ہندوستان میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے والی میڈیا تنظیموں کو دباؤ اور ہراسانی کا سامنا: امریکی رپورٹ

05:10 PM Apr 19, 2022 | دی وائر اسٹاف

ہندوستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر امریکی محکمہ خارجہ کی ‘کنٹری رپورٹس آن ہیومن رائٹس’ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں صحافیوں کو خصوصی طور پر ان کے پیشہ ورانہ کام کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اور ان کاقتل کیا گیا۔

(تصویر: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: ہندوستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر ایک حالیہ رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ نے کئی ایسے معاملات کو اجاگر کیا ہے،جہاں پریس کی آزادی کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے بہت سے معاملات سامنے آئے ہیں، جس میں حکومت نے میڈیا تنظیموں کو ان کی تنقیدی رپورٹ کی وجہ سے ہراساں کیا ہے۔

یہ رپورٹ اسی دن جاری کی گئی تھی، جس دن ہندوستان-امریکہ 2+2 مذاکرات ختم ہوئے تھے اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ ان کا ملک ہندوستان میں سرکاری اہلکاروں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے روز افزوں واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے یہ بیان ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں دیا تھا، جس میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ موجود تھے۔

سنگھ اور جے شنکر نے اس دن بلنکن کے بیان کی تردید نہیں کی تھی۔ تاہم، وزیر خارجہ جے شنکر نے بعد میں کہا کہ ہندوستان کو امریکہ اور ہندوستانی نژاد امریکی شہریوں پر حملوں کے بارے میں واقعی تشویش ہے۔

سالانہ کنٹری رپورٹس آن ہیومن رائٹس کے 2021 ایڈیشن میں امریکی محکمہ خارجہ نے شخصی اور شہری آزادی کی خلاف ورزی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس رپورٹ کا ہندوستانی حصہ پریس کی آزادی اور اظہار رائے کے حق کی خلاف ورزی سے متعلق ہے۔

اس رپورٹ میں منظم طریقے سے ان معاملات کی فہرست دی گئی ہے جہاں سرکاری اور غیر سرکاری عوامل کی وجہ سے پریس کی آزادی کو خطرہ لاحق ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں جہاں حکومت یا حکومت سے وابستہ لوگوں نے مبینہ طور پر حکومت کی تنقید کرنے والی میڈیا تنظیموں پر دباؤ ڈالا یا ان کو ہراساں کیا۔  آن لائن ٹرولنگ کے ذریعے بھی انہیں ہراساں کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فریڈم ہاؤس اور ہیومن رائٹس واچ سمیت بین الاقوامی نگرانی اداروں نے ہندوستان میں میڈیا کے جمہوری حقوق میں زوال اور انہیں مسلسل ہراساں کیے جانے کے سلسلے میں  دستاویز تیارکیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، ایسے معاملات بھی ہیں،بالخصوص ریاستوں میں، جہاں صحافیوں کو ان کے پیشہ ورانہ کام کی وجہ سے قتل کیا گیا یا ذاتی مفادات کے لیے نشانہ بنایا گیا۔ جون میں اتر پردیش کے ایک اخبار کمپو میل کے صحافی شبھم منی ترپاٹھی کو مبینہ طور پر ریت کی  غیر قانونی کان کنی پر تحقیقاتی رپورٹ کے لیے دو بندوق برداروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل آڈرے ازولے نے اس معاملے کا نوٹس لیا اور انتظامیہ سے ‘گن پوائنٹ سینسرشپ’ ختم کرنے کو کہا۔

امریکی رپورٹ میں اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزیوں کے جن معاملوں کا ذکر کیا گیا ہے ، ان میں اسٹینڈ اپ کامیڈین منور فاروقی اور دیگر چار افراد کی گرفتاری کے معاملے شامل ہیں، جن پر مبینہ طور پرمذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا الزام لگا کراسٹیج پر پرفارم نہیں کرنے دیا گیا۔

گزشتہ سال مئی میں منی پوری کے سماجی کارکن ایرندرو لیچومبم کوکووڈ – 19 کے علاج کے طور پر گائے کے گوبر اور  پیشاب کو استعمال کرنے کی وکالت کرنے والے بی جے پی کے ایک رہنما کی اپنے فیس بک پوسٹ میں تنقید کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت حراست میں لیے جانے کے دو ماہ بعد جب ان کے وکلاء سپریم کورٹ پہنچے تو انہیں ضمانت دی گئی۔

جولائی 2021 میں ایک کیتھولک پادری فادر جارج پونایا  کو فادر اسٹین سوامی کے لیے ایک دعائیہ اجلاس میں تقریر کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ ایلگار پریشد معاملے میں گرفتار کیے گئے اور مختلف بیماریوں میں مبتلا فادر اسٹین سوامی علاج کے انتظار میں جیل میں ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ فادر جارج پر ‘وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف مبینہ طور پرہیٹ اسپیچ’ کا الزام تھا۔ بعد میں انہیں مدراس ہائی کورٹ نے مشروط ضمانت دی تھی۔

