عدالت میں کشمیر ی اور پاکستانی قیدیوں کی معاونت کرنے اور عالمی مسلم مسائل و فلسطین کو اجاگر کرنے کی حد تک تو بھیم سنگھ کا ایکٹوزم سمجھ میں آتا تھا، مگر کشمیر کے حوالے سے لگتا تھا کہ وہ خود بھی کنفیوژ تھے۔ کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے وہ اولین مخالفین میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین ہند کی دفعہ 370اور35(اے) کی وجہ سے جموں و کشمیر کے عوام آئین ہند میں درج بنیادی حقوق کے حقدار نہیں ہیں۔
پروفسرت بھمب سنگھ، فوٹو : پی ٹی آئی
شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور میں 70اور 80کی دہائی میں زمانہ اسکول کے دوران شیخ محمد عبداللہ کی مضبو ط شخصیت اور حکومت کے خلاف دو توانا آوازوں سید علی گیلانی اور عبدالغنی لون کو تو جلسے، جلوسوں میں دیکھنے کا موقعہ ملتا تھا، مگر اپوزیشن کی دیگر شخصیات پروفیسر بھیم سنگھ،عبد ا لرشید کابلی، جنک راج گپتا، دھن راج برگوترا اور گردھاری لال ڈوگرہ جیسے افراد کے ناموں سے خبروں اور ریڈیو سے اسمبلی کی کاروائی کی روداد سننے سے کان آشنا ہو گئے تھے۔
ان میں سے بھیم سنگھ سے بعد میں دہلی میں بالمشافہ ملاقات اور تعلقات کا ایک سلسلہ قائم ہوگیا۔ ریاست جموں و کشمیر کی یہ توانا آواز،
31مئی کو جموں میں 81برس کی عمر میں خاموش ہوگئی۔ ایک منفرد شخصیت کے حامل ہونے کی وجہ سے وہ ایک دانشور، مصنف، وکیل، سیاسی کارکن، ہمہ وقت احتجاج کرنے والا، غرض بہت سی چیزیں سمیٹے ہوئے تھے۔
نوےکی دہائی میں جب میں اعلیٰ تعلیم کے لیے نئی دہلی وارد ہوا، تو ان کو فلسطینی اور عرب دنیا کے حقوق کے لیے آئے دن دھرنا دیتے ہوئے اور مغربی دنیا کی سامراجیت کے خلاف برسرپیکار پایا۔ گو کہ ایک کٹر ڈوگرہ قوم پرست ہونے کے ناطے اور 19 ویں صدی کے مشہور ڈوگرہ سپہ سالار جنرل زور آور سنگھ کے خاندان سے نسبت کی وجہ سے کشمیری مسلمانوں سے ان کا خاصا مباحثہ ہوتا تھا، مگر میں نے محسوس کیا کہ وہ دیگر ڈوگرہ قوم پرستوں کی طرح فرقہ پرست نہیں تھے۔
علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کی وجہ سے ان کا مسلم دانشوروں سے قریبی تعلق تھا اور اس یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کے سرگرم رکن بھی تھے۔ وہ آخری ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے فرزند ڈاکٹر کرن سنگھ اور آزاد کشمیر کے سابق صدر و وزیر اعظم سردار عبدالقیوم خان کو اپنا سیاسی گرو مانتے تھے۔
دہلی کی بد نامہ زمانہ تہاڑجیل میں ایام اسیری گزارنے کے دوران میں نے دیکھا تھاکہ پاکستانی قیدیوں کی حالت سب سے زیادہ قابل رحم ہوتی تھی۔ ان میں سے اکثر ویزا کی معیاد سے زیادہ ہندوستان میں رہنے، نادانستہ بارڈر کراسنگ کرنے کے بعد اپنی سزا کی معیاد مکمل ہونے کے باوجود قید و بند کی زندگی گزار رہے تھے۔
ایک تو ان کی ملاقات نہیں آتی تھی، دوسرا کوئی وکیل ان کا کیس ہاتھ میں لینے کا روادار نہیں تھا۔ ایک بار جب ملک بھر کے جیلوں میں بند پاکستانی قیدیوں کو سفارتی کونسلنگ کے لیے دہلی کے تہاڑ جیل میں کھدیڑ کر لایا گیا تو ان میں ایک ذہنی طور پر معذور 45 سالہ قیدی بہاء الدین بھی تھا، جس کو ہمارے ہی وارڈ میں رکھا گیا تھا۔ وہ بیچارہ اس وہم و گمان میں تھا کہ وہ پاکستان کی کسی جیل میں بند ہے۔
بارڈرسیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے اسے راجستھان میں غلطی سے سرحد پار کرکے ہندوستانی علاقے میں داخل ہوجانے کے بعد گرفتار کرلیا تھا۔کھیتوں میں مزدوری کرکے اپنی زندگی کی گاڑی کھینچنے والا بہاء الدین یہی سمجھتا رہا تھا کہ اسے پاکستانی فوج نے اپنی قید میں رکھا ہوا ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے تھک ہار کر اسے یہ سمجھانے کی کوشش ترک کردی ہے کہ وہ پاکستان میں نہیں بلکہ ہندوستان کی جیل میں ہے۔بہاء الدین بار بار صرف یہی رٹ لگاتا رہتا تھا کہ وہ کھیت میں کام کرنے کے بعد جب گھر لوٹ رہا تھا تو پاکستانی آرمی نے دشمنی نکالنے کے لیے اسے پکڑ کر قید کردیا۔
اس کا کہنا تھا کہ اس نے کچھ فوجیوں کو دیکھا اور ان سے پینے کے لیے پانی کی درخواست کی لیکن پانی کے بجائے اسے جیل کی کال کوٹھری مل گئی۔بہاء الدین اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا کہ یہ فوجی ہندوستانی بارڈر سیکورٹی کے اہلکار تھے۔ اسے صرف اور صرف اپنے گاؤں کے مکھیا فتح سلیمان خیل اور اپنے ایک پڑوسی فیض محمد کا نام یاد رہ گیا تھا۔
کئی حقوق انسانی کے علمبرداروں اورہندوستان وپاکستان امن کے داعیوں کے دروازوں پر دستک دینے کے بعد باوجود جب کہیں بھی شنوائی نہیں ہوئی اور ادراک ہوا کہ ان افراد کا ایکٹوزم چاہے امن کی آشا یا کوئی اور نعرہ ہو، بس اخباری بیانات اور فوٹو کی اشاعت تک ہی محدود رہتا ہے، تو ایک دن دہلی کی آئی این آیس بلڈنگ میں اپنے دفتر کے مقابل وٹھل بائی پٹیل ہاؤس میں پروفیسر بھیم سنگھ کے دفتر پہنچا۔
گراؤنڈ فلور پر ان کے دفتر کے باہر اسٹیٹ لیگل ایڈ کمیٹی،جموں و کشمیر کا بورڑ بھی آویزاں ہوتا تھا۔ پروفیسر صاحب نے فوراً ہی اپنے دست راست کٹھوعہ کے وکیل بی ایس بلوریا کو طلب کیا اور ان کو بتایا کہ وہ میرے ساتھ بیٹھ کر تفصیلات اکھٹی کرکے جلد ہی ایک پٹیشن تیار کرلیں۔ چند ماہ کی عرق ریزی کے بعد ایک ہزار قیدیوں کی تفصیلات اکھٹی ہوگئی، جو سزا مکمل ہونے کے باوجود جیلوں میں تھے۔
خیر پروفیسرصاحب اور بلوریا نے 2005میں رٹ پٹیشن نمبر 310سپریم کورٹ میں فائل کی۔ عدالت نے اس کو سماعت کے لیے منظور کرنے کے بعد اگلے کئی برسوں تک حکومت کو کئی احکامات صادر کیے، جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس کی وجہ سے 800قیدیوں کو اگلے ایک سال تک رہائی نصیب ہوئی۔
اس تگ و دو کی وجہ سے 2007میں دونوں ممالک نے ججوں کی ایک مشترکہ کمیٹی بھی تشکیل دی، جس نے 2011تک کراچی، لاہور، راولپنڈی، امرتسر، جے پور، جودھ پور اور دہلی کی تہاڑ جیل کا دورہ کرکے بالمشافہ قیدیوں کی حالت زار کا مشاہدہ کرکے سفارشات پیش کی۔
سال 2014میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد دیگر میکانزم کی طرح یہ کمیٹی بھی غیر فعال ہو چکی ہے۔ مگر بھیم سنگھ اور ان کی ٹیم نے سپریم کورٹ میں اس معاملے کی شنوائی برقرار رکھی۔
سال 2018میں حکومت نے عدالت کو بتایا کہ 250قیدی، جو ابھی بھی قید میں ہیں، میں 59ایسے ہیں، جن کی شہریت کی تصدیق نہیں ہو پارہی ہے۔ ان میں 35ایسے ہیں، جو دماغی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ ان میں سے کئی تو گو نگے اور بہرے ہیں۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ یہ اپنا نام تک بتانے کی حالت میں نہیں ہیں۔پولیس نے بھی چارج شیٹ اور دیگر کاغذات میں ان کا نام گونگا ولدیت نامعلوم درج کی ہے۔
