نفرت کے خلاف عام شہریوں کا متحد ہونا مطمئن کرتا ہے کہ نفرت ہارے گی

ملک میں جہاں ایک طرف نفرت کے علمبردار فرقہ واریت کی خلیج کو مزید گہرا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف ان کی بھڑکانے اور اکسانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود عام لوگ فرقہ وارانہ خطوط پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں ہو رہے بلکہ ان کے منصوبوں کو سمجھ کرزندگی کی نئی سطحوں کوتلاش کرنے کی سمت میں بڑھن رہے ہیں۔

ملک میں جہاں ایک طرف نفرت کے علمبردار فرقہ واریت کی خلیج کو مزید گہرا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف ان کی بھڑکانے اور اکسانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود عام لوگ فرقہ وارانہ خطوط پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں ہو رہے بلکہ ان کے منصوبوں کو سمجھ کرزندگی کی نئی سطحوں  کوتلاش کرنے کی سمت میں بڑھن رہے ہیں۔

جہانگیر پوری میں ترنگا یاترا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

جہانگیر پوری میں ترنگا یاترا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

کیا طرح طرح کی نفرت کے کھیلوں سے پریشان اس ملک کے مسکرانے  کےدن آنے والے ہیں؟ امید تو جاگ رہی ہے۔ کیونکہ ایک طرف نفرت کے علمبردار لال قلعہ کو بھی نفرت کی علامت بنانے کے درپے ہیں تو دوسری طرف اہل وطن نے نہ صرف اپنے صبر کی انتہا کر دی ہے بلکہ ان کے خلاف آواز اٹھا کر ان کے عزائم کو پانی پلانابھی  شروع کر دیا ہے۔

بلاشبہ، ہمیں ان احتجاجی آوازوں کو ٹھیک سے سمجھنے کی ضرورت ہے، امید سے دیکھنے اور ان کے سُر میں سُر ملانے کی ضرورت ہے۔

اس ملک کے پاس لال قلعہ کو یاد کرنے کی متاثر کن وجوہات کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی۔ مغل حکمراں شاہ جہاں کے زمانے میں 1638 اور 1649 کے درمیان 254. 67  ایکڑ اراضی پر تعمیر کیا گیا یہ قلعہ جہاں کئی بیرونی حملوں کے ساتھ  ہماری جدوجہد آزادی کا بھی گواہ رہا ہے۔ ہاں، 1739 کی اس تاریک گھڑی کا بھی، جب وحشی حملہ آور نادرشاہ نے ایک ہولناک قتل عام کے دوران اس کے کوہ نور سے جڑے تخت طاؤس کو لوٹ لیا تھا۔

یہاں تک کہ 1857 کے اس  لافانی لمحے کا بھی،  جب میرٹھ سے آئے باغی سپاہیوں کی درخواست  پر آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے پہلی جدوجہد آزادی کی قیادت قبول کی تھی۔ اگر وہ جدوجہد ناکام ہوئی تو بدقسمت ظفر رنگون جلاوطنی تک اسی قلعہ میں قید رہے۔ لیکن ظفر تو ظفر، خود انگریز اس قلعے کو ہندوستانی قومی فخر کی ایسی علامت سمجھتے تھے کہ جب تک اس پر یونین جیک نہیں لہرایا، وہ خود کو ہندوستان کا حکمران نہیں مان سکے تھے۔

سن 1945 میں انہوں نے نیتا جی سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کے گرفتار جنگجوؤں اور سپاہیوں کے خلاف اسی قلعے میں مقدمہ چلایا، جو بالآخر لال قلعے سے آئی آواز – سہگل، ڈھلون، شاہنواز’ جیسے نعروں تک جا پہنچا تھا۔

پندرہ  اگست 1947 کو آزادی ملی اور اگلے دن ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اس قلعے کی فصیل پر پہلا ترنگا لہرایا تو ملک کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اس کے بعد سے ہر 15 اگست کو وزرائے اعظم کے ذریعے اس پر ترنگا لہرانے کی روایت ہے۔

لیکن اب حکمرانوں کی کھلم کھلا حمایت یافتہ نفرت کے علمبرداروں کو یہ یادیں اپنے کھیل کے لیے مفید نہیں لگ رہی ہیں۔ ویسے بھی نفرت کے سفر کودشمنی کی یاد دلاتیں بدلہ لینے کے لیے  اکساتی یادیں ہی  خوشگواربناتی ہیں۔ اس لیے وہ یہ یاد دلانے پراتر آئے ہیں کہ یہ وہی قلعہ ہے جہاں مغل بادشاہ اورنگ زیب نے 1675 میں سکھوں کے نویں گرو تیغ بہادر کے خلاف ‘فرمان’ جاری کیا تھا،اور خوب ستائے جانے کے بعدجن کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔

یہی یاد دلانے کے لیےگزشتہ دنوں مرکزی وزارت ثقافت نے دہلی سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے ساتھ قلعہ کے لان میں گرو تیغ بہادر کے 400 ویں ‘پرکاش پرو’ کا اہتمام کر کے مذہبی پروگراموں کے لیے اس کے استعمال  کی روایت ڈال دی گئی ۔

حالاں کہ قلعہ کے پاس ہی چاندنی چوک کے قریب واقع گوردوارہ سیس گنج صاحب اس تقریب کے لیے زیادہ موزوں  تھا، جہاں گرو کا سرقلم کیا گیا تھا۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ وزارت ثقافت سمجھ گئی تھی کہ اگر تقریب وہاں ہوئی تو  اس کا یہ ‘مقصد’ پورا نہیں ہوگاکہ لال قلعہ کو سکھ مغل دشمنی سے جوڑ کر جدوجہد آزادی کی مشترکہ اقدار کی علامت والی اس کی شناخت کو تبدیل یا داغدار کردیا جائے!

