بی جے پی ترجمان الطاف ٹھاکر کےمطابق،گزشتہ دو سالوں میں ان 23 لوگوں میں سے 12رہنماؤں اور کارکنوں کا قتل کشمیر وادی اور 11 کا جموں میں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے اکیلے نو بی جے پی رہنماؤں اور کارکنوں کاقتل گزشتہ ایک سال میں کلگام ضلع میں ہوا ہے، جو باعث تشویش ہے۔
گزشتہ17اگست کو کلگام ضلع میں دہشت گردوں کے ذریعےبی جے پی کارکن کےقتل کے بعد ان کے آخری رسومات میں شامل لوگ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
پانچ اگست2019 کو مرکزی حکومت کے ذریعےسابقہ جموں وکشمیرصوبے سے آرٹیکل 370 کے بیشتر اہتماموں کو ختم کرنے کے بعد سے صوبےمیں بی جے پی کے 23رہنماؤں اور کارکنوں کا قتل کیا جا چکا ہے۔بی جے پی ترجمان الطاف ٹھاکر کے مطابق، گزشتہ دو سالوں میں ان میں سے 12رہنماؤں اور کارکنوں کا قتل کشمیر وادی اور 11 کا قتل جموں میں ہوا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ان میں سے اکیلے نو بی جے پی رہنماؤں/کارکنوں کاقتل گزشتہ ایک سال میں کلگام ضلع میں ہوا ہے، جو باعث تشویش ہے۔’
بی جے پی ترجمان نے کہا کہ پولیس کے لیےقصورواروں کو پکڑنا اور جنوبی کشمیر میں بی جے پی کارکنوں کے تحفظ کو یقینی بناناچیلنج ہے۔ انہوں نے کہا، ‘بی جے پی رہنماؤں پر حملے روکنے کے لیے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔’
بی جے پی نے بھی مشورہ دیا کہ وادی کےسبھی 10 ضلعوں میں بی جے پی کارکنوں کے لیےمحفوظ رہائش بنانے کی فوراً ضرورت ہے ، کیونکہ وہ خطروں کا سامنا کر رہے ہیں اور دہشت گردپارٹی کارکنوں اور رہنماؤں پر لگاتار حملے کر رہے ہیں۔
پولیس ذرائع نے کہا کہ سینکڑوں بی جے پی کارکنوں کو محفوظ ٹھکانوں پر لے جایا گیا، جبکہ کئی کو سیکیورٹی فراہم کی گئی۔ حالانکہ دہشت گرد ابھی بھی بنیادی طورپر وادی کے دیہی علاقوں میں بی جے پی رہنماؤں اور کارکنوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے۔
گزشتہ سال اگست میں یونین ٹریٹری کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعدلیفٹیننٹ گورنرمنوج سنہا نے بی جے پی کے زمینی سطح کے نمائندوں اور کارکنوں کو بہترسیکیورٹی دینے کا وعدہ کیا تھا۔ حالانکہ اس کے بعد بھی زمین پر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
سوشل میڈیا پر بھی کئی لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ سابقہ صوبے سےخصوصی درجے کو ختم کرنےکے بعد کشمیر کو دہشت گردی سے آزاد کرانے کے بی جے پی کے وعدے کا کیا ہوا۔
گزشتہ سال آٹھ جولائی کو جب دہشت گردوں نے بی جے پی کے ضلع صدر
وسیم باری، ان کے والد بشیر احمد سلطان اور ان کے بھائی عمر سلطان کوشمالی کشمیر کے باندی پورہ ضلع میں ان کے گھر کے باہر گولی مارکرہلاک کر دیا تھا تب بی جے پی نے اپنے کئی ممبروں اور پنچایت کے نمائندوں کو وادی کے کئی ضلعوں میں محفوظ گھروں میں بھیج دیا تھا۔
کئی ممبروں کوجنوبی کشمیر کے پہل گام اور شمالی کشمیر کے گل مرگ کے ہوٹلوں میں بھیج دیا تھا۔ کارکنوں کو بھی سرینگر کے ہوٹلوں میں رہنے بھیجا گیا تھا۔
حالانکہ یہ منصوبہ کام نہیں آیا، کیونکہ کارکنوں کو اپنے گھروں سے دور رہنے کی وجہ سے واپس لوٹنا پڑا۔ وہیں ضلع صدرکےقتل سے پارٹی کارکنوں میں دہشت بھی پھیل گئی اور
استعفیٰ کا دور بھی شروع ہو گیا۔
کشمیر واقع نیوز پورٹل