رپورٹ میں مقامی اور قومی سطح پر ایسے سرکاری اہلکاروں کی فہرست دی گئی ہے جو جسمانی استحصال اور حملے، مالکان پر دباؤ بنانے، اسپانسر کو نشانہ بنانے، جھوٹے مقدمات کو بڑھاوا دینے اور بعض علاقوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ جیسی مواصلاتی خدمات میں خلل اورنقل و حرکت کو روک کر میڈیا اداروں کو ڈرانا دھمکانا شامل ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2021 میں ہندوستان کو صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ انڈیا ٹوڈے کے اینکر راجدیپ سردیسائی، نیشنل ہیرالڈ کے سینئر کنسلٹنگ ایڈیٹر مرنال پانڈے، قومی آواز کے ایڈیٹر ظفر آغا، کارواں  کے بانی پریش ناتھ، ایڈیٹر اننت ناتھ، ایگزیکٹو ایڈیٹر ونود کے جوس اور ایم پی ششی تھرور کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔

ان پر یوم جمہوریہ 2021 کے موقع پر کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کی کوریج پر سیڈیشن  کا الزام لگایا گیا تھا۔انہیں سپریم کورٹ نے گرفتاری سے راحت دی۔

سال 2021 کے اوائل میں حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور اسٹریمنگ سروسز کو کنٹرول کرنے والے آئی ٹی رولز 2021 کو نوٹیفائی  کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا،انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں نے خدشات کا اظہار کیا کہ ان قوانین سے اظہار رائے کی آزادی پر اثر پڑے گا، اور کئی میڈیا تنظیموں نے ان قوانین کے خلاف قانونی کارروائی کی۔

میڈیا تنظیموں نے کہا کہ آئی ٹی رولز 2021 غیر آئینی اور پرائیویسی کے حق کی ضمانت دینے والے سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلے کے خلاف ہے۔

دی وائر ان تنظیموں میں سے ایک ہے جس نے حکومت کے ان نئے آئی ٹی قوانین کو چیلنج کیا تھا۔

بامبے ہائی کورٹ نے آئی ٹی رولز کی دفعات پر جزوی طور پر روک لگانے کا حکم دیا تھا۔ ان نئے قوانین کے تحت ڈیجیٹل نیوز ویب سائٹس کو سہ سطحی شکایت کے ازالے کے طریقہ کار ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا، کووڈ-19 کے دوران خصوصی طور پر کورونا کی دوسری لہر کے دوران اس سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی کی رپورٹنگ کے لیے حکومت نےمیڈیا گروپوں کو نشانہ بنایا تھا۔ جون میں اتر پردیش کی حکومت نے وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیامانی حلقہ وارانسی میں کووڈ-19 لاک ڈاؤن کی نکتہ چینی کرنے والی ایک رپورٹ کے لیے اسکرول کی ایڈیٹر سپریا شرما کے خلاف معاملہ درج کیا تھا۔ ان کے خلاف ایس سی ایس ٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اس سے پہلے اتر پردیش حکومت نے سوشل میڈیا پر آکسیجن کے لیے اپیل کرنے والے لوگوں کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج کیے تھے۔ اپریل میں اپنے دادا کے لیے آکسیجن کا بندوبست کرنے کی کوشش کرنے کی غرض سے ٹوئٹ کرنے پر ایک 26 سالہ شخص کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اس پر سپریم کورٹ نے وارننگ دی تھی کہ ریاستوں کو مہاماری سے متعلق اپنی شکایات سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوپی پولیس نے  15 جون کو ٹوئٹر، دی وائر، صحافی رعنا ایوب، صبا نقوی، آلٹ نیوز کے محمد زبیر، کانگریس لیڈر سلمان نظامی، مسکور عثمانی اور سماء محمد پر ایک بزرگ مسلمان شخص پر حملے کی ویڈیو پوسٹ کرنے کے لیے ان کے خلاف فرقہ وارانہ بدامنی پھیلانے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندی میڈیا میں مزاحمت کی مٹھی بھر آوازوں میں سے ایک اور ملک کا دوسرا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ہندی اخبار دینک بھاسکر کو کورونا کی دوسری لہر کے دوران اپنی رپورٹنگ کے لئے بہت سراہا گیا تھا۔ اخبار نے گنگا ندی کے کناروں پر بڑی تعداد میں دفن کی گئی لاشوں سمیت کورونا کی دوسری لہر کے دوران حکومت کی جانب سے جان بوجھ کر چھپائے جانے والے اموات کے اعداد و شمار کو اجاگرکیا تھا۔

اس کے بعد محکمہ انکم ٹیکس نے گزشتہ سال جولائی میں دینک بھاسکر گروپ کے 32 مقامات پر چھاپے مارے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا، سرکاری ذرائع نے بتایا کہ یہ چھاپے میڈیا گروپ کی مبینہ ٹیکس چوری کا نتیجہ تھے۔ وہیں، میڈیا گروپ کا دعویٰ ہے کہ یہ کووڈ-19 وبا کی دوسری لہر کے دوران کی گئی تحقیقاتی رپورٹنگ کی وجہ سے انتقامی کارروائی کے تحت  ایسا کیا گیا۔

(اس  رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)