ایران نے یہ کارروائی عراق میں امریکی ہوائی حملے میں اپنے فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی کے مارے جانے کے بعد کی ہے۔ میزائل حملے کے بعد ٹرمپ نے ٹوئٹ میں کہا کہ عراق میں دو فوجی اڈے پر ایران نے میزائل داغے۔ اس سے ہونے والے نقصانات اور ہلاکتوں کے بارے میں معلومات جمع کی جارہی ہے۔ اب تک سب ٹھیک ہے۔
نئی دہلی: ایران نے عراق واقع ایسے کم سے کم دو فوجی اڈے پر ایک درجن سے زیادہ بیلسٹک میزائل داغے جہاں امریکی فوج اور اس کی معاون افواج تعینات ہیں۔ بغداد میں امریکی ہوائی حملے میں ایران کے فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی کے مارے جانے کے بعد یہ کارروائی کی گئی ہے۔سلیمانی پر حملے کا حکم جمعہ کو امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔ افسروں نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کو اس بارے میں جانکاری دے دی گئی ہے اور وہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
پینٹاگن کے ترجمان جوناتھن ہاف مین نے ایران کے میزائل حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ‘ہم جنگ میں ہونے والے ابتدائی نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ‘ ہاف مین نے بتایا کہ سات جنوری کی شام ساڑھے پانچ بجے ‘ایران نے عراق میں امریکی فوج اور اس کی معاون افواج پر ایک درجن سے زیادہ بیلسٹک میزائل داغے۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘یہ واضح ہے کہ یہ میزائل ایران نے داغے اور عراق میں الاسد اور اربیل میں کم سے کم دو عراقی فوجی اڈے کو نشانہ بنایاجہاں امریکی فوج اور اس کی اتحادی افواج تعینات ہیں۔ ‘ وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری اسٹیفنی گریشم نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کو موجودہ صورتحال کی جانکاری دے دی گئی ہے۔ گریشم نے کہا، ‘ ہم عراق میں امریکی مراکز پر حملے کی خبروں سے واقف ہیں۔ صدر کو اس کی جانکاری دے دی گئی ہے اور وہ اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور قومی سلامتی کی ٹیم سے مشورہ کررہے ہیں۔ ‘
غور طلب ہے کہ ایران کے انقلابی گارڈ کے علمبردار حسین سلامی نے امریکہ کی حمایت والے مقامات کو ‘ آگ کے حوالے ‘ کرنے کی منگل کو دھمکی دی تھی۔ سلامی نے کرمن کے ایک چوراہے پر جمع ہزاروں لوگوں کے سامنے یہ عہد کیا تھا۔ کرمن مرحوم جنرل قاسم سلیمانی کی آبائی ریاست ہے۔ سلیمانی کی موت کے بعد پورےمغربی ایشیا میں حالات کشیدہ ہیں۔
میزائل حملے کے کچھ ہی وقت بعد ٹرمپ نے ٹوئٹ کیا، ‘ سب ٹھیک ہے۔ ایران نے عراق میں دو فوجی اڈے پر میزائل داغے۔ اس سے ہونے والے نقصانات اور ہلاکتوں کے بارے میں معلومات جمع کی جارہی ہیں۔ اب تک سب ٹھیک ہے۔ ہمارے پاس دنیا کی سب سے طاقتور اور اچھی طرح سے لیس فوج ہے۔ میں کل صبح بیان دوںگا۔ ‘
اس سے پہلے ٹرمپ نے قومی سلامتی کی ٹیم کے ساتھ اجلاس کیا جس میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع مارک ایسپر موجود تھے۔ حالانکہ اجلاس کی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی ہے۔وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ٹرمپ نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن ہدم التھانی سے بات کی اور امریکہ کے ساتھ ان کے ملک کی مضبوط شراکت داری کے لئے شکریہ ادا کیا۔ دونوں رہنماؤں نے عراق اور ایران کی صورتحال پر بات چیت کی۔
ٹرمپ نے جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کو بھی فون کیا اور دونوں رہنماؤں نے مغربی ایشیا اور لیبیا میں سکیورٹی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔وزارت خارجہ کے ترجمان مورگن اورٹاگس نے کہا کہ پومپیو نے کردستان کی علاقائی حکومت کے وزیر اعظم مسرور برجانی کو فون کیا اور ایران کے میزائل حملے کی ان کو جانکاری دی۔
اس بیچ ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت نے مغربی ایشیا کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کا الزام ٹرمپ کو دیا۔سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے کہا، ‘ عراق اور ایران میں آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ ‘ انہوں نے ایران کے جوہری معاہدہ سے الگ ہونے اور جنرل سلیمانی کے قتل کا حکم دینے کے ٹرمپ کے فیصلوں کی تنقید کی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)