ہندوستان: فرقہ وارانہ فسادات کے مجرمین کو معافیاں

02:42 PM Aug 25, 2022 | افتخار گیلانی

ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات تو پہلے بھی ہوتے تھے اور فسادیوں کا چھوٹ جانا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فرق بس  یہ ہے کہ عدالتوں سے مجرم ثابت ہونے اور سزائیں پانے کے بعد بھی انصاف کے عمل کو انگوٹھا دکھایا جا رہا ہے۔ ایک غیر محسوس طریقے سے20 کروڑمسلمانوں کو  بتایا جا رہا ہے کہ یا تو وہ دوسرے درجہ کے شہری بننا منظور کریں یا کہیں اور چلے جائیں۔

15 اگست کو مجرموں کی جیل سے رہائی کے بعد ان کا استقبال مٹھائی کھلا کر کیا گیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا برپا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق،1947میں آزادی کے بعد سے پچھلے 75سالوں میں ملک کے طول و عرض میں 60 ہزار کے قریب فسادات ہوئے ہیں۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق، 2014 سے 2020کے وقفہ کے درمیان 5417  فسادات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔یعنی ایک طرح سے ملک میں ہر روز دو فسادات ہوئے ہیں۔  اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فسادات میں ملوث افراد کو شاید ہی کبھی سزا ملتی ہے۔

جہاں تک میرے علم میں ہے 1984کے سکھ مخالف فسادات اور 2002کے گجرات کے مسلم کش فسادات واحد دوایسی مثالیں ہیں، جن کی پیروی کی گئی اور قصورواروں کو عدالتوں نے سزائیں بھی سنائیں۔

 جہاں سکھوں کے خلاف بلوہ کرنے والے کانگریسی رہنماؤں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا کام گوردوارپربندھک کمیٹی نے کیا، گجرات کے فسادات میں ملوث بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈروں اور کارکنوں کو جیلوں تک پہنچانے کا کریڈٹ سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ، ان کے شوہر جاوید آنند اور چند باضمیر پولیس افسران کے سر جاتا ہے، جنہوں نے ہزاروں اڑچنوں اور مشکلات کے باوجود برسوں تک عدالتوں میں گجرات فسادات کی پیروی کی،گواہوں اور کیس مٹیریل کی حفاظت کروائی، کئی کیسوں کو گجرات سے باہر مہاراشٹرمنتقل کروایااور قصورواراں کو سزائیں دلوائیں۔

یہ ایک شاید بڑی وجہ تھی کہ 2002کے بعد گجرات میں کوئی بڑی فرقہ وارانہ واردات برپا نہیں ہوئی۔  ورنہ  بقول  سابق سینئر پولیس افسر وبھوتی نارائن رائے، جنہوں نے 1989میں اتر پردیش کے میرٹھ شہر میں ہاشم پورہ اور ملیانہ قتل عام کی ابتدائی تحقیقات کی تھی،فسادات سے نپٹنے کے نام پر پولیس اکثر مسلمان نوجوانوں کو ہی حراست میں لیتی ہے۔ پھر فسادیوں کے ساتھ تصفیہ کرواکے رہا کراتی ہے۔

اپنے تین دہائی تک محیط صحافتی کیریر کے دوران فسادات کو کور کرتے ہوئے  میں نے بھی دیکھا ہے کہ ایک توپولیس کا رول جانبدارانہ رہتا ہے اور پھر فسادات تھمنے کے بعد وہ دونوں اطراف کے لوگوں کے خلاف معاملہ درج کرکے ان کو جیل بھیج دیتی ہے، تاآنکہ وہ جیل میں ہی سمجھوتہ کرکے ایک دوسرے کے خلاف کیس واپس لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

چند سال قبل آسام میں انتخابات کے دوران جب میں نے وہاں چند سیاسی رہنماؤں کو یاد دلایا کہ 1983میں اس صوبہ میں نیلی کے مقام پر دس ہزار بنگالی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا، اس کی تفتیش کہاں تک پہنچی ہے؟  تو وہ میرا منہ تکتے رہے او ر کہا کہ وہ اب آگے بڑھ گئے ہیں اور ان فسادات کو انہوں نے یاداشت سے کھرچ دیا ہے۔ کیا ایسا دنیا میں کہیں ممکن ہے؟

