کیا کشمیر میں ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں میں بٹے عوام یکجا نہیں ہوسکتے؟کیا یہ خونی لکیرمٹ نہیں سکتی؟ کیا یہ فوجیوں کے جماؤ اور فائرنگ کے تبادلوں کے بدلے امن اور استحکام کی گزرگاہ نہیں بن سکتی؟ جب برطانیہ اور آئر لینڈسات سو سالہ دشمنی دفن کرسکتے ہیں، توہندوستان اور پاکستان بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے ان کوعوام کی خواہشات کی بنا پر حل کرکے کیوں امن کی راہیں تلاش نہیں کرسکتے؟
ویسے تو جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے والی خونی لکیر یعنی لائن آف کنٹرول پر تو 2008کے بعد ہی سے توپوں اور مارٹرز کی گھن گرج جاری تھی، مگر 2019میں پلوامہ حملہ اور بالا کوٹ پر فضائی حملوں کے بعد اس میں خاصی شدت آگئی تھی۔
اب 25فروری کو جس طرح اچانک ہندوستان اور پاکستان کے ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹنٹ جنرل پرم جیت سنگھ سانگھا اور میجر جنرل نعمان زکریا نے بندوقوں کی خاموشی کا اعلان کردیا، یہ قدم خوش آئند، مگر حیران کن اور خدشات سے پر ہے۔
اس سے قبل ہندوستان اور چین نے بھی لداخ خطے کی پنگانگ جھیل سے فوجیوں کا انخلاء کرکے چھ ماہ سے جاری کشیدگی کو لگام دی۔ لائن آف کنٹرول کی خاموشی سے درہ حاجی پیر سے اکھنور تک کے علاقہ میں رہنے والی ایک بڑی آبادی نے راحت کی سانس لی ہے، کیونکہ اس علاقہ میں موسم سرما تقریباً ختم ہونے کے قریب ہے اور کھیتوں میں بوائی کا موسم شروع ہونےوالا ہے۔
پچھلے دو سالوں سے شدید گولہ باری کی وجہ سے بیشتر کسانوں نے یاتو نقل مکانی کی تھی یا بینکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ یہ علاقے اکھنور، بشنہ، سانبہ، ہیرا نگراور کھٹوعہ باسمتی چاول کی کاشت کے لیے مشہور ہیں۔ فائر بندی Conflict Management یعنی تنازعہ کو کنٹرول یا مینج کرنے کی حد تک کارگر ہوتے ہیں، مگر اگر اس کو Conflict Resolution یعنی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا، تو تجربات بتاتے ہیں کہ یہ دیرپا ثابت نہیں ہوتے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھی نئی دہلی کے حکمرانوں پر عالمی دباؤ بن جاتا ہے تو وہ کسی ایسے قدم کا اعلان کرکے خوشنما باغ دکھاتے ہیں، جو بعد میں سراب ثابت ہوتا ہے۔ پاکستانی اور کشمیری رہنما کئی بار اس سراب کے شکار ہو چکے ہیں اور گھڑی کی سوئیوں کی طرح واپس اسی مقام تک پہنچے ہیں، جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔
ملٹری افسران کی طرف سے سیز فائر کے اعلان سے بس ایک روز قبل ہندوستانی فوج کے سربراہ جنرل ایم ایم ناراوانے نے دہلی میں ایک سیمینار کے دوران اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ؛
پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطہ سے ہی کسی افہام و تفہیم تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ غیر متعین سرحدوں کا ہونا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان اپنی سرحدوں پر امن و سکون چاہتا ہے، چاہے و ہ مغربی سرحد ہو یا جنوبی سرحدیں ہوں یا میانمار سے لگی سرحد ہو۔ ان کے اس بیان سے ان افواہوں اور تجزیوں کو تقویت ملتی ہے کہ یہ فائر بندی کوئی اچانک ٖفیصلہ نہیں تھا، بلکہ اس کے لیے اچھا خاصا ہوم ورک کیا گیا تھا۔
