انٹرویو : دشمن، سنگھرش، سُر:دی میلوڈی آف لائف اور قریب قریب سنگل جیسی فلمیں بنانے والی ہدایت کار تنوجہ چندرا سے پرشانت ورما کی بات چیت۔
آپ کی پہلی ڈاکیومنٹری فلم ‘ انٹی سدھا اور انٹی رادھا ‘ کا حال ہی میں میڈرڈ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ورلڈ پریمیئر ہوا ہے۔ یہ فلم دو سگی بہنیں، جو آپ کی پھوپھی ہیں، کی کہانی ہے۔ اس کے بارے میں بتائیے؟ دونوں پھوپھیوں کے ساتھ میرا بہت ہی قریبی رشتہ رہا ہے، لیکن جب آپ کام میں مصروف ہو جاتے ہیں تو رشتہ داروں کے لئے وقت نہیں مل پاتا۔ مجھے کافی سالوں سےیہ دونوں بلا رہی تھیں۔ میں ان سے آنے کے لئے کہتی تھی، لیکن کبھی جا نہیں پاتی تھی۔ میرے والدین ہرسال سردیوں میں ان کے گاؤں جاتے تھے۔ ان لوگوں نے بتایا تھا کہ بہت اچھی جگہ ہے۔ پھوپھی لوگوں کا ایک گروپ ہے، جس میں ان کے کیئر ٹیکر بھی بہت بوڑھے ہیں، ان کی کک ہیں، مالی ہی…یہ لوگ تقریباً ساتھ میں ہی رہتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ بات تھی کہ ان کی زندگی پر کبھی کوئی فلم بناؤںگی،لیکن بطور ہدایت کار یہ بات تب پکی ہو گئی جب مجھے لگا کہ گاؤں میں دو بزرگ خواتین کے ساتھ ان کی دیکھ ریکھ کرنے والا جو گروپ ہے وہ کافی دلچسپ ہے۔ ان کی ایک فیملی بن گئی ہے، جس کو آپ ‘ایڈاپٹیڈ فیملی’ کہہ سکتے ہیں۔
یہ مجھے بہت اچھا لگا۔ ایک ایسی فیملی جس میں صرف ایک آدمی آپ کا رشتہ دار ہے اورباقی سب لوگ اپنی مرضی سے اس میں شامل ہیں۔ دونوں پھوپھیوں کی یہ لوگ دیکھ بھال کرتے ہیں اور پھوپھیوں نے ان لوگوں کواپنی زمین دے رکھی ہے، جہاں یہ لوگ کھیتی-باڑی کرتے ہیں۔ ایک ایسا سسٹم بن گیا ہےکہ یہ سبھی لوگ ایک دوسرے پر منحصر ہو گئے ہیں۔ یہ سبھی لوگ ساتھ ہنستے ہیں، کھاتے ہیں، ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں۔آج کے وقت میں ہم سماج میں دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں کے بیچ میں نفرت، خاص طور پر مذہب کولےکر، بڑھتی جا رہی ہے۔ دو بوڑھی عورتیں اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں میں مسلمان، دلت اوربرہمن وغیرہ شامل ہیں۔ یہ لوگ ایک ساتھ ہنسی-خوشی رہتے ہیں۔ یہ جانکر مجھے لگاکہ اس پر فلم بنائی جا سکتی ہے۔
اس فلم کے ذریعے مذہب کو لےکر کیا کہنا چاہتی ہیں؟
مذہب کا جو مدعا ہے میں اس کو بہت سنجیدگی کے ساتھ نہیں دکھانا چاہتی تھی،کیونکہ ہم نے فلم کا پورا انداز بہت ہلکا-پھلکا رکھا ہے۔ میرے حساب سے ہلکے-پھلکےطریقے سے آپ گہری بات سنجیدگی سے کہہ سکتے ہیں۔ یہ آج کے وقت میں ضروری بھی ہے۔ ایسے ماحول میں یہ کہنا بہت ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بہت ہی احترام کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور مذہب کو لےکر ایک دوسرے سے اختلاف نہیں رکھ سکتے۔ جمہوریت میں ہم سبھی لوگ برابر ہیں۔ اگر ہمارا مذہب الگ ہے توبھی ایک دوسرے کا احترام کرکے، بنا کسی امتیازی سلوک کے ہمیں ایک ساتھ رہنا ہی ہوگا۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ گاؤں میں میری پھوپھی کی جو فیملی بن گئی ہے، ان کے درمیان مذہب کا مدعاکبھی نہیں اٹھا۔ مذہب نے ان لوگوں کے درمیان کبھی کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی۔ یہ لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور آج کے وقت میں یہ بہت ہی اچھی بات ہے۔
