انسانی حقوق کی تنظیم ‘ہیومن رائٹس واچ’ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت میں امتیازی اور تفرقہ انگیز پالیسیوں کی وجہ سے اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں مذہبی اور دیگر اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو اجاگر کرنے والے متعدد واقعات کی فہرست دی گئی ہے۔
منی پور تشدد (بائیں) اور نوح فرقہ وارانہ فسادات کے مناظر۔ (علامتی تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا/دی وائر)
نئی دہلی: انسانی حقوق کی تنظیم ‘ہیومن رائٹس واچ’ نے جمعرات (11 جنوری) کو اپنی ‘
ورلڈ رپورٹ 2024‘ میں کہا ہے کہ 2023 میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کی امتیازی اور تفرقہ انگیز پالیسیوں کی وجہ سے اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا، جس کے باعث بڑے پیمانے پر خوف و دہشت کا ماحول بنا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی حکومت نے مسلسل امتیازی طرز عمل کے ذریعے حقوق کا احترام کرنے والی جمہوریت کے طور پر اپنی عالمی قیادت کے عزم کو کمزور کر دیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا کی ڈپٹی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا،’بدسلوکی کے لیے ذمہ دار لوگوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے بجائے حکام نے متاثرین اور مظلوم کو سزا دینے کا انتخاب کیا اور ان کارروائیوں پر سوال اٹھانے والے کسی بھی شخص کو ہراساں کیا۔’
قابل ذکر ہے کہ 740 صفحات پر مشتمل ورلڈ رپورٹ 2024 کے 34ویں ایڈیشن میں ہیومن رائٹس واچ نے 100 سے زائد ممالک میں انسانی حقوق کا جائزہ لیا ہے۔
ہندوستانی حکام نے چھاپے، مالی بے ضابطگیوں کے الزامات، ف
ارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ (ایف سی آر)، جو غیر سرکاری تنظیموں کی غیر ملکی فنڈنگ کو کنٹرول کرتا ہے ، کےاستعمال سے صحافیوں، کارکنوں اور ناقدین کو ہراساں کیا۔
فروری 2023 میں ہندوستانی ٹیکس حکام نے
بی بی سی کی دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویشچن’کے واضح طور پر انتقامی کارروائی میں نئی دہلی اور ممبئی میں
اس کے دفاتر پر چھاپہ مارا تھا، جس میں گجرات فسادات کے دوران مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی ناکامی کو اجاگرکیا گیا تھا۔
یہی نہیں، حکومت نے ملک کے انفارمیشن ٹکنالوجی (آئی ٹی) قوانین کے تحت ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے جنوری میں
بی بی سی کی دستاویزی فلم پر ہندوستان میں پابندی عائد کر دی تھی ۔
رپورٹ میں مذہبی اور دیگر اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو اجاگر کرنے والے متعدد واقعات کی فہرست دی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا، ’31 جولائی 2023 کو
ہریانہ کے نوح ضلع میں ایک ہندو جلوس کے دوران فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا اور یہ تیزی سے آس پاس کے کئی اضلاع میں پھیل گیا۔ تشدد کے بعد حکام نے
غیر قانونی طور پرسینکڑوں مسلمانوں کی املاک کو تباہ کر دیا اور کئی مسلمان لڑکوں اور مردوں کو حراست میں لے کر جوابی کارروائی کی ۔ تجاوزات ہٹانے کے نام پر کی گئی کارروائی پر پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے بی جے پی کی قیادت والی ریاستی حکومت سے پوچھا کہ کیا وہ ‘
نسلی تطہیر‘ کر رہی ہے۔
یہ بھی کہا گیا، ‘ مئی 2023 میں شمال-مشرقی ہندوستان کی ریاست منی پور میں
اکثریتی میتیئی اور اقلیتی کُکی-جو برادریوں کے درمیان نسلی تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد 200 سو زیادہ لوگ مارے گئے، ہزاروں لوگ نقل مکانی کو مجبور ہوئے، سینکڑوں گھر اور چرچ تباہ کر دیے گئےاور مہینوں تک انٹرنیٹ بند رہا۔ بی جے پی کی قیادت والی حکومت کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے ککی قبیلے کو بدنام کر کےان پر منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کا الزام لگاکر اور میانمار سے پناہ گزینوں کو پناہ دے کر تقسیم کو بڑھاوا دیا۔’
اس کے مطابق، ‘اگست 2023 میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ
منی پور پولیس نے ‘صورتحال پر کنٹرول کھو چکی ہے‘ اورخصوصی ٹیموں کو جنسی تشدد سمیت تشدد کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ ستمبر 2023 میں اقوام متحدہ کے ایک درجن سے زائد ماہرین نے منی پور میں جاری تشدد اور زیادتیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس پر حکومت کا ردعمل سست اور ناکافی تھا۔’
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستانی حکام نے
جموں و کشمیر میں لگاتار اظہار رائے کی آزادی ، پرامن اجتماع اور دیگر حقوق کو محدود کرنے کا کام کیا ہے۔
سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کے واقعات سال بھر جاری رہے۔
اس میں
بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ برج بھوشن سنگھ کے معاملے کو بھی اجاگر کیا گیا ہے، جن پر ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر کے طور پر ان کی مدت کار میں ایک دہائی کے دوران کم از کم چھ خواتین پہلوانوں کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