ورنہ تو دونوں ملکوں کے یہ فوجی افسران ہر ہفتے منگل کی دوپہر کو ہاٹ لائن پر بات کرتے ہیں۔ ایک ما ہ قبل پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کہا تھاکہ وقت آگیا ہے کہ سبھی اطراف امن کے ہاتھ آگے بڑھائیں جائیں۔ اسی کے ساتھ کورونا وائرس سے نپٹنے کے لیےسارک کے پلیٹ فارم پر ہوئی آن لائن میٹنگ میں پاکستانی مندوب نے بھی شرکت کی، جس کو وزیر اعظم نریندر مودی نے خطاب کیا۔
سکھوں کے لیےکرتار پور راہداری کھولنے کے علاوہ بھی پاکستانی فوج کے سربراہ کئی سالوں سے اس طرح کے پیغامات دے رہے تھے، مگر نئی دہلی میں حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے۔بلکہ پلوامہ اور بالا کوٹ کے بعد ایک قدم اور آگے جاکر انہوں نے بنیادی تنازعہ جموں و کشمیر ریاست کو ہی دولخت کرکے اس کی نہ صرف خصوصی آئینی پوزیشن کالعدم کی، بلکہ کشمیری عوام کی زبان و کلچر کو ختم کرنے اور ان کی آبادیاتی اکثیریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے سامان بھی مہیا کرائے جا رہے ہیں۔
سوال ہے کہ پچھلے دو سالوں سے جنرل باجوہ کے سبھی بیانات کو نظر انداز کرکے، اب اس وقت ان کی امن سعی کا جواب کیوں دیا گیا؟
کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2016کے اوڑی اور بعد میں 2019کے پلوامہ حملوں کے بعد جس طرح ہندوستان نے دنیا بھر میں پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی وہ ناکام ہو گئی ہے۔ 2016میں پاکستان میں جنوبی ایشیا یعنی سارک سربراہان مملکت کی ہونے والی میٹنگ کا نہ صرف ہندوستان نے بائیکاٹ کیا، بلکہ بنگلہ دیش، افغانستان، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ کو بھی تنبیہ کی کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیےیا پاکستان کے ساتھ یک جہتی دکھانے کے نام پر اسلام آباد نہ جائیں۔
پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کے لیے سارک کے اندر کئی ذیلی گروپ بنائے گئے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے سری لنکا کے حالیہ دورہ نے ہندوستان کی اس پالیسی کی ہوا نکال کر رکھ دی۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ایف اے ٹی ایف میں ہندوستان کی ایما پر گو کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے، مگر بسیار کوشش کے باوجود اس کو بلیک لسٹ میں دھکیلنے میں ناکام رہا۔
ابتدا میں جب ہندوستان نے پورا زور لگایا تھا، چونکہ ترکی اور ملیشیا پاکستان کی مدد کو آئے تھے، ہندوستان نے ان کو بھی اس کے لیے معاف نہیں کیا۔ دو سال قبل ایک اہم شخصیت نے مجھے دہلی میں کہا تھا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کو وہ اس کے لیے معاف نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ چین کے ساتھ چپقلش کے بعد ہندوستان میں یہ ادراک ہو گیا ہے کہ وہ دو فرنٹ جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
