کلکتہ کے حالیہ واقعے سے اردو کا بھی مقدمہ کمزور ہوتا ہے اور مسلمانوں کا بھی۔ مسلمانوں کے درمیان سول سوسائٹی کے استحکام کی ضرورت بطور خاص اس لیے بھی ہے کہ کوئی متبادل آواز ابھر سکے۔ مہذب دنیا مختلف خیالوں اور آوازوں سے ہی چل رہی ہے۔
فوٹو: مغربی بنگال اردو اکیڈمی اور پی ٹی آئی
کلکتہ کا ایک حالیہ تنازع اس وقت زیربحث ہے ، جو مختصرا کچھ یوں ہے کہ کلکتہ کی کچھ مذہبی تنظیموں نے وہاں کی ریاستی اردو اکادمی کے ایک پروگرام میں جاوید اختر کی شرکت کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ ان کے ملحدانہ خیالات مسلمانوں کی دلآزاری کا باعث ہیں، لہذا انہیں نہ بلایا جائے۔ مخالفت کی شدت اتنی تھی کہ اکادمی نے ‘ نا مساعد حالات ‘ کی وجہ سے اپنا چار روزہ پروگرام عین وقت پر
ملتوی کر دیا۔
مسلمانوں کے مسائل اور معاملات سے متعلق جو بھی فیصلے ہندوستان میں ہوتے ہیں یا مسلمانوں کی نمائندگی کا عمومی حق جنہیں ملا ہوا ہے وہ مسلمانوں کی تنظیمیں ہیں جن پر ظاہری طور پہ اور یقینی طور پہ مولویت حاوی ہے یا یوں کہا جائے کہ وہ لوگ جو مذہبی پہچان کے ساتھ ( داڑھی ، ٹوپی، کرتا، شیروانی) سامنے آتے ہیں۔ اگرچہ بزعم خودمذہبی نکتہ نگاہ سے مسلمانوں کے مسائل کو دیکھنے والے ان افراد کی تعداد تھوڑی سی ہے۔
لیکن معاشرہ پر ان کا قبضہ اسی طرح مضبوط ہے جس طرح پانچ فیصد برہمنوں کا ہندو سماج پر ہزاروں برس تک رہا۔
اس کے مقابلے ان لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو نہ مولویانہ لباس پہنتے ہیں نہ وہ مسلمانوں کے مسائل کومولویانہ نکتہ نگاہ سے دیکھتےہیں حالانکہ وہ عقیدے کے اعتبار سے مسلمان ہیں، عام مسلمان کی طرح جیتے ہیں اور عام مسلمانوں کے دکھ درد کے شریک ہیں۔
لیکن وہ اس خط فاصل پہ کھڑے ہیں جہاں ایک طرف عقیدہ اور ایمان ہوتا ہے اور دوسری طرف دنیا کے مسائل اور مادی ضروریات ہوتی ہیں…مثال کے طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں عام مسلمانوں کے بیچ پچھلے سو سالوں میں کتنا بدلاؤ آ گیا، جبکہ مولوی کا ادارہ جاتی موقف آج بھی وہی ہے جو سو سال پہلے تھا۔
فلاحی، ادبی، ثقافتی، علاقائی شناخت وغیرہ کو لے کر مسلمانوں کی بہت سی تنظیمیں ہیں۔ وہ اپنا کام کرتی ہیں اور وہ لوگوں کی نظر میں بھی ہوتا ہے۔ مگر مسلمانوں کی ‘نمائندگی کا حق’ صرف اور صرف ان تنظیموں کو ہے جو مسلمانوں کا نام لے کر مسلمانوں کے لیے کام کرتی ہیں ۔
مثال کے طور پہ بڑی مذہبی تنظیمیں ہیں ( مسلم پرسنل لا بورڈ، مسلم مجلس مشاورت ) بڑے مدارس ( دیو بند، ندوہ) بڑی مساجد( جامع مسجد ، دہلی، فتح پوری مسجد دہلی، ٹیپو سلطان مسجد، کولکاتا) وغیرہ۔ یہ وہ تمام تنظیمیں ہیں جن کے نام کے ساتھ مسلم کا لاحقہ ضرور لگا ہوا ہے ، یا جوامت مسلمہ کے کسی مخصوص مسئلے کے سلسلے میں قائم کی گئی ہیں ، جیسے مرحوم و مغفور’بابری مسجد ایکشن کمیٹی’ تھی۔