دی کشمیر والا کی ایک رپورٹ کے مطابق، اگست 2020 میں کشمیر میں لگ بھگ ایک درجن بی جے پی کارکنوں نے پارٹی کے او بی سی مورچہ کے بڈگام ضلع صدر عبدالحمیدنظر پر حملے کے بعد پارٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
جہاں کئی نے ڈر کی وجہ سےاستعفیٰ دیا تو کچھ نے اس لیے بی جے پی چھوڑ دیا کیونکہ سرکاری رہائش میں رہنا ان کے روزگار کے لیے غیرعملی تھا۔حالیہ قتل17 اگست کو ہوا تھا، جب کلگام کے براجلو میں بی جے پی کےانتخابی حلقہ انچارج جاوید احمد ڈار کو گولی مارکر ہلاک کر دیاگیا تھا۔
ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ لشکر طیبہ،جیش محمد اوردی ریزسٹنس فرنٹ(ٹی آرایف)کے دہشت گردبی جے پی کے زیادہ تر لوگوں کے قتل میں شامل ہیں۔
جاوید کےقتل سے پانچ دن پہلے 12 اگست کو جموں کے راجوری شہر میں
بی جے پی منڈل صدرجسبیر سنگھ کے گھر کی جانب گرینیڈ پھینکے جانے سے دو سال کے بچہ کی موت ہو گئی تھی، جبکہ چھ دوسرے زخمی ہو گئے تھے۔
گزشتہ نو اگست کو اننت ناگ کے لال چوک میں دہشت گردوں نے بی جے پی کسان مورچہ کے ضلع صدر
کلگام رسول اور ریدوانی کلگام سے بی جے پی کی پنچ ان کی بیوی جواہر بانو کا قتل کر دیا تھا۔
گزشتہ 2 جون کو پلوامہ ضلع کے ترال میں دہشت گردوں نے
بی جے پی رہنما راکیش پنڈتا کی جان لے لی تھی۔ اس سے پہلے 30 مارچ کو دہشت گردوں نے سوپور نگر میونسپل کونسل کے دفتر پر حملہ کرکے
بی جے پی کے دو کونسلر اور ایک پولیس اہلکار کوقتل کر دیا تھا۔
گزشتہ چار مہینوں کے دوران کشمیر وادی میں بی جے پی کے نو رہنما اور کارکن مارے گئے ہیں۔
اگست2019 میں سابقہ صوبے کےخصوصی درجےکوختم کرنے کے بعد سے کشمیر میں دہشت گردوں کے ذریعےپنچایت ممبروں اور زمینی کارکنوں سمیت لگ بھگ 43سیاسی کارکنوں کو ہلاک کیاگیا ہے۔ ان میں سے آدھے (22)مقتدرہ بی جے پی کے تھے۔
بتا دیں کہ گزشتہ 30سالوں میں نیشنل کانفرنس(این سی)، پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی)اور کانگریس نے کل ملاکر 7000 سے زیادہ حامیوں کو دہشت گردحملوں میں کھو دیا ہے۔ حالانکہ اس کا سب سے زیادہ خمیازہ نیشنل کانفرنس کو بھگتنا پڑا ہے۔
ان سب کے بیچ بی جے پی چار دہشت گردی سے متاثرہ ضلعوں اننت ناگ، کلگام، پلوامہ اور شوپیاں میں 20 بلدیات میں سے کم از کم چار پر جیت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے بی جے پی ترجمان الطاف ٹھاکر نے دعویٰ کیا کہ آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے بعد سے 2.5 لاکھ سے زیادہ لوگ پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں اور اب کل رکنیت5.5 لاکھ ہو گئی ہے۔
ٹھاکر نے کہا، ‘5 اگست، 2019 سے وادی میں 350 لوگوں کو ‘محفوظ افراد’ نامزد کیا گیا ہے۔ انہیں محفوظ گھروں اور ہوٹلوں میں لے جایا گیا ہے اور انہیں گھر جانے سے روک دیا گیا ہے۔’
یہ پوچھے جانے پر کہ زیادہ تر بی جے پی رہنماؤں اور کارکنوں کو دہشت گردوں کے ذریعےکیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، ٹھاکر نے کہا کہ بڑی تعداد میں کارکن بنا سیکیورٹی کے ہیں، جو انہیں دہشت گردمتاثرہ علاقوں میں غیرمحفوظ بناتا ہے۔
کلگام ضلع میں بی جے پی کے نو لوگوں کےقتل کے بعد پارٹی کے ضلع صدرعابد حسین خان نے ڈپٹی کمشنر کلگام اور ایس ایس پی کلگام کو خط لکھ کر 26 بی جے پی رہنماؤں اور کارکنوں کے لیے سیکیورٹی اوررہائش کی مانگ کی ہے۔
خان نے ضلع کے 1270بی جے پی کارکنوں میں سے 600 کے لیےسیکیورٹی اوررہائش کی بھی مانگ کی ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)