سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل نے کہا کہ حکومت 8سے10 ہزار لوگوں کی موت کے لئے تیار ہے۔ فیصل نے لوگوں سے حکومت کو قتل عام کا موقع نہ دینے اور جوابی لڑائی کے لئے تیار رہنے کی اپیل کی۔
سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: نوکرشاہ سے سیاسی رہنمابنے شاہ فیصل نے کہا کہ مرکز کے ذریعے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں بانٹنے سے پہلے کشمیر کو غیر متوقع بند کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور سجّاد لون جیسے رہنماؤں سے بھی رابطہ کر پانا ممکن نہیں تھا۔
فیس بک پر لکھتے ہوئے فیصل نے کہا،’کشمیر کو غیرمتوقع بند کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ زیرو بریگیڈ سے ہوائی اڈہ تک کچھ گاڑیوں کی آمد ورفت دیکھی جا رہی ہے۔ دیگر علاقے پوری طرح سے بند ہیں۔ صرف مریضوں اور کرفیو پاس والوں کو ہی آنے-جانے کی اجازت ہے۔ عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، سجّاد لون تک پہنچنا یا ان کو میسیج بھیجنا ممکن نہیں تھا۔ ‘
انہوں نے کہا،’دیگر اضلاع میں کرفیو زیادہ سخت ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ 80 لاکھ کی پوری آبادی کو یرغمال بناکر رکھا گیا ہے، جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ‘
سابق آئی اے ایس افسر نے آگے کہا،’فی الحال کے لئے کھانے-پینے اور دیگر ضروری سامانوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ انتظامیہ میں میرے ذرائع بتاتے ہیں کہ افسروں کو دئے گئے سیٹلائت فون شہریوں کی خدمات کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ابلاغ کا کوئی اور ذریعہ دستیاب نہیں ہے۔ جن کے پاس ڈش ٹی وی ہے وہ خبریں دیکھ رہے ہیں۔ کیبل خدمات بند ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو ابھی بھی پتہ نہیں ہے کہ کیا ہوا ہے۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ کچھ گھنٹے پہلے تک ریڈیو کام کر رہا تھا۔ زیادہ تر لوگ دوردرشن دیکھ رہے ہیں۔ قومی میڈیا کو بھی اندرونی علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ آخری وقت پر کسی پریشانی سے بچنے کے لئے خواتین کئی دن پہلے ہی ہاسپٹل میں بھرتی ہو جا رہی ہیں جس کی وجہ سے ایل ڈی ہاسپٹل میں صلاحیت سے زیادہ مریض ہو گئے ہیں۔ یہاں کچھ لوگ لنگر لگانے کی اسکیم بنا رہے ہیں۔ ‘
تشدد کی کوئی واردات نہ ہونے کی جانکاری دیتے ہوئے فیصل نے کہا،’ رام باغ، ناتی پورا، ڈاؤن ٹاؤن، کلگام، اننتناگ جیسے علاقوں سے پتھربازی کے چھٹ پٹ واقعات سامنے آئے ہیں۔ حالانکہ، کسی کی ہلاکت کی خبر نہیں ہے۔ ‘
آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے بارے میں کشمیریوں کے رد عمل کے بارے میں بتاتے ہوئے فیصل نے کہا،’لوگ صدمے میں اور سکتے میں ہیں۔ وہ ابھی اس کا اندازہ بھی نہیں لگا پائے ہیں کہ اس کا کیا اثر ہوگا۔ ہم نے جو کھویا ہرکوئی اس کا غم منا رہا ہے۔ 370 کو لےکر لوگوں سے میری بات چیت کے مطابق، یہ ریاست کا نقصان ہے، جس نے لوگوں گہرا دکھ دیا ہے۔ اس کو پچھلے 70 سالوں میں ہندوستان کے ذریعے کئے گئے سب سے بڑے دھوکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ‘
انہوں نے کہا،’حراست میں لئے جانے سے بچ گئے کچھ رہنماؤں نے ٹی وی چینلوں کے ذریعے امن بنائے رکھنے کی اپیل کی ہے۔ ایسا کہا گیا کہ حکومت 8سے10 ہزار لوگوں کی موت کے لئے تیار ہے۔ اس لئے ہمارا ادراک ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم کسی کو قتل عام کا موقع نہ دیں۔ میری بھی اپیل ہے کہ جوابی حملے کے لئے ہمیں زندہ رہنا چاہیے۔ ‘
انہوں نے یہ بھی کہا،کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لئے لوگوں کو کشمیر کے سفر سے بچنا چاہیے۔ میرے جاننے والےایک شخص کو کسی نے کہا کہ اب ہم تم کو تمہاری جگہ دکھائیںگے۔ ایسے ہی مقامی لوگوں کو چڑھانے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں لیکن اچھی بات ہے کہ کشمیری خاموش ہیں۔ ‘
مرکزی حکومت کے فیصلے کی تنقید کرتے ہوئے فیصل نے کہا کہ ہماری تاریخ اور ہماری پہچان کو دبانے والے اس غیرآئینی قانون کو چیلنج دینے کے لئے تمام حزب مخالف پارٹیاں متحد ہیں۔ ہم ایک ساتھ سپریم کورٹ جائیںگے اور اس ناانصافی کا بدلنے کی مانگ کریںگے۔
انہوں نے کہا،’فی الحال کے لئے یہی ایک امید ہے کیونکہ عالمی کمیونٹی نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔ اس لئے میں وہاں سے کسی چیز کی امید نہیں کر رہا ہوں۔ سب سے دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم سے جو چیز دن دہاڑے چھینی گئی ہے اس کو صرف نریندر مودی اور امت شاہ ہی ہمیں واپس دے سکتے ہیں۔ لیکن جو کھو چکا ہے، وہ کھو چکا ہے۔ ہم لڑائی جاری رکھنے کے اعتماد کے علاوہ شاید سب کچھ کھو چکے ہیں اور وہ ہم کریںگے۔ ‘