گجرات فسادات کیس میں نہ صرف اب  تیستا سیتلواڑ اور ان کی تنظیم سب رنگ ٹرسٹ کو حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی سے لوہا لینے کے لیے سزا دی جارہی ہے،بلکہ جن قصور واروں کو انہوں نے عدالتوں کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچایا تھا،کی اب سزائیں معاف کی جارہی ہیں یا ان کو ضمانتوں پر رہا کیا جا رہا ہے۔

سیتلواڑ کی تنظیم پر پہلے غیر ملکی عطیہ لینے پر پابندی عائدکی گئی اور اس کے بعد اس کے خلاف تفتیش کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا گیا کہ ابھی جون میں ان کی ممبئی میں واقع رہائش گاہ پر گجرات پولیس نے ریڈ کرکے ان کو حراست میں لے لیا۔ سیتلواڑ کے علاوہ سابق  ڈائریکٹر جنرل آف پولیس آر بی سری کمار اورایک اور پولیس آفیسر سنجیو بھٹ پر بھی مقدمہ دائرکر کے  جیل پہنچا دیا گیاہے۔

گجرات میں ایک کیس بلقیس بانو کا تھا، جن کو  3 مارچ 2002 کو فسادات کے دوران اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ اس وقت 19 سال کی تھیں اور حاملہ تھیں۔ احمد آباد کے قریب فسادیوں نے اس کی تین سالہ بیٹی سمیت اس کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا تھا۔ ایک آدمی نے بیٹی کو اس کی ماں کے بازو سے چھین کر اس کا سر پتھر پر مار دیا تھا۔

عدالت کے فیصلہ کو،جس میں یہ واقعات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ آخر ایک انسان اس قدر شقی القلب کیسے ہوسکتا ہے؟

یہ سبھی قصور وار بلقیس بانو کے پڑوسی تھے۔ پچھلے ہفتے اس کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے گیارہ افراد کو گودھرا جیل سے رہا کر دیا گیا، کیوں کہ گجرات حکومت نے معافی کی پالیسی کے تحت ان کی درخواست منظور کر لی ہے۔صوبہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری (داخلہ) راج کمار نے صحافیوں کو بتایا چونکہ مجرموں نے 14 سال جیل میں گزارے ہیں اور ساتھ ہی دیگر عوامل جیسے ‘عمر، جرم کی نوعیت، جیل میں سلوک’ کی بنیاد پر یہ درخواست منظور کی گئی۔مگر وہ یہ بتانا بھول گئے کہ خواتین کو ہراساں کرنے اور زنا بالجبر جیسے جرائم کو معافی سے بری رکھا گیا ہے۔

مجرموں کی رہائی کے بعد ان کا جس طرح استقبال کیا گیا، اس سے ایک پیغام تو واضح ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی جرم کو برداشت کیا جائےگا اور اس کو انجام دینے والا ہیرو ہے۔ دراصل مجرموں میں سے ایک، رادھے شیام شاہ نے 14 سال قید کی سزا کاٹنے کے بعد معافی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔جس نے اس کو قیدیوں سے متعلق صوبہ کی کمیٹی سے رجوع کرنے کے لیے کہا تھا۔

اس کمیٹی کے ایک رکن اور گودھرا کے موجودہ بی جے پی ممبر اسمبلی سی کے راؤل جی کا کہنا ہے کہ یہ مجرمین ‘برہمن’ہیں اور ‘اچھے اخلاق’کے مالک ہیں۔

اپریل 2019 میں دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران  بلقیس اپنے شوہر کے ساتھ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

یہ صرف بلقیس بانو کا کیس نہیں ہے۔ 2014کے بعد سے نئی دہلی میں وزیر اعظم مودی کی حکومت آنے کے بعد سے تو کئی قصورواروں کو رہا کیا گیا ہے۔ آنند ضلع کے اوڈ گاؤں کے 40 سالہ ادریس نے حال ہی میں بی بی سی کو بتایا کہ ان کی دادی، ماں اور ایک قریبی دوست کو ان کے سامنے ایک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ قاتلوں کی اس بھیڑ میں ان کے اسکول کے دوست اور پڑوسی بھی شامل تھے۔ ان کے خاندان کے افراد کے قتل کے معاملے میں 80 ملزمان نامزد تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی جیل میں نہیں ہے۔ سب کو عدالت سے ضمانت مل چکی ہے۔