کون کہہ سکتا ہے کہ بادشاہت خواہ وہ کسی بھی مذہب یا فرقے سے تعلق رکھتے ہوں، اپنے دور میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ظلم و ستم کا سہارا نہیں لیتی تھی یا قتل و غارت، ناانصافی، جبر، استحصال اور جبر سے گریز کرتی تھیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری تاریخ میں سر قلم کرنے اور تلواریں بھونکنے کے واقعات ہوتے ہی نہیں۔

لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کون کہہ سکتا ہے کہ آج،  جب ہم  ان بادشاہوں اور شہنشاہوں کو تاریخ میں دفن کر چکے ہیں تو ان کے کسی بھی عمل کو دو برادریوں کی دشمنی کے طور پر یاد کرتے ہوئے ان کے حال سے  بدلہ لینے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

لیکن ہم خوش ہو سکتے ہیں کہ جب نفرت کے علمبردار ایسی تمام باتوں کو پس پشت ڈال  دینا چاہتے ہیں، ان کی  بھڑکانے، گمراہ کرنے اور اکسانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود اہل وطن مذہبی یا فرقہ وارانہ خطوط پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں ہو رہے، بلکہ ان کے منصوبوں کو سمجھ کر زندگی کی ایک نئی سطح تلاش کرنے کی طرف بڑھنے  لگے ہیں۔

انہیں اس بات کی پرواہ نہیں کہ خود کو مذہبی پیشوا کہلوانے والے بعض حضرات کسی مذہبی کمیونٹی  کی نسل کشی کی اپیل تک جاپہنچے ہیں، جبکہ بلڈوزر کا کلچر ملک کی جمہوریت کو نئے سرے سے پیش  کرنے لگا ہے۔

فی الحال، اس سلسلے میں سب سے اچھی خبریں  گزشتہ ہنومان جینتی پر ہوئے فرقہ وارانہ تشدد اور اس کے بعد سرکاری بلڈوزر کے دو پاٹوں  کے بیچ  پسنے کو مجبور کر دیے گئے دارالحکومت دہلی کے جہانگیر پوری سے آرہی ہیں۔

وہاں کے ہندوؤں اور مسلمانوں نے خیر سگالی میٹنگ کر کے نہ صرف اپنی شکایتیں دور کی ہیں بلکہ یہ تہیہ کر لیا ہے کہ جس طرح ہنومان جینتی کے فسادات سے پہلے ساتھ رہتے تھے، مستقبل میں بھی کندھے سے کندھا ملا کر رہیں گے۔ گزشتہ اتوار کو مشترکہ ترنگا یاترا میں بھی انہوں نےاپنےاسی  عزم کو مضبوط کیا۔

دوسری طرف کرناٹک میں روایتی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے مذہبی تنظیموں اور عام لوگوں کی کوششیں اس طرح رنگ لا رہی ہیں کہ مسلم طالبات کے حجاب پہننے اور مندروں کے میلوں میں مسلم کاروبار پر پابندی کی ‘اپیلوں ‘ کی ہواسی نکل گئی ہے۔

بیلور اور بنگلورو وغیرہ کے سینکڑوں سال پرانے مندروں کی رسومات،رواج  اور میلوں میں ہندو اور مسلمان پہلے کی ہی طرح اپنی روایات کا جشن منا رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں بیلور کے چنناکیشو مندر بھگوان وشنو کی رتھ یاترا نکلی تو ہاسن ضلع کی دودامیدور مسجد کے مولوی سید سجاد قاضی، سبز پگڑی پہنے، رتھ کے پہیوں کے پاس ایک ہی چوکی پر کھڑے قرآنی آیات پڑھتے رہے۔

کورونا کی وجہ سے دو سال کے التوا کے بعد ہوئے کرگا میلے میں اسی طرح کے گنگا جمنی نظارے ریاست میں دیکھے گئے۔ روایت کے مطابق اس بار بھی عقیدت مند حضرت توکل مستان بابا کی درگاہ پر رک کر کچھ دیر کے لیے وہاں اپنا کرگاہ رکھا۔ درگاہ کے علما کی دعوت پر پجاریوں کا ایک گروپ پہلے ہی وہاں پہنچ چکا تھا اور دونوں برادریوں کے لوگ ایک دوسرے کو نیک خواہشات اور دعائیں دے رہے تھے۔

ہندوتوا کارکنوں کی درگاہ کے پڑاؤ پر کرگا نہ رکھنے کی اپیل کو سننے والا توکوئی نہیں تھا۔ اس کی خوشی اس حقیقت سے مزید بڑھ جاتی ہے کہ مذہبی بنیاد پر نفرت کی شیطانی اپیلوں کی نافرمانی کا خطرہ عام لوگ ہی نہیں اٹھا رہے۔

گزشتہ دنوں  بایوکان کی بانی کرن مجمدار شا نے یہ خطرہ مول لے کر حکمرانوں  کو خبردار کیا تھا کہ ملک کا ٹکنالوجی سیکٹربھی اس ‘مذہبی بٹوارے’ کا شکار ہو ا، جسے وہ شہ دے رہے ہیں، تو اس سیکٹر میں  ملک  کی عالمی قیادت  تباہ ہو جائے گی۔

اب اس سلسلے میں ایک اور کڑی کا اضافہ کرتے ہوئے فرنیچر ڈیزائنر کنال مرچنٹ نے وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ٹیبل ڈیزائن کرنے کی حکومت کی تجویز کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا ہے کہ وہ مستقبل کی تاریخ میں اس طرح نظرنہیں آنا چاہتے جیسا آج ہٹلر کے دور میں اس کی حمایت اور نازی کے طور پر اس کے لیے کام کرنے والے نظر آتے ہیں۔

کنال نے اپنے جواب میں لکھا؛ آپ جس طرح کا متعصب، نفرت انگیز اور نسل پرست ہندوستان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ ماضی میں کبھی وجود میں ہی نہیں تھا ….میرا ہندوستان سیکولر ہے، سب کو ساتھ لے کر چلنےوالا، جامع، روادار اور ایک تہذیبی قوت سے مالا مال، جس کا 7000 سالوں سے باہر سے آنے والے لوگوں کو قبول کرنے اور خود  میں شامل کرنے کاریکارڈ رہا ہے ….میں ایسی حکومت کے سربراہ کے لیے ایسی میز تیار کرنے سے خود کوقاصر محسوس کرتا ہوں، جس پر اقلیتوں کو مزید الگ تھلگ کرنے اور ان کے حقوق سے محروم کرنے کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے قوانین اور پالیسیاں بنائی جائیں گی۔

انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایسی صورت میں پی ایم او کے لیے ٹیبل بنانا میری طرف سے اپنے دوستوں، خاندان اور ملازمین کو دھوکہ دینے اور توہین کرنے کے مترادف ہوگا،  جو کمزور پس منظر سے آتے ہیں، اقلیت ہیں، ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کا حصہ ہیں، یا دلت ہیں اور درج فہرست ذات سے آتے ہیں۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ کنال کے اس جواب سے کسی بھی سطح پر کوئی سبق حاصل کیا جائے گا، لیکن کرناٹک سمیت ملک کے کئی حصوں میں ان کے اور کرن مجمدار شا جیسے کاروباریوں اور عام شہریوں کی نفرت کے کالے طوفان کے خلاف یہ مزاحمت یقین دلا رہی ہے کہ آخرکار وہ ہار جائے گی اور ہم آہنگی کی ہوائیں ملک کے مستقبل کا تعین کریں گی۔

فیض احمد فیض یوں ہی نہیں لکھ گئے کہ:

یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق

نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی

یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول

نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی

Next Article

میں نے جو دیکھا اس پر یقین نہیں کر پایا، بس بھاگنے لگا: ایئر انڈیا حادثے میں زندہ بچ جانے والے وشواس نے بتایا

احمد آباد سے لندن جانے والی ایئر انڈیا کی فلائٹ 171 کے واحد زندہ بچ جانے والے 40 سالہ وشواس کمار رمیش نے بتایا کہ ٹیک آف کے 30 سیکنڈ بعد ایک تیز آواز آئی اور پھر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔

12 جون 2025 کو احمد آباد میں ایئر انڈیا کے طیارے حادثے میں زندہ بچ جانے والے وشواس کمار رمیش۔ (تصویر: سوشل میڈیا / پی ٹی آئی)

احمد آباد: ٹیک آف سے پہلے 40 سالہ وشواس کمار رمیش کی احمد آباد سے لندن جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز میں کچھ بھی عجیب نہیں  لگ رہاتھا۔ لیکن جیسے ہی جہاز کے پہیے زمین سے اوپراُٹھے سب کچھ بدل گیا۔ اگلے 30 سیکنڈ کے اندر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔

جمعرات (12 جون) کو پیش آنے والے اس سانحے میں بہت سے لوگوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے اور وائبس آف انڈیا ابھی تک مرنے والوں کی صحیح تعداد کا انتظار کر رہا ہے، لیکن اس دن کا واحد مثبت پہلو یہ تھا کہ رمیش کو آگ کی لپٹوں سے گھرےبوئنگ 787-8 ڈریم لائنر سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا گیا۔

رمیش کو چوٹیں آئی ہیں۔ وہ فی الحال سول ہسپتال میں زیر علاج ہیں، جہاں انہیں  ابتدائی طبی امداد دی جا رہی ہے۔ وشواس نے کہا، ‘میں بھگوان میں یقین رکھتا ہوں… میں ابھی بھی اپنے بھائی کا انتظار کر رہا ہوں، جو میرے ساتھ سفر کر رہے تھے۔’

‘طیارہ ٹیک آف کرنے کے تیس سیکنڈ بعد ایک تیز آواز آئی اور پھر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ یہ سب بہت تیزی سے ہوا،’ 40 سالہ رمیش نے کہا، جو ایئر انڈیا کی پرواز 171 کے چند زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک ہیں – یا شاید واحد زندہ بچ جانے والے شخص ہیں -جو احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل بین الاقوامی ہوائی اڈے سے جمعرات کی دوپہر تقریباً 1:38 بجے ٹیک آف کرنے کے فوراً بعد گر کر تباہ ہو گئی۔

طیارے میں عملے کے دس ارکان سمیت 242 افراد سوار تھے۔ مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی ہے اور کچھ لاشیں برآمد ہونا باقی ہیں۔ سٹی پولیس چیف جی ایس ملک نے تصدیق کی ہے کہ 204 لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

طیارہ احمد آباد کے مصروف علاقے میں گر کر تباہ ہوا، جس کااثر شہر کے میگھا نی نگر علاقے میں واقع بی جے میڈیکل کالج کیمپس پرہوا۔

میڈیکل کالج کے ہاسٹل کینٹین میں لنچ کررہے کم از کم پانچ میڈیکل طلباء کی موت ہو گئی۔وہیں  20 لوگوں کو سول اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے جو جھلس کر زخمی ہوئے ہیں۔

اسپتال کے احاطے میں رہنے والے بہت سے لوگ، جو ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے رشتہ دار ہیں، کی بھی ہلاکت کا خدشہ ہے۔

گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی لیڈر وجئے روپانی بھی طیارے میں سوار افراد میں شامل تھے۔ مرکزی کابینہ کے ارکان نے اس حادثے میں ان کی موت کی تصدیق کی ہے ۔

طیارے میں 53 برطانوی شہری، سات پرتگالی شہری اور ایک کینیڈین شہری سوار تھے۔ باقی تمام ہندوستانی شہری تھے۔ مرنے والوں میں پائلٹ سمت سبھروال بھی شامل ہیں، جنہیں 8700  اڑان گھنٹے کا تجربہ تھا۔

چاروں طرف لاشیں تھیں

سیٹ 11اےپر بیٹھے برطانوی شہری رمیش اب سول ہسپتال کے جنرل وارڈ میں داخل ہیں۔ ان کے سینے، آنکھ اور ٹانگوں پر چوٹیں آئی ہیں؛ درحقیقت، جب انہیں  ایمبولینس سے ہسپتال لایا گیا تو وہ  پیدل ہی ہسپتال پہنچے تھے۔

