زرعی بحران صرف اقتصادی اور ترقیاتی ماڈل کی ناکامیابیوں کانتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ جمہوری نظام کی بڑی ناکامی ہے۔ خامیوں کو دور کرنے کے نام پراعدادوشمارکےساتھ بھی سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ دنوں فلم ’پدماوت‘ کو لے کر کرنی سینانے ملک بھر میں ’ہنگامہ‘ کیا تھا ۔اس ہنگامےکی وجہ سے ہی سینسربورڈکےموجودہ چیئرمین پرسون جوشی جےپورلٹریچرفیسٹیول(JLF)میں شریک نہیں ہوئے تھے۔غور طلب ہے کہ ان کومبینہ طور پرکرنی سینا نےدھمکی دی تھی،اس وقت پرسون کو’سینا‘ کی خوشنودی میں بیان جاری کرنا پڑاتھا کہ؛وہ جے ایل ایف میں حصہ نہیں لیں گے ۔ لیکن اسی فیسٹیول میں انگریزی کی معروف مصنفہ،آرٹسٹ اورصحافی کوٹا نیلیما ( Kota Neelima )نے’سینا‘ کی دھمکی کے باجوداعلانیہ شرکت کی تھی ۔دراصل اُن دنوں وہ اپنے ایک اخباری کالم کی وجہ سے اس لیے بیچ بحث میں آگئی تھیں کہ انہوں نے کرنی سیناکے خلاف بڑی بےباکی سےلکھا تھااورعورتوں کے حق میں بعض بنیادی سوال اٹھائےتھے۔نیلیماسےدی وائراُردو کی ملاقات اسی فیسٹیول میں ہوئی،یہاں ان کی تازہ ترین اورساتویں کتاب Widows Of Vidarbha Making Of Shadowsکا اجرا بھی ہواتھا۔
نیلیماکابہت واضح طور پر یہ ماننا ہے کہ زرعی بحران صرف اقتصادی اور ترقیاتی ماڈل کی ناکامیابیوں کانتیجہ نہیں ہے،بلکہ یہ جمہوری نظام کی بڑی ناکامیہے۔ خامیوں کودور کرنے کے نام پراعدادوشمارکے ساتھ بھی سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔لیکن کسانوں کی زندگی کےبحران کی کہانی ایک ایسی اندوہ ناک داستان ہےجوان کی موت (خودکشی)کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔بیواؤں کی زندگی،مسلسل اندھیرے میں جدوجہد کرتی رہتی ہے۔ یہ کتاب ودربھ(مہاراشٹر)کےایسےہی18بیوہ عورتوں کی کہانی ہے؛جن کی زندگی سےحکومت،ریاستی حکومت،کمیونٹی یہاں تک کہ ان کے اپنے گھر والوں کی بھی واقفیت نہیں ہے۔اس طرح کئی معنوں میں یہ پہلی کتاب ہےجوان بیوہ عورتوں کےگمشدہ خواب،موجودہ زندگی کی مشقت اور ان کی زندگی کے بعض دوسرے پہلوؤں کوان کےاپنے تجربے کی روشنی میں پیش کرتی ہے۔
جے ایل ایف میں دی وائرنےاس کتاب پرچندایک باتوں کےعلاوہ،کرنی سینا جیسی تنظیموں کے احتجاج کی معنویت،پسماندہ طبقات (عورت،کسان اور غریب)کے لیے میڈیا کا رویہ اورعورتوں کے مسائل بالخصوص دیہی عورتوں کے بارے میں بات چیت کی ۔یہاں یہ نکتہ بھی توجہ طلب ہے کہ نیلیماطویل عرصے تک صحافت سے وابستہ رہی ہیں،اورمحروم طبقات بالخصوص دیہی عورتوں کے بارےمیں لکھتی پڑھتی رہی ہیں۔شاید اس لیےانہی موضوعات پرمبنی ان کےناولShoes of the Dead کو اس طرح بھی اہمیت حاصل ہوئی کہ نیشنل فلم ایوارڈ یافتہ ڈائریکٹر Vetrimaaranفلم بنارہےہیں ۔
پیش ہے نیلیما کے ساتھ دی وائراُردوکےسب ایڈیٹر فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت۔
آپ عورتوں کے بارے میں لکھتی ،پڑھتی آئی ہیں ،ایک طرح سے فکشن اور نان فکشن بہر دو صورت یہی آپ کا موضوع ہے،لیکن ان دنوں خاص وجہوں سےآپ کا نام پدماوت اور کرنی سینا کے ساتھ لیا جارہا ہے تو آپ ہمارے قارئین کو یہ بتائیے کہ پدماوت کے اس پورے معاملےمیں وہ کون سی باتیں ہیں ٗجس کی وجہ سے آپ نے کرنی سینا کے خلاف لکھا یا پھر آپ کے سوالات جوہر کی وجہ سے ہیں ؟
صحیح کہہ رہےہیں آپ ،میرے کئی سوال جوہر کے بارے میں ہی تھے ۔لیکن اس موضوع کو لے کرمیں نے ایک بڑےسیاق وسباق میں بات کی،یوں کہیں کہ سب سے بڑا سوال یہی ہےکہ اس ملک میں عورتیں کتنی محفوظ ہیں؟میں نےیہ کہاکہ عورتیں اس ملک میں Constantجنگ کر رہی ہوتی ہیں۔دفترمیں ،گھر میں ،سڑکوں پر،عورتیں کہاں محفوظ ہیں؟ہر جگہ ان کوخطرہ محسوس ہوتا ہے ۔کرائم کے اعدادوشماردیکھیں، کس کس طرح کے کرائم ہورہے ہیں۔ایسے میں جب آپ کہتے ہیں کہ پکچر ریلیز نہیں ہونے دیں گے،ہماری راجپوت عورتیں جوہرکرلیں گی،توآپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟عورتیںAlreadyاتنے Threatمیں جی رہی ہیں ۔ان سےآپ Self-Humiliation بھی کروا لیں گے ۔ گویا ان کی اپنی زندگی ان کے ہاتھوں میں نہیں ہے،اس لیے فطری طور پر میں نے اس سوچ اورThreat کےآس پاس کچھ سوال اٹھائے ۔
