سال 2024 جہاں ایک جانب ہندوستان کے داخلی، معاشی، سیاسی اور سماجی شعبوں پر اپنا دیرپا نقش چھوڑ سکتا ہے وہیں وہ عالمی سطح پر ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آنے کے مواقع بھی پیش کرسکتا ہے۔ اب یہ ہندوستان کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح ان چیلنجز کا سامنا کرتی ہے، ہندوستان کو داخلی طور پر ایک متنوع کثیرالثقافتی جمہوری ملک بناکر یا اسے مذہب کی بنیادوں پرتباہی کی طرف آگے لے جا کر۔
سال 2024 ہندوستان کی حکومت کے بقول اسے ایک سنہری دور میں لے جانے کے لیے ایک نیا چیلنج پیش کرتا ہے۔ یعنی ’امرت کال‘ میں اپنی ترقی کے سفر کو 2024 میں بہترین منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ساتھ یہ پالیسیاں اسے اس جانب گامزن کرسکتی ہیں۔ 2024میں آنے والے لوک سبھا انتخابات نہ صرف مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی وضاحت کریں گے بلکہ عالمی سطح پر ہندوستان کی ترقی کے بارے میں اسٹریٹجک اشارے بھی پیش کریں گے۔
دراصل 2024 میں ہونے والے عام انتخابات جہاں ایک جانب ہندوستان کے مستقبل کے سیاسی منظرنامے کی وضاحت کریں گے کہ کیا ہندوستان ایک جمہوری ملک کے طور پر صرف برائے نام قائم رہے گا یا پھر وہ واقعی ایک جمہوری نظام میں تبدیل ہوجائے گاجہاں ملک کی اکثریتی اور اقلیتی گروپ آپس میں امن و امان قائم کرتے ہوئے ہندوستان کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں جو اسے ایک عالمی طاقت بننے کے خواب کی تعبیر کے لیے معاون ثابت ہوسکے یا پھر وہ مذہبی منافرت کی اس گہری کھائی کی طرف راستہ بنائے گا جہاں پر کہ ملک میں بدامنی، نا انصافی اور دیگر منفی طاقتوں کا عروج قائم ہوجائے گا۔اس کے ساتھ ہی 2024 میں دنیا کے تقریباً 70 ممالک میں ہونے والے عام یا صدارتی انتخابات جن میں کہ موجودہ دور کی دو بڑی طاقتیں اور یورپ کی کئی بڑی طاقتیں بھی شامل ہیں ان کے اثرات بھی ہندوستان کی آئندہ کی منصوبہ بندی کے اوپر اپنا اثر چھوڑ سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ،ہندوستان کو ایک محفوظ ملک بننے کی خواہش کرنی چاہیے، جو اندرونی اور بیرونی خطرات اور چیلنجز کے خلاف ایک جامع اور مستحکم پالیسی اپنا سکے۔ اس طرح، اس کا مقصد جامع ترقی، تکنیکی ترقی، سماجی اتحاد، جمہوری قوت، اور فکری اثر و رسوخ قائم کرنا ہونا چاہیے، جس کی بنیاد اسٹریٹجک خود مختاری اور ’آتم نربھر بھارت‘کے اصولوں پر رکھی گئی ہو۔
عالمی دوست کے طور پر ہندوستان کا کردار
عالمی مراحل اس وقت ایک چیلنجنگ اور تیزی سے بدلتے ہوئے دور سے گزر رہے ہیں، جو مختلف ممالک اور خطوں کے درمیان طاقت کی حرکیات میں تبدیلی کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ کثیر قطبیت کی طرف ایک قابل فہم رجحان خود کو ظاہر کر رہا ہے، کیونکہ مغرب کے لیے اس وقت سازگار ماحول موجود نہیں ہے۔ ایسے میں ہندوستان کے لیے ایک زیادہ مساوی عالمی نظام کی تشکیل کے لیے اس کثیر قطبیت میں ایک بااصول کردار پیش کرنا اور ساتھ ہی ایک کلیدی ملک بننے کے لیے مواقع اور چیلنج دونوں موجود ہیں۔
علاقائی طور پر ایشیا اور ہند-بحرالکاہل عالمی معیشت کے مرکز اور عظیم طاقت کے مقابلے کے لیے ایک اہم خطے کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ ہند-بحرالکاہل میں چین کے ساتھ علاقائی استحکام قائم کرنا ایک مرکزی چیلنج ہے۔جس کے لیے امریکہ ہندوستان کو ایک بنیادی اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر دیکھ رہا ہے،لیکن یہاں پر الجھاؤ کی بات یہ ہے کہ حال کے عرصے میں ہند امریکہ تعلقات کبھی نرم کبھی گرم رہے ہیں اور ان کی ناپائیداری دونوں ممالک کے درمیان پائیدار باہمی رشتوں کو بڑی حد تک متاثر کرتی ہے اور اس کا سب سے بڑا اثر بحرالکاہل کے خطے میں ہندوستان کا امریکہ کے ساتھ کوئی دفاعی نظام قائم نہ کرپانے کے طور پر سامنے آرہا ہے۔