رمیش کچھ دنوں کے لیے اپنے خاندان سے ملنے ہندوستان آئے تھے اور اپنے بھائی 45 سالہ اجئے کمار کے ساتھ برٹن واپس جا رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ حادثے کے بعد جب وہ اٹھےتو انہوں نے اپنے اردگرد صرف لاشیں ہی دیکھیں۔

رمیش نے کہا، ‘میں نے جو دیکھا اس پر مجھے یقین نہیں ہوا۔ میں کھڑا ہوا اور بھاگنے لگا۔ میرے چاروں طرف ہوائی جہاز کے ٹکڑے پڑےتھے۔ کسی نے مجھے پکڑ لیااور ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے گیا۔’ بتایا جاتا ہے کہ رمیش ہوائی جہاز کے ایمرجنسی دروازے سے کود کر باہر نکل گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ 20 سال سے لندن میں مقیم ہیں اور ان کی اہلیہ اور بچے بھی وہیں رہتے ہیں۔ رمیش نے کہا، ‘وہ ڈرے ہوئےتھے، لیکن اب انہیں پتہ  ہے کہ میں زندہ ہوں۔ میں ان تمام لوگوں کے لیے غمزدہ ہوں جو اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔’

اگرچہ دونوں بھائیوں نے اکٹھے بیٹھنے کی درخواست کی تھی، لیکن شدید رش اور آخری لمحات کی درخواست  کی وجہ سے انہیں الگ الگ بٹھایا گیا۔ رمیش سیٹ 11اے پر تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی اجئے ہوائی جہاز میں الگ بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘ہم دیو گئے تھے۔ وہ میرے ساتھ سفر کر رہے تھے اور اب میں انہیں تلاش کرنے سے قاصر ہوں۔ براہ کرم انہیں ڈھونڈنے میں میری مدد کریں۔’

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

یوپی حکومت نے ’لاء اینڈ آرڈر‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ایودھیا اور بارہ بنکی میں عرس پر روک لگائی

وشو ہندو پریشد کی شکایت کے بعد حکام نے امن و امان کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اتر پردیش کے ایودھیا اور بارہ بنکی میں دو سالانہ عرس کی تقریبات کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: اتر پردیش کے ایودھیا اور بارہ بنکی میں منعقد ہونے والی دو سالانہ عرس کی تقریبات کو حکام نے امن و امان کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے ۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ایودھیا کے خان پور مسودھا علاقے میں دادا میاں کی درگاہ پر ہونے والے عرس کو وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی جانب سے دائر کرائی گئی شکایت کے بعد اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوسری جانب بارہ بنکی کے پھول پور علاقے میں سید شکیل بابا کے عرس سے متعلق تقریب کو ممکنہ بدامنی کے خدشات کے پیش نظر اجازت نہیں دی گئی۔

ایودھیا میں وی ایچ پی کے شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ یہ اجتماع ‘غازی بابا’ کے نام پر منعقد کیا جا رہا تھا – سید سالار مسعود کے حوالے سے – مسلم کمیونٹی کی طرف سے 11ویں صدی کے مشہور جنگجو سید سالار مسعود غازی کی یاد میں منعقد کیا جاتا تھا، جنہیں غزنوی حکمران محمود غزنوی کا بھتیجہ مانا جاتا ہے۔

ایودھیا کے سرکل آفیسر آشوتوش تیواری نے کہا کہ ’عرس دادا میاں‘ کے نام پر دی گئی اجازت کو یہ معلوم ہونے کے بعد رد کر دیا گیا ہے کہ یہ تقریب غازی بابا کے نام پر منعقد کی جا رہی تھی۔

دریں اثنا، بارہ بنکی میں عرس کے پروگرام کے بارے میں ایڈیشنل ایس پی وکاس ترپاٹھی نے کہا کہ ‘کچھ تنازعات سامنے آئے ہیں جو فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں’ جس کی وجہ سے انتظامیہ نے اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔

معلوم ہو کہ مارچ کے اوائل میں سنبھل میں پولیس نے سید سالار مسعود غازی کی یاد میں مسلم کمیونٹی کی طرف سے منعقد کیے جانے والے صدیوں پرانے میلے – نیجا میلہ پر پابندی لگا دی تھی۔ پولیس نے اس وقت سالانہ نیجا میلہ کی اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ کسی حملہ آور، لٹیرے اور قاتل کے اعزاز میں تقریب منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، بھلے یہ روایتی طور پر ہر سال منعقد کیا جاتا  رہا ہو۔

اسی طرح مئی میں بہرائچ میں سید سالار مسعود غازی کے مزار پر ہر سال لگنے والے صدیوں پرانے جیٹھ میلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔

پچھلی چند دہائیوں میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور اس سے منسلک تنظیموں نے غازی میاں کی کہانی کو موجودہ سیاست میں تھوپنے کی کوشش کی ہے اور انہیں ایک ولن کے طور پر پیش کیا ہے، جنہیں پسماندہ ذات کے ہندو جنگجو مہاراجہ سہیل دیو نے قتل کر دیا تھا، جنہیں آج راجبھر اور پاسی برادری اپنا آئیڈیل مانتی ہے۔

اتر پردیش اور مرکز میں حکومت بنانے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس کمیونٹی تک پہنچ بنانے کے لیےدیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ غازی کے مبینہ قاتل سہیل دیو کی ایک نئی یادگار تعمیر کی ہے، اور غازی پور سے دہلی تک چلنے والی ایک سپر فاسٹ ٹرین، ایک نئی یونیورسٹی کو ان کا نام دیا  ہوا ہےاور ان کے نام پر ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔

Next Article

آسام: فرقہ وارانہ کشیدگی کے درمیان دھبری میں وزیراعلیٰ نے کیوں دیے ’شوٹ ایٹ سائٹ‘ کے آرڈر

آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے جمعہ کو دھبری میں رات کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ 7 جون کو دھبری کے ہنومان مندر میں ایک جانور کا کٹا ہوا سر ملا تھا، جس کے بعد سے وہاں حالات کشیدہ ہیں۔

آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے جمعہ کو دھبری کا دورہ کیا۔تصویر بہ شکریہ: ایکس

نئی دہلی: آسام حکومت نے دھبری شہر میں ایک مندر کے قریب فرقہ وارانہ واقعات کے بعد جمعہ کی رات  کودیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری  کیے ہیں۔ یہ فیصلہ عیدالاضحیٰ کے عین بعد ہنومان مندر کے پاس مبینہ طور پر مویشیوں کے سر رکھے جانے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تشدد کے پیش نظر لیا گیا ہے۔

کیا تھا معاملہ

ہندوستان ٹائمز کے مطابق، پہلا واقعہ 7 جون کو بقرعید کے ایک دن بعد پیش آیا، جب دھبری کے ایک ہنومان مندر میں ایک گائے کا سر ملا ۔ اگرچہ ابتدائی طور پر ہندو اور مسلم دونوں برادریوں نے امن کی اپیل کی تھی، لیکن کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب اگلے دن اسی جگہ سے ایک اور مویشی کا سر ملا۔ مبینہ طور پر رات کے وقت پتھراؤ بھی کیا گیا، جس سے علاقے میں بدامنی میں مزید اضافہ ہوگیا۔

اس کے بعد امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ریپڈ ایکشن فورس (آر اے ایف) اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) سمیت سیکورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔ ہفتے کے شروع میں امتناعی احکامات نافذ کیے گئے تھے اور بعد میں اٹھا لیے گئے تھے، لیکن صورتحال اب بھی غیر مستحکم ہے۔

شرما نے امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے دھبری کا دورہ کرنے کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا ،’معاملہ دونوں برادریوں کے رہنماؤں کی میٹنگ کے بعد سلجھ گیا تھا، لیکن اگلے دن اسی جگہ پر ایک اور گائے کا سر رکھ دیا گیا، جس سے کشیدگی بڑھ گئی۔’

وزیر اعلیٰ شرما نے کہا، ‘یہ واقعہ کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہم مندروں اور مقدس مقامات کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنا رہے ہیں۔’ انہوں نے علاقے میں تشدد بھڑکانے اور ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش کے لیے ایک ‘فرقہ وارانہ گروپ’ مورد الزام ٹھہرایا۔

چیف منسٹر نے مبینہ ‘بیف مافیا’ پر بھی تشویش کا اظہار کیا، جس کے مطابق، عید سے قبل مغربی بنگال سے ہزاروں مویشیوں کو دھبری لایا گیا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ دراندازی ایک نئے مجرمانہ نیٹ ورک نے کی ہے اور انہوں معاملے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

وزیراعلیٰ کے الزامات

شرما نے مبینہ طور پر ‘نبین بنگلہ’ نامی تنظیم کے ذریعے لگائے گئے پوسٹروں کی جانب اشارہ کیا، جس میں دھبری کو بنگلہ دیش میں ضم کرنے کے اشتعال انگیز ایجنڈے کو بڑھاوا دیا  گیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انتہا پسند عناصر آن لائن اور زمینی سطح پرفرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دھبری کو بنگلہ دیش کا حصہ بنانے کی مہم کے ذریعے فرقہ وارانہ بدامنی کو ہوا دینے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے۔

شرما نے کہا، ‘میں نے رات میں دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اگر کوئی پتھر پھینکے اور پولیس کو ان کی نیت پر شک ہو تو وہ گولی مار دیں گے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ خود آئندہ عید کی تقریبات کے دوران دھبری میں سیکورٹی کی نگرانی کریں گے۔

انہوں نے کہا، ‘ہم کمیونٹی کے ایک حصے کو اس طرح کی گڑبڑی  پیدا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہماری حکومت اسے برداشت نہیں کرے گی اور دھبری کو ہمارے ہاتھوں سے جانے نہیں دے گی۔’

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، چیف منسٹر نے ضلع میں تمام معروف مجرموں کو فوری طور پر گرفتار کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں، جو ان کے بقول بنگلہ دیش میں ایک طویل عرصے سے بنیاد پرست قوتوں کے نشانے پرہیں۔

انہوں نے کہا، ‘وہ واقعات جن کا مقصد فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینا ہے، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بنگلہ دیشی طاقتیں دھبری میں کام کر رہی ہیں۔’

معلوم ہو کہ  دھبری ضلع میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، جن میں سے زیادہ تر بنگالی بولنے والے ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، ضلع کی آبادی میں مسلمانوں کا حصہ تقریباً 74فیصد ہے۔

فرقہ وارانہ تشدد کے بعد 38 افراد کو گرفتار

خبر رساں ایجنسی  پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق  ، چیف منسٹر ہمنتا بسوا شرما نے سنیچر کو کہا کہ دھبری میں 38 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ایک نوٹیفکیشن کے مطابق، ریاستی حکومت نے ضلع کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نوین سنگھ کا بھی تبادلہ کر دیا ہے اور ان کی جگہ ہیلاکنڈی کی ایس ایس پی لینا ڈولی کو مقرر کیا ہے۔

Next Article

کانگریس نے جس یو اے پی اے قانون کو پاس کیا تھا، اب اسی کے ’غلط استعمال‘ پر اٹھائے سوال

کانگریس نے مودی حکومت پر یو اے پی اے کا غلط استعمال کرتے ہوئے اختلاف رائے کو دبانے کا الزام لگایا ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر پون کھیڑا نے طلبہ، صحافیوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں پرتشویش کا اظہار کیا۔ تاہم، اقتدار میں رہتے ہوئے کانگریس  نے ہی اس قانون کی بنیاد رکھی تھی اور اس میں سخت دفعات شامل کیےتھے۔

(السٹریشن : دی وائر)

نئی دہلی: کانگریس نے بدھ (11 جون) کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) پر سخت تنقید کی اور الزام لگایا کہ نریندر مودی حکومت نے اختلاف رائے کی آوازوں کو دبانے کے لیے اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔

دی ٹیلی گراف نے لکھا ہے کہ المیہ یہ ہے کہ اس قانون کو کانگریس ہی لے کر آئی تھی اور ان دفعات کو شامل کیا تھا، جنہیں وہ اب ‘سفاک’ اور ‘خطرناک طور پر غلط استعمال’ کا ہتھیار قرار دے رہی ہے۔

کانگریس لیڈر پون کھیرا نے ایکس پر لکھا،’مودی حکومت کے دور میں اختلافات کو دبانے اور انصاف میں تاخیر کے لیے قانون کے استعمال میں  اضافہ ہوا ہے۔ 2014 سے 2022 کے درمیان یو اے پی اےکے 8719 مقدمات میں سے صرف 2.55فیصد میں سزا سنائی گئی- جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قانون کا استعمال ناقدین، طالبعلموں، صحافیوں اور کارکنوں  کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا۔ مقدمے کی سماعت سے پہلے ہی مجرم مان لینا، سوشل میڈیا اور میڈیا کی جانب سے فیصلہ کر دینا، اور سپریم کورٹ کی طرف سے حال ہی میں ہیبیس کارپس کی درخواستوں کو مسترد کر دینا- یہ سب نظام انصاف میں بحران کو شدید کررہے ہیں۔’

کھیڑا نے بھیما کورےگاؤں کیس، دہلی فسادات کی سازش، نیوز کلک پورٹل پر کارروائی اور صحافیوں اور کارکنوں کی گرفتاری جیسے معاملات کا ذکر کیا۔

کھیڑا نے جیل میں بند انسانی حقوق کے کارکن عمر خالد کے لکھے گئے ایک حالیہ خط کا لنک بھی شیئر کیا۔ عمر 2020 سے دہلی فسادات کی سازش کیس میں بغیر کسی ٹرائل کے جیل میں ہیں۔

کھیڑا نے لکھا، ‘دراصل، ان میں سے زیادہ تر مقدمات ان لوگوں کے خلاف انتقامی جذبے سے درج کیے گئے ہیں جو اس حکومت کو چیلنج کر رہے تھے۔ عدالتیں اس غلط استعمال کو بارہا بے نقاب کر چکی ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ ‘احتجاج دہشت گردی نہیں ہے’ اور اسی بنیاد پر دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف تنہا کو رہا کیا۔ سپریم کورٹ نے صحافی محمد زبیر اور ماحولیاتی کارکن دیشا روی کو رہا کر تے ہوئے گرفتاری پر تنقید کی اورکہا کہ یہ اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کی کوشش ہے۔’

‘ہندوستان کی جمہوریت کی حفاظت پرامن اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن یواےپی اےجیسے قوانین کا خطرناک اور غلط استعمال بنیادی آزادی کو ہی خطرے میں ڈال رہا ہے، اور یہ آئین پر بی جے پی کے وسیع حملے کا حصہ ہے،’ انہوں نے مزید کہا۔

قابل ذکر ہے کہ یو اے پی اے کو پہلی بار کانگریس حکومت نے 1967 میں پاس کیا تھا۔ اسے 2004 میں مزید سخت کیا گیا تھا جب منموہن سنگھ حکومت نے اس میں پچھلے پوٹا قانون کی کئی دفعات شامل کی تھیں۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد یو پی اے حکومت نے کچھ دفعات شامل کیں جو ناقدین کے مطابق ‘من مانی گرفتاری’ کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ ان ترامیم کے تحت دفعہ 43ڈی (5) کے ذریعے ضمانت حاصل کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ۔

سال 2019 میں جب مودی حکومت نے لوگوں کو ‘دہشت گرد’ قرار دینے اور قانون کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے یواے پی اےمیں ترمیم کی تجویز پیش کی، تو کانگریس نے لوک سبھا میں اس کی مخالفت کی۔ لیکن اس نے راجیہ سبھا میں ان ترامیم کی حمایت کی، شاید اس کا مقصد پارٹی کی شبیہ کو انسداد دہشت گردی کے طور پر برقرار رکھنا تھا۔ اس حمایت نے کانگریس کے کچھ اتحادیوں کو ناراض بھی کر دیاتھا۔

اس کے بعد 2021 میں، جب بھیما کورےگاؤں کیس میں گرفتار قبائلی حقوق کے کارکن اسٹین سوامی کی عدالتی حراست میں موت ہو گئی، تو کانگریس رہنما (بعد میں ایم پی) ششی کانت سینتھل نے پارٹی میگزین کانگریس سندیش میں ایک تعزیتی مضمون لکھا اور اسے ‘انسٹی ٹیوشنل مرڈر’ قرار دیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ کانگریس اس وقت مہاراشٹر میں شیو سینا (ادھو ٹھاکرے) کی حکومت میں شریک تھی، جب اسٹین سوامی کو پانی پینے کے لیے سیپر استعمال کرنے کی اجازت لینے کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑا تھا — وہ پارکنسن کے مرض میں مبتلا تھے۔

تاہم، کانگریس نے ادھو ٹھاکرے کے  کیس کو این آئی اے (نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی) کے حوالے کرنے کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

سینتھل نے لکھا، ‘حالیہ برسوں میں ہم نے یواے پی اےیا سیڈیشن جیسی دفعات کے تحت کئی گرفتاریاں دیکھی ہیں، جن کا مقصد احتجاج کی آوازوں کو دبانا یا سیاسی انتقام لینا تھا۔ ہر گرفتاری موجودہ حکومت کے نظریے کو بے نقاب کرتی ہے… اسٹین سوامی کی گرفتاری اور ادارہ جاتی قتل نے عام لوگوں کے ذہنوں میں تین اہم سوالوں کو گہرا کر دیا ۔’

انہوں نے تین مسائل درج کیے؛(الف) قبائلیوں کی حالت زار، (ب) ہندو راشٹر کے پوشیدہ ایجنڈے کو نافذ کرنے میں موجودہ حکومت کی سفاکیت (ج) ہمارے نظام انصاف کی قابل رحم حالت۔

