خصوصی تحریر: اطلاعات کے اس زمانے میں کسی حکومت کا اتنی آسانی سے ایک پوری آبادی کو باقی دنیا سے کاٹ دینا ظاہر کرتا ہے کہ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں۔
15 اگست، ہندوستان برٹش سے آزادی کی73ویں سالگرہ منا رہا ہے اور راجدھانی دہلی کے ٹریفک بھرے چوراہوں پر چیتھڑوں میں لپٹے ننھے بچے ترنگا اور کچھ ایسی نشانیاں بیچ رہے ہیں، جن پر لکھا ہے، ‘میرا بھارت مہان ‘۔ ایمانداری سے کہیں تو اس پل ایسا کچھ محسوس نہیں ہو رہا کیونکہ لگ رہا ہے جیسے ہماری حکومت مکاری پر اتر آئی ہے۔پچھلے ہفتہ حکومت نے یکطرفہ فیصلہ لیتے ہوئے’ Instrument of Accession’، کی ان بنیادی شرطوں کو تار تار کر دیا جن کی بنیاد پر جموں و کشمیر کی سابق ریاست ہندوستان میں شامل ہوئی تھی۔ اس کی تیاری کے لئے 4 اگست کو پورے کشمیر کو ایک بڑے جیل خانہ میں بدل دیا گیا۔ 70لاکھ کشمیری اپنے گھروں میں بند کر دئے گئے، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون خدمات بھی بند کر دی گئیں۔
5 اگست کو ہندوستان کے وزیر داخلہ نے پارلیامنٹ میں ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر دینے کی تجویز رکھی۔ یہ آرٹیکل’ Instrument of Accession’، میں طے قانونی ذمہ داریوں کی وضاحت کرتا ہے۔اپوزیشن پارٹیاں بھی ہاتھ ملتی رہ گئیں۔ اگلی شام کو جموں و کشمیر تشکیل نو ایکٹ 2019 کو پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں کے ذریعے پاس کر دیا گیا۔اس ایکٹ کے ذریعے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ ختم ہو گیا جس کے تحت جموں و کشمیر کو اپنا الگ آئین اور الگ پرچم رکھنے کا حق تھا۔ اس کے ایکٹ کے مطابق جموں و کشمیر سے ریاست کا درجہ چھینکر اس کو دو یونین ٹیریٹری ریاستوں میں منقسم کر دیا گیا۔ پہلا، جموں و کشمیر جس کو مرکزی حکومت کے ذریعے چلایا جائےگا، جس کے پاس منتخب اسمبلی تو ہوگی لیکن اس کے پاس محدود اختیارات ہوں گے۔ دوسرا لداخ، اس کو بھی مرکزی حکومت چلائے گی لیکن اس کے پاس اپنی اسمبلی نہیں ہوگی۔
پارلیامنٹ میں اس ایکٹ کے پاس ہوتے ہی، برطانوی روایت کے مطابق، میز تھپتھپاکر اس کا استقبال کیا گیا۔ ایوان میں استعماریت کی ہوا بہہ رہی تھی۔ حکمراں خوش ہو رہے تھے کہ ایک سرکش اور ضدی کالونی کو، بےشک اس کے اپنے فائدے کے لئے، آخرکار شاہی تخت کے ماتحت کر لیا گیا گیا ہے۔ہندوستانی شہری اب اپنے اس نئے دائرہ اختیار میں زمین خرید سکتے ہیں اور وہاں بس سکتے ہیں۔ ان نئی ریاستوں کے دروازے کاروبار کے لئے بھی کھلے ہیں۔ ملک کے سب سے امیر صنعت کار-ریلائنس کے مکیش امبانی نے جلد ہی کئی نئے اعلان کرنے کا وعدہ تک کر دیا ہے۔
اس سب کا اثر لداخ اور کشمیر میں واقع ہمالیہ کے نازک ماحولیات،گلیشئر والی زمین، بےحد بلندی پر واقع جھیلوں اور وہاں کی پانچ اہم ندیوں پر کیا ہوگا-اس کی پرواہ کسی کو نہیں ہے۔ریاست کے خصوصی قانونی درجے کو ختم کرنے سے آرٹیکل 35اے بھی ختم ہو گیا جس کی وجہ سے وہاں کے باشندوں کو وہ حق اور خصوصی اختیارات حاصل تھے جو ان کو اپنی ریاست کا منتظم بھی بناتے تھے۔ اس لئے، یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ‘ کاروبار کے لئے دروازے کھول دینے ‘ کا مطلب وہاں اسرائیل کی طرح بساوٹ یا تبت کی طرح آبادی کے تبادلے کے لئے دروازے کھول دینا بھی ہو سکتا ہے۔کشمیری کا سب سے پرانا اور اصل ڈر یہی رہا ہے۔ ان کا سب سے ڈراؤنا خواب کہ ان کی ہری-بھری وادی میں ایک عدد مکان کی خواہش رکھنے والے فاتح ہندوستانیوں کا طوفان انھیں بہاکر لے جائےگا، آسانی سے سچ بھی ہو سکتا ہے۔
