بے حیائی کا حوالہ دیتے ہوئے جمیعۃ  نے لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کی مخالفت کی

جمعیۃ علماء ہند کےسربراہ مولانا ارشد مدنی کہا کہ غیرمسلموں کو بیٹیوں کو مخلوط تعلیم دینے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ وہ بے حیائی کی زد میں نہ آئیں۔ جمعیۃ نے اپنے بیان میں معاشرے کے بااثراور امیر لوگوں سے اپنے اپنے شعبے میں لڑکیوں کے لیےعلیحدہ اسکول اور کالج کھولنے کی اپیل کی۔

جمعیۃ علماء ہند کےسربراہ  مولانا ارشد مدنی کہا کہ غیرمسلموں کو بیٹیوں کو مخلوط تعلیم  دینے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ وہ بے حیائی  کی زد  میں نہ آئیں۔ جمعیۃ نے اپنے بیان میں معاشرے  کے بااثراور امیر لوگوں سے اپنے اپنے شعبے میں لڑکیوں کے لیےعلیحدہ  اسکول اور کالج کھولنے کی اپیل کی۔

جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:جمعیۃ علماء ہند کےسربراہ  مولانا ارشد مدنی نے سوموار کو کہا کہ غیر مسلموں کو بیٹیوں کو مخلوط تعلیم دینے سے گریز کرنا چاہیے، تاکہ وہ بے حیائی  کی زد میں نہ آئیں۔ جمعیۃ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق، جمیعۃ  کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں مدنی نے یہ تبصرہ  کیا۔

انہوں نے ماب لنچنگ کے واقعات کو لےکرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خود کو سیکولر کہنے والی  سیاسی پارٹیوں کو اس جرم  کے خلاف قانون بنانے کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔

مولانا مدنی نے کہا،‘بے حیائی اور فحاشی کسی بھی مذہب کاشیوہ  نہیں ہے۔ہر مذہب  میں اس کی مذمت کی گئی ہے کیونکہ ان سے معاشرے  میں بے حیائی پنپتی  ہے۔ ایسے میں میں اپنے غیر مسلم بھائیوں سے کہنا چاہوں گا کہ وہ  بیٹیوں کو مخلوط تعلیم دینے سے پرہیز کریں، تاکہ وہ بے حیائی  سے دور رہیں۔ ان کے لیے علیحدہ تعلیمی ادارےقائم  کیے جائیں۔’

ماب لنچنگ کا ذکر کرتے ہوئے مدنی نے کہا، ‘سپریم کورٹ  کی  سخت ہدایات کے بعدبھی ماب لنچنگ کے واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ کیا یہ ممکن  ہے کہ ایسا کرنے والوں کوسیاسی  تحفظ  اور حمایت  نہ ملی ہو؟’

انہوں نے یہ بھی کہا،‘تمام سیاسی پارٹی ،بالخصوص جو خود کو سیکولر کہتی ہیں، وہ کھل کر سامنے آئیں اور اس کے خلاف قانون بنانے کے لیے آواز اورعملی  قدم اٹھائیں۔ صرف مذمت کرنا ہی کافی نہیں ہے۔’

مدنی نے دعویٰ کیا کہ یہ سب منظم  طریقے سے کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصدمذہبی  انتہا پسندی کو ہوا دے کراکثریت  کو اقلیت  کے خلاف متحد کرنا ہے۔

مدنی کے مطابق، ‘ایسے واقعات  اس وقت  اچانک بڑھ جاتے ہیں، جب کسی صوبے میں انتخاب ہوتے ہیں۔ یہ بہت تشویش  کی بات ہے۔’

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو صرف تعلیم پرتوجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

خبررساں  ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، ارشد مدنی نے کہا کہ ملک  بھر میں جس طرح کی مذہبی  اور نظریاتی کش مکش جاری  ہے، اس کا مقابلہ کسی ہتھیار سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس کا مقابلہ کرنے کا واحد طریقہ نئی نسل  کو اعلیٰ تعلیم سےآراستہ  کرنا ہے۔

انہوں نے الزام  لگایا کہ آزادی کے بعد کی تمام  سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی  کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے دائرےسے باہر کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا، ‘یہ بھی ایک سچائی ہے کہ مسلمانوں نے جان بوجھ کر خود کو تعلیم  سے دور نہیں کیا، کیونکہ اگر انہیں تعلیم  میں دلچسپی نہیں تھی، تو وہ  مدرسے کیوں قائم  کریں گے۔’

مدنی نے کہا،‘میں ایک بار پھر اپنے لفظوں کو دہرانا چاہوں گا کہ مسلمانوں کو اپنے بچوں کو کسی بھی قیمت پر اعلیٰ تعلیم  سے آراستہ  کرنا چاہیے۔ہمیں ایسے اسکولوں اور کالجوں کی اشد ضرورت ہے، جن میں ہمارے بچے، بالخصوص مذہبی  پہچان والی لڑکیاں، بنا کسی رکاوٹ یاامتیاز کے دنیا میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔’

جمعیۃنے اپنے بیان میں معاشرے کےبااثراور امیر لوگوں سے اپنے اپنے علاقے میں لڑکیوں کے لیے الگ الگ اسکول اور کالج کھولنے کی اپیل کی۔

انہوں نے کہا کہ اچھے مدرسوں اور اچھے سیکولرتعلیمی اداروں  میں غریب بچوں کو تعلیم  کے یکساں مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ آج کی صورتحال  میں اس کی ضرورت ہے۔

مدنی کے علاوہ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری  مفتی سید معصوم ثاقب،نائب صدر مولانا عبدالعلیم فاروقی، مولانا سید اسجد مدنی اور مولانا عبدالر شید قاسمی اور دوسروں  نے اجلاس  میں حصہ  لیا۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)