ساتھ ہی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہندوستان کے دو ہمہ موسم اسٹریٹجک اور مضبوط شراکت دار یعنی کے روس اور اسرائیل دونوں ہی مختلف تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس لیے یہاں پر ہندوستان کی سفارت کاری کا امتحان سامنے آتا ہے کہ وہ کس طریقے سے ان دونوں ممالک سے اپنی دفاع کے متعلق موضوعات پر شراکت داری جاری رکھے اور دیگر شعبوں میں پیش رفت کو یقینی بنائے۔
ہندوستان کو چوکنا رہنا چاہیے، چین کو تمام ڈومینز میں بنیادی مخالف تسلیم کرتے ہوئے، ملک کی روک تھام کی صلاحیتوں کو تقویت دینے کے لیے ایک فعال اور جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ اگرچہ پاکستان اور چین دونوں عدم استحکام پیدا کرتے ہیں، لیکن ان کے خطرے کی سطح مختلف ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ہندوستانی ردعمل کو ڈگمگانا نہیں چاہیے اور نہ ہی دو طرفہ ہونا چاہیے۔ حقائق اور اعمال کو بیان بازی اور ابہام کی جگہ لینا چاہیے۔ ہندوستان کو سچ کو سچ کہنا چاہیے، خاص طور پر چین کے خلاف جیسا کہ وہ پاکستان کے لیے کرتا ہے۔
وکست بھارت@ 2047
موجودہ حکومت کے لیے ہندوستان کو 2047 تک ‘وکست بھارت’ یعنی کہ ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے سال 2024 کے انتخابات کے نتائج بڑی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ جس راستے سے وہ ہندوستان کو 2047 تک ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کا اعلان کررہے ہیں اس میں بہت سے عنصر ایسے ہیں جو کہ اس کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔اس کے لیے جو ترقیاتی ماڈل اپنایا جائے وہ جامع اور حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ اصل بحث اس بات پر مرکوز ہے کہ آیا ہم روزگار اور صلاحیتوں کو ترجیح دیتے ہیں یا منافع پر مبنی معاشرے کو،جس کے ذریعے صرف چند ایک تجارتی گھرانوں کو منافع پہنچ رہا ہے اور اس کا مثبت اثر ملک کے ترقیاتی اعداد و شمار میں کم دیکھنے میں نظر آرہا ہے۔
حقیقی ترقی میں نہ صرف جی ڈی پی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ انفراسٹرکچر، سپلائی چین، ہنر، مالیات، روزگار اور فوجی صلاحیتیں بھی اس میں شامل ہوتی ہیں۔ اگرچہ بیرونی مواقع قیمتی ہوتے ہیں، لیکن انہیں موروثی گھریلو طاقتوں کی جگہ نہیں لینا چاہیے۔ عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کا فروغ، معلومات، نیٹ ورکنگ، اصلاحات اور کاروبار کرنے میں آسانی کا امتزاج کے سمیت ناگزیر ہے۔ اس طرح، تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے کو جامع ترقی کے لیے مہارت، صلاحیتوں، دفاع اور روزگار کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مزید یہ کہ ’وِکست بھارت‘ تبھی ممکن ہے جب ہمارے پاس ایک محفوظ ہندوستان ہو، جس میں بیرونی اور اندرونی دونوں طرح کے مستقبل کے ملٹی ڈومین خطرات کے خلاف مضبوط ڈیٹرنس اور جوابات ہوں۔ اس کے لیے ایک واضح قومی سلامتی کی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں وسائل کی تقسیم، مشترکہ ڈھانچے، پختہ حکمت عملیوں اور متحرک سول -ملٹری امتزاج سے تعاون حاصل ہوتاہو۔
پالیسیوں کے لیے فوج کی سیاست کرنے کا رجحان، جو کہ قومی سلامتی کا بہت کم خیال رکھتا ہے، کو تحمل سے کام لینا چاہیے۔ قومی سلامتی معمولی سیاست کے لیے خوشامد کا کھیل نہیں ہے۔ توجہ کا مرکز بڑھتے ہوئے بیرونی اور داخلی خطرات کی حقیقتوں کے لیے تیاری اور ان سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنی چاہیے اور ایک ایسا نظام قائم کرنا چاہیے جو کہ مختلف شعبوں میں ہندوستان کی مہارت اور دفاعی شعبے میں اس کی طاقت کو ظاہر کرسکے۔
ہندوستان کو درپیش چیلنجز
آبادی کا دباؤ اور وسائل کی کمی؛