جیسے ہی اس ایکٹ کے پاس ہونے کی خبر آئی، ہر طرح کے ہندوستانی راشٹروادی جھوم اٹھے۔ میں اسٹریم میڈیا، زیادہ تر اس فیصلے کے سامنے سرخم تسلیم کرچکا ہے۔ لوگ گلیوں میں ناچ رہے تھے اور انٹرنیٹ پر خوف ناک خاتون مخالف ماحول تھا۔ہریانہ کے وزیراعلی منوہر لال کھٹر نے ریاست کے جنسی تناسب سے متعلق اپنی حصولیابیوں کا
تذکرہ کرتے ہوئے مذاق کیا،’ہمارے دھنکھڑ جی کہتے تھے کہ ہم بہار سے لڑکیاں لائیںگے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ کشمیر بھی کھلا ہے، وہاں سے بھی لڑکیاں لا سکتے ہیں۔ ‘اس طرح کے غیر مہذب جشن کے شورشرابے سے کہیں زیادہ-گشت لگاتے سکیورٹی اہلکاروں سے بھری اور بیریکیڈوں سے بند گلیوں اور ان میں رہنے والے قید اور کانٹےدار تاروں سے گھرے، تقریباً 70 لاکھ ذلیل کشمیری، جن پر ڈرون سے لگاتار چوکسی کی جا رہی ہے اور جو باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ کر پانے کی حالت میں نہیں ہیں، ان کے سناٹے کی آواز آج سب سے زیادہ بلند ہے۔
اطلاعات کے اس زمانے میں، کوئی حکومت کتنی آسانی سے ایک پوری آبادی کو باقی دنیا سے کیسے کاٹ بھی سکتی ہے ؛ اس سے پتہ لگتا ہے کہ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں۔کشمیر کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ’تقسیم’کے ادھورے کاموں میں سے ایک ہے۔ ‘تقسیم’-جس کے ذریعے انگریزوں نے بر صغیر کے بیچ میں لاپروائی سے ایک لکیر کھینچ دی اور یہ مان لیا گیا کہ انہوں نے ‘مکمل’ کو تقسیم کر دیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ‘مکمل؛جیسا کچھ تھا نہیں۔برٹن کے ماتحت ہندوستان کے علاوہ ایسے سیکڑوں آزاد رجواڑے تھے جن سے الگ الگ مول-تول کیا گیا کہ وہ کن شرطوں پر ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ جائیںگے۔ جو ریاستیں اس کے لئے تیار نہیں تھیں، ان سے زبردستی منوا لیا گیا۔
ایک اور تقسیم اور اس کے دوران ہوئے تشدد نے بر صغیر کو تکلیف اور کبھی نہ بھر سکنے والے زخم دئے، وہیں دوسری طرف اس دور کا تشدد اور بعدکے سالوں میں ہندوستان اور پاکستان میں ہوئے تشدد کا، کئی علاقوں کی موافقت (assimilation) کے عمل سے ویسا ہی واسطہ ہے جیسا تقسیم سے۔راشٹرواد کے نام پر دیگر ریاستوں کی اس شمولیت یا موافق منصوبہ کا سیدھا-سیدھا معنی یہ ہے کہ 1947 کے بعد کوئی بھی سال ایسا نہیں گیا جب ہندوستانی فوج کو ہندوستان میں ہی’اپنے لوگوں ‘کے خلاف تعینات نہ کیا گیا ہو؛ اور یہ فہرست بہت لمبی ہے-کشمیر، میزورم، ناگالینڈ، منی پور، حیدر آباد، آسام۔موافقت (adaptation)کا عمل نہ صرف بےحد پیچیدہ اور تکلیف دہ رہاہے بلکہ اس نے ہزاروں جانیں بھی لی ہیں۔ آج سابقہ جموں و کشمیر کی سرحد کے دونوں طرف جو ہو رہا ہے وہ ادھ کچرے موافقت کا نمونہ ہے۔