Next Article

دہلی: پچھلے چھ مہینوں میں 700 سے زیادہ غیر قانونی بنگلہ دیشی کو واپس بھیجا گیا

پہلگام حملے کے بعد قومی دارالحکومت کے علاقے میں شروع کی گئی مہم میں دہلی پولیس نے 470 لوگوں کی شناخت غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کے طور پر اور 50 دیگر کی پہچان ایسے غیر ملکیوں کے طور پر کی، جواپنے مقررہ وقت سے زیادہ عرصے سےملک میں  رہ رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کے بریماری میں ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد پر ایک نشان۔فوٹو بہ شکریہ؛ وکی میڈیا کامنس /ناہید سلطان۔

نئی دہلی: ہندوستانی حکومت کی ‘پش بیک’ حکمت عملی کے تحت گزشتہ چھ ماہ میں تقریباً 700 ‘غیر قانونی’ تارکین وطن کو دہلی سے بنگلہ دیش واپس بھیجا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، گزشتہ ماہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کےعمل میں تیزی آئی ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، پہلگام حملے کے بعد پوری راجدھانی میں شروع کی گئی ایک مہم تحت دہلی پولیس نے 470 لوگوں کی شناخت غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن اور 50 دیگر کی پہچان ایسے غیر ملکیوں کے طور پر کی، جو مقررہ وقت سے زیادہ عرصے تک ملک میں رہ رہے ہیں۔

اس کے بعد ان لوگوں کو ہنڈن ایئر بیس سے تریپورہ کے اگرتلہ لے جایا گیا اور پھر انہیں زمینی سرحد کے ذریعے بنگلہ دیش بھیج دیا گیا۔

اس سلسلے میں دہلی پولیس کے حکام نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال مرکزی وزارت داخلہ نے انہیں غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن اور روہنگیا کی شناخت اور حراست میں لینے کے لیے تصدیقی مشق کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ایک اہلکار نے اخبار کو بتایا کہ پچھلے ایک مہینے میں غازی آباد کے ہنڈن ایئر بیس سے تقریباً 3-4 خصوصی پروازیں تمام غیر قانونی تارکین وطن کو چھوڑنے کے لیے اگرتلہ گئی ہیں۔

اخبار کے ذرائع کے مطابق، ‘دہلی پولیس نے تقریباً پانچ عارضی ہولڈنگ سینٹر بنائے ہیں۔ انہیں ایف آر آر او کے ساتھ تال میل کرنے اور غیرقانونی تارکین وطن کوایک خصوصی طیارے سے اگرتلہ ہوائی اڈے اور مغربی بنگال چھوڑ نے کے لیےکہا گیا ہے۔’

بی جے پی مقتدرہ ریاستوں سے کئی تارکین وطن کو حراست میں لیا گیا

دہلی کے علاوہ، ہریانہ، راجستھان، گجرات، مہاراشٹر، اتر پردیش اور گوا سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیر اقتدار ریاستوں میں کئی غیر قانونی تارکین وطن کو حراست میں لیا گیا، اور بعد میں انہیں واپس بھیجنے  کے لیے بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے حوالے کر دیا گیا۔

دی ہندو کے مطابق ، جنوری کے بعد سے اب تک دہلی پولیس نے سب سے زیادہ تعداد میں غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کو حراست میں لیا ہے، جن کی تعداد کم از کم 120 ہے۔ اس کے بعد مہاراشٹر (کم از کم 110)، ہریانہ (80)، راجستھان (70)، اتر پردیش (65)، گجرات (65) اور گوا (10) کی ریاستی پولیس ہیں۔

ایک اہلکار نے اخبار کو بتایا کہ بی ایس ایف نے مغربی بنگال-بنگلہ دیش سرحد پر ایک سیکٹر سے 1200 سے زیادہ بنگلہ دیشیوں کو واپس بھیجا ہے۔

افسر نے کہا، ‘یہ گرفتاریاں اس وقت کی گئیں جب وہ زمینی سرحد سے ہندوستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ وزارت داخلہ کے حکم پر انہیں آئندہ چند روز میں واپس بھیج دیا گیا۔’

قابل ذکر ہے کہ اس ماہ کے شروع میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے 10 مئی کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حکومت نے قانونی راستہ اختیار کرنے کے بجائے دراندازی کو روکنے کے لیے ‘پش بیک’ میکانزم کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وہیں، بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے اس سے قبل 8 مئی کو ہندوستان کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں ‘لوگوں کو ملک میں ایسے دھکیلنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور ہندوستانی حکومت وطن واپسی کے قائم کردہ طریقہ کار پر عمل کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔’

Next Article

آپریشن سیندور کے ساتھ کھیل رہے ہیں سیاسی ہولی، مودی اپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے: ممتا

وزیر اعظم نریندر مودی نے علی پور دوار میں ایک ریلی میں مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات کے لیے انتخابی بگل بجاتے ہوئے آپریشن سیندور کو درگا پوجا کے دوران ہونے والے ‘سیندور کھیلا’ سے جوڑا تھا۔ اس پر سی ایم ممتا بنرجی نے کہا کہ وہ آپریشن کے نام کےساتھ ‘سیاسی ہولی’ کھیل رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے علی پور دوار میں ایک ریلی میں، جہاں انہوں نے ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) حکومت پر بدعنوانی اور تشدد کا الزام لگاتے ہوئے آپریشن سیندور کا علامتی استعمال جاری رکھا، وزیر اعظم کی جانب سے اگلے سال  ہونے والےمغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے لیے انتخابی بگل بجانے کے چند گھنٹے بعد ہی مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ان پر سخت حملہ کیا ۔

پاکستان پر ہندوستان کے فوجی حملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے بنرجی نے کہا کہ مودی آپریشن کے نام کے ساتھ ‘سیاسی ہولی’ کھیل رہے ہیں، جبکہ حزب اختلاف کے اراکین  پہلگام دہشت گردانہ حملے، آپریشن سیندور اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ فوجی جھڑپ کے بعد مرکز کی سفارتی کوششوں کے تحت بیرون ملک میں ہیں ۔

