نیپال کے وزیر اعظم کےپی شرما اولی نے کہا کہ نیپال ثقافتی تجاوزات کا شکار ہوا ہے اور اس کی تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ فیض آبادواقع ایودھیا رام کا حقیقی قدیم سلطنت نہیں ہے، اس کو ہندوستان نے بعد میں بنایاہے۔
نیپال کے وزیر اعظم کےپی شرما اولی۔ (فوٹو: نیپال نیوز ایجنسی)
نئی دہلی: نیپال کے وزیر اعظم کےپی شرما اولی نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ‘حقیقی ’ایودھیا نیپال میں ہے، ہندوستان میں نہیں۔انہوں نے کہا کہ بھگوان رام کی پیدائش جنوبی نیپال کے تھوری میں ہوئی تھی۔کاٹھمنڈو میں وزیر اعظم رہائش پر نیپالی شاعر بھانوبھکت کی سالگرہ کے موقع پر اولی نے کہا کہ نیپال ‘ثقافتی تجاوزات کا شکار ہوا ہے اور اس کی تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔’
اولی نے زورد ےکر کہا کہ فیض آباد واقع ایودھیاہندوستان نے بعد میں بنایا ہے اور وہ رام کا حقیقی قدیم سلطنت نہیں ہے۔
بھانوبھکت کی پیدائش مغربی نیپال کے تانہو میں1814میں ہوئی تھی اور انہوں نے والمیکی رامائن کا نیپالی ترجمہ کیا تھا۔ ان کا انتقال1868 میں ہوا تھا۔اولی نے کہا، ‘حالانکہ اصل ایودھیا بیرگنج کے مغرب میں تھوری میں واقع ہے، ہندوستان اپنے یہاں بھگوان رام کی جائے پیدائش ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔’
اولی نے کہا کہ اتنے فاصلہ پر رہنے والے دولہے اور دلہن کی شادی اس وقت ممکن نہیں تھی ۔ اس وقت آمدورفت کے وسائل نہیں تھے۔وزیر اعظم اولی کے پریس صلاح کار سوریہ تھاپا کے مطابق انہوں نے کہا، ‘بیرگنج کے پاس جس جگہ کا نام تھوری ہے وہ اصل ایودھیا ہے جہاں بھگوان رام کی پیدائش ہوئی۔ ہندوستان میں ایودھیا پر بڑا تنازعہ ہے، لیکن ہمارےایودھیا پر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘والمیکی آشرم بھی نیپال میں ہے اور جہاں راجہ دشرتھ نے بیٹےکے لیے یگیہ کیا تھا وہ ریڈی میں ہے جو نیپال میں ہے۔’اولی نے دعویٰ کیا کہ چونکہ دشرتھ نیپال کے راجہ تھے یہ فطری ہے کہ ان کے بیٹےکی پیدائش نیپال میں ہوئی تھی اس لیے ایودھیا نیپال میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیپال میں بہت سے سائنسی ایجادات ہوئے لیکن بدقسمتی سےان روایات کو آگے نہیں بڑھایا جا سکا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، اولی نے کہا کہ پورانک کہانیوں میں کہا گیا کہ رام کے ذریعے چھوڑے جانے کے بعد سیتا ناراینی(گنڈک ندی)کے کنارے اپنے بیٹوں لو اور کش کے ساتھ والمیکی کے آشرم میں رہتی تھیں۔ ناراینی(گنڈک ندی)بہار سے لگی نیپال سرحدپرواقع ہے۔ یہ جگہ آج بھی بڑی تعداد میں عقیدت مندوں کو متوجہ کرتی ہے۔
اولی کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے بی جے پی کے قومی ترجمان وجئے سونکر شاستری نے کہا کہ ہندوستان میں بھی لیفٹ پارٹیوں نے لوگوں کے عقیدےکے ساتھ کھلواڑ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نیپال میں لیفٹ کو لوگ اسی طرح مسترد کر دیں گے جیسے یہاں کیا گیا۔