پچھلے ہفتہ جو کچھ پارلیامنٹ میں ہوا وہ Instrument of Accessionکے آخری رسومات کی ادائیگی کی طرح تھا۔ پیچیدہ حالات سے پیدا ہوئے اس دستاویز پر دستخط کئے تھے پہلے سے ہی بھروسہ کھو چکے ہندو ڈوگرا راجا مہاراجا ہری سنگھ نے۔ ان کی غیرمستحکم اور خستہ حال ریاست ہندوستان اور پاکستان کی نئی سرحد کے بیچوں بیچ پھنسکر رہ گئی تھی۔
1945 میں ان کے خلاف ہوئی بغاوت نے زور پکڑ لیا تھا اور تقسیم کی آگ نے اس کو اور بھڑکا دیا۔ پونچھ کی مغربی پہاڑی ضلع کی اکثریت مسلمان مہاراجا کی فوج اور ہندو شہریوں سے بھڑ گئے۔ اور ادھر جنوب واقع جموں میں مہاراجا کی فوج نے دوسری ریاستوں کی فوج کی مدد سے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔مؤرخوں اور دیگر کئی رپورٹس کے مطابق جموں اور آس پاس کے شہروں کی گلیوں میں 70000 سے 200000 درمیان لوگ موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔ جموں میں ہوئے قتل عام کی خبر سنکر شمال مغربی سرحدی ریاست کے پہاڑوں سے اترے پاکستانی قبائل نے کشمیر وادی میں آگ زنی اور لوٹ پاٹ سے ہاہاکار مچا دیا۔
ہری سنگھ کشمیر سے جموں دوڑے اور وزیر اعظم جواہرلال نہرو سے مدد کے لئے فریاد لگائی۔ جس دستاویز کے تحت ہندوستان کی فوج کشمیر میں قانونی شکل سے داخل ہو پائی، اس کو ہی Instrument of Accessionکہا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کی مدد سے ہندوستانی فوج نے پاکستانی قبائلیوں کو پیچھے تو دھکیل دیا، پر صرف وادی سے متصل پہاڑوں تک ہی۔ اور اس طرح سابق ڈوگرا ریاست ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم ہو گئی۔Instrument of Accession نام کے اس دستاویز کی، جموں و کشمیر کے لوگوں کے درمیان، ایک ریفرنڈم کے ذریعے ان کی رائے لےکر تصدیق کی جانی تھی۔ جس ریفرنڈم کا وعدہ کیا گیا تھا وہ کبھی پورا نہیں ہوا۔ اور اسی کے ساتھ بر صغیر کے خطرناک سیاسی مسئلے کا جنم ہوا۔
تب سے گزشتہ 72 سال میں آئی ہر مرکزی حکومت نے Instrument of Accession کی شرطوں کے ساتھ تب تک کھلواڑ کیا جب تک یہ صرف دکھاوے محض کا نہیں رہ گیا۔ اب اس بچےکھچے دکھاوے کو بھی اٹھاکر کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا گیا ہے۔یہاں تک آنے میں کیا جوڑتوڑ ہوئے، اس کا خلاصہ لکھنے کی کوشش ایک بیوقوفی ہی ہوگی۔ صرف اتناہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب اتنا ہی پیچیدہ اور خوف ناک ہے، جتنا 50 اور 60 کی دہائی میں امریکہ نے جنوبی ویتنام میں اپنی کٹھ پتلی حکمرانوں کے ساتھ کھیلا تھا۔انتخابی جوڑتوڑکے لمبے باب کے بعد 1987 میں وہ تقسیم کاری دور آیا، جب نئی دہلی نے ذلالت کی حد تک جاکر ریاست کے انتخابات میں بڑی سطح پر دھاندلی کی۔ 1989 آتےآتے ذاتی-فیصلے کی یہ غیر متشدد مانگ پوری طرح آزادی کی ایک لڑائی میں بدل گئی۔ ہزاروں لوگ سڑکوں پر اتر آئے اور ایک کے بعد ایک قتل عام کے شکار ہونے لگے۔