مذہب کو لےکر آج کے وقت میں جو سب چل رہا ہے، بطور فلمساز اس بارے میں کیا سوچتی ہیں؟
میری سوچ یہ رہی ہے کہ سماجی انصاف اور سماجی مدعوں کو فلموں میں لایا جاسکے۔ میرے لئے یہ اہم بات ہے۔ دیگر فلمسازوں کا بھی اپنے طریقے سے ان مدعوں کواٹھانا ضروری ہے۔ فلموں میں یہ مدعا اٹھائے بھی جاتے ہیں۔ فلم انڈسٹری میں اس طرح کی جانبداری نہیں ہے، کیونکہ یہاں لوگ ایک دوسرےپر اقتصادی اور تخلیقی طور پر منحصر رہتے ہیں۔ فلم ایک ٹیم ورک ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کسی بھی مذہب یا طبقے یا پھر جنسی رجحان کا ہو سکتا ہے اور یہ سبھی لوگ برابر ہیں۔ اگر ہم اس معمولی بات کو مانکر چلیں تو مسئلہ نہیں ہوگا۔ حالانکہ پتہ نہیں دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ نہ صرف ملکوں کے درمیان لڑائی چل رہی ہے، بلکہ ایک ملک میں مختلف کمیونٹی کے درمیان بھی وہی حال ہے۔ یہ مسئلہ ہے۔
ایک انسان کے طور پر ہماری کوشش یہی رہنی چاہیے کہ ہم دوسرے انسان کوبرابری کا درجہ دیں۔ اصل میں فلموں کا اثر بہت محدود رہتا ہے۔ کیونکہ فلموں کی کہانیاں اصل زندگی سے ہی آتی ہیں۔ کہانیوں سے زندگی نہیں بنتی۔ کہانیوں سے ہمیں ترغیب ضرور مل سکتی ہے لیکن ہمیں اصل زندگی میں برابری کے جذبہ والی سوچ پیدا کرنی ہوگی، تبھی کہانیوں کا اثر ہوگا۔ لوگوں کی یہی کوشش ہونی چاہیے۔ میری فلم میں ہم نے یہی دکھانے کی کوشش کی ہے۔
آپ کی فیملی قلمکاروں کی فیملی ہے۔ آپ کی ماں فلم اسکرپٹ رائٹر ہیں۔ آپ کے بھائی وکرم چندرا (سیکریڈ گیمس) ناول نگار ہیں۔ آپ کی بہن انوپما چوپڑا بھی قلمکار اور فلم صحافی ہیں۔ قلمکاروں کی فیملی سے ہونے کا کیا اثر پڑتا ہے؟
ہم تینوں ہی بھائی بہن بہت ہی فطری طریقے سے اس تخلیقی شعبہ (رائٹنگ) میں آ گئے۔ کسی نے کوشش نہیں کی۔ بچپن میں ہم تمام لوگوں کو پڑھنے کے متعلق ترغیب دی جاتی تھی۔ فیملی میں ہم سب کی دلچسپی شروع سےہی کتابیں پڑھنے میں رہی ہے۔ فیملی میں صرف میرے پاپا ہی کیمسٹری کے شعبہ میں تھے۔ ماں کیونکہ رائٹنگ کے میدان میں ہیں، تو ان کا اثر ہمارے اوپر رہا۔ ہمیں بہت کوشش نہیں کرنی پڑی ہم سب کا رجحان بہت ہی فطری طریقے سے رائٹنگ کی طرف رہا۔ بھائی وکرم چندرا تو اصل میں بہت ہی سنجیدہ ناول نگار ہیں۔ وہ پوری طرح سےرائٹنگ کے میدان میں فعال ہیں۔ بہن انوپما چوپڑا نے بھی نان-فکشن کتابیں لکھی ہیں۔میں نے 2017 میں مختصر کہانیوں پر مبنی کتاب’بزنس وومن’ لکھی۔ یہ اتر پردیش کی کہانیاں ہیں۔