احمد آباد سے متصل نرودا پاٹیہ میں ہوئے قتل عا م میں  نچلی عدالت نے بی جے پی کی وزیر مایا کوڈنانی کو فسادات کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے انھیں 28 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس معاملے میں بجرنگ دل کے بابو بجرنگی کو بھی قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کوڈنانی نے بطور مقامی ممبر اسمبلی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ جب انھیں گرفتار کیا گیا تو وہ نریندر مودی کی حکومت میں خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کی وزیر تھیں۔ اس معاملے میں موجودہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے  مایا کوڈنانی کے حق میں گواہی دی تھی، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ انھوں نے کوڈنانی کو ریاستی اسمبلی میں دیکھا تھا۔

اس کیس کے 32 قصورواروں میں سے 18 کو ہائی کورٹ نے بری کر دیا، جن میں کوڈنانی بھی شامل ہیں، جبکہ 13 افراد کو قصوروار پایا گیا۔ سزا پانے والوں میں بابو بجرنگی بھی شامل ہیں تاہم ان کی عمر قید کی سزا کو کم کر کے 21 سال کر دیا گیا۔

شمالی گجرات کے پٹن ضلع کے سردار پورہ گاؤں میں 33مسلمانوں نے ایک گھر میں پناہ لی تھی۔ فسادیوں نے اس کا گھیراؤ کرکے اس میں بجلی کے ایک ننگے تار سے کرنٹ دوڑا دیا جس سے 29 افراد کی جائے حادثہ پر ہی موت ہو گئی۔ہجوم نے گاؤں کی تمام سڑکیں بند کر دیں تاکہ مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو اپنی جان بچانے کا موقع نہ ملے۔سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کی تشکیل  کی گئی اور 22 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔اس سے قبل کئی افراد کو پولیس نے گرفتار کیا  تھا۔

دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق اس قتل عام میں دو  سرکردہ افراد سرپنچ کچرا بھائی پٹیل اور سابق سرپنچ کنو بھائی پٹیل ملوث تھے اور ان دونوں کا مبینہ طور پر بی جے پی سے تعلق تھا۔ان فسادات کے ایک اہم گواہ ادریس وورا، جس نے اپنی دادی، اپنی ماں اور اپنے ایک قریبی دوست کو کھو دیا تھا،  صرف اس لیے بچ گئے کہ انہوں نے خود کو 10 گھنٹے سے زیادہ بیت الخلا میں بند رکھا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ حقیقت ہضم نہیں کر پاتے ہیں کہ سب کچھ تباہ کرنے والے کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 20 سال بھٹکنے کے بعد بھی انصاف نہیں ملا۔

اسی طرح مہسانہ کے وِس نگر کے دیپدا دروازہ علاقے میں 11 مسلمانوں کے قتل کے الزام میں پولیس نے  79 افراد کو گرفتار کیا تھا اور سبھی کو ضمانت دے دی گئی۔ ا ن میں اب 61 لوگوں کو بری کر دیا گیا ہے جن میں وس نگر کے سابق بی جے پی ممبر اسمبلی پرہلاد پٹیل اور میونسپل کارپوریشن میں بی جے پی کے صدر داہیا بھائی پٹیل بھی شامل ہیں۔ان فسادات کے دوران تین برطانوی شہریوں اور ان کے ڈرائیور کو ایک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ برطانیہ سے آنے والے عمران داؤد نامی شخص اپنے تین رشتہ داروں کے ساتھ گاڑی میں سفر رہے تھے۔ہجوم نے گاڑی کو روک کر ایک ہی جگہ پر دو افراد کو نذر آتش کر دیا۔ دو افراد جان بچا کر بھاگے لیکن ہجوم نے ان کا پیچھا کیا اور انھیں مار ڈالا۔ پولیس کی مدد سے عمران داؤد خود کو بچانے میں کامیاب رہے۔ اس معاملے میں چھ لوگوں کو گرفتار کیا تھا لیکن ان سبھی کو نچلی عدالت میں رہا کر دیا گیا۔28 فروری 2002 کو چمن پورہ کی گلبرگ سوسائٹی میں رہنے والے 69 افراد کو ہجوم نے قتل کر دیا۔ کانگریس کے سابق رکن پارلیامنٹ احسان جعفری بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔ سوسائٹی میں 19 بنگلے اور 10 اپارٹمنٹس تھے۔

