جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو پی ایس اے کے تحت نظربند کرنے کے خلاف ان کی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر کے ان کی فوراً رہائی کی مانگ کی ہے۔
نیشنل کانفرنس کے رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی حراست کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ عبداللہ کی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت حراست کو سوموار کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سارہ نے عمر کی جلد سے جلد رہائی کی مانگ کی ہے۔ سینئر وکیل کپل سبل نے جسٹس رمنا کی بنچ کے سامنے معاملے کی فوراً سماعت کی مانگ کی، جس کے بعد عدالت اس معاملے کی سماعت پر تیار ہو گئی۔
سبل نے بنچ کو بتایا کہ انہوں نے پی ایس اے کے تحت عمر کی حراست کو چیلنج دینے کے لئے ہیبیس کورپس دائر کی ہے اور اس معاملے میں اس ہفتہ سماعت کی جانی چاہیے۔ سارہ نے اپنی عرضی میں کہا کہ مرکزی حکومت کی پالیسیوں سے عدم اتفاق جمہوریت میں ایک شہری کا قانونی حق ہے، خاص طورپر اپوزیشن کے ممبر کا۔
انہوں نے کہا کہ عمر کے خلاف الزامات کی کوئی بنیاد نہیں ہے، نہ ہی سوشل میڈیا پوسٹ یا کسی دیگر طریقے سے۔ سپریم کورٹ کے سامنے دائر کی گئی عرضی میں کہا گیا کہ عمر عبداللہ نے ہمیشہ سے ہی لوگوں سے امن بنائے رکھنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمر کو پی ایس اے کے تحت حراست کے حکم کے ساتھ سونپے گئے ڈوزیئر میں جھوٹے اور مضحکہ خیز الزام لگائے گئے ہیں۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، عمر عبداللہ پر لگے الزامات سے جڑے ڈوزیئر میں کہا گیا ہے، ‘ عمر عبداللہ کسی بھی بات کے لئے لوگوں کو متاثر کر سکتے ہیں اور علیحدگی پسندوں کے ذریعے کئے گئے بائیکاٹ کے بعد بھی ووٹرس کو باہر لا سکتے ہیں۔ لوگوں کو متاثر کرنے کی ان کی صلاحیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ تب بھی بھاری تعداد میں اپنے رائےدہندگان کو ووٹ کرنے کے لئے ترغیب دینے میں اہل تھے جب دہشت گردی انتہا پر تھی اور علیحدگی پسندوں کے ذریعے رائے دہندگی کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ ‘
ڈوزیئر میں کہا گیا ، ‘سابق وزیر اعلیٰ سیاست کی آڑ میں ہندوستان کی مرکزی حکومت کے خلاف سرگرمیوں کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور عوام کے تعاون سے وہ ایسی سرگرمیاں انجام دینے میں کامیاب رہے ہیں۔’ ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ عمر عبداللہ نے 370 کے منسوخ ہو جانے کے بعد اپنا پردہ ہٹا دیا اور گندی سیاست اور شدت پسند طریقہ کار کا سہارا لیا۔
اس میں آگے کہا گیا، ‘ آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35اے کے رد ہونے کے بعد عوام کی حمایت اور مدد کی بجائے انہوں نے اپنی گندی سیاست کا سہارا لیتے ہوئے مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اکسانے کا کام کیا اور شدت پسند طریقہ کار کو اپنایا۔ ‘ حالانکہ، عمر عبداللہ پانچ اگست، 2019 کو پارلیامنٹ میں آرٹیکل 370 اور 35اے کے رد ہونے کا اعلان کئے جانے سے پہلے سے ہی حراست میں ہیں، اس لئے یہ واضح نہیں ہے کہ انہوں نے آرٹیکل 370 کے ہٹنے کے بعد لوگوں کو کیسے بھڑکایا۔
بتا دیں کہ عمر عبداللہ پانچ اگست، 2019 سے سی آر پی سی کی دفعہ 107 کے تحت حراست میں تھے۔ اس قانون کے تحت عمر عبداللہ کی چھے مہینے کی احتیاطاً حراست کی مدت پانچ فروری 2020 کو ختم ہونے والی تھی لیکن پانچ جنوری کو حکومت نے جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے خلاف پی ایس اے لگا دیا۔
اس کے بعد ان کی حراست کو تین مہینے سے ایک سال تک بنا کسی ٹرائل کے بڑھایا جا سکتا ہے۔ واضح ہو کہ وادی کے کسی بڑے رہنما کو حراست میں رکھے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر یہ پہلی عرضی ہے۔