کئی سال پہلےپاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض نے لکھا تھا کہ ‘تم بالکل ہم جیسے نکلے،اب تک کہاں چھپے تھے بھائی۔ وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن ، جس میں ہم نے صدی گنوائی، آخر پہنچی دوار تمہارے…ملک کے آج کے حالات میں یہ مصرعے سچ کے کافی قریب نظر آتے ہیں۔
تم بالکل ہم جیسے نکلے اب تک کہاں چھپے تھے بھائی وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن جس میں ہم نے صدی گنوائی آخر پہنچی دوار توہارے ارے بدھائی بہت بدھائی پریت دھرم کا ناچ رہا ہے قائم ہندو راج کرو گے سارے الٹے کاج کرو گے اپنا چمن تاراج کرو گے …پچھلے دنوں ہندوستان اور پاکستان سے دو ایسی خبریں آئیں، جن سے ایک بار پھر یہ سوال پوچھا جانے لگا کہ کہیں یہ دونوں ملک، جو کبھی ایک ہی تھے، آپس میں اپنے رول تو نہیں بدل رہے، تو کئی حلقوں میں لوگوں کو یہ نظم ایک بار پھر بہت یاد آئی۔ ان میں پہلی خبر ‘شدت پسند اسلامی ملک’پاکستان کے خیبر پختونخوا کے کرک ضلع کےتیری گاؤں سے متعلق ہے، جہاں گزشتہ30 دسمبر کو ایک مندر اور اس سے وابستہ ایک سنت کی’سمادھی’کے توسیعی کام سے خفا شدت پسند جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمٰن)کی قیادت میں آئی شرپسند بھیڑ نے نہ صرف مندر او رسمادھی میں توڑ پھوڑ کی، بلکہ انہیں آگ کے حوالے بھی کر دیا تھا۔ اس ملک میں جب بھی اقلیتوں کوآزردہ کرنےوالی اس طرح کی کوئی واردات ہوتی ہے، وہاں کےاکثریت پسند حکمرانوں سے زیادہ خوشی ہمارے ملک کے ہندوتوا کے پیروکاروں اور ان کے حامی اقتدار کو ہوتی ہے۔ اس لیے کہ انہیں لگتا ہے کہ وہاں اقلیتوں سے برے سلوک کی ایسی مثالوں سے وہ اس ملک میں اقلیتوں کو ستانے کے مقصدسے کی جانے والی اپنی کاروائیوں کا جواز ثابت کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی جانکاروں کی مانیں تو ایک انتہا پسندی دوسرےکی مخالف نہیں،تکملہ ہی ہوتی ہے۔ لیکن اس بار پاکستان کے نظام اور سپریم کورٹ نے ان بھائیوں کی خوشی کی نہ صرف عمر بہت کم کر دی، بلکہ یوں کہیں کہ شرمندہ ہونے کو بھی مجبورکر دیا۔ ہوا یہ کہ پہلے کرک ضلع کی پولیس انتظامیہ نےمذکورہ توڑ پھوڑ و آگ زنی کی ایف آئی آر درج کرکے لگ بھگ سو لوگوں کو گرفتار کیا، پھر پاک سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا کی ریاستی حکومت کو آرڈر دیا کہ و متعلقہ مندر اور سمادھی کی ہفتہ عشرہ میں پھر سے تعمیر کرائے۔ اتنا ہی نہیں، اس تعمیرکے لیے پیسے انہی لوگوں سے وصول کرے، جنہوں نے ان میں آگ زنی اور توڑ پھوڑ کی۔یقیناً،اقلیتوں کے مذہبی جذبات اور انسانی حقوق کےتحفظ کا پڑوس سے آیا یہ فیصلہ خوشبودار تازہ ہوا کے جھونکے جیسا لگتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:’پریت دھرم کا ناچ رہا ہے، قائم ہندو راج کروگے…؟‘