شاستری نے نئی دہلی میں کہا، ‘بھگوان رام ہمارے عقیدےکی علامت ہیں اور لوگ کسی کو بھی اس سے کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، بھلے ہی وہ نیپال کے وزیر اعظم ہوں یا کوئی اور۔’وہیں، کانگریس رہنما ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا، ‘ایسا لگتا ہے کہ نیپال کے وزیر اعظم کےپی شرما اولی نے اپناذہنی توازن کھو دیا ہے اور چین کی لائنوں کو بولنے لگے ہیں۔ پہلے انہوں نے نیپال کی جانب سے کبھی دعویٰ نہیں کیے گئے حلقے پر دعویٰ کیا اور اب وہ رام، سیتا، ایودھیا اور رام راجیہ کو ایودھیا سے کچھ دور نیپال میں بسانے لگے ہیں۔’
بتا دیں کہ اولی کا یہ بیان ہندوستان اور نیپال کے بیچ جاری کشیدگی کے مابین آیا ہے۔ہندوستان اور نیپال کے رشتوں میں کشیدگی8 مئی سے بڑھی، جب وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اتراکھنڈ کے دھارچولا سے لیپولیکھ درے کو جوڑ نے والی سڑک کا افتتاح کیا تھا۔اس بارے میں نیپال نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ نیپال کی سرحد سے ہوکر گزرتی ہے۔ہندوستان نے اس دعوے کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ سڑک ہندوستان کی سرحد میں ہی ہے۔
اس کے بعد نیپال نے اپنے ملک کا نیا نقشہ اپ ڈیٹ کیا، جس کو پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہونے کے بعدصدر کی منظوری مل گئی تھی۔اس نئے نقشے میں لیپولیکھ، کالاپانی اور لمپیادھورا کو نیپال نے اپنے خطے میں دکھایا ہے، جو اتراکھنڈ کا حصہ ہیں۔ اس پر ہندوستان نے ناراضگی کا اظہار کیاتھی۔
اس کے بعد نیپال کی پارلیامنٹ میں 23 جون کو شہریت ایکٹ پیش کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ نیپالی مردوں سے شادی کرنے والی غیرملکی خواتین کو شہریت دینے میں 7 سال کا وقت لگےگا۔اسی دوران نیپال کے وزیر اعظم کے پی اولی اورمقتدرہ نیپال کمیونسٹ پارٹی(این سی پی)کے صدرپشپ کمل دہل ‘پرچنڈ’سمیت ان کے حریفوں کے بیچ اختلافات کھل کر سامنے آ گئے تھے۔
پرچنڈ نے اولی پر بنا کسی صلاح کے فیصلہ لینے اور تاناشاہی رویہ اپنانے کا الزام لگایا تھا، اس کے بعد وزیر اعظم اولی نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی سرکار کی جانب سے ملک کے سیاسی نقشہ کو بدلے جانے کے بعد انہیں عہدےسے ہٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔انہوں نے اس کا الزام ہندوستان کو دیا تھا۔ اولی نے دعویٰ کیا تھا، ‘مجھےحکومت سے ہٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوں گی۔
ان کاکہنا تھا، ‘سفارت خانے اور ہوٹلوں میں الگ الگ طرح کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اگر آپ دہلی کے میڈیا کو سنیں گے تو آپ کو اشارہ مل جائےگا۔’وہیں، اولی کا استعفیٰ مانگنے والے سابق وزیر اعظم پرچنڈ کا کہنا تھا کہ کہ اولی کی حالیہ ہندوستان مخالف بیان بازی نہ توسیاسی طور پر سہی تھیں اور نہ ہی اسٹریٹجک طور پر۔
اس بیچ گزشتہ9 جولائی کو کچھ ہندوستانی نیوز چینلوں پر نیپال کے قومی جذبات کو مجروح کرنے کا الزام لگاتے ہوئے نیپال کے کیبل ٹیلی ویژن سروس پرووائیڈرس نے دوردرشن کو چھوڑکر تمام ہندوستانی نیوز چینلوں کی نشریات روک دی تھی۔اس کے بعد نیپال کی جانب سے ہندوستان کو ایک ڈپلومیٹک نوٹ بھیج کر اپنے ملک اوررہنماؤں کے خلاف ایسے پروگرام کی نشریات پر قدم اٹھانے کی اپیل کی گئی ہے، جو اس کے مطابق ‘فرضی، بے بنیاداورحساس نہیں ہونے کے ساتھ ہی توہین آمیز’ ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)