لاہور کے باٹا پور کا رہنے والا 32سالہ محمد اعجاز 1999 سے تہاڑ جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھا۔وہ ہریانہ اور دہلی میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے ایک باضابطہ اور قانونی پاکستانی پاسپورٹ پر ہندوستان آیا تھا۔4 اکتوبر 1999 کو دہلی میں اس کے ایک پڑوسی اسلم نے محبت کی نشانی تاج محل دکھانے کے لیے آگرہ چلنے کی پیش کش کی۔
اسلم نے اعجاز کے سفری دستاویزات لے لیے اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ حکام سے آگرہ جانے کی اجازت لے لے گا۔لیکن اسلم دستاویزات لے کر جانے کے بعد دوبارہ پلٹ کر نہیں آیا اور پولیس نے اعجاز کو گرفتار کرلیا۔اعجاز عدالت سے بار بار یہ درخواست کر رہا تھا کہ کم از کم سمجھوتہ ایکسپریس کے ذریعہ اس کے دہلی آنے کے ریکارڈ پر ایک نگاہ تو ڈال لیں، لیکن عدالت نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی، تاآنکہ بھیم سنگھ اور بی ایس بلوریا نے اس کیس کی پیروی کی۔
قیدیوں میں پانچ بچے زبیر (5سال)‘ سہیل(9 سال) بھی تھے، جو اپنی ماں سلمہ بیگم کے ساتھ جیل میں بند تھے۔ اسی طرح 5سالہ آمنہ‘ 8 سالہ سہیل اور 10سالہ عائشہ بھی اپنی والدہ ممتاز کے ساتھ قید و بند کی زندگی گزارنے کے لیے مجبور تھے۔کراچی کی رہنے والی روبی کو نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے گرفتار کیا گیا تھا جہاں اس کے تین بچے لاپتہ ہوگئے تھے۔
مطلقہ اور بنگلہ دیشی شوہر کے طرف سے گھر چھوڑ کر چلی جانے کے لیے مجبور کردی گئی روبی جعلی دستاویزات کے ذریعہ دہلی سے کراچی جانے کی کوشش کررہی تھی۔26 جولائی 2004 کو نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر اترنے کے بعد اسے جو شخص دہلی لے کر آیا تھا اس نے اسے راجستھان جانے والی ایک ٹرین پر بچوں کے بغیر ہی اس کو سوار کردیا۔ اپنے بچوں کو نہ پاکر وہ گھبرا گئی اور اسی گھبراہٹ اور افراتفری میں پولیس کے ہتھے چڑھ گئی۔اس کے نالے شقی القلب انسان کا کلیجہ بھی چھلنی کردیتے تھے۔
مصنف اور صحافی ظفر چودھری کے مطابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 70کی دہائی میں بھیم سنگھ کو شیخ محمد عبداللہ کے مقابل جموں کی آواز کے بطور متعارف کرنے کی کوشش کی۔ موجودہ حکمران جماعت ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرح وہ بھی جموں و کشمیر میں کشمیری سیاستدانوں کی برتری ختم کرنے یا ان کو ٹکر دینے کی خواہاں تھی۔
مگر اندرا گاندھی کا بھیم سنگھ پروجیکٹ کام نہیں کر پایا۔1973 میں انہیں اندرا گاندھی نے جموں و کشمیر میں یوتھ کانگریس کا صدر مقرر کیا،پھر 1977 میں انڈین یوتھ کانگریس کے نائب صدر اور آخر میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری کے طور پر مقرر کیا تھا۔ کانگریس سے الگ ہونے کے بعد انہوں نے اپنی ’پینتھرس پارٹی’ کی بنیادی رکھی۔ اس پارٹی کے قیام کے بعد بقول ظفر چودھری اسمبلی کے فلور پر شیخ عبداللہ نے ان سے پوچھا تھا؛
آپ تو ایک مہذب انسان ہیں، آپ جانور کے طور پر اپنی پہچان کیوں بنانا چاہتے ہیں۔
بھیم سنگھ نے جواب دیا کہ؛