جنوری 2023 میں جب منی پور میں دومدیر کو گرفتار کیا گیا، تو کانگریس نے یو اے پی اے کو’سفاک’ کہا۔

کھیڑا نے تب کہا تھا، ‘پریس کی آزادی کو کچلنے، صحافیوں کو چن چن کر نشانہ بنانے اور یواے پی اے جیسے سخت قوانین کا غلط استعمال کرنے کا مودی حکومت کا ریکارڈ واضح طور پرآمرانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔’

Next Article

پنجاب کے صحافیوں پر خفیہ پولیس کی دستک، بے وجہ مانگی جا رہی نجی جانکاری

ان دنوں پنجاب پولیس آزاد صحافیوں کو پریشان کر رہی ہے۔ ان سے تمام طرح کی ذاتی معلومات طلب کی جا رہی ہے۔ اس کے باعث صحافیوں میں غصہ ہے۔ ان کے مطابق یہ صحافیوں کو ڈرانے کی کوشش ہے۔

چنڈی گڑھ: پنجاب کے برنالہ ضلع کے کھڈّی گاؤں کے  صحافی گرپریت کو جب 6 جون کو اسٹیٹ انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر نے پولیس اسٹیشن بلایا تو انہیں ایک بارکو لگا کہ یہ کوئی عام سی کارروائی ہے۔ لیکن جب افسر نے گرپریت سے سوال پوچھنا شروع کیا تو انہیں تھوڑا شک ہوا۔

اس افسر نے گرپریت سے پوچھا؛


کہاں سےپڑھائی کی ہے؟

صحافت کی ڈگری کہاں سے حاصل کی؟ کس سال حاصل کی؟

زمین کتنی ہے، بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات؟

کن کن ممالک کا دورہ کیا ہے؟ پاسپورٹ کی تفصیلات؟

کار کا رجسٹریشن نمبر کیا ہے؟

گھر والے کیا کرتے ہیں؟


افسر انتہائی ذاتی معلومات کے بارے میں تقریباً بیس سوال پوچھتا رہا اور گرپریت سہمے ہوئے جواب دیتے رہے۔ گرپریت گزشتہ 8 سال سے صحافت کر رہے ہیں اور گزشتہ 4 سالوں سے وہ ‘پنجابی نیوز کارنر’ کے نام سے اپنا ایک آزاد ویب چینل چلا رہے ہیں۔

گرپریت نے دی وائر کو بتایا، ‘یہ پہلا موقع تھا جب اس طرح سے میری ذاتی معلومات مانگی جا رہی تھیں۔ آدھار کارڈ نمبر، پاسپورٹ نمبر، خاندان میں کون کون ہیں اور کیا کرتے ہیں؟ زمین کتنی ہے؟ ایسے کئی سوالات پوچھے گئے۔’


یہ صرف گرپریت ہی نہیں تھے، جن سے ریاستی انٹلی جنس محکمہ نے ذاتی تفصیلات طلب کی ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران، پنجاب کے صحافیوں کو پریشان  کرنے والاپیٹرن سامنے آیا ہے، جس میں پنجاب کے مالوا علاقے سے تعلق رکھنے والے پانچ دیگر صحافیوں — منندرجیت سنگھ (لوک آواز)، سکھویندر سنگھ سدھو (لوک ناد)، منٹو گروسریا، سندیپ لادھوکا (اے بی سی پنجاب)، اور جسگریوال (آر ایم بی ٹیلی ویژن) — کی ذاتی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔


مالوا کے بٹھنڈہ ضلع سے اپنا آزاد چینل چلا رہے صحافی منندر سدھو کے دفتر پر 5 جون کو انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے دستک دی  اور چائے پینے کے بعد منندر پر ایسے ہی سوالات کی بوچھاڑ کردی۔

منندر سدھو۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

منندر نے دی وائر کو بتایا، ‘جب انٹلی جنس والےنے مجھ سے سوال پوچھنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ سسٹم (ریاست) کے پاس پہلے سے ہی ہماری بنیادی معلومات موجود ہیں، پھر اس کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن سوال جب پڑھائی-لکھائی کے سال ، زمین، پاسپورٹ نمبر تک پہنچے تو مجھے احساس ہوا کہ یہ نارمل نہیں ہے۔ آج تک پنجاب میں کسی حکومت نے صحافیوں کی اتنی ذاتی معلومات اکٹھی نہیں کیں۔’

منندر سنگھ گزشتہ چار سالوں سے ‘لوک آواز ٹی وی’ کے نام سے اپنا ویب چینل چلا رہے ہیں۔ وہ اپنی تنقیدی رپورٹنگ کے لیے مالوا خطے میں کافی مقبول ہیں اور اس سے قبل بھی ریاستی حکومت کے نشانے پر رہے ہیں۔

اس سال فروری میں بھی ان کے خلاف عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے بلکار سنگھ سدھو کے پی اے کی شکایت پر بٹھنڈہ ضلع کے رام پورہ سٹی پولیس اسٹیشن میں بی این ایس کی دفعہ (4)(کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے کی گئی جعلسازی) اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 2000 کی دفعہ 66ڈی کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی، لیکن ریاستی سطح پر ہوئے صحافیوں کے احتجاج کے دباؤ میں ایف آئی آر رد کر دی گئی تھی۔

منندر اس واقعے کو صحافیوں پر دباؤ ڈالنے کی کارروائی تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ‘اگر آپ غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ سی آئی ڈی نے ان صحافیوں کی معلومات اکٹھی کی ہیں جو نہ تو حکومت سے اشتہار لیتے ہیں اور نہ ہی ان  کے مطابق خبریں کرتے ہیں۔ یہ صرف ہم صحافیوں کو ڈرانے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ہم سب خاموش  بیٹھ جائیں ۔’

(مائیک تھامے ہوئے) منندر سنگھ سدھو، سکھویندر سدھو، منٹو گرسریا، (نیچے) جسگریوال، سندیپ لادھوکا، گرپریت سنگھ۔ (تصویر: ارینجمنٹ)

