وجہ سے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کر دیا ہے۔
ان صحافیوں میں سے ایک نے دی وائر کو بتایا کہ صحافیوں نے حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی کوشش کی، لیکن آدھی رات تک مکھرجی نگر پولیس اسٹیشن میں کئی گھنٹے گزارنے کے باوجود ان کی ایف آئی آر اب تک نہیں لکھی گئی ہے۔
جانکاری کے مطابق، ان صحافیوں کے علاوہ نیوز لانڈری کے رپورٹر شیوانگی اور رونق بھٹ پر بھی ہجوم نے مبینہ طور پر حملہ کیا۔
5 journalists, 4 of them Muslim,1 on assignment for @Article14live, have been taken by police to the Mukherji Nagar police station in Delhi after a mob at #Hindu #dharamsansad (for which the police had declined permission) discovered their religion, attacked them & deleted videos
— Article 14 (@Article14live) April 3, 2022
صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس تقریب کی کوریج کے لیے گئے تھے، جب ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے آلات (کیمرے وغیرہ) ضبط کر لیے گئے اور تقریب سے متعلق تصاویر اور ویڈیوز کو حذف کر دیا گیا۔
اس تقریب کا اہتمام ‘سیو انڈیا فاؤنڈیشن’ نے کیا تھا، جس کو متنازعہ شدت پسند ہندو دھرم گرو یتی نرسنہانند کے حامی پریت سنگھ چلاتے ہیں ہیں۔ منتظمین نے ‘مہاپنچایت’ میں مہمان خصوصی کے طور پر سدرشن نیوز کے ایڈیٹر سریش چوہانکے کو بھی مدعو کیا تھا۔
اے اے نیوز کی جانب سے شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں یتی نرسنہانند کو تقریب میں بولتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اپنی تقریر میں وہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں اور ہندوؤں کو ہتھیار اٹھانے کے لیے اکساتے ہیں۔ نرسنہانند نے کہا، 20 سالوں میں 40 فیصد ہندوؤں کو مار دیا جائے گا۔ اگر آپ اسے بدلنا چاہتے ہیں تو مرد بنو۔ مرد بننا وہ ہے جو اپنے ساتھ ہتھیار رکھے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس تقریب میں سینکڑوں لوگ موجود تھے۔
سیو انڈیا فاؤنڈیشن نے گزشتہ سال بھی دارالحکومت دہلی کے جنتر منتر پر اسی طرح کی ایک تقریب کا انعقاد کیا تھا، جہاں مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر کی گئی تھیں۔ نومبر 2021 میں دہلی پولیس نے اسی فاؤنڈیشن سے متعلق ایک چارج شیٹ پیش کی تھی۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے ارباب علی نے کہا کہ، ہمیں ہجوم نے بری طرح مارا پیٹا، اوپر سے میر (فیضل) کے کیمرے کے ویڈیو بھی ڈیلیٹ کر دیے گئے۔ مجھے لگا کہ ہم ہجوم کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ پیٹتے ہوئےانہوں نے ہمیں جہادی بتایا۔ پولیس کسی طرح ہمیں وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہوئی اور اب ہم پولیس اسٹیشن میں ہیں۔
@meerfaisal01, @mdmeharban03 and I was attacked, harassed by members of right wing organizations at Hindu Mahapanchayat in Delhi’s Burari ground. We had gone there to cover the event. We were called jihadis and attacked for being Muslims. We are being taken to police station.
— Arbab Ali (@arbabali_jmi) April 3, 2022
صحافیوں کو دہلی کے مکھرجی نگر پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ دو صحافی مبینہ طور پرزخمی بھی ہوئے ہیں۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے محمد مہربان نے کہا کہ ،ہم پولیس اسٹیشن میں ہیں اور ہم ذہنی تناؤ کا شکار ہیں اور میرےابھی روزے بھی چل ر ہے ہیں۔
دی کوئنٹ سے بات کرتے ہوئے، شمال مغربی دہلی کی ڈی سی پی اوشا رنگنانی نے کہا کہ ہندو مہاپنچایت کے 3 اپریل کے پروگرام کو اجازت نہیں دی گئی تھی۔
BREAKING: Speaking to @TheQuint, DCP North West Delhi Usha Rangnani says that permission for the #HinduMahapanchayat event scheduled to be held on Sunday, 3 April, has been denied.
The event is being organised by those behind 2021's anti-Muslim hate speech event at Jantar Mantar pic.twitter.com/d18l9AR8z4
— Meghnad Bose (@MeghnadBose93) April 2, 2022
وہیں، شمالی دہلی کے ڈی سی پی نے ایک ٹوئٹ میں واضح کیا کہ کسی بھی صحافی کو حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔ خود کو بچانے کی کوشش میں صحافی پولیس وین میں بیٹھ گئے تھے اور انہیں مناسب سکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