جموں و کشمیر: پی ڈی پی کا اب تک کا سب سے خراب مظاہرہ، التجا مفتی بھی شکست سے دو چار

غیر منقسم جموں و کشمیر میں ایک دہائی قبل ہوئے اسمبلی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی موجودہ انتخابات میں دوہرے ہندسے کو بھی چھونے میں کامیاب نہیں ہوپائی۔

غیر منقسم جموں و کشمیر میں ایک دہائی قبل ہوئے اسمبلی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی موجودہ انتخابات میں دوہرے ہندسے کو بھی چھونے میں کامیاب نہیں ہوپائی۔

پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@jkpdp1)

پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@jkpdp1)

نئی دہلی: جموں و کشمیر میں ایک دہائی کے بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے لیے مایوس کن ثابت ہوئے۔ 2014 میں، جب اس وقت کی ریاست جموں و کشمیر میں انتخابات ہوئے تھے، پی ڈی پی 87 رکنی اسمبلی میں 28 سیٹیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بنی تھی  اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ اتحاد میں حکومت بھی چلائی تھی۔

اس بار 90 رکنی اسمبلی میں پارٹی صرف 3 سیٹوں پر ہی رہ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی کو کل ووٹوں کا صرف 8.87 فیصد ہی ملا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں اسے 22.67 فیصد ووٹ ملے تھے۔

یہاں تک کہ پارٹی سربراہ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی بھی پارٹی کی روایتی  مانی جانے والی سری گفوارہ-بجبہاڑہ سیٹ سے 9770 ووٹوں سے ہار گئی ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے بشیر احمد شاہ ویری نے اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی ہے۔ التجا نے اپنی شکست قبول کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بھی لکھی ہے۔

سری گفواڑہ-بجبہاڑہ سیٹ پی ڈی پی 1999 سے مسلسل جیت رہی تھی۔ اس سے قبل مفتی محمد سعید اور محبوبہ مفتی بھی اسی سیٹ سے کانگریس کے ٹکٹ پر جیت چکے ہیں۔

غورطلب ہے کہ محبوبہ نے خود اس بار الیکشن نہیں لڑا تھا۔ وہیں، پارٹی نے کل 81 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔

ایک طرح سے پی ڈی پی کی یہ شکست غیر متوقع نہیں ہے۔ انتخابی مہم کے دوران یہ کہا جا رہا تھا کہ پارٹی اگست 2019 میں ہونے والی  ریاست کی تقسیم کے لیے ذمہ دار ہے۔ ووٹر پی ڈی پی سے ناراض تھے کیونکہ اس نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی۔

تاہم، پی ڈی پی لوک سبھا انتخابات سے پہلے ‘انڈیا’اتحاد میں تھی، لیکن اس نے سیٹوں کی تقسیم پر نیشنل کانفرنس کے ساتھ اختلافات کے بعد اس اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ جبکہ موجودہ اسمبلی کے نتائج سے قبل محبوبہ نے اعلان کیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ حکومت سازی میں انڈیا اتحاد کا ساتھ دیں گی۔

بہرحال، پلوامہ، کپواڑہ اور ترال میں پی ڈی پی نے کامیابی حاصل کی ہے۔ پلوامہ میں پارٹی کی یہ مسلسل چوتھی جیت ہے، جبکہ اس نے ترال میں مسلسل تیسری بار کامیابی حاصل کی ہے۔ وہیں، یہ پہلا موقع ہے جب پی ڈی پی نے کپوارہ میں جیت درج کی ہے۔

کپواڑہ میں پارٹی کے میر محمد فیاض نے نیشنل کانفرنس کے ناصر اسلم وانی کو 9797 ووٹوں سے شکست دی۔ پلوامہ میں پی ڈی پی کے وحید الرحمان پارہ نے نیشنل کانفرنس کے محمد خلیل بند کو 8148 ووٹوں سے شکست دی۔ ترال میں پارٹی کے رفیق احمد نائک نے کانگریس کے سریندر سنگھ سے 460 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔

یہ پارٹی کی تاریخ کی اب تک کی بدترین کارکردگی ہے۔ اس نے 2002 کے اسمبلی انتخابات میں 16، 2008 میں 21 اور 2014 میں 28 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔

اس پارٹی کی تشکیل 1999 میں مرکزی وزیر داخلہ مفتی محمد سعید نے کی تھی اور 2002 کے اسمبلی انتخابات میں اقتدار کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھی، جب اس نے کانگریس کے ساتھ اتحاد میں حکومت بنائی تھی اور مفتی محمد سعید وزیر اعلیٰ بنے تھے۔

پارٹی نے 2014 میں غیر منقسم کشمیر کے آخری انتخابات میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب سے زیادہ 28 سیٹیں جیت کر بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں حکومت بنائی۔ مفتی محمد سعید وزیر اعلیٰ بنے، حالانکہ ایک سال بعد ان کا انتقال ہو گیا اور محبوبہ مفتی نے پارٹی کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ کا عہدہ بھی سنبھالا۔

اس کے بعد بی جے پی اور پی ڈی پی کا اتحاد ٹوٹ گیا اور ریاست میں گورنر اور صدر راج نافذ کر دیا گیا۔

اگست 2019 میں، مرکز نے کشمیر کو تقسیم کیا اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو چھین کر اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا۔ اس دوران پی ڈی پی قائدین سمیت نیشنل کانفرنس اور دیگر مقامی جماعتوں کے قائدین کو طویل عرصے تک گھروں میں نظر بند رکھا گیا۔

تاہم، اس کے بعد سے پی ڈی پی سربراہ محبوبہ کا موقف بی جے پی کے خلاف رہا ہے، لیکن بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے کی وجہ سے ان کے دامن پر لگا داغ ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔ 2014 میں پی ڈی پی، نے 3 لوک سبھا سیٹیں جیتی تھیں، اورپچھلے دو لوک سبھا انتخابات میں ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی۔