یہ ان معنوں میں بھی قابل تحسین ہے کہ سرحد کے اس پار مسلسل چلتی رہنے والی اس کے ڈیمناٹائزیشن کی کوششوں کی وجہ سےیہ تصور جڑپکر چکا ہے کہ وہاں اقلیتوں کے مفاد کی قطعی حفاظت نہیں ہوتی اورشدت پسند اکثریت کے سائے میں وہ شدید عدم تحفظ کے بیچ جیتے ہیں۔ پچھلے سال نریندر مودی سرکار نے پارلیامنٹ کی معرفت شہریت قانون میں ترمیم کی تو اس کے لیے اپنی ایک‘دلیل’کو پاکستان جیسے پڑوسی ممالک کے اقلیتوں کے بدترین حالات سے بھی جوڑا تھا۔یہ اور بات ہے کہ اپنے ملک میں بھی اقلیتوں اور دلتوں سے متعصب سلوک کی کچھ کم مثالیں سامنے نہیں آتیں۔ سب جانتے ہیں کہ کوروناکے مشکل وقت میں بھی ملک فرقہ وارانہ تعصب سے پرے نہیں رہ سکا تھا اور وائرس کا انفیکشن بڑھانے کے لیے تبلیغی جماعت کو یک طرفہ طور پر ذمہ دار ٹھہرا کر اسے اور بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ بہرحال، دوسری خبر ہمارے اپنے ہی ملک کی ہے۔ یہ کہ سرکاری ایجنسی اگریکلچرل اینڈ پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹس ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی(اےپی ای ڈی یعنی ایپیڈا)نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ’ریڈ میٹ’ کے پیکٹوں پر ‘حلال’لفظ نہیں لکھا جائےگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ایکسپورٹ گائیڈ سے بھی’حلال’لفظ نکال دیا جائےگا اورایکسپورٹ کیے جانے والے گوشت کو اب حلال ہونے کے سنددینے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ معلوم ہوکہ اب تک ایکسپورٹ کیے جانے والے گوشت پر اس گائیڈ کے تحت لکھا جاتا رہا ہے کہ وہ جس جانور کاگوشت ہے، اس کو تسلیم شدہ اسلامی تنظیم کی دیکھ ریکھ میں شریعت کے مطابق ذبح کیاگیا ہے اور حلال ہونے کی سند تسلیم شدہ اسلامی تنظیم نے دی ہے۔ یہاں جاننا ضروری ہے کہ ایکسپورٹیڈ گوشت کے لیےحلال سرٹیفیکٹ لازمی کرنے کے پیچھے سوچ مذہبی یا فرقہ وارانہ نہ ہوکر کلی طور پر کاروباری اور معاشی تھی۔اس سرٹیفیکٹ کی وجہ سے اسلامی ملک ہندوستانی ریڈ میٹ(یعنی بڑے جانوروں کاگوشت)فوراً قبول کر لیتے تھے کیونکہ اپنے مذہبی عقائد کے تحت وہ حلال کے علاوہ دوسرا گوشت نہیں لے سکتے۔ مشرق وسطیٰ کے ریڈ میٹ کے بہت بڑے بازار پر ہندوستان کی لگ بھگ اجارہ داری ہے تو اس کے پیچھے اس سرٹیفیکٹ کا بڑا رول رہا ہے۔ لیکن آر ایس ایس کے بی جے پی، وشو ہندو پریشد اور حلال نینترن منچ جیسی تنظیم اس سرٹیفیکٹ کے خلاف رہے ہیں، اسے لےکر مہم بھی چلاتے رہے ہیں اور اب ان کی سرکاری ایجنسی نے ان کی مراد پوری کر دی ہے۔ ان تنظیموں کے مطابق حلال سرٹیفیکٹ میٹ ایکسپورٹر پر تھوپی گئی ایک طرح کی زبردستی ہے، جو کانگریس سرکاروں کی دین ہے اور اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔ ان کی‘دلیل’ہے کہ ہندوستان کا ریڈمیٹ، جس میں بیف کی بہتات ہے، چین، ویت نام، ہانگ کانگ اور میانمار کو بھی ایکسپورٹ کیا جاتا ہے، جو مسلم اکثریتی ملک نہیں ہیں اور جنہیں حلال سرٹیفیکٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات، مصر اور انڈونیشیا جیسے مسلم ملک ایسا گوشت نہیں لیتے، جسے حلال سرٹیفیکٹ حاصل نہ ہو اور ان ممالک کو ہونے والے ریڈ میٹ ایکسپورٹ رکنے کا ہندوستان کی گوشت ایکسپورٹر کمپنیوں کو بڑا خمیازہ بھگتنا پڑےگا تو بی جے پی اور وشو ہندو پریشدکی سوچ کے برعکس ان کمپنیوں کے ہندو مالکوں کو بھی مسلم مالکوں جیسا ہی نقصان ہوگا۔ جانکاروں کے مطابق، جس طرح سبزی یاگوشت کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ کھان پان کی ذاتی پسند سے ہے، اسی طرح کسی شخص کے میٹ کےکاروبار میں اترنے کا تعلق اس کے مذہب سے نہیں کاروبار کےانتخاب سے ہے۔ اسی لیے ہندوستان مین اس کے کاروبارکی سب سے بڑی کمپنی الکبیر کے مالک کامذہب تو ہندو ہے ہی، کچھ اور بڑی میٹ ایکسپورٹر کمپنیوں کے مالک بھی ہندو ہیں۔اسی طرح سلاٹر ہاؤسز اور گوشت پروسیسنگ کے شعبے میں ہندو اور مسلمان دونوں ہیں ۔ گوشت پروسیسنگ کے شعبے میں تو دلت کمیونٹی کا ہی غلبہ ہے۔ حلال سرٹیفیکٹ نہ دینے سے اب ان سب پر ہی نہیں ملک کی معیشت پر بھی اثر پڑےگا، جو نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور لاک ڈاؤن کی وجہ سےپہلے ہی کافی برادن دیکھ چکی ہے۔بلاوجہ نہیں کہ کئی لوگ اس فیصلے کو ہندوستان کے ‘ہندو پاکستان’بننے کی سمت میں ایک اور قدم بتا رہے ہیں۔ وہ صحیح نہ ہوں تو بھی مذکورہ سرٹیفیکٹ کو غیر ضروری بنانے کے فیصلے سے سب سے بڑی بات یہی ثابت ہوتی ہے کہ سیاسی مقاصد سے بڑھایا گیامذہبی اورفرقہ وارانہ تعصب اب ہماری سماجی زندگی کے ساتھ اقتصادی پہلوؤں اور کاروباری فیصلوں کو بھی متاثرکرنے لگا ہے۔ سوال ہے کہ اس کا خاتمہ کہاں ہوگا؟ جواب دینے سے پہلے جان لیجیے کہ مغربی اتر پردیش کے بلندشہر ضلع کے ایک مسلم دکاندار کو ایک شدت پسند تنظیم کی اس شکایت کے بعد حراست میں لے لیا گیا کہ وہ ایسے جوتے بیچ رہا تھا، جن کے سول پر ‘ٹھاکر’نام لکھاہوا ہے، جو ایک کاسٹ کا نام ہے۔ سچ یہ ہے کہ ٹھاکر فٹ ویر نام کی کئی دہائی پرانی کمپنی کے ان جوتوں پرلکھا ٹھاکر کمیونٹی کا نہیں کمپنی کا نام ہے۔ ایسی کمپنی کا جو سرکاری ضابطوں کے تحت چلائی جا رہی ہے۔بہرحال، ان دونوں خبروں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہم دو قوم نہیں تھے اور ابھی بھی نہیں ہیں۔ (مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)