ہندوستان کی بڑھتی ہوئی آبادی پائیدار ترقی کے لیے ایک اہم چیلنج پیش کرتی ہے، خاص طور پر نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے آبادیاتی پروفائل کے پیش نظر۔اس آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بڑھ رہا ہے جو کہ ایکمثبت یا منفی پہلو دونوں ہوسکتا ہے، اسے مثبت بنانے کے لیے ملازمتوں کی تخلیق اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس آبادیاتی تبدیلی کے ساتھ تیزی سے شہری کاری، پانی، توانائی اور خوراک جیسے ضروری وسائل کی بڑھتی ہوئی مانگ کے ساتھ، موجودہ بنیادی ڈھانچے پر غیر ضروری دباؤ ڈال سکتی ہے اور وسائل کی کمی کو متاثر کر سکتی ہے۔ ان بے شمار چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جس میں وسائل کا موثر انتظام، پیچیدہ شہری منصوبہ بندی، مساوی تقسیم، اور پائیدار طریقوں کا نفاذ شامل ہے۔
ماحولیاتی انحطاط اور موسمیاتی تبدیلی؛
ماحولیاتی انحطاط، ماحولیاتی عدم توازن اور موسمیاتی تبدیلی کا بڑھتا ہوا خطرہ فوری اصلاحی اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہندوستان کو قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف اپنی منتقلی کو تیز کرنا چاہیے، سخت ماحولیاتی ضوابط کو نافذ کرنا چاہیے، اور قدرتی آفات کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے اور اپنے ماحولیاتی نظام کی حفاظت کے لیے تحفظ کی کوششوں کو فروغ دینا چاہیے۔
عدم مساوات اور سماجی تفاوت؛
گو کہ ہندوستان کی معاشی ترقی قابل ستائش رہی ہے، اور وہ 2025 تک دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے لیکن اس کے لیے تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور اقتصادی مواقع تک رسائی میں عدم مساوات اور سماجی تفاوت سماجی نقل و حرکت میں رکاوٹیں ثابت ہوسکتی ہیں اور بدامنی کو فروغ دے سکتی ہیں۔ ایک جامع اور ہم آہنگ معاشرے کی تعمیر کے لیے ذات پات کی بنیاد پر تفریق اور صنفی تفاوت کے خاتمے کے ساتھ ان خلیجوں کو پر کرنے کے لیے جامع پالیسیاں ضروری ہیں۔
تکنیکی رکاوٹیں اور اخلاقی خدشات؛
تکنیکی ترقی جہاں افادیت لاتی ہے، وہیں وہ اخلاقی مخمصے اور رکاوٹیں بھی لاتی ہیں۔ تیز رفتار آٹومیشن اور مصنوعی ذہانت ملازمتوں کی کمی اور سماجی بدامنی کا باعث بن سکتی ہے۔ مزید برآں، ڈیٹا پرائیویسی، سائبر سیکیورٹی، اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے اخلاقی مضمرات سے متعلق خدشات کو احتیاط سے حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہندوستان کی تکنیکی ترقی فائدہ مند، اخلاقی اور ذمہ دارانہ ہے۔
صحت کی دیکھ بھال اور وبائی امراض کی تیاری؛
کووڈ-19 وبائی مرض نے صحت کی دیکھ بھال کے مضبوط نظام اور نچلی سطح پر وبائی امراض کی موثر تیاری کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ مستقبل میں صحت کے بحران کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہندوستان کو صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے، تحقیق اور بیماریوں کی نگرانی میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ صحت عامہ کے نظام کو مضبوط بنانا اور معیاری صحت کی دیکھ بھال تک عالمی رسائی کو یقینی بنانا اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے اہم ہوگا۔
مستقبل کی راہ
ہوشیار سفارت کاری اور کثیرالجہتی؛
ہندوستان کو تنازعات کو حل کرنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں، ماحولیاتی خطرات، غربت، دہشت گردی اور پائیدار ترقی جیسے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے سفارت کاری اور کثیر جہتی فورمز پر زور دینا جاری رکھنا چاہیے۔ اسے سٹریٹجک شراکت داری، تجارتی معاہدوں اور ثقافتی تبادلوں کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ مضبوط سفارتی تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری؛