دوسری طرف اگست 2019کو جموں و کشمیر میں کیے گئے ہندوستانی اقدامات کے خلاف پاکستان نے عالمی برادری سے جس طرح کی حمایت کی امید کی تھی، وہ پوری نہیں ہوسکی۔ ان اقدامات کے بعد پاکستان نے دنیا بھر میں سفارتی سرگرمیوں کے ذریعے اور ہندوستانی سفیر کو اسلام آباد سے نکلنے کا حکم دےکراور دہلی سے اپنے سفیر کو واپس بلا کر سخت پیغام دےکر ہندوستان پر دباؤ بنانے کی کوشش کی۔ مگر عالمی برادری دونوں ایٹمی ملکوں کے درمیان باضابطہ جنگ سے خائف تو ہے، مگر تنازعہ کو سلجھانے کے بجائے جوں کی توں پوزیشن پر ہی گزارہ کرنے کے لیے دونوں ملکوں کو آمادہ کروانے پر تلی ہوئی ہے۔
اس دوران ہندوستان نے جو بریفنگ عالمی برادری کو یا دہلی میں مقیم سفراء کو دی اس میں اس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو گراس روٹ ڈیموکریسی اور ترقی کے ماڈل کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے اور اس میں پاکستان ایک رکاوٹ ہے۔
وہ ان ممالک کو ان خطرات سے بھی آگاہ کروانے میں کامیاب ہوگیا کہ کشمیر کو اگر کنٹرول نہیں کیا گیا تو وہاں عالمی دہشت گرد تنظیمیں اڈہ بنا کر اس کو شام، یمن اور افغانستان کی راہ پر ڈال دیں گی۔ ہندوستان کا مارکیٹ، چین کے خلاف خطے میں اس کا علاقائی پولیس مین کا رول اور عالمی دہشت گردی سے جنگ مغربی ممالک کی عملی سیاست اور اسٹریٹجک پالیسی کا حصہ ہیں۔
بقول تجزیہ کار اور مصنف ہیپی مون جیکب اس فائر بندی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملکوں کا نظام گرینڈ اسٹینڈنگ سے نہیں چلایا جاسکتاہے، بلکہ حقیقت پسندی اور سمجھوتے اس کا ایک عملی حصہ ہیں اور دونوں ممالک کو اس کا ادراک ہوگیاہے۔
ہوسکتا ہے کہ فائر بندی کے اس فیصلہ سے لائن آف کنٹرول کے آس پاس زندگی کی رونقیں معمول کی طرف لوٹ آئیں گی۔ مگر خاص طور پر 2008، 2010اور پھر 2016میں کشمیر کی سڑکیں یہ پیغام دے چکی ہیں کہ معمول کی زندگی یا سرحدوں پر خاموشی امن کا نام نہیں ہے۔
عوام زیا دہ دیر تک اب تنازعہ کے ساتھ جینا نہیں چاہتے ہیں۔ 2003اور 2021کے سیز فائر میں ایک بنیادی فرق ہے۔ نومبر 2003میں جب دونوں ممالک سیز فائر پر آمادہ ہوگئےتو سیاسی قیادت کے بیانات سے اتنا تو ادراک ہو رہا تھا کہ یہ ایک قدم کا آغاز ہے، جو مسئلہ کو حل کرنے پر منتج ہوگا۔
دونوں ممالک نے اس کے بعد گفت و شنید کا سلسلہ بھی شروع کیا، اور اس کے نتیجے میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سارک سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد بھی وارد ہوئے تھے۔ ان کا یہ دورہ بعد میں صدر پرویز مشرف کے نو نکاتی فارمولہ کی بنیاد بن گیااور اس کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کے آر پار بس و تجارت کے لیے راہداری کھل گئی۔ مگر حالیہ فائر بندی کے متعلق کشمیر میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ کہیں بجائے خود ہی اختتا م تو نہیں ہے۔
ہوسکتا ہے کہ 2003 کی ہی طرز پر یہ قدم بھی اسلام آباد میں اس سال سارک سربراہ کانفرنس منعقد کروانے میں معاون ثابت ہو۔ مگر واجپائی یا من موہن سنگھ کی طرح مودی کا کشمیر پر کسی پیش رفت کرنے کی یقین دہائی بھی کروانا فی الحال ناممکن لگ رہا ہے۔
اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں، تو کیا وہ اپنی پارٹی اور ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو اس پر آمادہ کرواسکیں گے؟2014سے جب سے مودی نے اقتدار سنبھالا، تو انہوں نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں و وزیروں کے لیےکسی بھی عہدے پر براجمان رہنے کے لیے70سال کی عمر کا پیمانہ بنایا اور چند ایک کو چھوڑ کر سختی کے ساتھ عمل بھی کروایا۔