میں نے بولا کہ کرنی سینا کے جو جاں باز ہیں،انہوں نے پچھلی بار کب آواز بلند کی عورتوں کےلیے ۔کیا انہوں نے عورتوں کےاستحصال کے خلاف کبھی اتنا بڑا احتجاج کیا ۔ کسی بھی سیاق میں بات کیجیے ،مان لیجیےکہ یہ صرف سنیما پر ہی اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں تو اس میں بھی ریپ اورSexual AssaultکوWeaponکی طرح استعما ل کیا جاتا ہے،تو کیا اس کے خلاف کوئی آوازاٹھائی ۔کبھی کہا کہ’آئٹم سانگ‘ نہیں ہونا چاہیے ۔ اسی طرح کی کچھ باتیں تھیں جن کو لے کر میں نے لکھا تو برامان گئے،اور پھر دھمکی دے دی کہ آپ جے پور نہیں آئیں گی اورنہیں بولیں گی…(ہنستے ہوئے)لیکن ہم تو آگئے ،یہیں ہیں ،آپ کے ساتھ باتیں ہورہی ہیں۔
جی آپ کے سوالات جائز ہیں ٗلیکن جن اداروں یا تنظیموں کے ایجنڈے میں ہی یہ باتیں نہیں ہیں ،ان کی سیاست ہی کچھ اور ہے ۔آپ کو کیوں لگتا ہے کہ ان کو کسی بھی طرح سے اہمیت دینی چاہیے اوروہ ان باتوں کو لے کر اپناConcern
بھی دکھائیں گے؟
جی جی ،مجھےمعلوم ہے،وہ اپنا Concernنہیں دکھائیں گے،لیکن سوال تو اٹھانے ہی ہوں گے ۔کیوں کہ اس طرح کی سوچ کو خواہ مخواہ میڈیا کی توجہ حاصل ہے۔ہراخبارکا فرنٹ پیج ان کے لیےہے،بنیادی سروکاروں پر بات کرنے کی جگہ یہ ہماراقیمتی وقت ضائع کررہے ہیں،توہم ان سے سوال کریں گے ہی کہ کس چیز کے لیے ہیں آپ۔میں مانتی ہوں کہ ان تنظیموں کو اہمیت نہیں دینی چاہیے،لیکن اسٹیٹ،ہماری حکومتیں ان کواہمیت دے رہی ہیں ۔
ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہے ۔وہ کسی کو بھی دھمکی دے سکتے ہیں ۔لائیو ٹیلی ویژن پرکچھ بھی بول سکتے ہیں،توان کو کوئی نہ کوئی سپورٹ کررہا ہے ،اوراہمیت دے رہا ہے۔جب اسٹیٹ کسی کو سپورٹ دیتا ہےتو ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے آپ اس کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ کیوں کہ اس بہانے ایک سوچ ہم پر تھوپی جارہی ہے ۔تو ہمیں سوال اٹھانے ہی ہوں گے ۔
ہاں ،سوال اٹھانے ہی ہوں گے ،لیکن جب ایک کالم کی وجہ سے کسی لکھنے والے کو دھمکی دی جاتی ہے تومثال کے طور پرکہ آپ کے ہاں تو عورت ایک موضوع ہی ہے ،ایسے میں یہ شاید ایک سوال ہو کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں عورتوں کے بارے میں بات کرنا اور اس کو مسلسل ایک موضوع کے طور پر لکھنا پڑھنا کسی لکھنے والے کے لیے کتنا بڑا چیلنج مانتی ہیں آپ ؟
جی…،ایک کالم لکھنے پر یہ چیلنجزہیں تو آپ سمجھ ہی رہے ہیں کہ عورتوں کے بارے میں بات کرنا کتنا بڑا چیلنج ہے۔سب سے بڑا چیلنج تو یہی ہے کہ اس ملک میں عورتیں صحیح معنوں میں اپنے آپ کو خودمختار،فری یا آزادمحسوس نہیں کرتی ہیں کہ وہ آپ کے سوالوں کا بے خوف ہوکر جواب دیں ۔ہم جو ایک مصنف کے طور پر ایک ریسرچر کے طور پر ان سے ملتے ہیں،ان کے Views جاننے کی کوشش کرتے ہیں،اوران کے بارے میں لکھتے ہیں،… مثال کے طورپرراجپوت عورتوں نے جوہر کی بات کی؟
تو سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں عورتیں بے خوف ہوکر سچ بول سکتی ہیں ۔آپ اس طرح دیکھیے توہماری پوری ریسرچ ہی ایک طرح سے ٹیلرڈ ہے،مطلب وہ سیٹ ہے ایک خاص طریقے سے اس سسٹم میں ۔کیوں کہ وہ کس طرح کے جواب دیتی ہیں…،وہ سوچتی ضرور ہیں،لیکن وہ اگر گھر میں ہیں تو وہ اپنے گھریلو ماحول کو دیکھیں گی اور اس کے حساب سے جواب دیں گی ۔اسی طرح وہ باہر کسی کمیونٹی میں ہیں یا آفس میں ہیں …اس لیے ان کے جواب سسٹم کے ماتحت ہوتے ہیں،اس لیے میں نے کہا کہ ان کےاندرایک Constant جنگ چلتی رہتی ہے۔