ہندوستان کی مسلسل تبدیلی کے حصول کے لیے انسانی سرمائے میں خاص طور پر صحت، جامع ترقی اور ہنر اور تعلیمی ڈگریوں کے درمیان فرق کو دور کرنے میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ کم فی کس آمدنی اور چند لوگوں کے درمیان دولت کی غیر متناسب تقسیم کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) پر ہندوستان کی پوزیشن اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی عدم مساوات سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔
وسائل کی کمی اور مسابقت؛
توانائی، خوراک اور معدنیات سمیت قلیل وسائل کی تلاش،ممالک کے درمیان مسابقت اور ممکنہ تنازعات کا باعث بن سکتی ہے۔ ہندوستان کو وسائل کے ذمہ دارانہ انتظام، اور قابل تجدید توانائی کو اپنانے کو فروغ دینا چاہیے، اور وسائل سے متعلق عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے تعاون پر مبنی معاہدوں میں شامل ہونا چاہیے۔
سائبرسکیورٹی اور انفارمیشن وارفیئر؛
تیز رفتار تکنیکی ترقی اور ڈیجیٹل نیٹ ورکس کی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی نوعیت ممالک کو سائبر حملوں، ڈیٹا کی خلاف ورزیوں اور غلط معلومات کی مہمات کا شکار بنا سکتی ہے۔ ہندوستان کو اپنے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی حفاظت کے لیے مضبوط سائبر سیکورٹی اقدامات، بین الاقوامی تعاون اور معلومات کے تبادلے میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
اقتصادی تنوع اور تجارتی تعلقات؛
عالمی اقتصادی اتار چڑھاو کے خلاف لچک کو یقینی بنانے کے لیے ہندوستان کی اقتصادی تنوع اور تجارتی شراکت داری کو پروان چڑھایا جانا چاہیے۔ متوازن تجارتی تعلقات اور سرمایہ کاری کے متنوع طریقے معاشی استحکام کو بڑھا سکتے ہیں۔
سافٹ پاور اور کلچرل ڈپلومیسی؛
ہندوستان کی نرم طاقت، بشمول اس کے غیر معمولی ثقافتی ورثے، کو عالمی رسائی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ ثقافتی تبادلے، تعلیمی پروگرام، اور عوام سے عوام کے درمیان سفارت کاری سے افہام و تفہیم کو فروغ مل سکتا ہے اور عالمی سطح پر ہندوستان کی مثبت شبیہ کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
قومی سلامتی کے چیلنجز
جغرافیائی سیاسی دشمنیاں اور علاقائی تنازعات؛
یہ ہندوستان کی سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ ہیں۔ سرحدی تنازعات، علاقائی دعوے، اور سرحد پار دہشت گردی کشیدگی اور ممکنہ مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
اس چیلنج کو کم کرنے کے لیے، ہندوستان کو سفارتی کوششیں تیز کرنی چاہیے، پرامن مذاکرات کو ترجیح دینا چاہیے، اور جارحیت کو روکنے کے لیے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا چاہیے۔
جہاں تک فوری ہمسائیگی کا تعلق ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اپنا پرانا رشتہ کھوتا جا رہا ہے جنہیں چین تیزی سے اپنی طرف راغب کر رہا ہے۔ علاقائی اثر و رسوخ کا یہ نقصان ہندوستان کی قومی سلامتی کے حساب کتاب پر سنگین مضمرات ڈال سکتا ہے۔ ساتھ ہی قبضہ کی ہوئی ہندوستانی زمین کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے مزید سفارتی ذہانت اور رسائی کی ضرورت بھی ہوگی۔
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سال 2024 جہاں ایک جانب ہندوستان کے داخلی، معاشی، سیاسی اور سماجی شعبوں پر اپنا دیرپا نقش چھوڑ سکتا ہے وہیں وہ عالمی سطح پر ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آنے کے مواقع بھی پیش کرسکتا ہے۔اب یہ ہندوستان کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح ان چیلنجز کا سامنا کرتی ہے، ہندوستان کو داخلی طور پر ایک متنوع کثیرالثقافتی جمہوری ملک بناکر یا اسے مذہب کی بنیادوں پرتباہی کی طرف آگے لے جاکر۔
(اسد مرزا سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں، وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز دبئی سے وابستہ رہے ہیں۔)