جلدہی کشمیر وادی، پاکستان کے ذریعے تربیت یافتہ اور ہتھیاروں سے لیس کروائے گئے کشمیری دہشت گرد-جن میں سرحد کے دونوں طرف کے کشمیری تھے-اور غیر ملکی جنگجوؤں سے بھر گئی، جن کے زیادہ تر علاقوں میں کشمیری لوگوں نے بھی ساتھ دیا۔ایک بار پھر کشمیر پورے بر صغیر پر چھائے سیاسی بونڈر میں پھنس گیا-ایک طرف پاکستان اور افغانستان سے آیا اسلام کا شدت پسندچہرہ، جس سے کشمیری تہذیب کا کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا تھا اور دوسری طرف ہندوستان میں شدت پسند ہندو راشٹرواد اپنے ابھار پر تھا۔اس بغاوت کی پہلی قربانی، صدیوں پرانا کشمیری مسلمانوں اور مقامی طور پر کشمیری پنڈت کے نام سے جانا جانے والے اقلیت ہندوؤں کا رشتہ۔
مقامی تنظیم کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی(کے پی ایس ایس)کے مطابق، جب تشدد شروع ہوا تو دہشت گردوں کے ذریعے تقریباً400 پنڈتوں کو نشانہ بناکر ان کا قتل کر دیا گیا۔ سرکاری اندازہ کے مطابق 1990 کے آخر تک 25000 پنڈت فیملی وادی چھوڑکر چلے گئے۔کشمیری پنڈتوں سے نہ صرف اپنا گھر اور جائے پیدائش بلکہ جو کچھ بھی ان کے پاس تھا، سب چھن گیا۔ اگلے کچھ سالوں میں ہزاروں اور چلے گئے-تقریباً ساری پنڈت فیملی۔ جدو جہد جب اور بڑھا تو ہزاروں مسلمانوں کے علاوہ، کے پی ایس ایس کے مطابق 650 پنڈت بھی مارے گئے۔تب سے بڑی تعداد میں پنڈت جموں واقع پناہ گزیں خیموں میں بےحدبدتر حالات میں رہ رہے ہیں۔گزشتہ30 سالوں میں کسی بھی حکومت نے ان کو گھر لوٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ صورت حال کوبنائے رکھ کران کے غصے اور کڑواہٹ کو کشمیر کے بارے میں سب سے مؤثر راشٹرواد نیریٹو کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اس پوری کہانی کے ایک پہلو پرہنگامہ مچاکر بڑی چالاکی سے باقی پوری دردناک کہانی پر پردہ ڈال دیا گیا۔ آج کشمیر دنیا کے سب سے بڑے فوجی علاقوں میں سے ایک ہے-یا شاید دنیا کا سب سے بڑا فوجی علاقہ۔مٹھی بھر’دہشت گردوں’کو قابو کرنے کے لئے پانچ لاکھ فوجی تعینات کئے گئے ہیں، اس حقیقت کو فوج نے بھی قبول کیا ہے۔ مااضی میں بھلےہی اس بارے میں شک بھی رہا ہو پر اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ اصل دشمن کشمیری لوگ ہیں۔ہندوستان نے پچھلے 30 سالوں میں کشمیر میں جو کچھ کیا ہے وہ ناقابل معافی ہے۔ اس جدو جہد میں اب تک تقریباً 70000 لوگ، جن میں عام شہری، دہشت گرد اور فوج کے جوان سبھی شامل ہیں، مارے گئے ہیں۔ سیکڑوں لوگ لاپتہ ہیں۔ ہزاروں لوگ عراق کے ابوغریب جیل جیسی تکلیف سے گزرے ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں میں سیکڑوں نوعمرنوجوانوں کو پیلیٹ گن کے چھروں نے اندھا کیا ہے۔ حفاظتی اداروں کے لئے پیلیٹ گن بھیڑ کو منضبط کرنے کا من پسند ہتھیار ہے۔ کشمیری جنگجوؤں میں زیادہ تر نوجوان ہیں جن کو مقامی سطح پر تربیت دی جاتی ہے اور ان کو ہتھیار مہیا کرائے جاتے ہیں۔وہ یہ اچھی طرح سے جانتے ہوتے ہیں کہ ہاتھ میں بندوق لینے کے بعد ان کی زندگی چھے مہینے سے زیادہ کی نہیں ہے۔ جب بھی کوئی’دہشت گرد ‘مارا جاتا ہے تو ہزاروں کشمیری اس کو ایک شہید کے طور پر عزت دیتے ہوئے اس کے جنازے میں شامل ہوتے ہیں۔تیس سال سے فوج کے قبضے کا یہ موٹا-موٹا حساب کتاب ہے۔ بیتی دہائیوں میں اس قبضے کے کیاکیا خوف ناک اثر پڑے ہیں، ان سب کی تفصیل اس چھوٹےسے مضمون میں دے پانا ناممکن ہے۔
