پارلیامنٹ حملے کے ملزم افضل گرو نے 2004 میں اپنے وکیل سشیل کمار کو لکھے خط میں کہا تھا کہ جموں وکشمیر پولیس کے اسپیشل آپریشنس گروپ میں تعینات ڈی ایس پی دیویندر سنگھ نے اسے پارلیامنٹ پر حملے کو انجام دینے والے لوگوں میں سے ایک پاکستانی شہری کو دہلی لے جانے، اس کے لیے فلیٹ کرایے پر لینے اور گاڑی خریدنے کو کہا تھا۔
نئی دہلی :گزشتہ سنیچر کو جموں وکشمیر پولیس کے ایک افسر کو دو دہشت گردوں کے ساتھ سری نگر جموں ہائی وے پر ایک گاڑی میں جاتے وقت پکڑا گیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ دہلی جا رہے تھے۔پریسیڈنٹ میڈل سے سرفراز دیویندر سنگھ دہشت گردوں کو روکنے سے متعلق مہم سے وابستہ پولیس افسر ہیں، جو اس وقت جموں وکشمیر پولیس کی اینٹی ہائی جیکنگ یونٹ کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور سری نگر انٹرنیشنل ہوائی اڈے پر تعینات تھے۔
سنیچر کو سنگھ کو کلگام ضلع کے وانپوہ میں حزب المجاہدین کے دہشت گرد نوید بابو کے ساتھ پکڑا گیا۔ بابو پر الزام ہے کہ وہ پچھلے سال اکتوبر اور نومبر میں جنوبی کشمیر میں ٹرک ڈرائیوروں اور مزدوروں سمیت 11 غیر مقامی مزدوروں کے قتل میں شامل تھا۔جن دو دہشت گردوں کے ساتھ سنگھ کو پکڑا گیا، وہ ‘موسٹ وانٹیڈ’ تھے۔ دہشت گردوں کے ساتھ سنگھ کے پکڑے جانے کے ساتھ وہ الزام پھر سے روشنی میں آ گئے ہیں جو 2001 پارلیامنٹ حملے اور جموں وکشمیر کے ایک اہم معاملے میں ان کے رول کو لےکر لگائے گئے تھے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ،پارلیامنٹ حملے کے ملزم افضل گرو نے 2004 میں اپنے وکیل سشیل کمار کو لکھے خط میں بتایا تھا کہ ‘اس وقت ہمہما میں جموں وکشمیر پولیس کے اسپیشل آپریشنس گروپ میں تعینات ‘ڈی ایس پی دیویندر سنگھ نے اسے محمد (ایک پاکستانی شہری، پارلیامنٹ پر حملے کو انجام دینے والے لوگوں میں سے ایک) کو دہلی لے جانے، اس کے لیے فلیٹ کرایے پر لینے اور گاڑی خریدنے کو کہا تھا۔’
افضل نے ایک اور پولیس افسر شینٹی سنگھ کا نام بھی لیا تھا۔ اس کے مطابق، شینٹی سنگھ نے دیویندر سنگھ کے ساتھ اسے ہمہما ایس ٹی ایف کیمپ میں مبینہ طور پرزدوکوب کیا تھا۔ افضل نے ایک ‘الطاف حسین کا ذکر بھی کیا تھا، جو بڈگام کے ایس ایس پی عشاق حسین (بخاری) کا بہنوئی تھا اور جس نے پہلی بار اس کی رہائی کو لےکر دیویندر سنگھ کے ساتھ ‘بات کی تھی’ اور بعد میں سنگھ کے پاس لےکر گیا تھا۔
افضل گرو پارلیامنٹ حملے کے معاملے میں مجرم پایا گیا تھا اور اس کو 9 فروری 2013 کو پھانسی دے دی گئی تھی۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پارلیامنٹ حملے میں دیویندر سنگھ کے مشکوک رول کو لےکر کوئی جانچ نہیں ہوئی تھی۔ سوموار کو جب اس بارے میں کشمیر کے آئی جی وجئے کمار سنگھ سے سوال کیا گیا، تب انہوں نے کہا، ‘ہمارے ریکارڈس میں ایسا کچھ نہیں ہے اور نہ ہی میں اس بارے میں کچھ جانتا ہوں… ہم اس سے اس بارے میں بھی سوال کریں گے۔’