وزیر اعظم کےآپریشن سیندور کےسیاسی استعمال کے خلاف اپوزیشن لیڈر کی طرف سے پہلی  بار عوامی طور پر مذمت کرتے ہوئے بنرجی نے بنگال بی جے پی کے سربراہ اور مرکزی وزیر سکانت مجمدار پر وزیر اعظم کی موجودگی میں ‘آپریشن سیندور جیسا آپریشن مغربی بنگال’ کرنے کا وعدہ کرنے پر حملہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ سیندور خواتین کے احترام کی علامت ہے، وزیراعظم کو خواتین کا احترام کرنا چاہیے اور پوچھا کہ وہ پہلے اپنی اہلیہ کو سیندور کیوں نہیں دے رہے ہیں۔

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بنرجی نے کہا، ‘آپریشن سیندور کا نام ایک سیاسی مقصد کے ساتھ دیا گیا ہے۔ لیکن میں اس بارے میں کچھ نہیں کہوں گی۔ جب تمام اپوزیشن لیڈر بیرون ملک مادروطن کے لیے بول رہے ہیں ، اس وقت  وزیراعظم سیاسی ہولی کھیلنے آئے ہیں- یہ وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔’

انہوں نے کہا،’آپ جھوٹ کا کوڑا پھیلا رہے ہیں۔ وہ ملک کو لوٹتے ہیں اور بھاگتے ہیں۔ اس طرح سے بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔ آپریشن سیندور کے بارے میں، اگرچہ میرے پاس کوئی تبصرہ نہیں ہے، براہ کرم یاد رکھیں کہ ہر عورت احترام  کی مستحق ہے۔ وہ اپنے شوہروں سے سیندور لیتی ہیں۔ پی ایم مودی کسی کے شوہر نہیں ہیں، آپ  پہلےاپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے؟ مجھے افسوس ہے کہ مجھے ان تمام معاملات میں نہیں جانا چاہیے، لیکن آپ نے ہمیں آپریشن سیندور اور آپریشن بنگال کے نام پر منہ کھولنے پر مجبور کیا۔ ‘

آپریشن سیندور کی طرح آپریشن مغربی بنگال’: سکانت مجمدار

علی پور دوار میں اپنی ریلی میں مودی کا تعارف کراتے ہوئے سکانت مجمدار نے کہا، ‘پاکستان نے ہماری ماؤں اور بہنوں کے سروں سے سیندور مٹا دیا تھا۔ نریندر مودی نے اس کا بدلہ لے لیا ہے۔ میرے سامنے بی جے پی کے ہزاروں کارکن آنے والے دنوں میں مودی جی کے سپاہی بنیں گے، آپریشن سیندور کی طرح ’آپریشن مغربی بنگال‘ کو انجام دیں گے اور ترنمول کو بنگال کی کھاڑی میں پھینک دیں گے۔’

مودی نے اپنی تقریر میں آپریشن سیندور کو ‘سیندور کھیلا’ سے جوڑا، جو بنگال میں دس روزہ درگا پوجا تہوار کے اختتام پر منایا جاتاہے، جس میں خواتین وجئے دشمی کے دن ایک دوسرے کو سیندور لگاتی ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘آج جب میں ‘سیندور کھیلا’ کی سرزمین پر آیا ہوں، تو فطری طور پر دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کے نئے عزم پر بات کروں گا۔ دہشت گردوں نے ہماری بہنوں کا سیندور مٹا نے کی جرأت کی۔ اس لیے ہماری فوج نے انہیں سیندور کی طاقت کا احساس دلایا۔ ہم نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے جس کے بارے میں پاکستان سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔’

بنرجی نے مودی پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ قومی اتحاد کے ایسے وقت میں وزیر اعظم کے اس طرح کے تبصروں کو سننا ‘افسوسناک’ ہے جب بیرون ملک اپوزیشن لیڈر ایک آواز میں بول رہے ہیں۔ انہوں نے کل الیکشن کرانے کا چیلنج بھی دیا۔

انہوں نے کہا، ‘ مودی جی  نے آج جو کہا،اس سے ہم نہ صرف حیران ہیں، بلکہ وزیر اعظم کی آواز سن کر بہت دکھی بھی ہیں، جب تمام اپوزیشن (لیڈر) دنیا کے سامنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں، وہ ملک کے مفاد، قومی مفاد کے تحفظ کے لیے جرأت مندانہ فیصلے لے رہے ہیں۔ ہم ملک کی حفاظت کریں گے کیونکہ یہ ہماری مادر وطن ہے۔ لیکن کیا یہ وقت ہے کہ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے وزراء ان کی موجودگی میں یہ کہیں کہ وہ آپریشن سیندور کی طرح آپریشن بنگال کریں گے؟ میں انہیں چیلنج کرتی ہوں۔ اگر ان میں ہمت ہے تو کل الیکشن کروائیں، ہم تیار ہیں اور بنگال آپ کا چیلنج قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔’

گزشتہ ہفتے گجرات میں اپنے خطاب کی طرح مودی نے آپریشن سیندور کے دوران مسلح افواج کی کارروائیوں کا حوالہ دینا جاری رکھا اور ایک بار پھر اپنے بار بار دہرائے جانے والے نعرے کو دہرایا، ‘گھر میں گھس کے مارا۔’

اس بار انہوں نے کہا کہ آپریشن سیندور کے بعد پاکستان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ‘ تین بارگھر میں گھس کر مارا ہے تمہیں۔’

مودی نے کہا، ‘جب براہ راست جنگ ہوتی ہے تو ان کی (پاکستان کی) شکست یقینی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوج دہشت گردوں سے مدد لیتی ہے۔ لیکن پہلگام حملے کے بعد ہندوستان نے دنیا کو بتا دیا ہے۔ پاکستان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ‘تین بار گھر میں گھس کر مارا ہے تمہیں’۔ یہ بنگال ٹائیگر کی سرزمین سے 140 کروڑ ہندوستانیوں کا اعلان ہے – آپریشن سیندور ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔’