وہ ہمیشہ اس حساب سے جواب دیتی ہیں،جس سسٹم یا اسٹرکچر میں وہ اس وقت موجودہوتی ہیں ۔تو یہ سب سے بڑا چیلنج ہے،ہم جیسے قلمکاروں اور عورتوں کے مسائل پر کام کرنے والوں کے لیے ۔ ہمیں یہ سب محسوس ہوتا ہے…اور پھر یہ بھی ہے کہ ہمیں لکھتے ہوئے اتنا سوچنا پڑتا ہے تو ان کو بولتے ہوئے کتنا سوچنا پڑتا ہوگا اس کا اندازہ لگائیے بس ۔اس طرح دیکھیے توآپ …ایک تصوراتی دنیا کے بارے میں لکھ رہے ہیں،فکشن لکھ رہے ہیں ۔
جب عورتیں کہتی ہیں کہ ہم بہت سیف ہیں محفوظ ہیں ،تووہ فکشن ہے،کالپنک ہے۔جب عورتیں کہتی ہیں کہ ہم بہت خوش ہیں اس ملک میں تو وہ فکشن ہے ۔یہ سب تو آپ کی سوچ ہے،سچائی تو ہے نہیں یہ ۔مطلب عورتوں کی بے بسی یہ ہے کہ وہ کسی بھی پوزیشن میں سچ نہیں بول پارہی ہیں ۔
ایک طرح سے جو Social realityبنادی گئی ہے ،یا جو عورتیں خاص طور سے آپ کا سجکیٹ ہیں ،ہم ان کے بارے میں یہ مان کر چلیں کہ وہ اپنی زبان میں نہیں بول رہی ہیں ،سچ اور سچائی…
(درمیان میں ہی روکتے ہوئے)
آپ مجھے ایک مثال دیجیے،کون سی عورت اپنی زبان بول رہی ہے ۔پڑھی لکھی شہر کی عورت اپنی زبان بول سکتی ہے …نہیں! کیوں کہ اپنی فیملی میں بھی رولس اور ریگولیشن ہیں، جن کے تحت ہی وہ اپنے آپ کو سیف یا اسٹرانگ محسوس کر سکتی ہیں ۔تویہ کہاں سچ بول رہی ہیں ۔میں جن عورتوں کے بارے میں لکھ رہی ہوں یہ ان کا سچ تو ہے ہی لیکن یہ ہرہندوستانی عورت کا بھی سچ ہے ۔
تو سچ کے ساتھ جو آپ کی جد وجہد ہے ،اصل میں ،میں آپ سے جاننا چاہ رہا ہوں کہ آپ نے فکشن اور نان فکشن دونوں کو اپنے اظہار کے لیے اپنایا ہے ،تو یہ بس ایک طرح کی Shiftingہے یا یہاں بھی سچ کے ساتھ جد وجہد والی کوئی بات ہے ۔
جی بالکل،سچ کے ساتھ سب سے بڑی جد و جہد یہی ہے کہ سچائی تک کیسے رسائی حاصل کی جائے…،ہاں میں نے فکشن نان فکشن دونوں لکھا ہے اور دونوں میں سچائی کو نمایاں کرنے کی اپنی اپنی ایک کوشش ہے ۔لیکن دونوں میں فرق ہے ۔ جب آپ کہانی کی صورت میں کسی چیز کو پیش کر رہے ہیں تو آپ کو ایک آزادی حاصل ہوتی ہے کہ اسCircumstancesکی ایک اسٹوری بنالیں،لیکن جب آپ نان فکشن لکھتے ہیں توحقائق ہیں ،اوراعداد و شمارکے پیش نظر لکھتے ہیں ۔بہت سے لوگ اس کو پسند بھی کرتے ہیں ۔ لیکن یہ ایک ایسا موضوع ہے،جس میں دونوں کی ضرورت ہے کہ ایک تو آپ حقائق کو لکھیں ٗلیکن یہاں بھی چوں کہ پوری سچائی تو ملتی نہیں ہے وہ تو آدھا سچ ہی ہے کیوں کہ؛
Fact is after all half of the truth. It is not the entire truth. The other thing is what is left unsaid
جو وہ بولتی نہیں ہیں تو اس کو کیسے کریں گے ،ہم اس کو محسوس کریں گے اور محسوس کرنے کے بعد آپ دیکھیں گےکہ اس کو آپ اپنے لفظوں میں پیش کر پا رہے ہیں کہ نہیں،تو کئی دفعہ آپ اس کو بیان نہیں کر پاتے…،تو فکشن کی بڑی ضرورت پڑتی ہے۔اس طرح آپ بہت سی باتوں کو ایک اسٹوری میں Indirectly بتا پا رہے ہیں۔لیکن اگر وہ بول پارہی ہیں تو پھر اس کو نان فکشن کی صورت میں بھی لکھا جاسکتا ہے ۔
ہاں یہ سہی ہے کہ ہم فکشن کے سہارے بھی Realityکو Createکر لیتے ہیں ،تو اصل میں میرا سوال یہ ہے کہ یہ جو آپ کے موضوعات ہیں وہ شاید Politicallyبہت Neglectedہیں،تو حالاں کہ میرا یہ سوال شاید بچکانہ بھی ہو کہ اس طرح کے مسائل پر بات کرنے کے ہی اپنے چیلنجز ہیں ،ایسے میں کسی لکھنے والے کی ترجیحات میں اس طرح کے موضوعات کو کیوں ہونا چاہیے؟
نہیں نہیں…ان دنوں اس طرح کے سوالوں کی بہت ضرورت ہے،اب کیا ہورہا ہے کہ دیکھیے گوری لنکیش کی مثال سامنے کی ہے،تو اس ملک میں ڈراورخوف کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ۔آپ بول نہیں پائیں گے ۔اورایسے ماحول میں آپ لکھنے کی کوشش کریں گے،بولنے کی کوشش کریں گے،پھر آپ کو محسوس ہوگا چھوڑو ہمیں نہیں لکھنا۔ایسے میں بھی آپ کو لکھنا نہیں چھوڑنا چاہیے،بھلے آپ اسی بات کو کسی اور طرح سے لکھیں ۔اگر یہ میرے آنکھوں کی دیکھی ہوئی سچائی ہے تو ہمیں اس کو لکھنا چاہیے ۔ اصل میں میری بھی کوشش یہی تھی کہ جب میں نے پندرہ سال پہلےیہ پوری ریسرچ کی تھی،تومیں نے دیکھا تھا مین اسٹریم میڈیا میں گاؤں،کسان اورغریبوں کے بار ے میں ہیڈ لائن بنانا مطلب… ،میں کیا بتاؤں کتنا مشکل ہے ۔میں میڈیا میں رہی ہوں تو مجھے اندازہ ہے کہ ان چیزوں کا ہیڈ لائن اسی وقت بنتا ہے جب کوئی Celebrityاس کے ساتھ جڑ جائے یا پھر کوئی سیاسی زاویہ ہو یا الیکشن ہو۔تو گاؤں، کسان اورغریبی کے بارے میں ہیڈ لائن بنانا تقریباً ناممکن ہے ۔
