سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو میں ایک ٹیچر اپنی کلاس کے بچوں سے ایک مسلمان ہم جماعت بچےکو تھپڑ مارنے کے لیے کہتے ہوئے فرقہ وارانہ تبصرہ کرتی نظر آ رہی ہیں۔ پولیس نے بتایا ہے کہ ویڈیو مظفر نگر کے منصور پور تھانہ حلقہ کے قریب کھبہ پور گاؤں کے ایک نجی اسکول کا ہے۔
(علامتی تصویر، بہ شکریہ: بیری پوسمین/فلکر، CC BY 2.0)
نئی دہلی: سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو میں اتر پردیش کے مظفر نگر کے ایک پرائیویٹ اسکول کی ٹیچر اپنی کلاس کے بچوں کو ایک ایک کر کے آٹھ سالہ مسلمان طالبعلم کو تھپڑ مارنے کی ہدایت دیتی نظر آ رہی ہیں۔ 40 سیکنڈ کے اس ویڈیو میں کلاس کے بچے متاثرہ طالبعلم کو مارتے ہیں اور ٹیچر ان کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہیں۔
ویڈیو پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ڈی ایس پی روی شنکر نے میڈیا کو بتایا کہ وائرل ویڈیو منصور پور تھانہ حلقہ کے قریب کھبہ پور گاؤں کے ایک گھر میں چلنے والے اسکول کا ہے اور مقامی پولیس اس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ایک خاتون ٹیچر نے اسکول کا کام پورا نہ کرنے پر کچھ بچوں سےدوسرے بچے کو مارنے کو کہا اور اشتعال انگیز تبصرےکیے۔
ویڈیو میں متاثرہ بچہ رو رہا ہے اور ٹیچر کے کہنے پر ہم جماعت بچے اسے تھپڑ مار رہے ہیں۔ عورت کیمرے کے پیچھے موجود شخص سے
کہتی ہیں، ‘میں نے ڈیکلیئر کر دیا ہے،جتنے بھی محمڈن بچے ہیں، ان کے وہاں چلے جاؤ…’ان کی بات سےکیمرے کے پیچھے والا شخص اتفاق کرتا ہے۔
اس کے بعد مسلمان طالبعلم کو مارنے کے بعد ایک بچہ بیٹھتا ہے ٹیچراس سے کہتی ہے ‘کیا تم مار رہے ہو؟ زور سے مارو نہ۔‘ پھر وہ پوچھتی ہیں، ’چلو، اب کس کا نمبر ہے؟‘
متاثرہ بچے کے مسلسل رونے کے درمیان وہ کہتی ہیں، ‘اب کی بار کمر پر مارو… چلو، منہ پہ نہ مارو اب منہ لال ہو رہا ہے… کمر پہ مارو سارے’۔
ایڈیشنل ایس پی ستیہ نارائن پرجاپت نے ایک اور بیان میں کہا کہ اشتعال انگیز ریمارکس کی جانچ کرتے ہوئے پولیس کو پرنسپل سے پتہ چلا کہ خاتون ٹیچر نے کہا تھا کہ،’جن مسلم بچوں کی ماں بچوں کی پڑھائی پر دھیان نہیں دیتی ہیں،ان بچوں کی پڑھائی تباہ ہوجاتی ہے۔’ متعلقہ افسر نے بتایاکہ اس کی تصدیق ویڈیو ریکارڈ کرنے والے شخص نے کی ہے۔
اس دوران بیسک ایجوکیشن آفیسر شبھم شکلا نے کہا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی ٹیچر اور اسے اکسانے والے کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے مظفر نگر میں نامہ نگاروں کو بتایا،’اسکول انتظامیہ کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔’
دی وائر نے آٹھ سالہ طالبعلم کے والد ارشاد سے رابطہ کیا، جو ایک کسان ہیں۔
بتایا گیا کہ یہ واقعہ 24 اگست کو صبح 9 بجے کے قریب پیش آیا۔ بچے کے قریبی ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ بچے کو پیٹے جانے پر ٹیچر نے کہا تھا کہ ‘مسلمانوں کو پیٹا جانا چاہیے’۔
ارشاد نے بتایا کہ اس سے قبل ان کے بھانجے کو بھی اسکول میں مارا پیٹا گیا تھا، اس بارے میں انہیں پتہ چلا تھا لیکن انہوں نے اس پر توجہ نہیں دی۔کیوں کہ عموماً اسکولوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ‘مجھےاس بات سے کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ٹیچر بچے کو ڈسپلن سکھائیں،لیکن یہ غلط ہے۔’بتایا گیا کہ جب ارشاد نے ٹیچر سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے مبینہ طور پر ارشاد کو دھمکی دی۔ ارشاد کہتے ہیں،’اس کے بعد میں نے اپنے بچے کا داخلہ کینسل کروانے کا فیصلہ کیا اور اسے اسکول بھیجنا بند کردیا۔
بتایا گیا ہے کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ٹیچر نے ارشاد سے ‘معافی’ مانگی اور وعدہ کیا کہ ایسا دوبارہ نہیں ہوگا۔ مبینہ طور پر ارشاد نے بھی اس معاملے کو مزید آگے نہ بڑھانے کا سوچا۔ ابتدائی طور پر انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس معاملے کو مزید آگے نہیں بڑھانا چاہتے کیونکہ انہیں لگا کہ ان کی بات ٹھیک سے نہیں سنی جائے گی اور تنازعہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑ سکتا ہے۔
تاہم، جب سوشل میڈیا پر ٹیچر کے خلاف غم و غصہ بڑھنے لگا تو ارشاد نے قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا، ‘میں نہیں چاہتا کہ یہ کسی اور کے بچے کے ساتھ دہرایا جائے۔’
دریں اثنا، نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کے سربراہ پریانک کانون گو نے زور دے کر کہا ہے کہ اس ویڈیو کو مزید نشر نہیں کیا جانا چاہیے۔
رہنماؤں نے برہمی کا اظہار کیا
دریں اثناء رہنماؤں نے اس واقعہ پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ‘معصوم بچوں کے ذہنوں میں امتیازی سلوک کا زہر گھولنا، اسکول جیسے مقدس مقام کو نفرت کے بازار میں تبدیل کرنا – ایک ٹیچر ملک کے لیے اس سے برا کچھ نہیں کرسکتا۔ یہ وہی مٹی کا تیل ہے جو بی جے پی نے پھیلایا ہے جس نے ہندوستان کے کونے کونے میں آگ لگا رکھی ہے۔ بچے ہندوستان کا مستقبل ہیں – ان کو نفرت نہیں، ہم سب کو مل کر محبت سکھانی ہے۔’
راجیہ سبھا کے رکن پارلیامنٹ اور آر ایل ڈی لیڈر جینت سنگھ نے کہا، ‘مظفر نگر اسکول کا ویڈیو ایک دردناک وارننگ ہے کہ کس طرح گہرا مذہبی امتیازحاشیے پر پڑے اقلیتی برادریوں کے خلاف تشدد کو ہوا دے سکتا ہے۔ مظفر نگر کے ہمارے ایم ایل اے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یوپی پولیس از خود مقدمہ درج کرے اور بچے کی پڑھائی متاثر نہ ہو۔
وہیں،اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ہے کہ ،بی جے پی کی مدھیہ پردیش حکومت نے ایک چھوٹی سی باتے پر ایک اسکول پر بلڈوز چلا دیا تھا۔ یہاں ایک بچے کو اس کے مذہب کی بنیاد پر پیٹا جا رہا ہے، اور ‘کڑی نندا’ والاٹوئٹ تک نہیں آتا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)