ڈاکٹر سجاد نے ایک گفتگو میں یہ نکتہ اجاگر گیا تھا کہ آزادی کے بعد اس ملک میں مسلمانوں نے جتنی بھی تحریکیں کی ہیں- شاہ بانو کیس، بابری مسجد کیس، تین طلاق، مسلم وقف ایکٹ،تحفظ ناموس رسالت وغیرہ … وہ سب مذہب سے متعلق ہی رہی ہیں۔
اس ملک میں مسلمان ، سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی ہر اعتبار سے سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ وہ لگاتار فسادات ، تعصب اورمنافرت کے شکار ہیں۔ لیکن ان امور پر مسلمانوں کے کسی بڑے ادارے یا تنظیم نے کبھی کوئی تحریک نہیں چلائی۔ ان کی تحریک زیادہ سے زیادہ ‘شریعت بچاؤ ‘ سے متعلق ہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں نے کوئی سماجی تحریک کیوں نہیں پیدا کی ۔ ہرتحریک کے پیچھے’مذہب’اور’شریعت’ ہی کیوں ہوتی ہے۔ کیا سول سوسائٹی کی اپنی کوئی رائے نہیں ہے ۔
لیکن اس سے پہلے شاید یہ سوال بنتا ہے کہ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کی کوئی سول سوسائٹی موجود بھی ہے۔ سول سوسائٹی ان لوگوں سے بنتی ہے جو سرکار سے، الگ تجارت سے الگ ،نظریات کی توسیع یا تبلیغ کرنے والی تنظیموں سے الگ، سماج کے معاملات، خواہ وہ سیاست سےمتعلق ہوں یا تہذیب و ثقافت سے متعلق اس پر اپنی ایک متبادل رائے رکھتے ہیں۔
یہ رائیں بالعموم مقتدرہ کے نکتہ نظر سے جزوی یا کلی عدم اتفاق کےباعث ہوتی ہیں۔یہ( خواص—ڈاکٹر، وکیل، پروفیسر، ادیب، فلسفی، سماجی کارکن، سابق بیوروکریٹ وغیرہ) پر مشتمل ایک خاموش طبقہ ہوتا ہے ۔ جو صرف ہنگامی صورت میں بولتا ہے اور متبادل رائے رکھنے والے عوام کا نمائندہ ہوتا ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عام مسلمانوں کا ایک خاصا بڑا طبقہ جو پڑھا لکھا ہوتا ہے وہ مولویوں سے کلیتاً اتفاق نہیں رکھتا۔ لیکن خود سماج میں اس کی کوئی مداخلت بھی نہیں ہے۔ وہ مولوی کی اور مذہبی تنظیموں کی غلط باتوں کو بیٹھے بیٹھے دیکھتا ہے اور اپنے اندراندر گھلتا یا پیچ و تاب کھاتا رہتا ہے۔
اور جب مسلمانوں پر لعن طعن ہوتا ہے یا ان کے خلاف منافرت کا مظاہرہ ہوتا ہے یا جب انہیں شدت پسند کہا جاتا ہے تب وہ آواز اٹھاتا ہے کہ سارے مسلمان ایسے نہیں ہوتے۔
بجاکہ سارے مسلمان ایسے نہیں ہوتے۔ لیکن چونکہ اس کی اپنی کوئی آواز نہیں ہے ،اس لیے وہ بھی انہی لوگوں میں شمار کیے جاتے ہیں جن کی آواز سنائی دیتی ہے اور وہ شدت پسندوں کی آواز ہوتی ہے۔
مثال کے طور پہ کلکتے میں ا بھی جو کچھ ہوا (جب ہو گیا )اس کے بعد کچھ لوگوں نے کہا کہ نہیں سارے مسلمان ایسے نہیں ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات پہلے کیوں نہیں کہی۔ مولوی توکھل کر کہہ رہے تھے، پریس کانفرنس کر کے کہہ رہے تھے۔