جیسا ابھی میں نے آپ کو بتایا کہ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کیوں کہ میں کچھ جگہوں پر ایڈیٹر تک کی حیثیت میں کام کر چکی ہوں ۔یہ بڑا چیلنج ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ…ہاںمیں یہ بھی مانتی ہوں کہ اس سے ہماری روزی روٹی چلتی ہے اس لیے ہمیں وہی لکھنا پڑے گا جو چھاپیں گے ۔لیکن ایک الگ سطح پر بھی تو اپنے بنیادی سروکاروں کے ساتھ لکھ سکتے ہیں ۔یہی میری کوشش رہی ہے کہ چلو جرنلزم ایک سائڈ میں کہ یہاں اگر ہم غریبوں کے کسانوں کے مسائل پر نہیں لکھ پا رہے تو کتابیں ایک راستہ ہیں ،لیکن یہاں بھی ایک بڑا چیلنج ہے کہ پتا نہیں کتابیں چلیں گی کہ نہیں چلیں گی ۔مجھے بتایا گیا کہ غریبوں کے بارے میں کون پڑھے گا ۔مارکیٹ میں بڑے بڑے ’مصنف‘ہیں ان کی طرح لکھیے،شہروں کے بارے میں لکھیے،رونق کے بارے میں لکھیے ۔ آپ اندھیروں کے بارے میں کیوں لکھ رہی ہیں۔غریب بیچارہ گاؤں کے کسی کونے میں پڑا ہوا ہے اس کے بارے میں کون لکھنا چاہتا ہے ۔لیکن یہ بھی اس ملک کی عظمت ہے کہ یہاں ایسے لوگ ہیں جو جاننا چاہتے ہیں کہ غریبوں کے چھوٹے چھوٹے گھرو ں میں کیا ہورہا ہے۔وہ کیسے رہتے ہیں ایک دن سے دوسرا دن ایک مہینہ سے دوسرا مہینہ ۔ان کا گزر بسر کیسے ہوتا ہے شاید اس لیے میں یہ سب لکھ پارہی ہوں۔
جس کو آپ اندھیرا کہہ رہی ہیں یا وہ لوگ جن کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ یہ حاشیے کا سماج ہے ،ان کے بارے میں بات کرنا آسان نہیں ہے ،جیسا کہ ابھی آپ کہہ رہی تھیں کہ ان کے بارے میں کون پڑھنا چاہے گا تو کیا ہماری حکومت نے بھی یہ مان لیا ہے کہ ان کے بارے میں کتنی بات کی جائے ،الیکشن کے وقت دو چار باتیں کہہ دی گئیں وہ کافی ہیں ،اور یہی رویہ میڈیا کا بھی ہے ،اور شاید اس لیے ہمارے پاس باتیں خوب ہے کوئی ٹھوس …
(درمیان میں ہی)…
دیکھیےآپ ٹیلی ویژن آن کرتے ہیں اورسوچتے ہیں کہ آج کی ہیڈ لائن یہ ہوگی یااس کو ہوناچاہیے،لیکن یہاں تو کچھ اور دکھایا جارہاہے ۔ یہ دکھارہے ہیں کہ کوئی امریکی صدر آرہے ہیں ان کو کیا کھلا یا جارہا ہے۔آج کی ہیڈ لائن مثال کے طور پر مہنگائی ہونی چاہیے،لیکن آپ چوز تو نہیں کر پارہے ہیں نا۔
ہماری میڈیا ہماری سوچ کوReflectنہیں کرتی،وہ اپنے ایجنڈے پر چلتی ہے۔تو ایک ہی طریقہ ہےہمارے پاس کہ ہم اس طرح کی میڈیا کو سپورٹ نہ کریں ایسے چینل کو دیکھیں ہی نا ۔اور دوسرا جو میں نے ذاتی طور پر کرنی سینا کی دھمکی کے بعد شدت سے محسوس کیا کہ آپ کو ہمیشہ ان لوگوں کو ساتھ آنا چاہیے جو سچ کے ساتھ ہیں ۔شاید اسی لیے مجھے بہت سپورٹ ملا،مجھے اندازہ نہیں تھا کہ لوگ اس کو دیکھ رہے ہیں۔ جی ایسے میں سچ مچ محسوس ہوتا ہے کہ سچ بولنے کے بھی اپنے فائدے ہیں ۔نقصان بھی ہوں گے ۔
آپ سے بات کرتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے ہاں Activismبھی ہے تو کیا واقعی آپ اپنی رائٹنگ کے علاوہ ان موضوعات کو لے کر فکر مند ہیں یا کوئی اور میڈیم بھی ہے آپ پاس اپنی باتوں کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے ؟
