جمعیۃ علماء ہند کےسربراہ مولانا ارشد مدنی کہا کہ غیرمسلموں کو بیٹیوں کو مخلوط تعلیم دینے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ وہ بے حیائی کی زد میں نہ آئیں۔ جمعیۃ نے اپنے بیان میں معاشرے کے بااثراور امیر لوگوں سے اپنے اپنے شعبے میں لڑکیوں کے لیےعلیحدہ اسکول اور کالج کھولنے کی اپیل کی۔
نئی دہلی:جمعیۃ علماء ہند کےسربراہ مولانا ارشد مدنی نے سوموار کو کہا کہ غیر مسلموں کو بیٹیوں کو مخلوط تعلیم دینے سے گریز کرنا چاہیے، تاکہ وہ بے حیائی کی زد میں نہ آئیں۔ جمعیۃ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق، جمیعۃ کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں مدنی نے یہ تبصرہ کیا۔
انہوں نے ماب لنچنگ کے واقعات کو لےکرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خود کو سیکولر کہنے والی سیاسی پارٹیوں کو اس جرم کے خلاف قانون بنانے کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔
مولانا مدنی نے کہا،‘بے حیائی اور فحاشی کسی بھی مذہب کاشیوہ نہیں ہے۔ہر مذہب میں اس کی مذمت کی گئی ہے کیونکہ ان سے معاشرے میں بے حیائی پنپتی ہے۔ ایسے میں میں اپنے غیر مسلم بھائیوں سے کہنا چاہوں گا کہ وہ بیٹیوں کو مخلوط تعلیم دینے سے پرہیز کریں، تاکہ وہ بے حیائی سے دور رہیں۔ ان کے لیے علیحدہ تعلیمی ادارےقائم کیے جائیں۔’
ماب لنچنگ کا ذکر کرتے ہوئے مدنی نے کہا، ‘سپریم کورٹ کی سخت ہدایات کے بعدبھی ماب لنچنگ کے واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسا کرنے والوں کوسیاسی تحفظ اور حمایت نہ ملی ہو؟’
انہوں نے یہ بھی کہا،‘تمام سیاسی پارٹی ،بالخصوص جو خود کو سیکولر کہتی ہیں، وہ کھل کر سامنے آئیں اور اس کے خلاف قانون بنانے کے لیے آواز اورعملی قدم اٹھائیں۔ صرف مذمت کرنا ہی کافی نہیں ہے۔’
مدنی نے دعویٰ کیا کہ یہ سب منظم طریقے سے کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصدمذہبی انتہا پسندی کو ہوا دے کراکثریت کو اقلیت کے خلاف متحد کرنا ہے۔
مدنی کے مطابق، ‘ایسے واقعات اس وقت اچانک بڑھ جاتے ہیں، جب کسی صوبے میں انتخاب ہوتے ہیں۔ یہ بہت تشویش کی بات ہے۔’
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو صرف تعلیم پرتوجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، ارشد مدنی نے کہا کہ ملک بھر میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی کش مکش جاری ہے، اس کا مقابلہ کسی ہتھیار سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس کا مقابلہ کرنے کا واحد طریقہ نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سےآراستہ کرنا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ آزادی کے بعد کی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے دائرےسے باہر کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا، ‘یہ بھی ایک سچائی ہے کہ مسلمانوں نے جان بوجھ کر خود کو تعلیم سے دور نہیں کیا، کیونکہ اگر انہیں تعلیم میں دلچسپی نہیں تھی، تو وہ مدرسے کیوں قائم کریں گے۔’
مدنی نے کہا،‘میں ایک بار پھر اپنے لفظوں کو دہرانا چاہوں گا کہ مسلمانوں کو اپنے بچوں کو کسی بھی قیمت پر اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنا چاہیے۔ہمیں ایسے اسکولوں اور کالجوں کی اشد ضرورت ہے، جن میں ہمارے بچے، بالخصوص مذہبی پہچان والی لڑکیاں، بنا کسی رکاوٹ یاامتیاز کے دنیا میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔’
جمعیۃنے اپنے بیان میں معاشرے کےبااثراور امیر لوگوں سے اپنے اپنے علاقے میں لڑکیوں کے لیے الگ الگ اسکول اور کالج کھولنے کی اپیل کی۔
انہوں نے کہا کہ اچھے مدرسوں اور اچھے سیکولرتعلیمی اداروں میں غریب بچوں کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ آج کی صورتحال میں اس کی ضرورت ہے۔
مدنی کے علاوہ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مفتی سید معصوم ثاقب،نائب صدر مولانا عبدالعلیم فاروقی، مولانا سید اسجد مدنی اور مولانا عبدالر شید قاسمی اور دوسروں نے اجلاس میں حصہ لیا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)