انسٹاگرام نے @cringearchivist نامی اکاؤنٹ کی جانب سےشیئر کی گئی جس طنزیہ پوسٹ کو ‘عریانیت اور جنسی سرگرمی’ سے متعلق رہنما اصولوں کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے ہٹایا ہے، اس میں ایودھیا میں یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا مندر بنانے والے پربھاکر موریہ آدتیہ ناتھ کے مجسمے کی’ آرتی’ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
یوگی آدتیہ ناتھ کے مجسمے کی آرتی کرتے ہوئے ایودھیا کے پربھاکر موریہ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: ایڈولف ہٹلر پر ایک مزاحیہ پوسٹ، یوگی آدتیہ ناتھ کے لیے بنے مندر سے متعلق طنزیہ پوسٹ، فلم برہماستر کے لیے وی ایف ایکس کرنے والی کمپنی کو تمسخر اور مذاق کا نشانہ بناتی ایک پوسٹ۔ میٹا کی ‘پوسٹ–ری موول ‘ پالیسیوں (پوسٹ ہٹانے سے متعلق پالیسی)پر تنقید کرنے والی ایک پوسٹ۔
ان سب – اور اس کے علاوہ تین دیگر پوسٹ میں دو چیزیں مشترک ہیں۔ پہلا- یہ تمام خود کو ‘سوپر ہیومنز، آرکائیو آف کرنجیٹوپیا’ کہنے والے ایک گروپ، جو @cringe archivist(کرنج آرکیوسٹ) نام کا ایک پیج چلاتے ہیں، کے ذریعے انسٹا گرام پر پوسٹ کیے گئے تھے۔ اور دوسرا- ان تمام پوسٹس کو کمپنی کے رہنما خطوط کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے انسٹاگرام نے ہٹا دیا ہے۔
پیج کے ذریعےکی جانے والی پوسٹ کے سیاق و سباق اکثر اکیڈمک ہوتے ہیں اور یہ آسانی سے ہر طرح کے صارف کوسمجھ میں نہیں آتی ہیں۔پیج چلانے والے ایڈمن کا کہنا ہے کہ یہ ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے – کیونکہ ان کی کئی پوسٹ ہندو رائٹ ونگ اور موجودہ حکومت کو تنقیدکا نشانہ بناتی ہیں۔
کمپنی کی جانب سے پیج کی سب سے حالیہ پوسٹ وہ ہٹا ئی گئی، جس میں انسٹاگرام نے @cringearchivist کے ذریعے پوسٹ کیے گئے ایک ویڈیو کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ یہ ویڈیو ایودھیا کے رہنے والے
پربھاکر موریہ کا تھا جو حال ہی میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا مندر بنانے کی وجہ سے سرخیوں میں تھے۔ اس پیج کے ذریعے پوسٹ کیے گئے ویڈیو میں پربھاکر یوگی آدتیہ ناتھ کی مورتی کے سامنے آرتی کرتے نظر آ رہے ہیں۔
پربھاکر موریہ سے متعلق پوسٹ کو ہٹانے کے سلسلے میں ملا نوٹیفکیشن۔
انسٹاگرام نے اس پوسٹ کو ہٹاتے ہوئے @cringearchivist کو بھیجے گئے ایک نوٹیفکیشن میں کہا کہ یہ کمپنی کے ‘سیکسوئل ایکٹیوٹی اور نیوڈٹی'(جنسی سرگرمی اور عریانیت)سے متعلق اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ حالانکہ اس پوسٹ میں کوئی عریانیت یا جنسی سرگرمی نظر نہیں آتی–اس میں پربھاکر آدتیہ ناتھ کی مورتی کی آرتی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ دونوں نے پورے کپڑے پہن رکھے ہیں۔
ای میل کے ذریعے دی وائر سے بات کرتے ہوئے اس پیج کے دوایڈمن نے خود کو ماہرین تعلیم اور صحافیوں کا ایک گروپ بتایا، جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے ان پوسٹس کو ہٹانے میں جلدبازی پر سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی پوسٹ کرنےکے چند منٹوں کے اندر ہوئی- اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ اصل میں ان کی صحیح طریقے سے جانچ پڑتال کی گئی تھی یا پھر کوئی الگورتھم کچھ معیاروں- جو شاید قانونی بھی نہ ہو- کے حساب سےیہ فوری فیصلہ کررہا تھا۔
