آئین کی تمہید سے لفظ ‘سیکولر’ اور ‘سوشلزم’ کو ہٹانے کا مطالبہ جمہوریت اور آئین کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ الفاظ میں تبدیلی کے بجائے اپنی ذہنیت میں تبدیلی کا سامان کیا جانا چاہیے۔
(تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons)
آئین کا دیباچہ ہمارے آئین اور جمہوریت کا سنگ بنیاد ہے۔ اس میں درج ہر لفظ اہم اور معنی خیز ہے۔ ‘سیکولر’ اور ‘سوشلزم’ ایسےہی اہم الفاظ ہیں۔ ان الفاظ کو ہٹانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ خوش آئند امر ہے کہ سوموار (25 نومبر) کو عدالت نے اس درخواست کو
مسترد کر دیا ، لیکن اس درخواست کے مضمرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
جو لوگ آئین کے دیباچے سے ‘سیکولر’ اور ‘سوشلسٹ’ کے الفاظ ہٹوانا چاہتے ہیں،ان کا ماننا ہے کہ یہ الفاظ آئین کے دیباچے میں کیسے ہو سکتے ہیں کیونکہ آئین کی تمہید 26 نومبر 1949 تک لکھی جا چکی ہے جبکہ یہ الفاظ 1976 میں آئین میں 42 ویں ترمیم کے تحت شامل کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمہید سے ‘سیکولر’ اور ‘سوشلسٹ’ کے الفاظ ہٹانے کے مطالبے میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔
اس دلیل میں کوئی دم نہیں ہے۔ آئین کی اصل تمہید کے مطابق وقتاً فوقتاً ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔
ان لوگوں کا ماننا ہے کہ ہندوستان شروع سے ایک سیکولر ملک ہے اور اسے ثابت کرنے کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں مذہب، ذات پات، نسل وغیرہ کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں ہے، چاہے سیکولرازم یا سوشلزم کے الفاظ تمہید میں ہوں یا نہ ہوں۔
ایسے خیالات سے کبھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان میں مذہب کے نام پر فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے ہیں۔ گجرات میں 2002 کا گودھرا کا واقعہ ہو یا دہلی میں 2020 کے فسادات یا اتر پردیش کے بہرائچ میں حالیہ فسادات۔
ذات پات کی بات کریں تو دلت صدیوں سے امتیازی سلوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کا استحصال کیا جا رہا ہے، ان پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ دلت خواتین کے ساتھ جنسی تشدد ہو رہا ہے۔ ذات پات پر مبنی الفاظ استعمال کرکے دلتوں کی توہین کی جاتی ہے اور ان کے خلاف تشدد کیا جاتا ہے۔
اگر دلت نام نہاد اونچی ذات کے ہینڈ پمپ سے پانی لے لیں یا ان کے برتنوں سے پانی پی لیں تو انہیں نہ صرف مارا پیٹا جاتا ہے بلکہ ذات پات سے متعلق الفاظ سے ان کی توہین بھی کی جاتی ہے۔ بہت سے واقعات میں انہیں پیشاب پلایا جاتا ہےیا ان پر پیشاب کردیا جا تا ہے۔ کانپور کے ایک دلت طالبعلم کو اس لیے
پیٹا گیا کہ وہ اپنے وہاٹس ایپ اسٹیٹس میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی تصویر لگاتا تھا۔اس کو ‘جئے شری رام’ بولنے کو مجبور کیا گیا۔
اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ یہاں مذہب، ذات پات، نسل وغیرہ کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہیں کی جاتی۔ اتنا بڑا جھوٹ آخرکیوں؟
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ دکانوں اور ریہڑی والوں کے نام کا بورڈ لگوانا چاہتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ شخص کس ذات، مذہب اور فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اگر وہ دلت یا مسلمان ہے تو اس کے یہاں سے سامان یا کھانے پینے کی اشیاء خریدنا بند کر دیا جائے۔ اسے مالی نقصان پہنچانا چاہیے۔ کچھ کٹر ہندوتوا لوگ صاف کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ کاروبار نہ کریں، ان سے خریدو فروخت نہ کریں۔ اس نفرت انگیز سوچ کے کیا مضمرات ہیں؟
اس قسم کی سوچ یقیناً ہماری جمہوریت اور آئین کے لیے خطرہ ہے۔ ہندوستان جیسی جمہوریت میں سیکولرازم، تمام مذاہب کی برابری اور سوشلزم کا احساس ہونا چاہیے۔ ملک کے تمام شہریوں کو بلا تفریق جنس، مذہب، ذات پات، نسل، زبان یا علاقے کے برابر حقوق ملنے چاہیے۔
آئین کی اصل تمہید میں، ہندوستان کو ایک ‘خودمختار’ اور ‘جمہوری’ جمہوریہ کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ ان دو الفاظ کے ساتھ 1976 میں ایمرجنسی کے دوران 42ویں ترمیم کے ذریعے ‘سیکولر’ اور ‘سوشلسٹ’ کے الفاظ شامل کیے گئے تھے۔ اب اعتراض اسی ترمیم کو لے کر تھا۔ کیا عرضی گزار اس ملک کوایک مذہب کی پیروی کرنے والا ملک بنانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں صرف ایک کمیونٹی کے لوگ رہیں اور باقیوں کو اس کمیونٹی کے رحم و کرم پرجینا پڑے۔
سپریم کورٹ نے درست کہا ہے کہ ‘سیکولرازم’ اور ‘سوشلزم’ آئین کی بنیادی خصوصیات ہیں۔
آئین کے دیباچے کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں، ہماری ذہنیت میں انسانی نقطہ نظر سے تبدیلی آنی چاہیے۔
(راج والمیکی صفائی کرمچاری آندولن سے وابستہ ہیں۔)