مسئلہ یہیں پر ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے بیچ میں کوئی سول سوسائٹی نہیں ہے اور سول سوسائٹی نہ ہونے کی وجہ سے جو الٹرنیٹ رائے ہے، متبادل آواز ہے وہ سامنے نہیں آتی۔
چنانچہ جو کچھ وہ کہتے ہیں انہی کو مسلمانوں کی آواز سمجھ لیا جاتا ہے ، یا انہی کو مسلمانوں کا نمائندہ مان لیا جاتا ہے ۔
چنانچہ اخبار والے یا حکومت والے، انہی سے بات کرتے ہیں۔ وہ کسی اور سے نہیں بات کرتے۔
اگر کسی پارٹی کو مسلمانوں کی حمایت چاہیے تو وہ مسلمانوں کے جو بڑے ادارے ہیں مثال کے طور پر دہلی کی جامع مسجد ہے یا دارالعلوم ہے یا جمیعۃ علماء ہندہے، یا پرسنل لا بورڈ ہے یا شہر کی جامع مسجد ہے یا بڑی خانقاہ، یا مدرسہ ہے ، یہ ان سےاپنے حق میں بیان دلوا لیتے ہیں۔
کیونکہ ان کی نظر میں یہی مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں اور یہ اس لیے کہ مسلمانوں کی اپنی کوئی سول سوسائٹی نہیں ہے۔ تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس بارے میں مسلمانوں کو غور کرنا چاہیے کہ کیسے یہ ایک سول سوسائٹی بن کر کے اپنی آواز اٹھائیں۔ سول سوسائٹی کی آواز سماج کے مشترکہ مفاد کے لیے ہوتی ہے، کسی فرد، یا تنظیم یا پارٹی یا نظریہ، یا عقیدہ، یا مسلک ، یا فرقہ، یا مکتب یا گروہ کے مفاد کے لیے نہیں۔
مسلمان مولوی سے ڈرتے ہیں اور حکومت بھی ڈرتی ہے
یہاں مولوی سے مراد ہے کوئی بھی حافظ، عالم، فاضل، قاری، امام ، خطیب، ذاکر یا کوئی بھی شخص جو مستقل ٹوپی داڑھی شیروانی کرتے میں رہتا ہے اور اور کسی منبر، گدی، تکیہ،یا کسی بھی مذہبی منچ کا استعمال کرسکتا ہے۔
ایسے تمام مولوی کا اس کی بساط کے مطابق اپنا ایک حلقہ ہوتا ہے۔ اگر وہ محلے کی مسجد کا امام ہے تو محلے میں اس کا دبدبہ ہے۔ اگر وہ پیر ہے تو اس کے مریدین اس پر جان چھڑکتے ہیں، اگر وہ ذاکر ہے تو اس کے فرقہ کے عقیدت مند اس کے گرد حلقہ بنائے رکھتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔
لیکن بدقسمتی سے بیشتر ایسے لوگ اپنے مفاد کے لیے کسی نہ کسی طرح کی غلط کاری میں ضرور شامل ہوتے ہیں۔ آس پاس کے لوگوں میں سے بہت سارے لوگوں کو ان کی غلط کاریاں کھٹکتی ہیں، لیکن وہ ان کے خلاف کچھ کرنا تو دور کی بات ہے ، سر عام کچھ کہنے تک سے ڈرتے ہیں۔ کیونکہ ادھر آپ نے کچھ کہا ادھر وہ مذہب، مسلک، خدا، رسول ، پیر، ولی، درگاہ، مزار کسی نہ کسی نام پر اپنے عقیدت مندوں کو بھڑکا کر آپ کی بوٹی نچوا دے گا۔
کلکتہ کی اس حالیہ مثال کو ہی لیجیے۔ جاوید اختر مخالف تحریک دو غیر معروف تنظیموں جمیعۃ علماء اور وحین فاؤنڈیشن نے شروع کی۔