جی،میں جب سے لکھ رہی ہوں اسی طرح سے لکھ رہی ہوں ،لیکن یہ ہوسکتا ہےکہ اس کی دوسری صورتیں بھی ہوں ،لیکن میں جانتی ہوں کہ Writing is the best way تومیرا لکھنا ہی اس وقت میرے لیے Activismبھی ہے۔ممکن ہے کہ اس کی کوئی اور صورت بھی نکلے۔جیسے میرے ایک ناول(Shoes of the Dead)پر فلم بن رہی ہے ۔میری اس کہانی میں بھی پاور اسٹرکچر ہے کہ ایک طرف ایک ممبر آف پارلیامنٹ کا بیٹا ہے اور دوسری طرف ایک معمولی کسان کا ۔اس کے حصے میں کیا آتا ہے جو اس ملک میں پاور فل ہے اورغریب کسان کے بیٹے کے حصے میں کیا آتا ہے ۔میں ان دونوں کی لائف کا موازنہ کر رہی ہو ں ۔ممکن ہے یہ ایک نیا میڈیم ہو لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کا ان کی سوچ کو متاثر کرنے کا۔
چلیے یہ ایک اچھی خبر ہے اور اس کے لیے پیشگی مبارکباد بھی ٗلیکن میں پھر آپ سے انہی بنیادی سروکاروں کی بات کروں اور اس طرح پوچھوں کہ آپ کی تازہ ترین کتاب بھی کسانوں کی بیواؤ ں کے حوالے سے ہے اور ان سب میں آپ کا کمٹ منٹ نظر آتا ہے ،مگر رائٹنگ کے علاوہ اس جمہوری سماج میں ،اس ملک میں آخر ایک سوسائٹی کو کرنا کیا چاہیے،جبکہ ہمارے پاس ہر دن کسانوں کی خود کشی کی خبریں آرہی ہیں ،عورتوں کے بارے میں پڑھنے کو مل رہا ہے؟
جی صحیح ہے،اچھا سوال ہے کہ آجکل ہم بہت آسانی سے بول دیتے ہیں کہ عورتوں کو اپنے آپ کو خود ہیEmpowerکرنا چاہیے،ان کو آگے بڑھ کر قدم اٹھاناچاہیے،میں بھی مانتی ہوں کہ ان کو آگے بڑھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔لیکن یہ باتیں،یہ خیال کسی حد تک شہری عورتوں کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہیں ۔یہ ان عورتوں کے لیے صحیح ہے جو پڑھی لکھی ہیں،لیکن جب آپ گاؤں کی بات کرتے ہیں تو وہاں کی سچائی کچھ اور ہے ۔وہاں کی حقیقت بالکل الگ ہے ۔اس لیے کوئی قاعدہ کلیہ نہیں بناسکتے،ہر مسئلے کا ایک ہی حل نہیں ہوسکتا۔تو پھر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جب آپ Activismکر رہے ہیں یا حکومت کوئی پالیسی لا رہی ہے،…تو اگر ہم شہرو ں کے بارے میں شہر میں بیٹھ کر پالیسی بنا رہے ہیں تو ہمیں بہت Sensitive ہوناہوگا اس بات کو لے کر کہ یہ شہروں کے لیے ہے گاؤں کے لیے نہیں ۔
اس لیے جب آپ یہ کہتے ہیں کہ عورتیں خود ہی کوئی قدم کیوں نہیں اٹھاتی ہیں تو آپ کو سمجھنا ہوگا کہ کوئی عورت اپنے گھریلو سچویشن سے باہر آکرکیسے حالات سے نبر د آزما ہوگی اور اگر لڑے گی تو پھر ان کی دیکھ بھال کون کرے گا ۔کیوں کہ ان کا کوئی اور نہیں ہوتا،وہ سب کچھ چھوڑکر اپنے حقوق کے لیے آگے کیسے بڑھیں گی ۔جن کے بارے میں انہیں علم بھی نہیں کہ یہ چیز مل سکتی ہے یا نہیں ۔اس لیے پہلے ہمیں ہماری سچائی کاعلم تو ہو ،حقیقت کا اندازہ تو ہو۔معلوم تو ہو کہ Freedom کا مطلب کیا ہے ؟گاؤں میں رہنے والی عورت کے لیے آزادی کا مطلب اور شہر کی عورت کے لیے آزادی کا مطلب ایک نہیں ہے۔
میں ذرا سا روک رہا ہوں آپ کو کہ اگر ہمFreedomکواس خاص اسپیس میں Defineکریں جہاں یہ عورتیں رہتی ہیں تو ان کو اپنے Tradition سے بھی الگ ہونا پڑسکتا ہے ،ایسے میں ان عورتوں کے لیے کتنا آسان ہوگا اپنی روایت سے الگ ہونا اورپھر ان کے لیے آزادی کا مطلب کیا ہوگا،ان کے پاس اس بات کی کتنی سمجھ بھی ہوسکتی ہے ؟
نہیں نہیں…،اگر اس آزادی کو ہم Urban Freedomکے تناظر میں دیکھیں گے تو نہیں چلے گا وہ بہت الگ ہے ۔ آپ ہی بتائیے Traditionکو کیوں مانتی ہیں عورتیں،کیوں؟…کیوں کہ ان کو معلوم ہے کہ اگر وہ اس سے الگ ہوں گی تو ان کی نئی پیڑھی کواس کا انجام بھگتنا ہوگا۔ وہ جانتی ہیں کہ درمیان میں جب وہ اپنی بچیوں کو تعلیم سے الگ کر رہی ہیں اور کم عمر میں ان کی شادی ہورہی ہے تو ان کی لائف بھی انہی مسئلوں میں گھر جائے گی ۔وہ جانتی ہیں کہ ان کے سامنے بھی وہی چیلنج ہوں گے لیکن پھر بھی کر تی ہیں کیوں؟یہ عورتیں عقل و شعور والی ہیں ان کے اندر بیداری بھی ہے،
یہ سوچنا ہی غلط ہے کہ گاؤں کے لوگ سوچ نہیں سکتے ۔وہ ہم سے بہتر سوچ سکتے ہیں اور یہ بھی سمجھیے کہ ملک کی سب سے بہتر سوچ گاؤں میں ہے۔
