سماج آپ کو کبھی بھولنے نہیں دیتا کہ آپ عورت ہیں: شوٹر دادی

03:40 PM Oct 29, 2019 | ریتو تومر

انٹرویو: اتر پردیش کے باغپت ضلعکے جوہری گاؤں کی دو عورتیں-چندرو اور پرکاشی تومر’شوٹر دادی’کے نام سے مشہور ہیں۔ 60 کی عمر میں مقامی رائفل کلب میں شوٹنگ سیکھ‌کر کئی ریکارڈ بنا چکیں ان دونوں عورتوں کی زندگی پر بنی ہندی فلم ‘سانڈ کی آنکھ’حال ہی میں ریلیز ہوئی ہے۔ان شوٹر دادیوں سے ریتو تومر کی بات چیت۔

شوٹر دادی کے نام سے مشہور چندرو (بائیں)اور پرکاشی تومر(فوٹو : دی وائر)

نشانے بازی کی شروعات کب اور کیسے ہوئی؟

چندرو تومر : جس سماج سے ہم لوگ آتے ہیں اس میں خواتین کو صرف گھر کی ذمہ داریوں تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔ ہمارے خود کے فیصلے بھی مرد ہی لیتے ہیں۔ یہی وجہ رہی کہ اپنی زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن کبھی کر نہیں پائی۔ایک دن گاؤں میں شوٹنگ کلب کھلا، جس میں صرف مرد جاتے تھے، عورتوں کی ممانعت تھی۔ ایک دن یوں ہی اپنی پوتی شیفالی کے ساتھ وہاں پہنچ گئی اور کوچ سے اپنی پوتی کو شوٹنگ سکھانے کو کہا۔ اس وقت میری پوتی تھوڑا ہچکچائی تو میں نے ایسے ہی نشانہ لگاکر دکھا دیا۔

کلب کے کوچ بڑا خوش ہوئے اور اس طرح نشانے بازی شروع ہوئی۔ شروع میں تھوڑی ہچک تھی کیونکہ عمر، سماج، گھرفیملی کا ڈر تھا کہ کیا اس عمر میں یہ سب ٹھیک لگے‌گا؟ گھروالے کیا کہیں‌گے؟ سماج کیا کہے‌گا؟ لیکن آہستہ آہستہ نشانے بازی کرنے لگی۔ رات میں گھر میں جب سو جاتے تھے تو چھت پر جگ میں پانی بھر‌کر پریکٹس کرتی تھی، تاکہ بندوق پکڑنے کے دوران ہاتھ سدھا ہوا ہو، ہلے نہیں۔

پرکاشی تومر : میں نے چندرو کو دیکھ‌کر نشانے بازی شروع کی۔ شروعات میں ہچکچاہٹ تھی لیکن سوچا جب چندرو اچھا کر رہی ہے تو میں بھی کر سکتی ہوں۔ ایسے ہی شروع کیا اور پھر تو یہ جنون بن گیا۔

آپ دونوں نے جب نشانے بازی شروع کی تب آپ کی عمر 60 کے آس پاس تھی۔ کیا کبھی عمر آڑے آئی؟

چندرو تومر : عمر تو بعد کی بات تھی، عورت ہوکر گھر سے باہر نکل‌کر مردوں کے ساتھ نشانے بازی کر رہے تھے اور میڈل جیت رہے تھے۔مخالفت کی اصلی وجہ تو یہی تھی۔ گاؤں میں خواتین کو پوری زندگی گھونگھٹ میں زندگی جینی پڑتی ہے۔ایسے میں دو عمر دراز عورتیں گھرفیملی سے چھپ-چھپ‌کر باہر جاکر مردوں کے ساتھ نشانے بازی کرتی ہیں، یہ سماج کے لئے کسی جرم سے کم نہیں تھا۔ کم سے کم سماج کو تو اس وقت یہ جرم لگتا تھا۔

طعنے تک سننے پڑتے تھے، مارپیٹ تک ہوئی تھی لیکن وہ زمانہ کچھ اور تھا۔ وقت کے ساتھ نظریہ بدلا ہے، لیکن پوری طرح سے نہیں بدلا ہے۔ لوگ ہمارے خلاف اس لئے تھے کیونکہ ہم عورتیں ہوکر بندوق تھامے ہوئے تھیں۔اگر ہم 60 کی جگہ 30 کی بھی ہوتیں تب بھی سماج کا نظریہ وہی ہوتا جو تب تھا۔ مجھے یاد ہے جب ہم بندوق تھام‌کر نشانہ لگاتے تھے تو ایسے بھی لوگ تھے، جو میدان کے باہر سے ہمارا مذاق اڑاتے تھے۔