ابتدا میں سوشل میڈیا پرخورشید ملک اور کچھ دیگرلوگوں نے منطقی گفتگو کرنے کی کوشش کی کہ زبان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، یا یہ کہ جاوید اختر کو ان کی فلمی اور ادبی خدمات کے باعث مشاعرے کی صدارت کے لیے بلایا گیا ہے، اس میں ان کے مذہبی یا دنیاوی خیالات سے کوئی بحث نہیں۔ لیکن یہ باتیں یہیں تک محدود رہیں۔
ایسا نہیں کہ کلکتہ کے سارے مسلمان ان دونوں تنظیموں کے حامی ہیں، لیکن وہی بات کہ مولوی کا ڈراتنا ہے کہ کوئی بڑا آدمی کچھ نہیں بولا۔ تعجب اس بات پرہے کہ کلکتہ کا سب سے بڑا ثقافتی ادارہ مسلم انسٹی ٹیوٹ بھی اس مسئلے پر خاموش رہا۔ یہ مولوی کا ڈر نہیں تو اور کیا ہے۔ اور یہ سول سوسائٹی کی ناکامی نہیں تواورکیا ہے۔
اب آپ کہیں کہ حکومت کیسے ڈرتی ہے تو اس بات کو وہ لوگ خوب سمجھ سکتے ہیں ، جنہوں نے شاہ بانو معاملے میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی تحریک دیکھی ہے۔ جنہوں نے عبید اللہ خان اعظمی کی وہ بمبئی والی تقریر سنی ہے جس کا کیسیٹ پورے ہندوستان میں لوگ مجمع لگا لگا کر سنتے رہے ۔
انہی عبید اللہ خان اعظمی کو وی پی سنگھ کی سرکار نے راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا۔ شاہی امام عبداللہ بخاری نے حکومت کو للکارا اور فورا ہی ان کا ایک آدمی راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا گیا۔
اگر یہ مثالیں پرانی، کانگریس کے زمانے کی ہیں تو لیجیے موجودہ مسلم دشمن حکومت کے زمانے کی مثال۔ آپ کو یاد ہوگا پانچ سال پہلے کورونا کے معاملے میں تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد کس بری طرح پھنسے تھے ۔ گودی میڈیا نے ان کے نام پر کتنی منافرت پھیلائی تھی۔ لیکن ان کی یاوری کو اسی مسلم دشمن حکومت کے دفاعی مشیر اجیت ڈوبھال آگئے اور مولانا سعد کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔
اوپر بائیں سے: شفا الرحمان، خالد سیفی، میران حیدر، گلفشاں فاطمہ، اطہر خان، شرجیل امام، عمر خالد اور سلیم خان۔
جبکہ سیکولر حلیہ میں رہنے والے اور کسی مسلم جماعت یا تنظیم سے وابستگی کے بغیر مسلمانوں کے جمہوری حقوق کی لڑائی لڑنے والے، عمر خالد ، شرجیل امام، شفاالر حمان ، گلفشاں فاطمہ اور چار دیگر نوجوان پچھلے پانچ سال سے جیل میں بند ہیں۔
ان کو ضمانت بھی نہیں مل رہی ۔ ہندوستان کی سول سوسائٹی ان معصوم نوجوانو ں کے لیے آواز اٹھا رہی ہے، اور مولوی ابھی جاوید اختر کے ملحدانہ خیالات پر احتجاج کر رہا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مسلم سماج کو اور حکومت کو کس طرح ڈرا کر رکھنا ہے۔ کلکتہ کے حالیہ معاملہ کو سامنے رکھیں تو حکومت کا ڈرنا تو اسی سے ثابت ہے کہ دو غیر معروف تنظیموں کی دھمکیوں سے ہی ڈرکراکادمی نےآخری وقت پر پروگرام کوملتوی کر دیا۔