بھٹنڈہ سےہی ‘آر ایم بی ٹیلی ویژن’ نامی ویب چینل کے لیے صحافت کرنے والے جسگریوال سے انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے اہلکار نے  فون پر بات کی، جس میں ایسے ہی سوالات ان سے بھی پوچھے گئے۔ جسگریوال نے کہا، ‘مجھے انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے اہلکار کی کال موصول ہونے سے پہلے ہی پتہ چل گیاتھا کہ وہ ہماری معلومات اکٹھا کرتے پھر رہے ہیں۔ دراصل،انہوں نے میرے گاؤں کے لوگوں سے معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی تھی۔’

افسر نے جس کو دفتر آنے کو کہا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ پوچھنا ہے، فون پر ہی پوچھ لیجیے۔ اس کے بعد افسر نے ان سے بھی کئی ذاتی سوال  پوچھے۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا جب آر ایم بی ٹیلی ویژن اور اس کے صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہو۔ جس بتاتے ہیں، ‘اس سے پہلے بھی حکومت دو بار ہمارے ویب چینل کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بند کر چکی ہے۔ ایک بار تو سال بھر کے لیے بند رکھا۔ 2022 کے انتخابات کے دوران بھی مجھے ان کی میڈیا پی آر والی میڈم کا فون آیا تھا۔ انہوں نے مجھ سے ملنے کو کہا لیکن میں نے منع  کر دیا تھا۔

اسی طرح صحافی سندیپ اور سکھویندر کو بھی فون کرکے ان کی تمام ذاتی تفصیلات طلب کی گئی تھیں۔ صحافی سندیپ نے بتایا، ‘انٹلی جنس افسر نے فون پر کہا کہ آپ فاضلکا میں میرے دفتر آئیں تاکہ ہم یہ جانچ سکیں کہ آپ اصلی صحافی ہیں یا نہیں۔ ہم فاضلکا ضلع کے صحافیوں سے تفتیش کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں فاضلکا میں کام ہی نہیں کرتا۔ میں چندی گڑھ سے کام کرتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے ذاتی تفصیلات پوچھنا شروع کر دیں۔’

سندیپ اس کارروائی کو صحافیوں کو دھمکانے کی کوشش سمجھتے ہیں۔ تقریباً ایک سال قبل بھی سندیپ کو پنجاب اسمبلی کی کوریج سے روک دیا گیا تھا اور ان کا پاس لے  لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے ہرمیت سنگھ پٹھان ماجرا نے بھی سندیپ کے ساتھ ایک بار بدسلوکی کی تھی۔

صحافی سکھویندر سدھو کو بھی پچھلے تین سالوں میں کئی بار ہراساں کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا، ‘حکومت ہماری ذاتی معلومات اکٹھی کرکے کیا کرے گی۔ خیر، اس سے پہلے بھی وہ کئی بار مجھ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ تقریباًسوا سال پہلے کی بات ہے۔ پٹیالہ پولیس نے مجھے حراست میں لیا تھا، اس وقت ایس ایس پی نے خود مجھ سے کہا کہ بھگونت مان کے بارے میں کچھ بھی رپورٹ نہ کرنے کا تحریری حلف نامہ دیں۔ میں نے صاف منع کر دیا تھا۔


 مالوا کے مکتسر ضلع کے ایک صحافی منٹو گرسریا کی ذاتی معلومات بھی انٹلی جنس اہلکاروں نے اس ہفتے اکٹھی کی ہیں۔


انہوں نے کہا، ‘مجھ سے براہ راست پوچھنے کے بجائے اہلکاروں نے میرے محلے سے میرے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔ میں جس دفتر میں کام کرتا ہوں وہ کس کے نام ہے، میرے پاس کتنی زمین ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے گاؤں میں کوآپریٹو سوسائٹی کے میرے بینک اکاؤنٹ کی بھی تلاشی لی ہے۔ ایسا ہم نے یوپی میں سنا تھا کہ صحافیوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن تحریکوں سے ابھرنے والی جماعت پنجاب میں یوپی ماڈل کو براہ راست کاپی پیسٹ کر رہی ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک اور کیا ہو سکتا ہے؟’

صحافیوں کی حمایت میں اپوزیشن

دریں اثناپنجاب کے ان صحافیوں کی ذاتی معلومات اکٹھا کرنے کے حوالے سے گزشتہ ہفتے اپوزیشن جماعتوں نے صحافیوں کی حمایت میں بیانات دیے ہیں۔

شرومنی اکالی دل کے سربراہ سکھبیر بادل نے اس معاملے کو نمایاں طور پر اٹھایا اور کہا، ‘حکمران پارٹی اور وزیر اعلیٰ کو پریس کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششوں سے باز آنا چاہیے۔ پولیس کی جانب سے صحافیوں کے گھروں پر جانے اور ان سے گھنٹوں پوچھ گچھ کرنے کی خبریں انتہائی تشویشناک اور ناقابل قبول ہیں۔ اس طرح کے اقدامات جمہوریت کے چوتھے ستون پر ایک زبردست حملہ ہے اور حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے والوں کو ڈرانے اور خاموش کرانے کی منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ پریس کو ہراساں کرنے سے سچائی کو دبایا نہیں جا سکتا، بلکہ اس سےصرف ان صحافیوں کے عزم کو تقویت ملے گی جو سچ کے لیے پرعزم ہیں۔’

اس معاملے پر دی وائر نے پنجاب میں عام آدمی پارٹی حکومت کے ترجمانوں سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن صرف ایک ترجمان بلتیج پنوں نے ہمارا فون اٹھایا۔ انہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے اپنی نااہلی کا حوالہ دیا اور دوسرے شخص کا فون نمبر دیا۔ اس نمبر پر بار بار کال کرنے کے باوجود ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

(مندیپ صحافی ہیں اور ‘گاؤں سویرا’ نام کا ویب پورٹل چلاتے ہیں۔)