فوج کے ذریعے حلقے میں خوف کا ماحول بنادینے کے شہلا رشید کے الزام کو فوج نے خارج کرتے ہوئے اس کو بے بنیاد بتایا۔ شہلا کا کہنا ہے کہ اگر فوج اس کی غیر جانبدارانہ جانچ کرنا چاہے تو وہ ایسے واقعات کی جانکاری دے سکتی ہے۔
نئی دہلی : اتوار کو جموں وکشمیر پیپلس موومنٹ پارٹی کی رہنما شہلا رشید نے ٹوئٹ کی ایک سیریز شیئر کی ، جس میں انہوں نے کشمیر سے آرہے لوگوں کے حوالے سے وادی میں پیش آرہے مختلف مدعوں کے بارے میں لکھا۔
شہر میں گیس ، ڈیزل وغیرہ کی فراہمی کے علاوہ شہلا نے اپنے ٹوئٹ میں ایک جگہ یہ کہا کہ کچھ علاقوں میں سکیورٹی اہلکار گھر میں داخل ہوکر توڑ پھوڑ کر رہے ہیں ، لڑکوں کو اٹھا رہے ہیں اور جان بوجھ کر گھروں کا راشن برباد کر رہے ہیں ۔انہوں نے یہ بھی لکھا کہ شوپیاں میں چار لوگوں کو فوج کے کیمپ میں بلا یا گیا اور پوچھ تاچھ کے نام پر ان کو اذیت دی گئی ۔ شہلا نے کہا کہ ان لوگوں کے پاس ایک مائیک رکھا گیا تاکہ ان کی چیخ پورا علاقہ سنے اور ڈرجائے۔اس سے پورے علاقے میں خوف کا ماحول پید اہو گیا ہے۔
شہلا کے ان الزامات کے بعد ہندوستانی فوج نے ان الزامات کو بے بنیاد بتایا ہے۔خبررساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق، ہندوستانی فوج کی جانب سے کہا گیا کہ ، شہلا رشید کے الزامات بے بنیاد ہیں اور ہم ان کو قبول نہیں کر سکتے ہیں ۔ ایسی غیر مصدقہ اور فرضی خبریں شر پسند عناصر اور تنظیموں کے ذریعے انجان آبادی کو بھڑکانے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں۔
اس بیچ شہلا نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے لوگوں سے وادی کے حالات کے بارے میں لمبی بات چیت کی ہے اور جن واقعات کے بارے میں انہوں نے ٹوئٹ کیا ہے ، ا ن کے بارے میں اگر فوج غیر جانبداری سے جانچ کرے تو وہ ان سے جانکاری شیئر کرنے کو تیار ہیں ۔رشید نے کہا،’ہندوستانی فوج کو غیر جانبدارانہ جانچ کرنے دیجیے۔مجھے ان کے ساتھ یہ جانکاری شیئر کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔میں نے ٹوئٹر تھریڈ میں جو لکھا،وہ متوازن ہے۔ میں نے انتظامیہ کے ذریعے کیے مثبت کاموں کی بھی بات کی ہے۔ سبھی 10 پوائنٹ لوگوں سے کی گئی بات چیت پر مبنی ہیں۔’
غور طلب ہے کہ فوج یا حکومت کی طرف سے ا ن کے باقی ٹوئٹس کو لے کر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا ہے۔
شہلا نے آگے کہا،’انٹر نیٹ ،فون اور اخباروں سمیت کسی میڈیا کے نہ ہونے کی حالت میں کشمیر میں حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزی ہو رہی ہے،جس سے باقی دنیا انجان ہے۔ اے ایف پی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 4ہزار،6 ہزار لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔واضح طور پر یہ خود سے دی گئی گرفتاریاں تو نہیں ہیں۔ لوگوں کو گھروں سے نکالا جا رہا ہے، اذیت دی جا رہی ہے،گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت کے پاس دنیا سے چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے تو کمیونیکیشن ذرائع پر روک کیوں ہیں؟’
5 اگست کو مرکزی حکومت کے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے اور ریاست کو 2 یونین ٹریٹری میں باٹنے کے فیصلے کے بعد سے ہندوستانی میڈیا کے ایک بڑے طبقے کے ذریعے یہ کہا جا رہا ہے کہ کشمیر میں ماحول پر سکون ہے۔حالانکہ انٹرنیشنل میڈیا سے آ رہی رپورٹ اس کے برعکس تصویر پیش کر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ جموں و کشمیر سے لوٹے سماجی کارکنوں کی
ایک فیکٹ فائینڈنگ ٹیم نے بھی کہا کہ پورے کشمیر میں مرکزی حکومت کے فیصلے کو لے کر غصہ ہے کیونکہ عوام کو لگتا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔سماجی کارکن زیاں دریج،کویتا کرشنن، میمونہ ملااور ومل بھائی نے گزشتہ ہفتے جاری پریس ریلیزمیں بتایا تھا کہ نوجوان لڑکوں کو بنا کسی غلطی کے اٹھایا جا رہا ہے۔لوگ حکومت ،فوج یا پولیس کے ذریعے ہونے والے ظلم و ستم کے ڈر کے سایے میں رہ رہے ہیں۔غیر رسمی بات چیت میں تو وہ اپنا غصہ ظاہر کرتے ہیں،لیکن کوئی کیمرہ پر بولنے کو تیار نہیں ہے۔