انسانو ں کو شیر سے بچانے کے لیے پینتھر یعنی چیتے کو باہر آنا پڑا۔
شیخ عبداللہ اپنے آپ کو شیر کشمیر کہلوانا پسند کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جموں اور کشمیر میں پنچایت سے لے کر پارلیامنٹ تک ہر الیکشن بھیم سنگھ نے لڑا ہے۔ مگر ان کو کبھی کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی۔ تقریباً ہر الیکشن کے بعد بھیم سنگھ نے عدالتوں میں جا کر نتائج کو چیلنج کیااور الزام لگایا کہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔
سال 2002 کے جموں اور کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں، بھیم سنگھ کی قیادت میں پینتھرس پارٹی نے اپنے مضبوط علاقے ادھم پور ضلع میں تمام سیٹیں جیت لیں، اور پی ڈی پی اور کانگریس پارٹی کے ساتھ مل کر حکمران اتحاد میں شامل ہوگئے۔ بعدمیں 2009کے بعد بی جے پی نے ان کے سیاسی گڑھ پر قبضہ جما لیا۔
شیخ عبداللہ اور نیشنل کانفرنس کے خلاف لگتا تھا کہ وہ ہمہ وقت بھرے رہتے تھے۔ ان کی کئی کمزور رگیں ان کی فائلوں میں دبی ہوئی تھیں۔ اسی لیے کئی افراد ان کی تشبہہ سبرامنیم سوامی کے ساتھ کرتے تھے، جو کانگریس اور گاندھی خاندان کی مخالفت میں آئے دن کوئی نہ کوئی پٹاخہ لیے حاضر ہوتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد کے پاس رام نگر میں ہزاروں ایکڑ زمین تھی جسے 1951 میں وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی حکومت نے بغیر کسی معاوضے کے زبردستی لے لیا تھا، جس سے وہ اور اس کے دیگر گیارہ بہن بھائیوں کو ڈ بھوکا رہنا پڑا۔انہیں پہلی بار 1953 میں جیل بھیجا گیا تھا جب وہ ابھی ایک طالب علم تھے جب انہوں شیخ عبداللہ پر کنفیکشنری پھینک دی تھی۔
اس وقت بھیم سنگھ کے والد ٹھاکر بیربل جموں پرجا پریشد پارٹی کے ساتھ جموں میں حکومت کی زمینی اصلاحات کے خلاف ریلی کر رہے تھے۔ انہوں نے موٹر سائیکل پر 130ممالک کا سفر بھی کیا۔ موریطانیہ کے راستے مراکش سے سینیگال تک موٹر سائیکل پر صحرا کو عبور کرنے والے وہ غالباً پہلے شخص تھے۔
اپنے سفر کے دوران بھیم سنگھ نے یونیورسٹی آف لندن میں ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی۔ اور 1971 میں یونیورسٹی آف لندن یونین کے سکریٹری بھی منتخب ہوئے۔ وہ ہندوستان-فلسطین فرینڈشپ سوسائٹی کے چیئرمین تھے۔
یاسر عرفات کے ہمراہ بھیم سنگھ، فوٹو: بہ شکریہ: وکی پیڈیا
اگست 2000میں یاسر عرفات جب ہندوستان کے ایک روزہ دورہ پر آئے تھے، جو ان کا آخری دورہ بھی ثابت ہوا۔ ان کے اعزاز میں دی گئی دعوت میں عرفات کو قریب سے دیکھنے اور ہاتھ ملانے کے لیے لوگوں کی ایک لمبی لائن لگی تھی۔ بھیم سنگھ نے دیکھا کہ میں بھی آگے جانے کے لیے تگ و دو کر رہاہوں، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر عرفات کے پاس لےجاکر ان کو غالباً مذاق میں کہا کہ،ایک اور مقبوضہ علاقے (کشمیر) کا باسی آپ سے ملنے کا متمنی ہے۔
پروفیسر بھیم سنگھ تقریباً ہر ماہ دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب کے ریستوراں میں لنچ پر مدعو کرکے ایک پریس بریفنگ کا اہتمام کرتے تھے۔ اس پریس بریفنگ میں پی ٹی آئی سے سمیر کول، یواین آئی سے شیخ منظور، انڈین ایکسپریس سے آشا کھوسہ اور کشمیر ٹائمز کے دہلی بیورو کی نمائندگی کرتے ہوئے میں حاضر ہوتا تھا۔ ان کے دفتر کی کوششوں کے باوجود اس پریس کانفرنس میں چار افراد کے علاوہ اور کوئی نہیں آتا تھا۔