ہماری پوری فیملی خالہ-پھوپھی سب اتر پردیش سے ہی ہیں۔ ان سے میں ہنسی مذاق سے بھری حیرت انگیز کہانیاں سنتی آئی ہوں۔ ہمارے یہاں جو رائٹنگ کے میدان میں نہیں ہیں، وہ بھی اچھی کہانیاں سنتے اور سناتے ہیں۔ یہ ایک تہذیب ہے۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ اگلے 10-20 سالوں تک یہ بچی رہےگی۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم ان چیزوں کو کتابوں اور فلموں کے ذریعے محفوظ نہیں کر سکے تو یہ ہمیشہ کے لئے کھو جائیںگی۔ کتابیں اور فلمیں ہمارے بعد بھی زندہ رہتی ہیں۔ گاؤں میں میری پھوپھی جس طرح سے رہ رہی ہیں۔ ابھی جو نوجوان ہیں، ان کو اس طرح کی طرز زندگی کا تو بہت ہی کم تجربہ ہے۔ اس لئے ان کو ریکارڈ پر رکھنا ضروری ہے۔
آپ کی ماں کامنا چندرا نے پریم روگ (1982)،چاندنی (1989)، 1942 اے لو اسٹوری (1994) جیسی فلموں کی کہانی لکھی۔ اس زمانے میں ایک عورت کا فلم انڈسٹری میں پیر جمانا کتنا آسان تھا؟
مجھے لگتا ہے کہ اس زمانے میں فلم انڈسٹری میں قدم رکھنا آج کے زمانے سےکافی آسان رہا ہوگا۔ ایسا اس لئے کیونکہ اس دور میں کسی بڑے پروڈیوسر یا ہدایت کارتک فون کے ذریعے پہنچنا اتنا مشکل نہیں تھا، جنتا آج ہے۔ اصل میں آج ہماری انڈسٹری بہت بڑی ہو گئی ہے اور یہاں مقابلہ بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ میری ماں نے راج کپور صاحب کے دفتر میں فون کرکے ان کے سکریٹری سے بات کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں ایک معمولی ہاؤس وائف ہوں، لیکن میرے پاس ایک بہت اچھی کہانی ہے۔ سکریٹری نے کہا کہ آپ کہانی مجھے سنا دیجئے تو میری ماں نے کہا کہ کہانی آپ کو نہیں انہی (راج کپور) کو سناؤںگی۔ اس کے بعد میری ماں کو دوبارہ ان کا فون بھی آ گیا۔ راج جی سے ملنے کی بات طے ہو گئی۔
دو سے ڈھائی گھنٹے انہوں نے میری ماں سے کہانی سنی اور اسی وقت کہا کہ میں اس پر فلم بنانا چاہتا ہوں۔ اس طرح سے ان کی شروعات ہو گئی۔ حال فی الحال میں انہوں نے قریب قریب سنگل فلم کی کہانی لکھی، جس کو میں نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ ایک ریڈیو پلے پر مبنی یہ کہانی انہوں نے کئی سال پہلے لکھی تھی۔ہم نے آج کے وقت کے حساب سے اس میں تبدیلی کر کے یہ فلم بنائی تھی۔
فلم انڈسٹری میں آپ کی شروعات کیسے ہوئی؟
میں نے امریکہ سے فلم سازی میں ماسٹر ڈگری لی ہے۔ پڑھائی ختم کرکے میں ہندوستان آ گئی۔ سال 1996-97 میں سیٹیلائٹ ٹی وی کی شروعات ہوئی تھی۔ اس وقت ٹیلی ویژن کا اچھا دور تھا۔ اس وقت میں نے زمین-آسمان نام کا ایک ٹی وی سیریل ڈائریکٹ کیا۔ اس کو منوہر شیام جوشی جی نے لکھا تھا۔ اس وقت سیریل روزانہ نہیں بلکہ ہفتہ وار بنا کرتے تھے۔ بہت تخلیقی اور اچھے معیار والے سیریل بنا کرتے تھے۔ اس کے بعد میں نے اسکرین رائٹنگ شروع کی۔ مہیش بھٹ کی فلم تمنا (1997) اور زخم (1998) کی معاون-رائٹربنی ۔اس کے بعد اپنی خود کی فلمیں بنانی شروع کی۔ ہر کام سیکھتے ہوئے اب میں ایک آزاد فلم ہدایت کار بن گئی۔