لیکن آپ جو کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس روایت ہے،سماج کی حد بندیاں ہیں،مذہب ہے،اصول و ضوابط ہیں،گھر کی تہذیب ہے،توان کو ان سب سے ایک طرح کا سپورٹ بھی ملتا ہے۔ان کو یہ نہیں سوچنا پڑتا کہ آج کا دن یہاں گزرا تو رات کہاں جاکر سوئیں گے۔وہ اپنے گھر میں ہی خود کو محفوظ سمجھتی ہیں ۔لیکن ا س کے بدلےان کو اپنی خواہشات کی قربانی دینی پڑتی ہے،اپنی آزادی کے ساتھ سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔ان کو اپنے گھر کے علاوہ کہیں ذہنی سکون نہیں ملتا،اس لیے وہ روایات سے بندھی ہیں ۔اور اس میں غلط بھی کیا ہے کہ آپ کے پاس اگر صرف وہی ایک ذریعہ ہےزندگی کو جینے کا ۔تو وہ اور کیا کریں گی کیوں کہ ان کے پاس Optionبھی نہیں ہے ۔
لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا آپشن ان کو دے سکتے ہیں ہم؟کیا ان کو اپنی پسند کے طور پر کوئی اختیار دیا جاسکتا ہے؟…کہ اگر وہ اپنی بچیوں کو اسکول سے نہ نکال کر ان کی شادی چھوٹی سی عمر میں نہ کریں؟جس کو ہندی میں بال وواہ کہتے ہیں،جو راجستھان میں سب سے زیادہ ہے ۔ ان کو پہلے سے معلوم ہے کہ یہ سب غلط ہے ،لیکن اشتہارات سے یا بول کرآپ ان سب کو نہیں روک سکتے ۔آپ ان کو چوائس کیا دے رہے ہیں؟اس کے لیے آپ کو چوائس کے طور پر ایک سماج بنا نا ہوگا،جس میں لڑکیاں باہر جائیں تو لوگ ان کو ٹوک ٹاک نہ کریں اوریہ نہ بولیں کہ ان کی شادی ابھی تک کیوں نہیں ہوئی ۔ان کا حوصلہ بڑھائیں کہ وہ پڑھ رہی ہیں ۔سماج اگر عورتوں کو بچیوں کو اس لیول تک سپورٹ کرے گا تو کون سی ماں اپنی بچی کو نہیں پڑھائے گی ۔کون سی ماں اپنی بچی کی لائف خود سے بہترنہیں چاہے گی ۔ہم شارٹ کٹ ڈھونڈنے کے بجائے جب تک ایک چوائس نہیں دیں گے تو کیا ہوگا…ہم ایک سماج ایک ملک اور فرد کے طور پر صرف شارٹ کٹ دیکھتے ہیں،آپشن نہیں دے رہے ۔
We look for an easy solution،اور وہ کیا ہے کہ جو شہر میں چل رہا ہے کوشش کرتے ہیں کہ تھوپ دیں گاؤں پر۔آپ کو کسی آئیڈیا کے ساتھ آس پاس کی چیزیں بھی بدلنی پڑیں گی ایک ہی آئیڈیا ہر جگہ نہیں چلے گا،اس لیے میں کہہ رہی تھی کی حقائق کا اندازہ ہمیں بہت ہی ایمانداری سے کرنا ہوگا ۔اس کے بعد ہی آپ کی کوئی پالیسی کام کرے گی ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ ہماری حکومت،نہ سماج نہ گھر والے جو روایات کو اہمیت دیتے ہیں کوئی بھی اس کے لیے تیار نہیں ہے ۔اور کیوں نہیں ہےتو میں آپ کو بتاؤں،میں ان کے درمیان کافی وقت گزارتی ہوں،اس لیے کہہ سکتی ہوں کہ کوئی باپ بھی یہاں ایسا نہیں جو اپنی بچی کی پڑھائی کے خلاف ہے ۔لیکن وہ ان باتوں کے آگے مجبور ہے کہ سوسائٹی کیا کہے گی ۔آج بھی کوئی بیس پچیس سال کی بچی ہوجس کی شادی نہیں ہوئی تو اس کو بوجھ مانا جاتا ہے ۔اس بات کو لےکر باپ پر بھی سماج کی طرف سے دباؤ ہوتا ہے کہ آپ اپنی بچی کی شادی کیوں نہیں کر رہے ۔تو اس آدمی کی بھی کیا غلطی ہے ۔
تو پھر یہاں پر ہماری حکومت اور ہمارے سسٹم کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ کیا یہ کہ آپ پالیسی بنائیں،نئی نئی اسکیم لائیں اور دنیا بھر کی میڈیا میں شور کریں اور اشتہارات دیں،کیا یہ بیداری مہم ہے؟
میں نے اس بارے میں پہلے بھی بات کی ہے کہ یہ جو واٹر بوتل ہے نا…یہ ہر ایک گاؤں میں ملے گا،لیکن بجلی نہیں ملے گی ۔ایک بلب نہیں ملے گا آپ کو،کیوں؟کیوں کہ یہ فین،یہ بجلی سب ایک حکومت کی وجہ سے چلے گی،اور یہ پانی اس لیے ملے گا کہ اس کو ایک کارپوریٹ ہاؤس سپلائی کرتی ہے ۔ایک پرائیویٹ انڈسٹری سپلائی کرتی ہے ۔اس لیے یہ پہنچ گیا ہے لیکن آپ نہیں پہنچ سکتے…ایسا کیوں،کیوں کہ یہ پرافٹ بنا رہا اور آپ کی تو ڈیوٹی ہے ۔آپ بھی ٹیکس لے رہے ہیں،لیکن…بات وہی ہے جو آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ اسکیم لاتے ہیں،پالیسی بناتے ہیں جو لوگوں تک پہنچتی ہیں،وہ اس بارے میں سنتے ہیں پڑھتے ہیں بات کرتے ہیں اور شاید ان پر اثر بھی ہوتا ہوگا،اوران کو لگتا ہوگا کہ اس اسکیم کو ہمیں اس طرح حاصل بھی کرنا چاہیے ۔لیکن اس کے بعد ان کو سپورٹ بھی تو دیجیےان کو ملتا کیا ہے۔