مقامی سطح پر مولوی کی ہیبت کی مثال مسلم اکثریتی محلوں میں لاؤڈ اسپیکر پر دی جانے اذانیں، رات رات بھر ہونے والے میلاد، سیرت النبی کانفرنس، ذکر شہادت کے لیے لگائے گئے لاؤڈ اسپیکر کی کان پھاڑ آوازیں ہیں۔ کیا مجال ہے کہ کوئی کچھ کہہ دے اور کیا مجال ہے کہ پولیس آکر رکوا دے کہ ‘سپریم کورٹ کا حکم ہے، رات دس بجے کے بعد لاؤڈ اسپیکر نہیں چلے گا۔’مغربی بنگال کی ہی ایک بہت گھنی مسلم آبادی والے علاقے کی بات سنیے۔
یہاں بیسیوں برس سے یہ چلن عام ہے کہ بارات رات کے بارہ بجے ڈھول باجے کے ساتھ نکلتی ہے جو ایک گھنٹہ تک راستوں پر گھومنے کے بعد بارات گھر پہنچتی ہے۔ ڈی جے آنے کے بعد بینڈ باجے کے ساتھ ڈی جے کا بھی اضافہ ہو گیا۔
سپریم کورٹ کے سن 2000 کے آرڈر کا اطلاق وہاں کئی سال بعد تب ہوا جب کچھ لوگوں نے شکایتیں درج کرنی شروع کیں۔ ادھر پولیس نے قانون نافذ کیا ، ادھر مولوی میدان میں کودے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اب وہ بارات کے ساتھ ڈی جے پر نعت پڑھتے ہوئے چلیں گے، دیکھتے ہیں پولیس کیسے روکتی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ چپ بیٹھ گئے۔ چنانچہ ڈی جے پر نعت پڑھنے کا چلن جاری ہے۔
یہ چند چھوٹی چھوٹی مقامی سطح کی مثالیں ہیں جو کسی اورمسلم اکثریتی علاقے میں کچھ اور قسم کی ہوں گی۔ مگر ٹھہر کر دیکھنے پر ہر جگہ ایسی مثالیں مل جائیں گی۔
یہاں دو تضادات بیان کرنا بھی ضروری ہے۔ایک؛ ایسا تو ہندو وادی بھی کرتے ہیں۔ اور اب تو بہت زیادہ کرنے لگے ہیں۔مگر یہ بھی تو سوچیے کہ انہیں آپ کتنی غلط نگاہ سے دیکھتے ہیں اور دوئم یہ کہ ان کے یہاں پھر بھی ایسے لوگ ہیں جو ان شدت پسندوں کی کچھ مخالفت کرتے ہیں جس میں وہ کبھی کبھی اور کچھ حد تک کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اور دو؛ اس کے بالکل برعکس ایک بات یہ ہےکہ جہاں حکومت مولوی سے نہیں ڈرتی، وہاں کی حکومت مسلمانوں پر کھلم کھلا زیادتی کرتی ہے۔
موجودہ یوپی، اترا کھنڈ، آسام، مدھیہ پردیش اور کسی حد تک بہار کو دیکھ لیجیے۔ 2014 کے بعد کا ہندوستان عام مسلمانوں کے لیے ایک کھلا جیل بن چکا ہے ۔ مگرکیا مولوی کو مذہب، ایمان، شریعت، رسالت کے علاوہ کسی اورچیزمیں کوئی دلچسپی ہے؟
کلکتہ کے حالیہ واقعے سے اردو کا بھی مقدمہ کمزور ہوتا ہے اورمسلمانوں کا بھی ۔ مسلمانوں کے درمیان سول سوسائٹی کے استحکام کی ضرورت بطور خاص اس لیے بھی ہے کہ کوئی متبادل آوازابھر سکے۔ مہذب دنیا مختلف خیالوں اورآوازوں سےہی چل رہی ہے۔
(خورشید اکرم معروف فکشن نویس اور ماہنامہ ’آج کل‘،نئی دہلی کے سابق ایڈیٹر ہیں۔)