اس سے پہلے وجئے کمار نے ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کو دیویندر سنگھ کے دہشت گردوں کے ساتھ پکڑے جانے کو لے کر بتایا تھا کہ وہ تین دہشت گردوں کے ساتھ پکڑے گئے تھے اور اس لئے ہم ان کے ساتھ دہشت گردوں کی طرح برتاؤ کریں گے۔ انہیں ریمانڈ پر لے لیا گیا ہے اور ان سے پوچھ تاچھ کی جا رہی ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، جموں وکشمیر پولیس کے ایک افسر نے کہا، ‘دیویندر کو آخرکار اپنے کیے کا پھل مل رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس بار انہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔’افسر نے کہا، ‘سنگھ سے کئی سوال پوچھے جائیں گے۔ وہ ان دو دہشت گردوں کو کہاں لے جا رہے تھے؟ وہ گھاٹی چھوڑکر جا رہے تھے کیونکہ انہیں جموں جانے کے راستے میں پکڑا گیا ہے۔ ان کا پلان کیا تھا؟ اب جتنے بھی آپریشن سے وہ (دیویندر) یا ان کے ساتھی جڑے تھے، وہ سب شک کے گھیرے میں ہیں۔’
ان افسر نے بتایا کہ دیویندر سنگھ دہشت گردوں کو روکنے سے متعلق ڈیوٹی کی وجہ سے پورے کشمیر میں کئی جگہ تعینات رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘سنگھ پلواما میں ڈی ایس پی تھے۔ اگر وہ بولتے ہیں تو کئی اور راز باہر آئیں گے۔’دیویندر کے علاوہ افضل گرونے پارلیامنٹ پر حملے پر جس شینٹی سنگھ کے رول پر سوال اٹھایا تھا، ان کے بارے میں زیادہ کچھ سامنے نہیں آیا، لیکن 2003 میں ایک فرضی انکاؤنٹر کے معاملے میں انہیں جیل کی سزا ہوئی۔
جموں کشمیر پولیس کی کرائم برانچ نے پایا تھا کہ شینٹی نے ‘شولی پورا، پاکھرپور کے ایک عام شہری ایوب ڈار کو پولیس حراست میں ٹارچر کیا اور اس پر گولی چلائی۔ اس کے بعد اسے ایک دہشت گرد بتاتے ہوئے کہا کہ اس کی موت انکاؤنٹر میں ہوئی تھی۔’کرائم برانچ نے یہ جانچ ریاست کے ہیومن رائٹس کمیشن کے حکم پر کی تھی۔ کرائم برانچ نے ایک معاملہ درج کرکے پولیس حراست میں ہوئی موت کے معاملے میں شینٹی کے رول کی جانچ کی تھی۔
پولیس کے ریکارڈس کے مطابق، ‘1 اور 2 جون 1999 کی رات ایشپال سنگھ عرف شینٹی سنگھ نے انسپکٹر وارث شاہ کے ساتھ مل کر پاکھرپورا کے شولی پورا کے محمد ایوب ڈار بن عبد الرحمٰن ڈار کو اس کے گھر سے اٹھایا۔ شینٹی کے ذریعے پوچھ تاچھ کے دوران ایوب ڈار کی موت ہو گئی۔ اس کے بعد شینٹی نے اس کی لاش پر گولی چلائی اور اس کو دلوان گاؤں میں مارے گئے ایک دہشت گرد کے طور پر دکھانے کے ارادے سے اس کی لاش کے پاس کچھ ہتھیار رکھ دیے تھے۔’