دی وائر نے پربھاکر سے متعلق پوسٹ ہٹانے اور ایسے فیصلے کرنے کے لیے عام طور پر جن اصولوں پر عمل کیا جاتا ہے،کے بارے میں میٹا کو سوالات بھیجے ہیں، جن کا کوئی جواب اب تک نہیں ملا ہے۔ تاہم اس دوران ایک پی آر ایجنسی ‘ویبر شینڈوک’ کے ملازم نے مذکورہ پوسٹ کو ری اٹیچ کرنے کے لیے ایک میل بھیجاہے۔ اس کے علاوہ میٹا یا پی آر ایجنسی کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ ان کا جواب موصول ہونے پر اس خبر کو اپڈیٹ کیا جائے گا۔
اس سے پہلے بھی @cringearchivist کی جانب سے اس طرح کے کئی میم پوسٹ کیے گئے ہیں جن میں ہندوستان کے ہندو رائٹ ونگ کا موازنہ نازی جرمنی سے کیا گیا ہے۔ چونکہ حال ہی میں ہٹائی گئی پوسٹ بھی اسی سے متعلق ہیں، ایسے میں ایڈمن کو تشویش ہے کہ کہیں پرانی پوسٹ پر ایکشن نہ لیا جائے، یا شاید پورا اکاؤنٹ ہی ڈیلیٹ نہ کر دیا جائے۔
انسٹاگرام کی کمیونٹی گائیڈ لائنز ایک’محفوظ اور کھلا ماحول’ بنانے کے بارے میں بات کرتی ہے۔ تاہم، رہنما خطوط میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ طنزیہ مواد یا پلیٹ فارم پر جنسی طور پر بدسلوکی والے پیغامات حاصل کرنے والے اور اپنی شکایات کو عام کرنے والے لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کی جانے والی پوسٹس کے حوالے سے کس قسم کے رہنما اصولوں پر عمل کیا جاتا ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ پر عوامی طور پر دستیاب معلومات میں پوسٹ کوہٹانے سے پہلے کی جانے والی کارروائی کی کوئی تفصیلات نہیں ہے۔
اس سال اپریل میں اس پیج نے سوشل میڈیا انفلوئنسر ہرجس سیٹھی، جن کا اکاؤنٹ کمپنی کی جانب سے ‘تصدیق شدہ’ہے، کو موصول ہوئے فحش پیغامات کے اسکرین شاٹ،جنہیں سیٹھی نے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے ارادے سے اپنے اکاؤنٹ شیئر کیا تھا–کو انسٹاگرام نے ہٹا دیا تھا۔
پیج کے ایڈمن نے اس حوالے سے میٹا کے نائب صدر (انٹیگریٹی) گائے روزین کو لکھا بھی تھا، لیکن نہ اس میل کا جواب ملا اور نہ ہی ڈیلیٹ کی گئی پوسٹ کو ری ووک (دوبارہ صارفین کے لیے کھولنا) کیا گیا۔
انسٹاگرام (میٹا کے دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز – فیس بک اور وہاٹس ایپ کے ساتھ ساتھ) کے لیے ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے۔ اس کے باوجود، حال ہی میں میٹا کے اوور سائٹ بورڈ نے ہندوستان میں ان فورمز پر– غیر انگریزی زبانوں کےلیے مناسب ماڈریشن کی کمی کے خلاف
آگاہ کیا تھا۔ اس سے پہلے بھی میٹا پلیٹ فارم پر بی ج
ے پی لیڈروں اور اتحادیوں کو ان کے اشتعال انگیز مواد پوسٹ کرنے پر تحفظ فراہم کرنے کے لیے حکمراں پارٹی کی تنقید کرنے والوں کے خلاف فوراً کارروائی کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
(اس رپورٹ انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)