مودی نے اپنے خطاب میں ترنمول کانگریس حکومت پر مرشد آباد میں تشدد اور اساتذہ کی بھرتی گھوٹالہ کی سازش کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ بنگال کے لوگ بے رحم حکومت نہیں چاہتے۔

انہوں نے کہا، ‘لوگ ‘بے رحم حکومت’ نہیں چاہتے۔ وہ تبدیلی اور گڈ گورننس چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورا بنگال کہہ رہا ہے کہ وہ اب ظلم اور بدعنوانی نہیں چاہیے۔’

ممتا نے مودی پر تقسیم کی سیاست کرنے کا الزام لگایا

بنرجی نے کہا، ‘براہ کرم یاد رکھیں، وقت ایک عنصر ہے۔ آپ کو وقت یاد رکھنا چاہیے۔ ہمارے نمائندے ابھیشیک بنرجی بھی ٹیم میں شامل ہیں۔ اور وہ ہر روز دہشت گردی کے خلاف بول رہے ہیں۔ اسی وقت، مودی، بطور وزیر اعظم نہیں بلکہ بی جے پی صدر کے طور پر، آپ (بنگال میں) حکومت پر تنقید کر رہے ہیں، جو آپ کو مکمل حمایت دے رہی ہے، ملک کی حفاظت کر رہی ہے۔ آپ حکومت پر الزام لگا رہے ہیں اور اس وقت آپ اپوزیشن کو قصوروار ٹھہرانا چاہتے ہیں، تاکہ بی جے پی جملہ پارٹی کے لیڈر کی طرح چیزوں کی سیاست کی جا سکے۔’

بنرجی نے کہا کہ بنگال کی حکومت ‘بے رحم’ نہیں ہے جیسا کہ وزیر اعظم نے کہا ہے، اور مودی پر تفرقہ انگیز سیاست کرنے  کا الزام لگایا۔

انہوں نے کہا، انہوں نے اتنے وقت تک حکومت کی ہے، انہوں نے کیا دیا ہے؟ وہ تقسیم کرکے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تقسیم کی سیاست کرتے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘ایک بار جب وہ خود کو چائے والا کہتے ہیں، پھر وہ خود کو چوکیدار کہتے ہیں ( 2019 میں مودی نے خود کو چوکیدار کہا تھا )۔ اب، وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سیندور فروخت کریں گے۔ سیندور اس طرح  فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ سیندور غرورکا معاملہ ہے۔’

پہلگام دہشت گردانہ حملے کو انجام دینے والے دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے حکومت کی طرف سے کی گئی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے بنرجی نے پوچھا کہ وہ اب کہاں ہیں۔ اس حملے میں 26 شہری مارے گئے تھے۔

انہوں نے کہا، ‘کیا کسی نے پہلگام میں متاثرہ خواتین کے سیندور چھیننے والے دہشت گردوں کودیکھا ہے؟ کیا انہوں نے انہیں پکڑا ہے؟ امریکہ کا لفظ سنتے ہی وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔’ انہوں نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 10 مئی کی جنگ بندی کی ثالثی کے دعووں پر مودی کی مسلسل خاموشی کا حوالہ بھی دیا۔

بنرجی نے وزیر اعظم کو ٹیلی ویژن پر سیدھےمقابلے کا چیلنج بھی دیا اور کہا کہ مودی اپنا ٹیلی پرامپٹر بھی لا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘اگر آپ اتنے بہادر ہیں تو ٹیلی ویژن پر پریس کانفرنس کے لیے آئیں۔ ہم آپ کے ساتھ سیدھا مقابلہ کریں گے، جس موضوع پر بھی آپ چاہیں گے۔ اگر آپ چاہیں تو آپ اپنا ٹیلی پرامپٹر بھی لا سکتے ہیں۔’

مودی پر الزام ہے کہ وہ  اپنی عوامی تقریروں میں ٹیلی پرامپٹر کا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ وہ غیر رسمی انٹرویوز اور پریس کانفرنس سے خطاب کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

آسام کے وزیر اعلیٰ کے ’جاسوسی‘ کے الزامات پر گورو گگوئی بولے – اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کی چال

حال کے مہینوں میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ گورو گگوئی کی اہلیہ کے خلاف پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ روابط رکھنے کا الزام لگایا ہے۔ گگوئی نے کہا کہ ان کے خاندان کے خلاف یہ ہتک عزت کی مہم شرما کی جانب سے اپنے خاندان کی غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔

گورو گگوئی۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: گزشتہ چند مہینوں میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر اپنے پہلے عوامی تبصرے میں کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور پارٹی کے آسام کے نو منتخب صدر گورو گگوئی نے بدھ (28 مئی) کو کہا کہ انہیں بدنام کرنے کی مہم کا استعمال ‘کور’ کے طور پر کیا جا رہا ہے تاکہ کسی طرح کی ڈھال بنائی جا سکے یا ان غیر قانونی سرگرمیوں کو   چھپایا جا سکے جن میں وہ اپنے خاندان کے توسط سے ملوث رہےہیں۔

گگوئی نے شرما کی جانب سے ان کی اہلیہ الزبتھ کے خلاف پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ روابط کے الزامات کی تردید کی اور ان پر ‘سی گریڈ بالی ووڈ فلم’ کی سازش  کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ 10 ستمبر کو ریلیز ہوگی اور بری طرح فلاپ ہوگی۔

گگوئی نے کہا کہ ان کی اہلیہ نے 2011 میں ایک سال کے لیے پاکستان میں کام کیا تھا اور وہ 2013 میں ایک بار ان سے ملنے گئے تھے، لیکن انہوں نے سوال کیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گزشتہ 11 سالوں میں مرکزی حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کیوں نہیں کی ہے۔

نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں دی وائر کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے گگوئی نے کہا کہ شرما نے اپنے خاندان کو غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی دولت اور بڑی جائیدادیں جمع کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میرے خاندان کے خلاف یہ ہتک عزت کی مہم آسام کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے اپنے خاندان کی سرگرمیوں کو چھپانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ نے اپنے خاندان کو غیر قانونی طریقے سے جمع کی  گئی دولت اور بھاری اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ کچھ ایسا ہے جو ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ، ساتھ ہی یہ بھی کہ ان کے خاندان کے افراد کس طرح 17 کمپنیوں کی سربراہی کر رہے ہیں اور سرکاری ٹھیکے حاصل کر رہے ہیں۔ یہ ہتک عزت کی مہم کسی طرح کی ڈھال یا ان غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کے لیے ہے، جن میں وہ اپنے خاندان کےتوسط سے ملوث رہے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘ہم نے عوامی پالیسی کے شعبے میں میری اہلیہ کے کردار کے بارے میں حقائق سامنے رکھے ہیں۔ میں نے گیارہ سال قبل اپنے ذاتی دورہ پاکستان سے متعلق حقائق پیش کیے ہیں۔ جب میرے خاندان کی شہریت سے متعلق سوالات کی بات آتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت نجی اور ذاتی معاملہ ہے، لیکن حقائق اب سامنے آچکے ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ کو کوئی غیر قانونی چیز نظر آتی ہے تو اسے پبلک کرنا ان پر منحصر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ چیف منسٹر آسام کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں کیونکہ ہم ایسا ضرور کریں گے۔’

آسام کانگریس کی اہم آواز ہیں گورو گگوئی

سوموار  (26 مئی) کو کانگریس نے گگوئی کو آسام کانگریس کا صدر بنا کر بی جے پی اور شرما کو چیلنج کیا ہے۔

لوک سبھا میں پارٹی کے ڈپٹی لیڈر گگوئی کو پارلیامنٹ میں اپوزیشن کی ایک مضبوط آواز کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور حالیہ مہینوں میں شرما کی جانب سے  ان کی اہلیہ پر پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ ملی بھگت کے الزامات کو لے کر ان کےاور شرما کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے۔ گگوئی کی تقرری کو اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل شرما کے لیے براہ راست چیلنج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

گگوئی نے بدھ کوپہلی بار شرما کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی ٹائم لائن دیتے ہوئے کہا،’تقریباً 14-15 سال پہلے، میری اہلیہ، جو کہ ایک مشہور پبلک پالیسی ماہر ہیں، نے ایک بین الاقوامی پروجیکٹ پر کام کیا تھا،  جو جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی پر کام کر رہی تھی۔ 2011 میں، انہوں نے اس پروجیکٹ پر ایک سال پاکستان میں گزارا اور 2012-13میں ہندوستان واپس آگئیں۔ اور 2015 میں انہوں نےدوسری نوکری کر لی۔تقریباً 11-12 سال پہلے 2013 میں ایک بار ان کے ساتھ گیا تھا۔’

گگوئی نے کہا، ‘ان کا کام بدنام کرنا ہے، اس لیے وہ اسے سی گریڈ بالی ووڈ فلم بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جس کی ریلیز کی تاریخ 10 ستمبر دی گئی ہے اور یہ فلاپ ہو گی۔’

بتادیں کہ شرما حکومت نے گگوئی کے خلاف الزامات کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی (خصوصی تحقیقاتی ٹیم) تشکیل دی ہے، جو 10 ستمبر کو اپنی تحقیقات مکمل کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ‘اگر میں نے یا میری بیوی نے کچھ غلط کیا ہے تو گزشتہ 11 سال سے کس کی حکومت ہے؟ سب جانتے ہیں کہ اگر کوئی سرحد پار کرتا ہے تو کس طرح کی جانچ کی جاتی ہے۔ میں اپوزیشن لیڈر ہوں اور ایوان میں کھل کر بات کرتا ہوں۔ حکومت گزشتہ 11 سال سے کیا کر رہی ہے؟

گگوئی نے ایک ایسے وقت میں آسام کانگریس کی باگ ڈور سنبھالی جب پارٹی ریاست میں ایک دہائی کی بی جے پی کی حکمرانی کے بعد اپنی قسمت کو پھر سے سنوارنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شرما، جو خود کانگریس کے سابق رہنما ہیں، اور گگوئی کے سخت حریف کے طور پر دیکھے جاتے ہیں، نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں وزیر اعلیٰ کے خلاف ایک بڑی مہم شروع کی تھی، جب کانگریس کے رکن پارلیامنٹ نے ریاست میں حد بندی کے بعد اپنے پہلے کے حلقہ کالیا بور کے بجائے جورہاٹ سے انتخاب لڑا تھا۔

کانگریس نے آسام کی 14 لوک سبھا سیٹوں میں سے صرف تین پر کامیابی حاصل کی، لیکن جورہاٹ میں گگوئی کی جیت کو چیف منسٹرکےان کے خلاف انتخابی مہم کی وجہ سے جیت کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم، اس کے بعد سے کانگریس نے گزشتہ سال ضمنی انتخابات میں تمام پانچ سیٹیں کھو دی ہیں اور حالیہ پنچایتی انتخابات میں بھی اس نے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

گگوئی نے کہا کہ انہیں آسام کانگریس کا نیا صدر نامزد کرکے کانگریس قیادت کے ذہنوں میں شکوک پیدا کرنے کی شرما کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘آسام کے وزیر اعلیٰ نے میرے خلاف کئی ذاتی حملے کیے ہیں، میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ لوگوں میں یہ تاثر تھا کہ میرا سیاسی کردار قومی میدان تک محدود ہے اور آسام میں میرا کردار کم سے کم ہے۔ لیکن حد بندی کے ذریعے، جس میں صرف میرا لوک سبھا حلقہ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور حالیہ مہینوں میں انہوں نے جس طرح کے الزامات لگائے ہیں، انہوں  نے خود ہی میرا قد بڑھا دیا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘میں اپنی پارٹی قیادت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ وزیر اعلیٰ ایسے الزامات لگانے کی کوشش کر رہے تھے جس سے میری پارٹی قیادت کے ذہن میں میرے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہوں۔ میں اپنی پارٹی قیادت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میرا ساتھ دیا اور وزیر اعلیٰ کی چالوں کا شکار نہیں ہوئے۔’