آپ کو فلم انڈسٹری میں آئے ہوئے 20 سال سے زیادہ کا وقت ہو چکا ہے۔ اتنا وقت گزارنے کے بعد کیا تبدیلی دیکھتی ہیں؟
آج کے وقت میں ہماری انڈسٹری بہت بڑی ہو گئی ہے اور مقابلہ بھی کافی بڑھ گیا۔ اس کی وجہ سے نئے رائٹروں اور ہدایت کاروں کو زیادہ کام مل رہا ہے، جو کہ بہت اچھی بات ہے۔
رائٹر اب جاکر بہت مصروف ہوئے ہیں۔ اب تک رائٹر کو بہت جدو جہد کرنی پڑتی تھی۔ میں نے جب شروع کیا تھا تب خاتون ہدایت کار بہت کم تھیں۔ اب تعداد تو بڑھ گئی ہے لیکن اتنی نہیں بڑھی ہے، جتنی مجھے امید تھی۔ ایسی فلمیں جس میں لیڈ رول میں خاتون ہو، اب بھی بہت کم بنتی ہیں۔ 100 فلموں میں سے 30 سے 40 فلمیں تو خاتون ہدایت کاروں کی ہونی چاہیے تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جب تک ہدایت کاروں کی کمیونٹی میں آدھی خواتین نہیں ہوںگی، یہ کافی نہیں۔ اس کے علاوہ خواتین سے جڑی کہانیاں بھی ہم نے فلموں میں بہت کم سنائی ہیں۔کہانیاں بھی جتنی زیادہ عورتوں کے بارے میں ہوں فلموں میں اتنی ہی تازگی آئےگی۔ ٹی وی پر خواتین کی کہانیاں کہی جا رہی ہیں، لیکن فلموں میں ایسا اب بھی بہت کم ہو رہا ہے۔ فلموں میں ہی نہیں سماج کے ہر شعبے میں خواتین کی حصہ داری بڑھنی چاہیے۔
ہندوستانی فلم انڈسٹری بہت بڑی ہو گئی ہے، اس کے باوجود خاتون فلم ہدایتکاروں کی تعداد کافی کم ہے۔ اس کی کیا وجہ مانتی ہیں؟
مجھے لگتا ہے کہ اس کے پیچھے وجہ ہچکچاہٹ رہی ہوگی۔ خواتین کی اپنی ہچک۔یہ پدری سماج تو ہے ہی اور فلم انڈسٹری بھی ایسی ہی ہے، لیکن اس کی وجہ سے آپ کو اپنی پیش رفت نہیں روکنی چاہیے۔ میں ہمیشہ یہی کہتی ہوں کہ اگر کوئی خاتون فلم بنانا چاہتی ہے تو اس کو یہ بنانی چاہیے۔ کسی کو اپنے راستے میں نہیں آنے دینا چاہیے۔ میں ہمیشہ ایک خواتین پر مبنی موضوع کو فلم بنانے کے لئے چنتی ہوں، اس میں مجھے جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔ ایسا اس لئے کیونکہ زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ خاتون لیڈ رول والی کہانیوں کو کم لوگ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ایسے میں اپنی فلموں کے لئے مجھے بہت کوشش کرنی پڑتی ہے۔ فنکاروں کو یہ اعتماد دلانے میں کہ یہ اچھی فلم بنےگی۔
حالانکہ ان حالات کے باوجود اب ایسی فلمیں بن رہی ہیں، جس میں کسی ہیرو کو لینا ضروری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ خاتون فنکاروں کے لیڈ رول والی فلم کے لئے فنڈ بھی کم ملتا ہے۔آپ کو بہت بڑا بجٹ نہیں مل پاتا ہے۔ ایسی فلمیں آپ کو درمیانی یا کم بجٹ میں ہی بنانی پڑتی ہیں۔ دراصل ہر فلم کا بجٹ اس سے ہونے والی کمائی پرمنحصر کرتا ہے۔ ایسا مانناہے کہ خواتین پر مبنی فلموں کی کمائی بہت کم ہوتی ہے، کیونکہ لوگ مانتے ہیں کہ ایسی فلموں کو کم لوگ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ایسی سوچ کس وجہ سے ہے یہ میں آج بھی سمجھ نہیں پائی ہوں۔