وزیر اعظم کے طور پر نریندر مودی کی پہلی مدت کار میں ان کے سخت رخ کی وجہ سے کشمیر میں تشدد کی حالت بدتر ہی ہوئی ہے۔ اسی سال فروری میں، جب کشمیر میں ایک خودکش حملے میں سکیورٹی اہلکار کے 40 جوان مارے گئے تو ہندوستان نے پاکستان پر ہوائی حملہ کر دیا۔ پاکستان نے بھی ٹھیک اسی صورت میں اس حملے کا جواب دیا۔تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ دو ملک، جو جوہری طاقتیں بھی ہیں، نے ایک دوسرے پر ہوائی حملے کئے ہوں۔ مودی کی دوسری مدت کار کے پہلے دو مہینے میں حکومت نے اپنی سب سے خطرناک چال چل دی ہے اور یہ کام بارود کو چنگاری دکھانے جیسا ہے۔حد تو تب ہو گئی جب اس سارے کام کو بڑے سستے، دھوکے بازی اور شرمناک طریقے سے انجام دیا گیا۔ جولائی کے آخری ہفتے میں کسی نہ کسی بہانے سے کشمیر میں 45000 اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے۔
اس بات کو سب سے زیادہ اچھالا گیا کہ امرناتھ یاتریوں پر پاکستانی’دہشت ‘ کا سایہ منڈلا رہا ہے۔امرناتھ یاترا میں ہرسال لاکھوں ہندو عقیدت مند بلند پہاڑوں کے بیچ سے پیدل(یا کشمیری پٹھو ڈھونے والوں کی مدد سے)امرناتھ گپھا تک جاتے ہیں اور قدرتی طور پر برف سے بنی ایک شکل-جس کو وہ شیو کا اوتار مانتے ہیں-کی پوجا کرتے ہیں۔1 اگست کو کچھ ہندوستانی ٹی وی چینلوں نے ایک خبر نشر کی جس کے مطابق امرناتھ یاترا کے راستے پر ایک بارودی سرنگ پائی گئی ہے، جس پر پاکستانی نشان درج ہے۔ 2 اگست کو حکومت نے ایک نوٹس جاری کیا اور نہ صرف امرناتھ یاتریوں کو بلکہ عام سیاحوں کو بھی، جو امرناتھ یاترا کے راستے سے کافی دور تھے، فوراً وادی چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
تقریباً دو لاکھ مہاجر یومیہ مزدوروں کی فکر کسی کو نہیں تھی۔ میرے خیال سے وہ اتنے غریب تھے کہ ان کی پرواہ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ 3 اگست سنیچر تک تمام تیرتھ یاتری اور سیاح چلے گئے اور پوری وادی کے چپےچپے پر سکیورٹی اہلکار تعینات ہو گئے۔اتوار کی آدھی رات تک گھیرابندی کر کے کشمیری کو اپنے-اپنے گھر تک محدود کر دیا گیا اور ابلاغ کے تمام ذرائع ٹھپ کر دیے گئے۔ اگلی صبح ہمیں پتہ لگا کہ جموں و کشمیر کے تین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی کی محبوبہ مفتی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
یہ سب مین اسٹریم کے ہندوستان حامی سیاستداں ہیں جو مشکل حالات میں بھی ہندوستان کے ساتھ کھڑے رہیں ہیں۔ اخباروں میں خبر ہے کہ جموں و کشمیر پولیس سے ہتھیار لے لئے گئے ہیں۔ جموں و کشمیر کے پولیس اہلکار ہمیشہ کسی بھی جدو جہد میں پہلی صف میں رہے ہیں۔ انہوں نے فوج کے لئے زمینی کام کیا، اس کی ہر طرح سے مدد کی۔
سرینگر میں سکیورٹی اہلکار(فوٹو : رائٹرس)