جولائی 2000میں جب سرینگر میں حزب المجاہدین کے آپریشن کمانڈر عبدالمجید ڈار کے سیز فائر کا اعلان کیا، تو اسی دن دہلی میں ان کی پریس کانفرنس بھی شیڈولڈ تھی۔ جس کی اطلاع کئی روز قبل انہوں نے دی تھی۔ چینلوں کا طوفان آچکا تھا۔
پی ٹی آئی نے صبح ڈائری میں ان کی پریس کانفرنس کا ذکر کیا تھا۔ بس کیا تھا کہ ایک ہجوم کانسٹی ٹیوشن کلب وار د ہوگیا تھا۔ مروت کے طور پر انہوں نے سب کو کھانا کھلایا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس ریستوراں کا بل ادا کرتے ہوئے ان کو کئی ماہ لگے اور دانتوں پسینہ آگیا۔ اس کے بعد انہوں نے یہ سلسلہ بند کیا اور پھر پریس بریفنگ اپنے دفتر میں دوپہر کی چائے پلاتے ہوئے دیتے تھے۔
عدالت میں کشمیر ی اور پاکستانی قیدیوں کی معاونت کرنے اور عالمی مسلم مسائل و فلسطین کو اجاگر کرنے کی حد تک تو بھیم سنگھ کا ایکٹوزم سمجھ میں آتا تھا، مگر کشمیر کے حوالے لگتا تھا کہ وہ خود بھی کنفیوژ تھے۔ کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے وہ اولین مخالفین میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین ہند کی دفعہ 370اور35(اے) کی وجہ سے جموں و کشمیر کے عوام آئین ہند میں درج بنیادی حقوق کے حقدار نہیں ہیں۔
ان کو لگتا تھا کہ اس خصوصی پوزیشن کی وجہ سے مقامی انتظامیہ قیدیوں کو بغیر چارج کے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں بند رکھتی ہے۔ رائے شماری اور کشمیر ی قوم پرستی کے وہ مخالفین میں تھے، مگر خود ڈوگرہ قوم پرستی کے گرویدہ تھے۔ وہ جموں کو سیاسی طور پر با اختیار بنانے کے نقیب تھے۔
ان کو لگتا تھا کہ وادی کشمیر اپنی عددی بل بوتے پر جموں کے حق کو غصب کیے ہوئے ہے۔ گو کہ وادی کشمیر اور کشمیریوں کو بے اختیار بنانے کے ہر نعرے کی حمایت کرنے کی وجہ سے سیاسی طور پر وہ کشمیر میں غیر مقبول تھے، مگر پاکستانی زیر انتظام یا آزاد کشمیر کے سیاستدانوں میں وہ خاصے مقبول تھے۔
ان کی کاوشوں سے مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عبدالقیوم خان نے 2005 اور 2007 میں نئی دہلی کا دورہ کرکے ان کی طرف سے منعقد ہارٹ ٹو ہارٹ کانفرنس میں شرکت کے علاوہ ہندوستانی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کی۔ ایسا لگتا تھا کہ سردار صاحب، کشمیری لیڈروں خاص طور پر حریت کانفرنس کے بجائے ان کوزیادہ فوقیت دیتے تھے اور لائن آف کنٹرول کی دوسری طرف اپنی سیاسی زمیں ان کے ذریعے ہموار کرنا چاہتے تھے۔
د عوتوں اور مروتوں کی طرح ان کی لغزشیں بھی بے شمار تھیں، کشمیر کے سوال پر ان سے خاصا بحث و مباحثہ ہوتا تھا، مگر وہ اس کو کبھی عناد کا ذریعہ نہیں بناتے تھے۔ ہمیشہ جہاں بھی ملاقات ہوتی تھی، گرم جوشی سے ملتے تھے۔ پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں ان کی کاوشیں قابل قدر اور حوصلہ افزا تھیں، جو ہندوستان اورپاکستان دوستی کی دکانیں چلانے والوں، تقریریں کرنے والوں اور موم بتیاں جلانے والوں سے کئی گنا عملی اور بہتر تھیں۔ امید ہے کہ ان کے شاگرد خاص طور پر بی ایس بلوریا ان کے اس احسن نقش قد م پر چلتے رہیں گے اور مظلوموں کی داد رسی کا ذریعہ بنتے رہیں گے۔