جی ہم یہاں حکومت ،وسائل اور پالیسی کی بات کررہے ہیں ،لیکن اسی ملک میں شایدسسٹم کا خالی پن ہی کہ ہمارے پاس اس طرح کی خبر بھی آتی ہے کہ ایک چھوٹی بچی بھات کہتے کہتے مر گئی ،تو آپ کو لگتا نہیں ہے کہ ہم کس بارے میں بات کر رہے ،کیا لکھ رہے ہیں اور بات ہی کیوں کر رہے ہیں ؟
دراصل زندگی کی سچائیوں سے ہماری پالیسی اور اسکیم کا کوئی لینا دینا نہیں ہے،بہت دوری ہے جیسا آپ بتا رہے ہیں کہ ہمیں یہ خبریں بھی پڑھنے کو مل جاتی ہیں کہ ایک چھوٹی بچی بھات کہتے کہتے مر جاتی ہے۔تو ہم اس ملک میں ہر چیز کوSimplifyکرنے کی جلد ی میں ہیں ۔بلکہSimplifyکرنے کی مہم میں ہیں ۔ پورے ملک میں ایک ہی طرح کی چیز نافذ ہو سب کچھ ایک آسانی میں نظر آئے،یہ کیا بات ہوئی ۔ہمارے مسائل بہت پیچیدہ ہیں یہ ملک ہی بہتComplicatedہے،الگ الگ طرح کی چیزیں ہیں الگ الگ لوگ ہیں،تو ہر بار لوگوں کے درمیان کام کرتے ہوئے ریسرچ کرتے ہوئے میریMajor Discovery یہی ہوتی ہے ۔
آپ صرف گاؤں پر ہی بات کرتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسئلے ایک طرح کے ہیں، یہاں تک کہ بیواؤں کی بات کریں ،کسانوں کی خودکشی کی وجہیں بھی الگ الگ ہیں،ایک ہی حیثیت کا کسان ہو تو تب بھی ان کی خود کشی کی وجہ کو آپ ایک نہیں گردان سکتے ۔ایک معاملے اور دوسرے معاملے کے درمیان بہت فرق ہے۔تو کیا ہماری حکومت ان مسائل کو اس Kind of differenceکےساتھ دیکھتی ہے،دیکھنا چاہتی ہے۔ہمیں تمام چیزوں کو Unifyاور Simplifyکیوں کرنا ہے۔
فوٹو : جے ایل ایف ،یوٹیوب
اگر میں آپ سے آپ کی تازہ ترین کتاب کی بات کروں ،جس کا اجرا بھی یہاں ہواہے تو اس میں آپ نے کس طرح سے اعداد وشمار جمع کیے ہیں اور ان کا تجزیہ کرتے ہوئے کیا نتائج نکالے ہیں؟
دیکھیے میری کتاب(Widows Of Vidarbha Making Of Shadows)میں مبینہ طور پرتجزیہ نہیں ہے،حقائق ہیں،لیکن آپ کو اس میں وہ پیٹرن نہیں ملے گا کہ آپ نے ایک پالیسی لے لی اور اپنی طرف سے ایک بیانیہ گڑھ لیا اور بتا دیا کہ ایسا ہونا چاہیے ویسا ہونا چاہیے ۔یہ تو کئی معنوں میں بہت آسان بھی ہے اور میں کر سکتی ہوں،لیکن…میں نے اس میں دراصل بیواؤں کے مسائل کو انہی کی زبانی پیس کرنے کی سعی کی ہے۔میں نے ایک ایک اسکیم کے حوالے سے بات کی ہے،جیسے پانی کا اسکیم ہے یاتعلیمی پالیسی ہے،یا پھر ان کے پینشن کا معاملہ ہے،ان اسکیم کو انہی کے تجربات کی روشنی میں، میں نے لکھا ہے ۔ان اسکیم کو آپ باہر سے دیکھ کر حقائق تک نہیں پہنچ سکتے ۔پھر شاید وہ ایک طرح کا تجزیہ ہوسکتا ہے۔
لیکن یہ تجزیہ سے زیادہExperince of life ہے۔یہ ان بیواؤں کی زندگی کا تجربہ ہے،جس کو آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ جب ایک عورت اپنے شوہر کو کھو دیتی ہے،صرف اس لیے ایک کنواں نہیں کھودا گیا،یااس میں پانی نہیں تھا،وہ دس پندرہ سال اس کے لیے انتظار کرتے رہےاور جب ان سے برداشت نہیں ہوا تو خود کشی کر لی،تو اس بیوہ کی زندگی کا جو تجربہ ہے وہ ہے اس میں ۔اس خاص اسکیم کو لے کر جو ان کا تجربہ ہے وہ حکومت کو سمجھنا چاہیے ،وہ ان باتوں کے دیکھے بغیر نہیں سمجھ آئے گا کہ حکومت کی اسکیم کس کے پاس پہنچ رہی ہے،کتنی دیر میں پہنچ رہی ہے،اورکبھی کبھی پہنچنے کے بعد بھی فائدہ نہیں ملے گا … اب کیا کریں گی کہ ان کے شوہر توہیں نہیں تو وہ اس اسکیم کا کیا کریں گی ۔وہ بول بول کر تھک گئیں کہ اس میں پانی نہیں ہے اس کو ذرا اور گہرا کروا دو بس…تو زندگی کے اس تجربے کو میں نے اپنی کتاب میں پیش کیا ہے۔
یہ جو آپ کی کتاب میں خاص طرح کی زندگی کا تجربہ ہے ،اس کے بارے میں لوگوں سے بات کی جائے تو شاید وہ کہتے نظر آئیں کہ ہمارے پاس بہت سی دوسری چیزیں ہیں ،نیشنل ازم ہے ،پدماوت جیسی فلمیں ہیں اور پتا نہیں کیا کیا ،تو کیا آپ کو اس ملک میں اس طرح کی کتابوں کے لیے کوئی جگہ نظر آتی ہے۔