وہ اپنے مالکوں کے سنگ دل ارادوں کے مہرے بنے رہے اور اس کے بدلے ان کے حصے آئی اپنے ہی لوگوں کی ناراضگی ؛ یہ سب اس لئے کہ کشمیر میں ہندوستانی پرچم لہراتا رہ سکے۔ اور اب جب حالت ایک دم دھماکہ خیز ہو گئی ہے تو ان کو مشتعل بھیڑ کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر چھوڑ دیا گیا ہے۔نریندر مودی کی حکومت کے ذریعے ہندوستان کے دوستوں کے ساتھ-جن کو ہندوستانی طرز حکومت نے سالوں تک سینچا ہے-غداری اور ان کی عوامی تذلیل دراصل عدم واقفیت اور تکبر کی پیداوار ہے۔ اب جب یہ سب ہو ہی گیا ہے تو اب حالت سڑک بنام فوجی کی سی ہو گئی ہے۔ سڑکوں پر اترے کشمیری نوجوانوں کے ساتھ اس حالت میں جو ہوگا سو ہوگا، فوجیوں کے لئے بھی یہ حالت بےحد خراب ہے۔
کشمیر کی آبادی کے اس مشتعل طبقہ کے لئے، جو ذاتی-فیصلہ یا پاکستان کی طرف جانے کے حامی ہیں، ہندوستانی قانون اور آئین کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بےشک وہ لوگ خوش ہو رہے ہوںگے کہ چلو اب غلط فہمی سے پردہ اٹھ گیا اور جن کو مددگار سمجھا جا رہا تھا دراصل وہ دغاباز نکلے۔ لیکن ان کی خوشی بھی زیادہ ٹکنے والی نہیں ہیں۔ کیونکہ اب نئی غلط فہمی اور پردے پھیلائے جائیںگے۔ نئی سیاسی جماعت آئیںگی اور نئے کھیل کھیلے جائیںگے۔کشمیر کی تالابندی کے چار دن بعد، نریندر مودی، ظاہری طور پر خوشیوں سے بھرا ہندوستان اور قید کشمیر کو خطاب کرنے کے لئے ٹی وی پر نمودار ہوئے۔ وہ ایک بدلے ہوئے شخص معلوم ہو رہے تھے۔ عام طور پر اپنی تقریروں میں مشتعل زبان کا استعمال اور الزام لگانے والے مودی کی بات میں ایک نوجوان ماں جیسی نزاکت تھی۔ یہ اب تک کا ان کا سب سے ڈرانے والا اوتار تھا۔
جب انہوں نے بتانا شروع کیا کہ اب جب کشمیر کو پرانے اور خراب رہنماؤں سے آزادی مل گئی ہے، سیدھے نئی دہلی سے حکومت چلےگی اور کیسی نئی-نئی سوغات کشمیر پر جھماجھم برسیںگی، تب ان کی آواز میں ایک تھرتھراہٹ اور آنکھوں میں ان چھلکے آنسوؤں کی چمک تھی۔وہ ہندوستانی جدیدیت کے معجزوں کے بارے میں ایسے بتا رہے تھے، مانوگزشتہ وقت کے زمیندارانہ نظام سے نکلے کسانوں کو تعلیم دے رہے ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے پھر ایک بار ان کی سبز وادی میں بالی ووڈ فلموں کی شوٹنگ ہوا کرےگی۔
8 اگست کو احمد آباد میں وزیر اعظم نریندر مودی کا ملک کے نام خطاب سنتے لوگ(فوٹو : رائٹرس)
جب وہ جذباتی تقریر کررہے تھے، تب انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس وقت کشمیری کو گھروں میں بند رکھنے اور تمام ذرائع ابلاغ کو کاٹ کی دینے کی ضرورت کیوں پڑی۔ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ جس فیصلے کو نافذ کرکے کشمیر کو کافی فائدہ ہونے والا ہے، اس کو لینے سے پہلے ان سے رائے کیوں نہیں لی گئی۔انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ فوج کے قبضے کے علاقے میں رہنے والے لوگ ہندوستانی جمہوریت کی بڑی-بڑی سوغات کا لطف کیسے لے سکتے ہیں۔ حالانکہ چار دن بعد آنے والی عید کی مبارکباد دینا ان کو یاد رہا۔ انہوں نے ایسا بھی کوئی وعدہ نہیں کیا کہ یہ تالابندی تہوار پر ختم کی جائےگی۔ (اور اس کو ختم کیا بھی نہیں گیا۔)اگلی صبح، ہندوستانی اخبار اور کئی مبصر، جن میں کچھ ایک نریندر مودی کے سخت ناقد بھی تھے، ان کی جذباتی تقریر کے گرویدہ تھے۔ سچے نوآبادیات کی طرح، ہندوستان میں بہت لوگ ہیں جو اپنے حقوق اور آزادی کی پامالی کے تئیں تو بےحد بیدار ہیں پر کشمیر کے لئے ان کے معیار الگ ہیں۔
