دسمبر2019 میں سی اے اے کے خلاف ایک احتجاج میں ہوئے جھڑپ کے بعد دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ کیمپس میں گھس کر لاٹھی چارج کیا تھا، جس میں تقریباً 100 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ یونیورسٹی نے بنا اجازت کیمپس داخل ہونے اور طلباا ورسکیورٹی گارڈز پر حملے کے الزام میں پولیس پر ایف آئی آر درج کرنے کی عرضی دائر کی تھی۔
جے سی سی کی جانب سےجاری سی سی ٹی وی فوٹجد مں پولسض اہلکار لائبریری مںھ بٹھے طلبا کو لاٹھی سے مارتے دکھ رہے تھے۔ (بہ شکریہ: ٹوئٹر/ویڈیوگریب)
نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اس کے کیمپس میں بنا اجازت کے داخل ہونے اور طلبااور سکیورٹی گارڈوں پر حملہ کرنے کے الزام میں دہلی پولیس اہلکاروں پر ایف آئی آر درج کرنے کی گزارش کرنے والی عرضی بدھ کو خارج کر دی۔یہ معاملہ شہریت قانون(سی اے اے)کے خلاف دسمبر 2019 میں ایک احتجاج کے دوران کا ہے۔
میٹروپولیٹن مجسٹریٹ رجت گوئل نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے کیا گیا مبینہ کام ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کیے گئے کاموں کے دائرے میں آتا ہیں اور ان پر مقدمہ چلانے کے لیےمتعلقہ اہلکاروں سےلازمی منظوری لینی ہوگی۔
عدالت نے کہا،‘سپریم کورٹ کی جانب سےطے قانون کےمطابق، دائرہ اختیار کا استعمال کرنے سے پہلے بھی ضروری منظوری ہونی چاہیے۔ اس کے مد نظرموجودہ عرضی کو منظوری بنا اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔’
عرضی میں پولیس افسروں پر ایف آئی آر درج کرنے کی گزارش کی گئی ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ 15 دسمبر 2019 کو پولیس افسروں نے کئی طرح کے جبر کیے ہیں، جس میں پبلک/یونیورسٹی کی پراپرٹی میں توڑ پھوڑ کرنا اور بے بس طلبا پر طاقت کا غیر ضروری استعمال کرنا شامل ہے۔ یہ طلبا پرامن احتجاج کے اپنے حق کا استعمال کر رہے تھے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ سی سی ٹی وی کیمرہ فوٹیج میں پولیس ایک لائبریری میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دکھ رہی تھی، جہاں طلبا پڑھ رہے تھے۔ جن طلبا کا سی اے اے احتجاج سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اور ایک طالبعلم محمد منہاج الدین کی ایک آنکھ کی روشنی چلی گئی۔
عدالت کے آرڈر پر دائر کی گئی کارروائی رپورٹ میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ مظاہرین نے کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی اور یونیورسٹی کیمپس میں گھس گئے، پولیس پر پتھراؤ کرنے لگے اور بھڑکاؤ نعرے لگانے لگے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا، ‘نظم ونسق کوبنائے رکھنے کے لیے پولیس کو یونیورسٹی کیمپس میں گھسنا پڑا اور کچھ افرادکو حراست میں لے کر بھیڑ کو قابوکرنا پڑا۔’معاملے میں جامعہ کی نمائندگی کر رہے وکیل اصغر خان اور طارق ناصر نے کہا کہ وہ اس آرڈر کے خلاف ہائی کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کریں گے ۔
عدالت نے اپنے آرڈر میں کہا کہ اس معاملے کے حقیقی پس منظر سے واضح تھا کہ کچھ مظاہرے پرتشدد ہو گئے تھے اور پولیس اہلکار اس وقت احتجاج کو قابوکرنے کے لیے کام کر رہے تھے تاکہ تشدد کوروکا جا سکے اور نظم ونسق کی حالت کو اور خراب ہونے سے روکا جا سکے۔
جج نے کہا کہ یہ دلیل جا سکتی ہے کہ کارروائی کرتے ہوئے پولیس/ مدعا علیہ نےمبینہ طور پر اپنے حدود کو پار کیا اور کہیں کہیں ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا جبکہ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ مدعا علیہ کی جانب سے کیے گئے مذکورہ کام کا تعلق ان کی ڈیوٹی سے نہیں تھا۔
جج نے کہا کہ اسی طرح سے یہ بھی دلیل دی جا سکتی ہے کہ پولیس صورتحال سے شاید بہتر طریقے سے نمٹ سکتے تھے اورامن پسند طلبا مظاہرین اور غیر سماجی عناصرجنہوں نے پوری تحریک پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، ان میں فرق کرنے کے لیے پولیس کو کچھ صبر کامظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سےصبر وتحمل کا مظاہرہ نہیں کرنے اور حالات کوقابو کرنے کی کوشش میں بہت زیادہ طاقت کا استعمال کرنا ڈیوٹی سے متعلق ہے۔جج نے کہا کہ اس عدالت کو یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ پولیس کی جانب سےمبینہ کیا گیا کام سی آر پی سی کی دفعہ197 کے دائرے میں آتا ہے اور یہ سرکاری ڈیوٹی کرنے کے دوران کیا گیا ہے۔
پچھلے سال تشدد کے ایک سال مکمل ہونے پر یونیورسٹی کی وائس چانسلر نجمہ اختر نے
د ی وائر کو بتایا تھا کہ اب (ایف آئی آر) کوئی امید نہیں ہے۔ اس کے بجائے ہم مستقبل پر توجہ مرکوز کرنا چاہیں گے۔
اختر نے کہا تھا، ‘‘ہمیں جو کچھ بھی کہنا تھا، ہم نے متعلقہ وزارت کو بتا دیا تھا۔ ہم نے ان سے ضروری قدم اٹھانے کو کہا تھا اور اب گیند ان کے پالے میں ہے۔ ہماری واحد تشویش یہی تھی کہ ایف آئی آر درج ہونی چاہیے، جو کہ پولیس نے نہیں کی۔ ہم عدالت گئے تھے لیکن کسی بھی فیصلے پر نہیں پہنچا گیا اس لیے ہم ایسی چیزوں کے پیچھے اپنا وقت برباد نہیں کرنا چاہتے، جن کےنتیجے ہی نہیں نکلے۔ ہم اب پوری طرح سے اپنے کام پر دھیان دے رہے ہیں۔’
اختر نے کہا تھا، ‘اگر عدالت یہ طے کرنے میں اتناوقت لے رہی ہے کہ ایف آئی آر درج ہوگی یا نہیں تو اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔’
بتا دیں دسمبر 2019 کو شہریت قانون کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبااحتجاج کر رہے تھے۔ اس دوران ہوئے جھڑپ کے بعد دہلی پولیس نے یونیورسٹی کیمپس میں گھس کر لاٹھی چارج کیا تھا، جس میں تقریباً 100 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ وہیں، ایک طالبعلم کی ایک آنکھ کی روشنی چلی گئی تھی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)