شرما کا جوابی حملہ

گگوئی کے تبصرے کے فوراً بعد شرما نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ نے آخر کار اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

شرما نے کہا، ‘ہمیں یہ واضح کر دینا چاہیے کہ یہ صرف آغاز ہے، اختتام نہیں۔ آگے جو ہونے والا ہے وہ بہت زیادہ سنگین ہے۔ باوثوق ان پٹ اور دستاویزی معلومات کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی ہر معقول بنیاد موجود ہے کہ گگوئی نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی روابط بنائے رکھا ہے۔’

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شرما نے کہا کہ گگوئی نے جان بوجھ کر یہ اعتراف آسام کانگریس کے صدر بننے کے بعد کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ 10 ستمبر قریب آ رہا ہے۔

شرما نے کہا کہ گگوئی کے خلاف ان کے الزامات کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہ قومی سلامتی اور ہندوستان سے متعلق ہیں اور کانگریس کے رکن پارلیامنٹ کی اہلیہ پر انہوں نے انٹلی جنس بیورو (آئی بی) میں  جاسوسی کرنے  کا الزام لگایا۔

شرما نے کہا، ‘ان کی بیوی ہماری آئی بی کی جاسوسی کر رہی تھی اور میرے پاس اسے ثابت کرنے کے لیے دستاویزموجود ہیں۔ ترون گگوئی (آسام کے سابق وزیر اعلیٰ اور گگوئی کے والد) کے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ہماری ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ میں اپنا کردار تیار کیا۔ یہ ایک مخصوص ماحولیاتی کارکن گروپ کی جانب سے جاسوسی تھی۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ششی تھرور کا دفاع کرتے نظر آئے کرن رجیجو، پاناما میں دیے بیان کے لیے کانگریس نے کی تھی تنقید

آپریشن سیندورکے بعد بیرون ملک بھیجے گئے کل جماعتی وفد میں شامل کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ششی تھرور نے کہا تھا کہ پہلی بار ہندوستان نے ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد پار کرکے  کارروائی کی۔ جب کانگریس نے اس پر تنقید کی تو مرکزی وزیر کرن رجیجو تھرور کا دفاع کرتے ہوئے نظر آئے۔

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ششی تھرور، جو ایک آل پارٹی وفد کی قیادت کر رہے ہیں، پاناما میں ہندوستانی برادری سے خطاب کر تے ہوئے۔تصویر: ایکس

نئی دہلی: مرکزی وزیر کرن رجیجو بدھ (28 مئی) کو اس وقت کانگریس لیڈر ششی تھرور کا بچاؤ کرتے نظرآئے جب ترواننت پورم کے ایم پی کو ایک بار پھر نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی حمایت کرنے پر اپنی ہی پارٹی – کانگریس کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار تنقید کی وجہ ان کا ہزاروں کلومیٹر دور پاناما میں دیا گیا بیان تھا۔

پاناما میں وہ پہلگام دہشت گردانہ حملے، آپریشن سیندور اور پاکستان کے ساتھ چار روزہ فوجی تنازعہ کے بعد ہندوستان کے اجتماعی عزم کو پہنچانے کے لیے مرکزی حکومت کی طرف سے بیرون ملک بھیجے گئے سات آل پارٹی وفدمیں سے ایک کی قیادت کر رہے تھے۔

پاناما میں ہندوستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے تھرور نے کہا، ‘حالیہ برسوں میں جو تبدیلی آئی  ہے وہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ انہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ پہلی بار ہندوستان نے ستمبر 2016 میں اڑی میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایل او سی (لائن آف کنٹرول) کی خلاف ورزی کی تھی ۔ یہ کچھ ایساتھا جو ہم نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔’

انہوں نے کہا، ‘کارگل جنگ کے دوران بھی ہم نے لائن آف کنٹرول کو عبور نہیں کیا تھا، لیکن ہم نے اڑی میں ایسا کیا۔ پھر پلوامہ میں حملہ ہوا۔ ہم نے نہ صرف لائن آف کنٹرول کو عبور کیا بلکہ ہم نے بین الاقوامی سرحد بھی عبور کی اور بالاکوٹ میں دہشت گردوں کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا۔ اس بار (آپریشن سیندور میں) ہم ان دونوں سے آگے نکل گئے۔ ہم نے نہ صرف لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پار کی، بلکہ ہم نے پاکستان کے پنجابی گڑھ میں  حملہ کیا اور نو مقامات پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا۔’

کانگریس نے تنقید کی

کانگریس کے سابق رکن پارلیامنٹ ادت راج، جو تھرور کے حالیہ بیانات پر باقاعدگی سے تنقید کر رہے ہیں،نے کہا کہ انہیں ‘بی جے پی کا سپر ترجمان’قرار دیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا،’ کاش! میں وزیر اعظم مودی پر دباؤ ڈال کر آپ کو بی جے پی کا سپر ترجمان اعلان کروا سکتا، یہاں تک کہ آپ کے ہندوستان آنے سے پہلے ہی وزیر خارجہ اعلان کروا سکتا۔’

انہوں نے کہا، ‘آپ یہ کہہ کر کانگریس کی سنہری تاریخ کو کیسے بدنام کر سکتے ہیں کہ پی ایم مودی سے پہلے ہندوستان نے کبھی ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد کو عبور نہیں کیا۔ 1965 میں ہندوستانی فوج   کئی مقامات سے پاکستان میں داخل ہوئی، جس نے لاہور سیکٹر میں پاکستانیوں کو پوری طرح  حیران کر دیا تھا۔ 1971 میں ہندستان نے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور یو پی اے حکومت کے دوران کئی سرجیکل اسٹرائیکس کی گئیں، لیکن سیاسی طور پر بھنانےکے لیے ڈھول نہیں پیٹا گیا۔ جس پارٹی نے آپ کو اتنا کچھ دیا، اس کے ساتھ آپ اتنے بے ایمان کیسے ہو سکتے ہیں؟’