جی جی،ہمارے ملک میں جیسے کسی مہاتما نے کہا تھاکہ اس ملک میں تین چار چیزیں ہی چلتی ہیں؛مووی ،پالیٹکس،کرکٹ اورمذہب،تو ان سے ہٹ کر لوگوں کو کچھ بتاناہمیشہ ایک چیلنج کی طرح لگتا ہے ۔لیکن ایک اہم بات ہے جو میں کہنا چاہتی ہوں کہ ہمیں ان چیزوں کا عادی بنا دیا گیاہے۔عادت ڈال دی گئی ہے۔ہمیں بتایا گیا کہ نیوز جب ایکٹر اور ایکٹرس کے بارے میں ہوں تو آپ ضروردیکھیں،کرکٹ بھی ٹھیک ہے کہ لوگوں کی اس میں دلچسپی ہے،لیکن ہمیشہ ہربار ہیڈلائن…،آپ کے ملک میں کسان خود کشی کر رہے ہیں،عورتیں آزادی کے ساتھ رہ نہیں پا رہی ہیں۔
لیکن بات وہی ہےکہ ہمارے سامنے ایک پردہ کھینچ دیا گیا ہے کہ ہم چند ایک چیزوں کے بار ے میں ہی اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کریں ۔اور چند اہم دوسری چیزوں کے بارے میں سوچیں ہی نہیں کیوں کہ ہم مصروف ہو جاتے ہیں،تو اس عادت سے ہم باہر کیسے نکلیں،تو وہ بولنے سے اور بیداری سے نہیں…ہمیں الٹر نیٹ دکھانا پڑے گا۔اس لیے یہ ایک میری کوشش ہے ۔ آپ جن چیزوں کوانجوائے کرتے ہیں ضرور کیجیے لیکن یہ بھی دیکھیے اور یہی میری کوشش ہے۔ہاں میں اس لیول تک نہیں کر سکتی کہ مووی ہو پالیٹکس ہو مذہب ہو یا کرکٹ ہو اس میں پیسے خرچ ہوتے ہیں،ان ساری چیزوں میں بڑی بڑی سرمایہ کاری ہے ۔کسانوں میں کون سرمایہ لگاتا ہے۔غریبی میں کون پیسہ لگاتا ہے کوئی نہیں …
جس ہندوستان کے لیے آپ لکھتی ہیں اورجو آپ کی ترجیحات ہیںٗ اس ہندوستان کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لیے شہر والی جو مہذب سوچ ہے اور یہاں جو لوگ ہیں ان کے لیے آپ کا کوئی پیغام ؟
میں یہ کہتی ہوں کہ اس ملک کے وزیر اعظم ہوں یا کوئی بھی عام آدمی،سب گاؤں سے آئے ہیں،ہم سب میں ایک حصہ گاؤں کا ہے ،ہم کتنی بھی کوشش کریں ہم ہمیشہ کے لیے شہر نہیں بن جائیں گے ۔ ہم ہمیشہ گاؤں رہیں گے ۔اس لیے یہ چیزیں ہمارے اندر ایک درد کی صورت موجودہیں ۔اگر ہم اس کے لیے کوشش نہیں کرتے ۔ویسے ہی جیسے عورت ہماری آدھی دنیا ہے،ہمارا آدھا حصہ ہے تو اگر وہ پریشانی میں ہیں تو ہم پوری طرح سے خوش کیسے رہیں گے ۔ ہماری مکمل خوشی کےلیے،سکون کے لیے ضروری ہے کہ ان کے بارے میں سوچا جائے ان کو خوش رکھا جائے ۔تو میں کہہ رہی ہوں کہ آپ کے گاؤں خوش حال ہوں گے،آپ کی عورتیں خوش حال ہوں گی تبھی آپ آج جسکو Modern Happiness کہتے ہیں وہ ملے گا۔
چلتے چلتے ہمیں یہ بتائیے کہ ہم جس دور میں جی رہے ہیں ، اس کی ایک بڑی سچائی ہماری فلمیں ہیں اور ہم میں سے بیشتر لوگ اس سے اثر بھی قبول کرتے ہیں،کیا اس میں حاشیے کا ہندوستان آپ کو نظر آتا ہے؟
آپ خود ہی دیکھیے،یہ پردے جو بہت رنگین ہوتے ہیں،یہاں آپ کو ایک فرضی دنیا دکھائی جارہی ہے، اسی کو آپ کو انجوائے کرنا ہے۔اس تین گھنٹے میں آپ دیکھیں اور آگے بڑھ جائیں،اس لیے میں نے پدماوت کے بارے میں بھی یہی کہا تھا،یہ ایک فکشن ہے،اس پرآپ اتنا ہنگامہ کیوں کر رہے ہیں،یہ تو ڈیموکریسی ہے ناتو ہمیں اپنے اپنےطورسوچنے کی آزادی ہے۔اور اگر ہمیں ایک ہی طرح سے سوچنا پڑ جائے،ایک ہی طریقہ اپنانا پڑجائے تویہ جمہوریت کہاں سے رہے گی ۔
اوراگر کوئی ہماری طرح نہیں سوچتا تو اس کا یہ مطلب کہاں سے ہوگیا کہ وہ ہمارے ساتھ نہیں…اور ہم یہ بولنا بھی شروع کردیں تو یہ ڈیموکریسی تو رہی نہیں،فلم ایک زندگی دکھاتی ہےجو ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ہو سکتی ۔وہ پوری حقیقت نہیں ہے،حقیقت تو سڑکوں میں اپنے دفتر میں اپنے گھروں میں جو عورتوں کے ساتھ ہورہا ہےوہ ہے۔پردے پر تو سب آخر کار پردے کا ہی کھیل ہے۔اور اس پر جو سیاست کرتے ہیں ہم ان کو بھی جانتے ہیں،پردے پر جو ہورہا ہے اس کو تو آپ بدل سکتے ہیں ہماری زندگی میں جو ہو رہا ہے اس کو بدل کر دکھائیے ۔پدماوت کو آپ نے سینسر کروادیا اس کو بدل دیا ،لیکن جو حقیقی زندگی میں ہے اس کا کیا…
The post
انٹرویو : میرا لکھنا ہی میرے لیے Activism ہے : کوٹا نیلیما appeared first on
The Wire - Urdu.