15 اگست، جمعرات کو لال قلعے کی فصیل سے آزادی دن کے اپنے خطاب میں نریندر مودی نے فخر سے کہا کہ ان کی حکومت نے آخرکار ‘ ایک ملک ایک آئین ‘ کا خواب مکمل کر دیا ہے۔اس تقریر کی پچھلی ہی شام ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں، جن میں سے بیشتر کو سابق جموں و کشمیر کی طرح خصوصی درجہ حاصل ہے، کہ کچھ باغی طبقوں نے یوم آزادی کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جب لال قلعے کے سامعین نریندر مودی کی تقریر پر تالیاں بجا رہے تھے، 70 لاکھ کشمیری تب بھی بند تھے۔ایسا سننے میں آ رہا ہے کہ ذرائع ابلاغ کو ابھی کچھ اور دن مسدود رکھا جا سکتا ہے۔ جب یہ ختم ہوگا، جو ہونا ہی ہے تو اس کے بعد کشمیر میں بنے تشدد بےشک ہندوستان کی طرف بہےگا۔
اس تشدد کا استعمال ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف اور بھڑکانے کے لئے ہوگا ؛ جن کو پہلے سے ہی ہیبت ناک کر دیا گیا ہے، جن کو الگ تھلگ کر اقتصادی طور پر نیچے دھکیلا جا رہا ہے اور ساتھ ہی ان کو مسلسل خوف ناک ماب-لنچنگ کا شکار بنایا جا رہا ہے۔حکومت کے ذریعے اس موقع کا اپنے طریقے سے استعمال کیا جائےگا اور وہ ان سماجی کارکنان، وکیلوں، فنکاروں، طالب علموں، دانشوروں اور صحافیوں پر ٹوٹ پڑےگی، جنہوں نے بےحد ہمت سے اور کھلے طور پر اس کارنامے کی مخالفت کی ہے۔خطرہ کئی سمتوں سے آئےگا۔ ہندوستان کی سب سے طاقتور تنظیم آر ایس ایس، جس میں نریندر مودی اور ان کے وزراء سمیت چھ لاکھ سے زیادہ کارکن ہیں، کے پاس تربیت یافتہ رضاکار فوج ہیں اور جس کے آئیڈیل مسولینی کی’ بلیک شرٹس ‘ والی فوج ہے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ، آر ایس ایس ہندوستانی جمہوریت کے ہر ادارہ پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کی طاقت اتنی بڑھ گئی ہے کہ یہ اپنے آپ میں ہی اقتدار ہے۔ اس طرح کے اقتدار کے نیچے کئی چھوٹی بڑی ہندوتنظیم، ہندو راشٹر کے حملہ آور دستے ملک کے کونےکونےمیں نہ صرف پھل پھول رہے ہیں بلکہ بےحد مذہبی جذبے سے اس مہلک کھیل کو آگے بڑھا رہے ہیں۔دانشوروں اور ماہر تعلیم کی حالت بےحد تشویشناک ہے۔ مئی کے مہینے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعے عام انتخاب جیتنے کے ٹھیک دوسرے دن، آر ایس ایس کے سابق ترجمان اور پارٹی کے جنرل سکریٹری رام مادھو نے لکھا کہ جن ‘بچی-کھچی ‘، ‘نام نہادسیکولر/ لبرل تنظیموں کا ملک کے اداروں پر بےحد اثر اور قابو ہے ان کو ملک کے تعلیمی اورثقافتی منظرنامے سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔ ‘
وزیر داخلہ امت شاہ(فوٹو : پی ٹی آئی)