اس کے بعد، کانگریس کے میڈیا اور پبلسٹی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پون کھیرا نے لاہور ضلع کے برکی میں ایک مقبوضہ پاکستانی پولیس اسٹیشن کے باہر کھڑے چوتھی سکھ رجمنٹ کے افسران کی تصویر پوسٹ کی اور تھرور کو ٹیگ کیا۔

انہوں نے ایکس پر لکھا ، ‘یہ تصویر برکی کی لڑائی کی ہے (جسے لاہور کی لڑائی، 1965 کے نام سےبھی جاناجاتا ہے)،جو  1965 کی ہندوستان-پاکستان جنگ کے دوران ایک اہم جنگ تھی، جو ہندوستانی انفنٹری یونٹس اور پاکستانی بکتر بند افواج کے درمیان لڑی گئی تھی۔ برکی لاہور کے جنوب-مشرق میں ایک گاؤں ہے، جو  ہندوستان-پاکستان سرحد کے قریب ہے، لاہور کے علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈے سے تقریباً 11 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جو بمباوالی-راوی-بیدیاں (بی آر بی) نہر پر ایک پل کے ذریعے شہر سے منسلک ہے۔’

بعد میں بدھ کو کھیڑا نے اکتوبر 2016 کے ایک مضمون کا لنک بھی پوسٹ کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ وزیر خارجہ ایس جئے شنکر، جو اس وقت خارجہ سکریٹری تھے، نے پارلیامانی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بتایا تھا کہ ماضی میں بھی سرحد پار سے حملے کیےگئےتھے۔

نیوز آرٹیکل کا ایک حصہ پوسٹ کرتے ہوئےکھیڑا نے کہا ،’ماضی میں بھی لائن آف کنٹرول کےپار پیشہ ورانہ طور پر ہدف بنا کر، محدود صلاحیت کے انسداد دہشت گردی آپریشن کیے گئے ہیں، لیکن یہ پہلی بار ہے کہ حکومت نے اسے عام کیا ہے۔’

 جئے شنکر نے اکتوبر 2016 میں خارجہ امور کی پارلیامانی کمیٹی کے سامنے یہ بات کہی تھی۔

اس کے بعد کھیڑا کی پوسٹ کا حوالہ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور جنرل سکریٹری، میڈیا اور کمیونی کیشن انچارج جئے رام رمیش نے دیا۔

رمیش نے لکھا ، ‘اوہ، ہم کتنا پیچیدہ جال بنتے ہیں، جب ہم پہلی بار دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں…’

تھرور کو پاناما میں اپنے تبصروں کے لیے پارٹی کے ساتھیوں کی تنقید کا سامنا کر پڑ رہا ہے، جو بیرون ملک وفود کی تشکیل پر تنازعہ کے فوراً بعد شروع ہوا تھا۔ تھرور، جنہیں مودی حکومت نے سات وفود میں سے ایک کی قیادت کے لیے نامزد کیا تھا، کانگریس کی طرف سے اس وفد کا حصہ بننے کے لیے فراہم کردہ چار ناموں کی فہرست میں شامل نہیں تھے ۔

تاہم، تھرور نے حالیہ واقعات پر ملک کا نظریہ پیش کرنے کے لیے ایک آل پارٹی وفد کی قیادت کرنے کی دعوت کے لیے حکومت کا شکریہ ادا کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا۔

کانگریس کی طرف سے پیش کی گئی فہرست میں ان کا نام نہ ہونے کے باوجود، تھرور کو یہ دعوت اس وقت ملی جب ترواننت پورم کے ایم پی نے چند دن پہلے انٹرویو میں بی جے پی حکومت کے حق میں حمایتی تبصرہ کیا تھا۔ دی وائر کے کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے آپریشن سیندور اور پاکستان کے ساتھ فوجی تنازعہ کے بعد حکومت کے اقدامات کی تعریف کی تھی۔ کانگریس نے تب کہا تھا کہ تھرور کے بیانات کو ان کی ذاتی رائے سمجھنا چاہیے۔

اس تنقید کے بعد کرن رجیجو نے ایکس پر کہا ، ‘کانگریس پارٹی کیا چاہتی ہے اور انہیں ملک کی کتنی پرواہ ہے؟ کیا ہندوستانی اراکین پارلیامنٹ کو غیر ممالک میں جاکر ہندوستان اور اس کے وزیر اعظم کے خلاف بات کرنی چاہیے؟ سیاسی طور پر فریسٹریشن  کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!’

قابل ذکر ہے کہ تھرور حال کے ہفتوں میں بی جے پی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت میں اپنے کئی بیانات بالخصوص پہلگام دہشت گردانہ حملے اور ہندوستان کی فوجی کارروائی کے بعد تنازعات کے مرکز میں ہیں۔

Next Article

علی گڑھ: بیف اسمگلنگ کے نام پر تشدد کے بعد آئی فرانزک رپورٹ میں گائے کے گوشت کا دعویٰ خارج

علی گڑھ میں چار مسلم نوجوانوں پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر ہندوتوا تنظیموں کے لوگوں نے حملہ کیا تھا۔ اب فرانزک رپورٹ میں گائے کے گوشت کے دعوے کو خارج کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ 15 دنوں میں یہ دوسرا موقع تھا جب انہی ملزمین نے متاثرہ افراد کی گوشت لے جانے والی گاڑی کو اسی جگہ پرنشانہ بنایا۔

اوپر: گرفتار ملزم کو ، یو پی پولیس نےایکس اکاؤنٹ پراس کی  جانکاری شیئر کی۔ نیچے: علی گڑھ حملے کے زخمی متاثرین

