جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے ایک مہینے بعد ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس دلباغ سنگھ نے کہا کہ اگر کچھ پابندیوں سے آپ کسی کی زندگی بچا سکتے ہیں تو اس سے اچھا کیا ہو سکتا ہے؟ لوگ زندگی کے ساتھ آزادی کی بات کہتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ زندگی پہلے آتی ہے، آزادی بعد میں۔
جموں و کشمیر ڈی جی پی دلباغ سنگھ (فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر / جموں و کشمیر پولیس)
نئی دہلی: جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے ایک مہینے بعد ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس(ڈی جی پی) دلباغ سنگھ نے کہا ہے کہ سرینگر میں نعرے لگانا ہمیشہ غصے کا اظہار نہیں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو پکڑنے کے مقابلے ان کو حراست میں رکھے جانے کی تعداد بہت کم ہے۔ اگر ہم پانچ لوگوں کو پکڑتے ہیں تو ان میں سے صرف ایک کو حراست میں رکھتے ہیں۔ ہم نے صرف کچھ سو لوگوں کو حراست میں رکھا ہے، جو کہ بڑی تعداد نہیں ہے۔
انڈین ایکسپریس کو دئے ایک انٹرویو میں ڈی جی پی نے کہا، ‘ ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار موجود نہیں ہے کیونکہ وہ روزانہ بدل رہے ہیں۔ ہم جتنے لوگوں کو پکڑتے ہیں ان میں سے بہت کم لوگوں کو حراست میں رکھا جاتا ہے۔ اگر ہم پانچ کو پکڑتے ہیں تو صرف ایک کو حراست میں رکھتے ہیں اور باقی کو کمیونٹی اگریمنٹ کی بنیاد پر رہا کر دیا جاتا ہے۔ ہم نے صرف کچھ سو لوگوں کو حراست میں رکھا ہے۔ یہ بہت بڑی تعداد نہیں ہے۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ نظربند کئے گئے سیاسی لوگ 35 سے زیادہ نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کو اکسا سکتے تھے۔ اس لئے انتظامیہ کا یہ فیصلہ تھا کہ ان کو روکا جائے اور یہ قدم ان کی حفاظت کے لئے بھی تھا۔ ‘ انہوں نے کہا، ‘ اگر کچھ پابندیوں سے آپ کسی کی زندگی بچا سکتے ہیں تو اس سے اچھا کیا ہو سکتا ہے؟ لوگ زندگی کے ساتھ آزادی کی بات کہتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ زندگی پہلے آتی ہے، آزادی بعد میں۔ ‘
گزشتہ پانچ اگست کو نافذ کی گئی پابندیوں کو کسی دوسری طرح سے نافذ کئے جانے کے امکانات کے بارے میں پوچھے جانے پر ڈی جی پی نے کہا، ‘ شاید یہی واحد راستہ تھا۔ پابندی ذرا سخت لگ رہی ہیں، لیکن لاء اینڈ آرڈر کو بنائے رکھنے میں یہ کافی مددگار ہیں۔ حالانکہ یہ سب لوگوں کی قیمت پر ہوا، لیکن ہم ان کے تعاون کے شکر گزار ہیں۔ کمیونیکیشن سے کہیں زیادہ لوگوں کی زندگی ضروری ہے۔ ‘
جنوبی کشمیر میں فوج کے ذریعے ظلم و ستم کیے جانے کے الزامات پر ڈی جی پی نے کہا، ‘ ہم روزانہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ایک معاملہ تھا جہاں پر فوج کے ایک ٹکڑی نے حادثاتی طورپر ایک لڑکے کے سر پر چوٹ پہنچا دی تھی۔ وہ تلاشی کے لئے گئے تھے لیکن یہ پوری طرح سے الگ معاملہ تھا۔ ‘ انہوں نے کہا، ‘ جہاں تک لوگوں کو اٹھائے جانے اور ٹارچر کئے جانے کا سوال ہے تو میں نے بھی ٹارچر کے الزام لگانے والے کچھ ویڈیو دیکھے ہیں۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ بچے اب کہاں ہیں۔ ہمارے پاس اب اذیت دینے کی کوئی روایت نہیں رہ گئی ہے۔ ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ ‘
ڈی جی پی سنگھ نے کہا، ‘ میں بہت اطمینان کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ الگ الگ جگہوں پر کچھ چھوٹے-موٹے واقعات کو چھوڑکر ماحول کافی حد تک پر امن ہے۔ پورے جنوبی کشمیر میں لاء اینڈ آرڈر کے حالات بگڑنے کا سب سے کم معاملے سامنے آئے۔ زیادہ تر واقعات سرینگر علاقے سے سامنے آئیں۔ انہی علاقوں میں خاصکر غیر ملکی میڈیا کے ذریعے اسپانسرڈرپورٹنگ کی گئی۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ ایک دن پہلے ہی میں نے ڈاؤن ٹاؤن سرینگر میں صافاکدال، نوہٹا، خانیار علاقوں میں اپنے لوگوں سے بات کرتے ہوئے دو گھنٹہ گزارا۔ دو سال پہلے اسی علاقے میں ایک پولیس سب انسپکٹر کا پیٹ-پیٹکر قتل کر دیا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ اس تھانہ سے ایک بھی معاملہ سامنے نہیں آیا۔ یہی اصلی ڈاؤن ٹاؤن ہے۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ وہاں دکانیں بند ہیں لیکن میں ان کو زبردستی کھلوانے کے حق میں نہیں ہوں۔ یہ ان کا کاروبار ہے، ان کا کام ہے۔ ہم صرف شام کو ذرا ہوشیار رہتے ہیں کہ کوئی فائدہ نہ اٹھا لے۔ 92 تھانوں سے پابندی ہٹا لی گئی ہے اور صرف 13 تھانوں میں پابندی لگی ہیں۔ جموں اور لداخ میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیہہ اور کارگل میں انٹرنیٹ بھی کام کر رہے ہیں۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ سرینگر میں ہونے والے کچھ واقعات میں کوئی تشدد یا ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے۔ کچھ معاملے تو غصے کی وجہ سے ہوئے جو کہ سنگین جرم میں نہیں آتے ہیں۔ میں معاملہ درج کرکے کسی لڑکے کی زندگی کیوں برباد کروں۔ جب وہ حد پار کرتے ہیں، جب تشدد، پتھربازی یا کسی کے زخمی ہونے کا معاملہ سامنے آتا ہے تب مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ نعرے بازی یہاں کا شوق ہے۔ یہ ہمیشہ غصے کا اظہار نہیں ہوتا ہے۔ آپ نے ڈاؤن ٹاؤن میں دیکھا ہوگا کہ روٹین میں بھی آدمی جائےگا تو پتھر پڑ جائےگا۔ ‘ ڈی جی پی سنگھ نے کہا، ‘ ہم کمیونٹی اگریمنٹ کا استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لوگوں کو پکڑنے کے لئے ہم نے اس کا استعمال کیا اور پھر اکیلے سرینگر میں ہم نے تقریباً 300 معاملوں میں پتھربازوں کو رہا کر دیا۔ اگر ہر معاملے میں 10 لوگ 10 لوگوں کی رہائی مانگنے آتے ہیں تو ہم نے کامیابی سے 3000 لوگوں سے رابطہ کیا اور ان کو اسی دن چھوڑ دیا گیا۔’