مقامی پولیس نے میگھانی نگر پولیس سٹیشن میں شکایت درج کرنے کے بعد 46 لوگوں کو گرفتار کیا۔ ایس آئی ٹی کی جانچ شروع ہونے کے بعد اس معاملے میں 28 دیگر کو گرفتار کیا گیا اور کل 12 چارج شیٹ داخل کی گئیں۔ کل ملزمان میں سے 24 کو سزا سنائی گئی جبکہ 39 کو بری کر دیا گیا۔اس قتل عام میں اپنے رشتہ داروں کو کھونے والی 64 سالہ سائرہ بانو کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو پولیس نے گرفتار کیا تھا، شناخت ہونے کے بعد بھی انھیں ضمانت دے دی گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

اس کے مطابق ملزموں کی گرفتاری تیستا سیتلواڑ اور آر بی سری کمار جیسے انسانی حقوق کے کارکنوں کی مدد سے ہی ممکن ہوئی تھی۔ ہلاک ہونے سے چند منٹ قبل تک جعفری پولیس، وزارت داخلہ کے افسران، حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ کے دفتر مسلسل فون کرکے مدد کی درخواست کررہے تھے۔

ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات تو پہلے بھی ہوتے تھے اور فسادیوں کا چھوٹ جانا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فرق تو یہ ہے کہ عدالتوں سے مجرم ثابت ہونے اور سزائیں پانے کے بعد بھی انصاف کے عمل کو انگوٹھا دکھایا جا رہا ہے۔ ایک غیر محسوس طریقے سے20 کروڑمسلمانوں کو  بتایا جا رہا ہے کہ یا تو وہ دوسرے درجہ کے شہری بننا منظور کریں یا کہیں اور چلے جائیں۔

چونکہ کانگریسی دور میں سیکولرازم کا ملمع چڑھا ہوتا تھا، اس لیے فسادات کے بعد کوئی مرکزی وزیر یا حکمران پارٹی کا بڑا لیڈر دورہ پر آتا تھا۔ پہلے ہندو علاقوں میں جاکر ان کی پیٹھ تھپتپھاتا تھا اور پھر مسلم علاقے میں آکر اشک شوئی کرکے ریلیف بانٹ کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر ایک لیکچر دے کر چلا جاتا تھا۔ اب نا م کے لیے بھی کوئی لیڈر مسلم علاقے کا رخ نہیں کرتا ہے۔مرکزی کابینہ میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی کے مستعفی ہونے کے بعد اب کوئی وزیر نہیں ہے۔

  بی جے پی کی حکومت والے 16 صوبوں میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔ صرف اتر پردیش جہاں کل آبادی کا 19.26 فیصد مسلمان ہیں ایک مسلم وزیر ہے۔ ہندوستان میں صوبائی اسمبلیوں میں کل 4121 نشستیں ہیں۔ ان میں صرف 236 مسلمانوں اراکین ہیں۔کل 28صوبوں میں 530کے قریب وزراء ہیں۔ جن میں صرف 24 مسلمان ہیں۔ ان میں سے بھی پانچ وزیر حال ہی میں بہار میں  اس لیے شامل کئے گئے، کیونکہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اتحادی بی جے پی سے ناطہ توڑ کر سیکولر راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ ملک ازسر نو حکومت تشکیل دی۔

یہ تو طے ہے کہ مسلمانوں کو اس حد تک کنارے لگایا جاچکا ہے کہ ان کی نمائندگی کی کوئی ضروت ہی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ ہندوستان کی سیاست نے ایک طویل فاصلہ طے کیا ہے اور ملک کو مستحکم نظام دینے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ مگر سوال ہے کہ کیا دو سو ملین افراد کو پس پشت ڈال کر اور ان کو ہیجان میں مبتلا رکھ کر اور کسمپرسی کا احساس دلا کر کیا اس نظام کو قائم و دائم رکھا جا سکتا ہے؟ ہندوستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