لاتیہار ضلع انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ بھوک سے موت کو ثابت کرنے کے لیے کافی جانکاری نہیں ہے۔
نئی دہلی: جھارکھنڈ کے لاتیہار ضلع میں گزشتہ 16 مئی کو مبینہ طور پر ایک پانچ سالہ دلت بچی کی بھوک سے موت ہو گئی۔ اینٹ کے بھٹے پر کام کرنے والے اس کے والد نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران انہیں کوئی آمدنی نہیں ہو پائی۔اسکرال ڈاٹ ان کی رپورٹ کے مطابق، لاتیہار کے ہیساتو گاؤں میں بچی کے گھر پہنچے سماجی کارکنوں کی جانب سے جاری ویڈیو میں اہل خانہ، پڑوسی اور کمیونٹی ہیلتھ اسٹاف پانچ سالہ نمانی کی موت کی وجہ بھوک کو بتا رہے ہیں۔
ایک ویڈیو میں نمانی کی ماں کملاوتی دیوی کہتی ہیں،‘وہ بھوک سے مر گئی۔ چار پانچ دنوں سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ ہم کیا کھا سکتے ہیں جب کچھ کھانے کے لیے ہی نہیں ہے۔’ایک عینی شاہد کے مطابق، گزشتہ سنیچر کو مقامی ہیلتھ سینٹر لے جانے کے دوران راستے میں ہی نمانی بےہوش ہو گئی تھی۔
1/3 Short thread: Hunger strikes again in Jharkhand (Hesatu village, Latehar): Dalit family, no land, no ration card, no food in the house. Eight children, all famished – one of them, Nimani (right), fell unconscious and died last evening. pic.twitter.com/JC1ALH3Pe5
— Road Scholarz (@roadscholarz) May 17, 2020
ضلع انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ بھوک سے موت کو ثابت کرنے کے لیے کافی جانکاری نہیں ہے۔لاتیہار کے کمشنر ذیشان قمر نے کہا، ‘میں نےسنا ہے کہ بچی نے ناشتہ کیا تھا اور تیرنے کے لیے پاس کے تالاب میں گئی تھی۔ وہ بےہوش ہو گئی اور شام کو مر گئی۔ اگر اس نے ناشتہ کیا تھا تو یہ کیسے بھوک مری ہو سکتی ہے؟’
ایک مقامی آنگن واڑی کارکن آشا دیوی نے بھی کہا کہ بچی دن میں ندی میں نہانے کے لیے گئی تھی۔ حالانکہ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں پڑوسیوں سے جانکاری ملی کہ پانچ سالہ بچی کئی دنوں سے بھوکی تھی۔نمانی کے والد جگ لال بھئیاں نے کہا کہ اس کی موت کے وقت وہ اپنے دو دوسرے بچوں کے ساتھ لاتیہار کے ایک دوسرے علاقے میں اینٹ کے بھٹے میں کام کر رہے تھے۔ لاک ڈاؤن میں مزدوری نہ ملنے کی وجہ سے گھر پر پیسہ نہیں بھیج سکے تھے۔
اتوارکو بچی کے گھر جانے والے کھانے کے حقوق کے کارکن اور ماہر اقتصادیات جیاں دریج نے کہا کہ 10 ممبروں کی فیملی کے پاس کوئی زمین یا راشن کارڈ نہیں ہے۔دریج نے کہا کہ گاؤں کے مکھیا نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بنا راشن کارڈ والوں کے لیے آیا 10 ہزار روپے کا فنڈ ختم ہونے کی وجہ سے فیملی کو چاول نہیں دیا گیا تھا۔ گاؤں کے مکھیا نے بی ڈی او سے فنڈ کی دوسری قسط کے لیے خط لکھا تھا لیکن فنڈ نہیں ملا۔
دریج نے کہا کہ جن دھن کھاتے میں 500 روپے کی ایک قسط کے علاوہ متاثرین کو کوئی سرکاری امداد نہیں ملی۔ فیملی پوری طرح سے پڑوسیوں کی مددپر منحصر تھی۔دریج کی جانب سے جاری کئے گئے ایک ویڈیو میں آنگن واڑی کارکن آشا دیوی کہتی ہیں،‘پڑوسی ان کو کھانا دیتے تھے۔ لیکن ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ کتنا دے سکتے تھے؟’
دینک بھاسکر کے مطابق، دریج نے کہا کہ گھر میں اور پانچ بچے ہیں، جوغذائی قلت کے شکار ہیں۔دریج کے مطابق، بی ڈی او کے کہنے پر متاثرہ فیملی نے اتوار کی صبح بچی کی لاش کو دفن کر دیا ہے۔ جبکہ، اہتمام کے مطابق بھوک سے موت کے معاملے میں میڈیکل ٹیم سے پوسٹ مارٹم کرایا جاتا ہے۔
بچی کی موت کی جانکاری کے بعد بی ڈی او نندکمار رام سنیچر کو رات تقریباً 12 بجے اس کے گھر پہنچے۔ انتظامیہ نے پانچ ہزار روپے اور 40 کیلو اناج دستیاب کرایا۔وہیں، اتوار کی صبح لاتیہارسرکل آفیسر ساگر کمار متاثرین سے ملے۔ انہوں نے بتایا کہ بچی کی طبیعت دو دنوں سے خراب تھی۔ اسی حالت میں بچی نے پاس کے تالاب میں سنیچر کو غسل بھی کیا تھا۔ اس کے بعد حالت اور بگڑ گئی اور اس کی موت ہو گئی۔
بتا دیں کہ، اس سے پہلے لاتیہار ضلع کے مہواڈانڑبلاک میں آنے والے درپ پنچایت کے لرگمی کلا گاؤں کے رہنے والے 65 سالہ رام چرن منڈا کی پچھلے سال چھ جون کو مبینہ طور پر بھوک سے موت ہو گئی تھی۔ انہیں تین مہینے سے راشن نہیں مل رہا تھا کیونکہ پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے تحت بایومیٹرک پر مبنی راشن پانے کے لیے جس الکٹرانک مشین کا استعمال ہوتا ہے، وہ خراب تھی۔
وہیں، 28 ستمبر، 2017 کو جھارکھنڈ کے سمڈیگا ضلع کے کاریماٹی گاؤں میں 10 سال کی سنتوشی مبینہ طور پر بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر گئی تھی۔ الزام تھا کہ اس کی فیملی راشن کارڈ کو آدھار سے لنک نہیں کرا پائی، جس کی وجہ سے آٹھ مہینے سے انہیں سستا راشن نہیں مل رہا تھا۔
اہل خانہ کا کہنا تھا کہ سنتوشی کماری نے آٹھ دن سے کھانا نہیں کھایا تھا، اس لیے بھوک سے اس کی موت ہو گئی تھی۔ بعد میں انتظامیہ نے جانچ کی اور رپورٹ میں کہا گیا کہ بچی کو ملیریا تھا۔ بعد میں راشن ڈیلر پر کارروائی ہوئی تھی۔