1 اگست کو اس ‘اکھاڑ پھینکنے’کےعمل کی تیاری کے لئے پہلے سے ہی بےحد بےرحم قانون ‘ان لاءفُل ایکٹوٹیز پروینشن ایکٹ'(یو اے پی اے) میں ترمیم کر ‘ دہشت گرد ‘ کی تعریف کا دائرہ بڑھاتے ہوئے صرف تنظیموں کو نہیں بلکہ افراد کو بھی اس میں شامل کر لیا گیا ہے۔اس ترمیم کے بعد حکومت کو کسی بھی آدمی کو ایف آئی آر درج کرے، چارج شیٹ داخل کرے اور مقدمہ چلائے بنا دہشت گرد قرار دینے کا حق مل گیا ہے۔کس طرح کا آدمی اس زمرہ میں آ سکتا ہے-یہ ہمارے وزیر داخلہ امت شاہ کی پارلیامنٹ میں کی گئی تقریر سے واضح ہو جاتا ہے-‘ جناب، بندوق دہشت گردی کو بڑھاوا نہیں دیتی۔ دہشت گردی کی جڑ وہ پرپیگنڈہ ہے جو اس کو پھیلاتا ہے… اگر ایسے تمام افراد کو دہشت گرد قرار دیا جائے تو مجھے نہیں لگتا کہ کسی بھی رکن پارلیامان کو اس پر اعتراض ہوگا۔ ‘
ہم میں سے کئی نے ان کی سرد نگاہوں کو خود پر گھورتے ہوئے محسوس کیا۔ یہ جاننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اپنی آبائی ریاست گجرات میں کئی قتل معاملوں کے کلیدی ملزم کے طور پر وہ کچھ وقت سلاخوں کے پیچھے بھی رہے ہیں۔ان کے مقدمہ کے جج برج گوپال ہرکشن لویا کے مقدمہ کے دوران ڈرامائی حالات میں موت ہو گئی اور آناً فاناً میں ایک نئے جج کو ان کی جگہ تقرری کی گئی، جس نے جلد ہی امت شاہ کو بری کر دیا۔اس سب سے پرجوش ہوکر ملک بھر کے سیکڑوں نیوز چینلوں کے رائٹ ونگ ٹی وی اینکروں نے اب عدم اتفاق رکھنے والے لوگوں پر نہ صرف کھلے طور پر سنگین الزام لگانے شروع کر دئے ہیں بلکہ ان کو گرفتار کرنے کا اعلان تک کیا جاتا ہے۔ غالباً ‘ ٹی وی لنچنگ ‘نئے ہندوستان کا نیا سیاسی ہتھیار بننے کو ہے۔
دنیا جب یہ سب دیکھ رہی ہے، ہندوستانی فاشزم جلدی سے اپنی اصل صورت لے رہا ہے۔ میں نے 28 جولائی کے لئے کشمیر میں کچھ دوستوں سے ملنے کے لئے ٹکٹ بک کروائی تھی۔ وہاں پر مسئلہ اور سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی آہٹیں آنے لگیں تھی۔ جانے کے بارے میں دل میں دونوں طرح کے خیال آ رہے تھے۔ایک دوست اور میں میرے گھر بیٹھے اس بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ میرے دوست مسلمان ہیں اور ایک سرکاری ہاسپٹل میں سینئر ڈاکٹر ہیں اور انہوں نے اپنی ساری زندگی عوامی خدمات میں لگائی ہیں۔ ہم نے اس نئی فطرت کے بارے میں بات کرنا شروع کی، جس میں بھیڑ لوگوں، خاص طور پر مسلمانوں کو، گھیرکر ان سے زبردستی ‘ جئے شری رام ‘ کا نعرہ لگواتی ہے۔
اگر کشمیر سکیورٹی اہلکاروں سے بھرا ہے تو ہندوستان پاگل بھیڑ سے۔انہوں نے کہا کہ وہ بھی آج کل اکثر اس بارے میں سوچ رہے ہیں، کیونکہ اس کو اپنی فیملی، جو دہلی سے کچھ گھنٹوں کی دوری پر رہتی ہے، سے ملنے کے لئے گاڑی چلاکر جانا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ مجھے آسانی سے روکا جا سکتا ہے۔ ‘
میں نے کہا، ‘ تب تو تم کو یہ نعرہ لگا ہی دینا چاہیے۔ زندہ بھی تو رہنا ہے۔ ‘
‘ میں نہیں لگاؤںگا کیونکہ دونوں ہی صورت میں مجھے مار دیا جائےگا، جیسے ان لوگوں نے تبریز انصاری کو مار دیا۔ ‘
یہ اس طرح کی بات چیت ہے جو ہندوستان میں چل رہی ہیں، وہیں ہم کشمیر کے بولنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور وہ یقینی طور پر بولےگا۔
(یہ مضمون دی نیویارک ٹائمس میں 15 اگست کو شائع ہوا ہے، جس کو مضمون نگار اور ناشر کی اجازت سے دوبارہ یہاں شائع کیا گیا ہے۔)