رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وبا کو روکنے کا ایک ہی طریقہ یہ ہے کہ ہندوستان بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کی ٹیسٹنگ کرے جنہوں نے دوسرے ملکوں کاسفر نہیں کیا ہے اور ان میں علامات دکھ رہے ہیں۔
نئی دہلی: ایک طرف ماہرین صحت اس بات کو لے کر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ آخر کیوں ہندوستان بہت کم کووڈ 19 ٹیسٹ کر رہا ہے، وہیں دوسری طرف حال ہی میں آئی سی ایم آر کے سائنسدانوں کی جانب سے شائع ایک مطالعہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ آئی سی ایم آر نے بڑی تعداد میں ٹیسٹنگ کرنے کی صلاح کو نظر انداز کر دیا ہے۔
آئی سی ایم آر کے سائنسدانوں کے ذریعےتقریباً ایک مہینے پہلے سونپی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف کو رونا وائرس کے علامات والے دوسرے ممالک سے آئے لوگوں کو الگ کرناکافی نہیں ہے۔ اسٹڈی کے مطابق ایسا کرنے سے ہندوستان میں کو رونا وائرس کےانفیکشن کو پھیلنے سے روکا نہیں جا سکتا تھا۔
اسی مہینے شائع اس رپورٹ کے مطابق بنا کوئی غلطی کئے اور بےحد مضبوطی کے ساتھ بھی اگر ایئرپورٹ پر اسکریننگ کی جاتی ہے تب بھی کووڈ 19 وبا کوہندوستان میں آنے صرف 2.9 دن کی دیری ہو پاتی۔ سائنسدانوں نے کہا کہ ایسی اسکریننگ میں وہ سارے لوگ پکڑ میں آتے جو متاثر ہیں لیکن اس وقت ان میں علامات نہیں دکھ رہے تھے یا کچھ دنوں بعد ان میں علامات دکھنے شروع ہوتے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وبا کو روکنے کا ایک ہی طریقہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان بڑی تعدادمیں ایسے لوگوں کی ٹیسٹنگ کرے جنہوں نے دوسرے ملکوں میں سفر نہیں کیا ہے اور ان میں علامات دکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے 50 فیصدی تک کووڈ 19 متاثرین کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہ نتیجہ آئی سی ایم آر کے ذریعے دوسرے ملکوں میں سفر کرنے والے لوگوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کی بھی کووڈ 19 جانچ کرنے کی مرضی پر بڑے سوال کھڑے کرتے ہیں۔ آئی سی ایم آر نے پچھلے ہفتے اس حکمت عملی میں تبدیلی کی۔ویلور کے کرشچین میڈیکل کالج میں کمیونٹی ہاسپٹل کے ایک پروفیسر جیکب جان نے کہا، ‘میرا ماننا ہے کہ صرف دوسرے ملکوں میں سفر کرنے والے لوگوں کی ہی جانچ کرنا ایک بڑی غلطی تھی۔’
یہ رپورٹ اس لیے بھی اہم ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے پہلے ہی سبھی ممالک سے کہا تھا کہ اس وبا کی حقیقی صورت حال کا پتہ لگانے کا ایک ہی ذریعہ ہے ‘ٹیسٹ، ٹیسٹ، ٹیسٹ’۔یہ پوچھے جانے پر کی آخر کیوں آئی سی ایم آر نے جانچ کا دائرہ بڑھانے میں دیری کی جبکہ اس کے خود کے سائنسدانوں نے جلد ایسا کرنے کو کہا تھا، ا سٹڈی کے معاون قلمکار ترون بھٹناگر نے کہا کہ ضروری سا زو سامان کی کمی ہونا اس کی اہم وجہ ہے۔
بھٹناگر نے دی وائر سائنس کو بتایا،‘یہ سنگاپور یا جنوبی کوریا نہیں ہے، جو کہ ہندوستان کی کسی ریاست جتنا بڑاہے۔ ہمیں تال میل بٹھاکر کام کرنا ہوگا تاکہ ہم دستیاب وسائل کاصحیح استعمال کر سکیں۔’حالانکہ آئی سی ایم آر نے پہلے خود ہی کہا تھا کہ کووڈ 19 ٹیسٹ کرنے کے لیے ان کے پاس کافی وسائل ہیں اور کم جانچ کرنے کی وجہ اس کی کمی ہونا نہیں ہے۔
اس اسٹڈی کے ایک دوسرے قلمکار رمن گنگاکھیڑکر نے کہا تھا کہ آئی سی ایم آر اپنی صلاحیت کا صرف 10 فیصدی جانچ کر رہا ہے۔ حالانکہ بعد میں انہوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ چونکہ اس انفیکشن کے کمیونٹی پھیلاؤ کا کوئی ثبوت نہیں ہے اس لیے ایسا ہو رہا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گنگاکھیڑکر کی یہ دلیل آئی سی ایم آر کے ان 500 سفر نہ کرنے والے لوگوں کے ٹیسٹ پر مبنی ہے جس کانتیجہ نگییٹو آنے پر کونسل نے دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان میں کمیونٹی پھیلاؤ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ حالانکہ 130 کروڑ کی آبادی میں صرف اتنے لوگوں کے ٹیسٹ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرنا صحیح نہیں ہے۔
حالانکہ آئی سی ایم آر کے سائنسدانوں کی اس اسٹڈی کی کچھ حدیں بھی ہیں۔ پہلی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ رپورٹ 27 فروری کو ہی غور کرنے کے لیے انڈین جرنل آف میڈیکل ریسرچ کے پاس بھیج دی گئی تھی، اس لیے اس کے کئی اندازےیامفروضے اس وقت نافذ نہیں ہوتے ہیں۔
اس رپورٹ میں چین کے اعدادوشمار کا ہی استعمال کیا گیاہے، جبکہ حال کے ہفتوں میں یہ امریکہ، اٹلی، فرانس جیسے ممالک میں تیزی سے پھیلا ہے اور چین میں موت کی شرح کو بھی پار کر گیا ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں کمیونٹی پھیلاؤ کے اثر کا اندازہ صرف چار میٹروپولٹن شہروں میں ہی کیا گیا ہے۔
حالانکہ ورجینیا یونیورسٹی کے شری نواسن وینکٹ رمن اور ویلور کے کرشچین میڈیکل کالج میں کمیونٹی علاج کے ایک پروفیسر جیکب جان کا ماننا ہے کہ اس اسٹڈی کے نتائج کی ابھی بھی کافی اہمیت ہے۔انہوں نے کہا کہ ،اس رپورٹ کے نتائج کووڈ 19 پر ہوئے دوسرے نتائج سے میل کھاتے ہیں جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جلدی اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کا ٹیسٹ کرنا بہت ضروری ہے۔ جان نے کہا کہ چونکہ ہندوستان میں بڑی تعدادمیں کو رونا ٹیسٹ کرنے میں دیری کر دی ہے، ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ تعدادکافی بڑھ جائے۔