نئی دہلی: 24 مئی کو اتر پردیش کے علی گڑھ میں ہندوتوا تنظیموں سے وابستہ لوگوں نے چار مسلم نوجوانوں پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر حملہ کیا تھا ۔ اب اس معاملے میں پولیس ذرائع نے دی وائر کو بتایا ہے کہ ضبط کیا گیا گوشت گائے کا نہیں تھا۔

ہردوآ گنج تھانے کے ایس ایچ او دھیرج کمار نے تصدیق کی کہ متھرا کی سرکاری لیب میں جانچ کے لیے بھیجے گئے گوشت کے نمونے کی رپورٹ نے اس حقیقت کو مسترد کر دیا ہے کہ یہ گائے کا گوشت ہے۔

بدھ (28 مئی) کی صبح علی گڑھ پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس بابت پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کے الزامات جھوٹے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 15 دنوں میں یہ دوسرا موقع تھا جب انہی  ملزمین کے گروہ نے متاثرہ افراد کی گوشت لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اس بار حملہ آوروں نے گاڑی کو آگ لگا دی اور ہائی وے کو بلاک کر دیا۔

حملے کا ایک نیا ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے، جس میں ملزم پولیس کی موجودگی میں ایک بے ہوش متاثرہ کو پولیس کی گاڑی سے گھسیٹتے ہوئے باہر نکالتے نظر آرہے ہیں۔ جن چار متاثرین کی شناخت ہوئی وہ ہیں-ارباز، عقیل، قدیم اور منا خان ہیں۔ سب علی گڑھ کے اترولی قصبے کے رہنے والے ہیں۔ الزام ہے کہ ہجوم نے انہیں برہنہ کیا اور تیز دھار ہتھیاروں، اینٹوں، لاٹھیوں اورراڈ سے بے دردی سے پیٹا۔

ایس ایچ او دھیرج کمار نے دی وائر کو بتایا کہ اس کیس میں چار ملزمین کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے تین کا نام پہلےسے ایف آئی آر میں درج تھا، جبکہ چوتھے ملزم کی شناخت ویڈیو فوٹیج کی بنیاد پر کی گئی۔

ملزمین کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این سی) کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جن میں 191 (3) (مہلک ہتھیار سے دنگا)، 109 (قتل کی کوشش)، 308 (5) (موت کی دھمکی دے کر جبری وصولی) اور 310 (2) (ڈکیتی) شامل ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ چاروں متاثرین کو مقامی پولیس نے بچا یا تھا، لیکن تب تک وہ شدید زخمی ہو چکے تھے۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) امرت جین نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس نے زخمی افراد کو علی گڑھ کے دین دیال اپادھیائے اسپتال میں داخل کرایا، جہاں تینوں  کی حالت تشویشناک ہے۔

حملے اور فرانزک رپورٹ کے بعد اب متاثرین کے اہل خانہ نے انتظامیہ سے تمام حملہ آوروں کو گرفتار کرنے اور متاثرین کے خلاف درج ‘جھوٹی’ ایف آئی آر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

معلوم ہو کہ ایک مقامی شخص وجئے بجرنگی نے چار مسلم نوجوانوں کے خلاف گائے کے ذبیحہ سے متعلق ایکٹ 1955 کی دفعہ 3، 5 اور 8 کے تحت ایف آئی آر درج کروائی تھی۔حالانکہ پولیس نے وجئے بجرنگی کو گرفتار کر لیا ہے، لیکن ایف آئی آر کو ابھی تک رد نہیں کیا گیا ہے۔

عقیل کے بھائی محمد ساجد نے کہا کہ لیب رپورٹ سے واضح ہو گیا ہے کہ ضبط کیا گیا گوشت ‘بھینس’ کا تھا، اس لیے اب جھوٹے مقدمے کو ختم کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا، ‘حقیقت اب پوری دنیا اور میڈیا کے سامنے ہے۔ اس نے خود کو بچانے کے لیے یہ جھوٹا مقدمہ درج کروایا تھا۔ اگر حکومت خود اس کو ختم نہیں کرتی تو اس سے زیادہ شرمناک اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ یہ ہمارے لیے دوہری مار ہے۔’

انہوں نےمزید کہا کہ ‘مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ یہ فرضی کیس واپس لے لیا جائے گا۔’

اپوزیشن نے کی تھی مذمت

کانگریس، سماج وادی پارٹی، عام آدمی پارٹی اور اے آئی ایم آئی ایم جیسی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے حملے کی مذمت کی تھی اور بعد میں متاثرین کے اہل خانہ سے ملاقات  بھی کی  ہے۔

گزشتہ 27 مئی کو بھیم آرمی چیف اور نگینہ کے ایم پی چندر شیکھر آزاد نے علی گڑھ کے جواہر لال نہرو اسپتال میں متاثرین سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ ‘ یہ صرف امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں اور غریب  لوگوں کے کاروبار پر منظم حملہ ہے ۔’

عقیل کے والد سلیم نے پہلے دی وائر کو بتایا تھا کہ جب سے یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت اقتدار میں آئی ہے، ان کا کام کاج  پوری طرح سے ٹھپ ہوگیا ہے اور ان کی روزی روٹی خطرے میں پڑ گئی  ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے پاس لائسنس  بھی تھا اور گوشت کا نمونہ بھی پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا، اس کے باوجود ان پر حملہ کیا گیا۔

وہیں، ساجد نے کہا، ‘یہ جو گئو رکشک ہیں ،یہ اب بھتہ خور گینگ بن چکے ہیں۔ انہیں حکومت کا مکمل تحفظ حاصل ہے۔ اس بار حملہ پولیس کی موجودگی میں ہوا۔ اسے پولیس کی گاڑی سے گھسیٹ کر باہر نکالا گیا۔ بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل – یہ سب ایک ہی ہیں۔ انہوں نے سماج کو ہندو-مسلمان کے نام پر تقسیم کرنے کے لیے غنڈہ گردی کا ماحول بنایا ہوا ہے۔ کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا جا رہا تھا، پھر بھی حملہ کیا گیا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)