اب ان کی اپنی عمر 70سال سے تجاوز کر رہی ہے۔ کیا آر ایس ایس اب ان کو برسر اقتدار رہنے دے سکتی ہے، جبکہ انہوں نے ال کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، سمترا مہاجن سمیت متعدد لیڈروں کو ان کی عمر کی وجہ سے ریٹائرڈ کروایا؟ کیا ان کا جانشین ان کے ذریعے کسی پیش رفت کے وعدے کا ایفا کر سکے گا؟
نئی دہلی میں تو اب یہ خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ حالیہ ضلعی ترقیاتی کونسل کے انتخابات میں ناکامی کے بعد حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اب ریاست کی ایک اور تقسیم کے خواہاں ہیں۔ اب جموں ڈویژن کو الگ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان کا خیا ل ہے کہ جموں ڈویژن کے مسلم اکثریتی پیر پنچال اور چناب ویلی میں بی جے پی کی شکست کی وجہ ان علاقوں کا وادی کشمیر کے ساتھ رابطہ ہے۔
کرگل کو بھی اسی وجہ سے وادی کشمیر سے الگ کرکے بدھ اکثریتی علاقہ لہیہ کے ساتھ نتھی کیا گیا۔ بی جے پی کے لیڈروں کا پہلے خیال تھا کہ حدبندی کمیشن کے ذریعے جموں کے ہندو علاقوں کی اسمبلی سیٹوں میں اضافہ کرکے ا ن کو وادی کشمیر کے برابر کیا جائے۔
مگر جب اس کمیشن کی سربراہ جسٹس رنجنا ڈیسائی نے بتایا کہ وادی کشمیر کی آبادی جموں سے 10لاکھ زیادہ ہے، تو یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ حد بندی آبادی کے حساب سے نہیں بلکہ رقبہ کے مطابق ہونی چاہیے۔ اسی وجہ سے فی الحال حد بندی کمیشن کی معیاد ایک سال اور بڑھادی گئی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادی کشمیر کی آبادی 68,88,475ہے، جبکہ جموں میں 53,78,538نفوس رہتے ہیں۔ جموں کا رقبہ 26,293مربع کلومیٹر ہے، جبکہ وادی کشمیر کا رقبہ 15,948مربع کلومیٹر ہے۔
خیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جب بھی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے، اس کا خمیازہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام بالخصوص سرحدی آبادیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔کرگل سے حاجی پیر درہ تک کنٹرول لائن کے علاقے تو سرینگر میں مقیم صحافیوں اور سول سوسائٹی کی دسترس سے بھی دور رہتے ہیں، اس لیے ان علاقوں میں عوام پر کیا بیتی ہے، بہت کم ہی باہر کی دنیا کی علم میں آتا ہے۔
کیا کشمیر میں ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں میں بٹے عوام یکجا نہیں ہوسکتے؟کیا یہ خونی لکیرمٹ نہیں سکتی؟ کیا یہ فوجیوں کے جماؤ اور فائرنگ کے تبادلوں کے بدلے امن اور استحکام کی گزرگاہ نہیں بن سکتی؟ جب برطانیہ اور آئر لینڈسات سو سالہ دشمنی دفن کرسکتے ہیں، توہندوستان اور پاکستان بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے ان کوعوام کی خواہشات کی بنا پر حل کرکے کیوں امن کی راہیں تلاش نہیں کرسکتے؟یہ سوال تا حال جواب کا منتظر ہے۔امید ہے کہ یہ فائر بندی مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے کے بجائے اس کو حل کروانے کی طرف ایک قدم ہو۔