جموں و کشمیر نے سیاحوں کو ریاست میں آنے کی اجازت دینے کے بعد پریس کاؤنسل آف انڈیا سے کہا ہے کہ ان کی فیکٹ-فائنڈنگ کمیٹی 4 نومبر کے بعد ہی ریاست میں آ سکتی ہے۔
نئی دہلی: جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک کے 2 اگست کو آرٹیکل370 کے اہتمام کو ختم کرنے سے پہلے سیاحوں کوریاست چھوڑنے کو لے کر جاری کی گئی ایڈوائزری خارج کرنے کی ہدایت کے دو دن بعد جموں و کشمیر حکومت کے ایڈیشنل سکریٹری نے پریس کاؤنسل آف انڈیا کو مطلع کیا کہ ان کی فیکٹ-فائنڈنگ کمیٹی 4 نومبر کے بعد ہی ریاست میں آسکتی ہے۔
28 رکنی کاؤنسل نے ریاست کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے 4 ممبروں کی ایک سب-کمیٹی بھیجنے کا فیصلہ لیا تھا۔اس سے متعلق انہوں نے 27 اگست کو جموں و کشمیر حکومت کو خط لکھا تھا۔
اس کے جواب میں 9 اکتوبر کو ای میل کے ذریعہ ایڈیشنل سیکریٹری نے بتایا کہ سب – کمیٹی کی درخواست کو جانکاری میں لیا گیا ہےاور ریاست کی موجودہ صورتحال کے مدنظر اور سرینگر سےجموں تک دفتروں کو منتقل کرنے کی وجہ ،سب-کمیٹی 4 نومبر کے بعد کسی بھی دن ریاست میں آ سکتی ہے۔
اس ای میل کے جواب میں اس سب -کمیٹی کے کنوینر پی کے داس نے انہیں 12 سے 17 اکتوبر کے اپنے مجوزہ سفر کے بارے میں اطلاع دی ہے۔
پریس کاؤنسل تب سے تنازعہ میں آیا ہے جب سے اس کے چیئر مین جسٹس سی کے پرساد نے یکطرفہ طریقے سے سپریم کورٹ میں داخل ایک عرضی میں دخل دینے کی اپیل کی ہے۔ یہ عرضی جموں و کشمیر میں لگی مواصلاتی پابندیوں کو ہٹانے کے لیے کشمیر ٹائمس کے ایڈیٹر انورادھا بھسین کے ذریعہ دائر کی گئی تھی۔
جسٹس پرساد کے ا س قدم کی میڈیا تنظیموں ،صحافیوں اور کاؤنسل کے سابقہ اور موجودہ ممبران نے سخت تنقید کی تھی۔اس میڈیا تنظیموں میں ایڈیٹرس گلڈ،پریس ایسوسی ایشن ، انڈین ویمنس پریس کاپرس،انڈین جرنلسٹ یونین،ورکنگ نیوز کیمرامین ایسوسی ایشن ،پریس کلب آف انڈیا،نیشنل الائنس آف جرنلسٹ اور دہلی یونین آف جرنلسٹ شامل تھے۔
پریس کاؤنسل چئیر مین کے ا س قدم سے موجودہ ممبر بھی حیران تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں جانکاری نہیں دی گئی تھی۔
تنقید کے بعد کاؤنسل نے اس سے متعلق زیادہ کچھ نہیں کہا تھا۔ اس نے پیشکش رکھی تھی کہ وہ سپریم کورٹ کے سامنے ایک عرضی داخل کریں گے جس میں بتایا جائے گا کہ کاؤنسل پریس کی آزادی کے ساتھ کھڑی ہے اور میڈیا پر کسی بھی طرح کی پابندی کوقبول نہیں کرتی۔ سب -کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد وہ اس بارے میں تفصیلی جواب دیں گے۔
( اس خبر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)