پرکاشی تومر : عورتیں کسی بھی عمر کی ہوں، سماج ان کو پہلے عورت ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ ہمارے ساتھ تو یہ ہوا کہ ہمیں اس طرح کے طعنے سننے کو ملتے تھے کہ جو کسی کو بھی سننے میں اچھے نہیں لگتے۔ دماغ خراب ہو گیا ہے،باہر کی ہوا لگ گئی ہے،اس طرح کے باتیں سننے کو ملتی تھیں۔ ایک تو عورت ہونا اور اوپر سے عمر دراز عورت ہوکر کچھ کرنا آسان نہیں ہوتا۔

آپ کے گھروالوں کو آپ کی نشانے بازی کے بارے میں کیسے پتہ چلا اور اس پر ان کا کیا رد عمل تھا؟

چندرو تومر : میرے پوتے-پوتی تو شروع سےہی میرے ساتھ تھے۔میری حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے لیکن ایک دن گھر میں نشانے بازی کے بارے میں پتہ چل گیا۔ گھر کے بزرگ بہت غصہ ہوئے، بہت بھلا-برا کہا۔ ہمیں کہا گیا کہ سماج میں ہم نے ان کا نام خراب کر دیا، ان کی عزت مٹی میں ملا دی۔

آس-پڑوس سے بھی بہت کچھ سننے کو ملتا تھا۔ حالت یہ ہو گئی تھی کہ جب ہم دونوں گھر سے نکلتے تھے تو راستے میں عورتیں لگاتار طعنے مارتی تھیں لیکن ہم نے سب ان سنا کرکے نشانے بازی جاری رکھی۔اخباروں میں جب ہماری تصویریں آتی تھیں تو ان کو اخبار سے نکال‌کر چھپا لیا کرتے تھے تاکہ گھر میں کسی کو پتہ نہیں چل جائے۔ لیکن میرے شوہر نے مجھے پورا تعاون دیا۔ گھروالوں کے سامنے وہ مجھ پر غصہ ہونے کا دکھاوا کرتے تھے لیکن پیچھے سے ان کا پورا تعاون مجھے ملا۔

مقابلہ میں جیتے گئے ہمارے میڈلس ایک دن گھروالوں کے ہاتھ لگ گئے اور ان کو پتہ چل گیا کہ ہم نے چھپ-چھپ‌کر شوٹنگ کی پریکٹس کی ہے اور جھوٹ بول‌کر مقابلہ میں حصہ لینے جاتی رہیں۔

پرکاشی تومر : اس نشانے بازی کے لئے بہت کچھ برداشت کیا ہے۔ اتنے سال ہو گئے لیکن سماج کے جو طعنے تھے، اب بھی کانوں میں گونجتے ہیں۔ ایک تو ہم عورتیں اور وہ بھی عمر دراز تو سماج کو کہاں ہضم ہونے والا تھا لیکن ہمارے بچوں کا پورا تعاون رہا ورنہ یہاں تک پہنچنا بہت ہی مشکل تھا۔

آپ کی نشانے بازی کو لے کر گھر میں مخالفت کر رہے لوگوں اور سماج کا نظریہ کب اور کیسے بدلا؟

چندرو تومر : ایک بار ہم نے ویٹرن کیٹگری میں گولڈ اور سلور میڈل جیتا تھا، جس کے بعد اخبار میں ہماری تصویریں چھپی تھیں۔ اس دن میں نے ایسے ہی اخبار اٹھا لیا اور اپنی تصویریں پہچان لی۔میں نے اس پیج کو اخبار سے نکال‌کر چھپا لیا لیکن میرے بیٹوں کو کسی نے بتا دیا کہ ہماری تصویریں اخبار میں آئی ہیں۔ جب اس کو اخبار میں وہ تصویر نہیں ملی، تب میں نے وہ پیج نکال‌کر اس کو دیا۔ اس کے بعد گھروالے بھی خوش ہوئے کہ اخبار میں تصویر آئی ہے۔ اس وقت اخبار میں تصویریں آنا بہت بڑی بات ہوتی تھی۔ اسی طرح آہستہ آہستہ لوگوں کا نظریہ بدلنے لگا۔

پرکاشی تومر : جب ہماری محنت رنگ لائی اور ہمیں میڈل ملنے لگے تب سماج کے لوگوں کے طعنے، تعریف میں بدلنے لگے۔ ہمیں دیکھ‌کر چھوٹی-چھوٹی بچیاں نشانے بازی کرنے لگیں، ان کے گھروالے خود ہمارے پاس آکر ٹریننگ دینے کو کہنے لگے۔ کامیابی، تنقید کا منھ بند کر دیتی ہے۔ ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔

آپ کی شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کس طرح کی زندگی رہی؟

چندرو تومر : میری شادی 14 سال کی عمر میں ہو گئی تھی۔ 22 سال کی عمر میں بیٹا ہوا۔ میرے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ کبھی اسکول نہیں گئی لیکن انگریزی سیکھنے کا شروع سے شوق تھا۔ میں پڑھ نہیں پائی۔ بچپن سے کھیلنے کا دل تھا لیکن اس طرح کا ماحول اور چھوٹ نہیں تھی کہ کھیل سکیں۔ مجھے میری پوتی کے سہارے اس کا موقع ملا۔ شہری لوگوں کو پتہ نہیں ہوگا لیکن گاؤں میں خواتین کی زندگی ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے۔

فلم سانڈ کی آنکھ میں تاپسی پنو اور بھومی پیڈنیکر نے پرکاشی اور چندرو تومر کا کردار نبھایا ہے(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

ایسا سننے میں آیا ہے کہ ویٹرن کیٹگری میں ایک مقابلہ میں آپ نے دہلی کے سابق ڈی آئی جی دھیرج کمار کو ہرایا تھا لیکن انہوں نے آپ کے ساتھ فوٹو کھنچوانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس میں کتنی سچائی ہے؟

پرکاشی تومر: میں اس مقابلہ میں پہلے مقام پر آئی تھی، جبکہ دھیرج کمار دوسرے اور چندرو تیسرے مقام پر آئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ تصویر کھنچانے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ میں شرمندہ ہوں کہ میں ایک خاتون سے ہار گیا ہوں، یہ میرے لئے شرم کی بات ہے۔چندرو نے جوہری گاؤں کے غریب بچوں کواپنی زمین عطیے میں دی ہے، جہاں شوٹنگ رینج کھولا جائے‌گا۔ وہاں غریب بچوں کو نشانے بازی کی ٹریننگ دی جائے‌گی۔

اب تک کل کتنے میڈل جیتے ہیں؟

چندرو تومر: ہمارے میڈل کی تعداد کو لےکر بہت غلط فہمی ہے۔ کل 352 میڈل ہیں، جو ہماری پوری فیملی نے جیتے ہیں، جس میں میرے اور پرکاشی کے تقریباً 20-20 میڈل ہیں اور باقی 150 کے آس پاس میڈل بیٹیوں اور پوتی کے ہیں۔ہماری بیٹیاں اور پوتی بھی نشانےباز ہیں۔ ہم پری-نیشنل سطح تک کھیلے ہیں۔ اس کو قومی سطح کا ہی مانا جاتا ہے۔ اسٹیٹ چیمپین شپ بھی کھیلا ہے۔ ہم نے کبھی ٹریننگ نہیں لی۔ لوگ حیران تھے کہ بنا کسی ٹریننگ کے ہمارا اتنا درست نشانہ کیسے لگتا ہے۔

فلم میں آپ دونوں کا کردار تقریباً 30 سال کی آس پاس کی اداکارہ نے نبھایا ہے لیکن اس پر تنازعہ بھی ہے کہ عمر دراز اداکارہ کو فلم میں لینا چاہیے تھا۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟

چندرو تومر : جب ہم نے نشانے بازی شروع کی تھی تو ہماری عمر تقریباً 60 سال تھی۔ فلم میں جو اداکارہ کردار نبھا رہی ہیں، وہ کم عمر کی ہیں لیکن انہوں نے کام اچھا کیا ہے۔ میں تو مانتی ہوں کہ اس کو لینا چاہیے جو اچھی ایکٹنگ کریں اور تاپسی اور بھومی نے اچھا کام کیا ہے۔

عورتوں کو لےکر سماج خاص طورپر مردوں کے نظریے میں کتنی تبدیلی دیکھ رہی ہیں؟

چندرو تومر : بہت تبدیلی آئی ہے۔ پہلے عورت کا گھر سے باہر نکلنا اچھا نہیں مانا جاتا تھا۔ سوچ یہی تھی کہ عورتیں بنی ہی کھانا پکانے اور بچے سنبھالنے کے لئے ہیں۔ ایسے میں کوئی عورت گھر کی دہلیز لانگھ‌کر باہر نکلے اور وہ بھی کھیلنے جائے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔خاتون اور مرد کے درمیان کی کھائی ہمارے سماج نے بنائی ہے، اس کو بھرنا بہت ضروری ہے اور یہ بھر بھی رہا ہے۔ ہم نے اپنے گھر کے باہر ایک بورڈ لگا رکھا ہے، جس پر لکھا ہے، بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ، بیٹی کھلاؤ ۔ ہر کسی کو ایسا کرنا چاہیے۔