انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس آف امریکہ کی جانب سے شائع کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان سمیت کئی ممالک میں کیے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 75 فیصد خواتین صحافیوں نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں آن لائن پرتشدد حملوں کا سامنا ہے۔ کئی خواتین نے یہ بھی بتایا کہ آن لائن ٹرولنگ کا نتیجہ جسمانی حملوں کی صورت میں بھی نکلا ہے۔
نئی دہلی: ایک عالمی سروے، جس میں ہندوستان بھی شامل تھا، کا حصہ رہیں تقریباً 75 فیصد خواتین صحافیوں نے کہا کہ ان کو آن لائن پرتشدد حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا، جبکہ 20 فیصدی نے کہا کہ اس کے نتیجے میں انہیں جسمانی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
دی ہندو کے مطابق، یہ بات نیویارک میں یونیسکو کے تعاون سے چلنے والے انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس (آئی سی ایف جے) کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
آئی سی ایف جے نےکئی صحافیوں میں سے ہندوستانی صحافی رعنا ایوب کی پروفائل شائع کی اور الزام لگایا کہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے منسلک گروپ حملے اور ہراسانی کے لیے ذمہ دار تھے۔ آئی سی ایف جےنے اس اسٹڈی پر’ فاربیڈن اسٹوریز پروجیکٹ’ کے ساتھ کام کیا ہے، جس نے حال ہی میں صحافی گوری لنکیش کے قتل کی تحقیقات جاری کی ہے۔
بتایاگیا ہے کہ نہ تو مرکزی حکومت اور نہ ہی بی جے پی نے اس اسٹڈی پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب دیا۔
منگل کو جاری کی گئی کیس اسٹڈی میں کہا گیا ہے، حکمران ہندو قوم پرست بی جے پی سے واضح طور پروابستہ ٹرول آرمی ایوب کو روزانہ دھمکی دیتی ہے۔ اس میں باقاعدگی سےجان سے مارنے اورریپ کی دھمکی دی جاتی ہے۔ اس میں پروپیگنڈہ بھی ہوتا ہے اور اسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ بند ہے۔ وہ شدیدطور پر عورت مخالف ہیں اور مذہبی شدت پسندی سے بھرے ہوئے ہیں۔
آئی سی ایف جے نے ایوب اور قطر میں الجزیرہ کی اینکر غادة عويس کو نشانہ بنانے والے 1.3 کروڑ (13ملین) سے زیادہ ٹوئٹ کے تجزیہ پر مبنی 15 اہم نتائج بھی شائع کیے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ خواتین صحافی اپنے شعبے اور اس سے باہر، جو کچھ برداشت کرتی ہیں، نتائج وہی دکھا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ 2022 کے ایک مطالعے کے نتائج پر مبنی ہیں، جس میں دنیا بھر کی 850 خواتین صحافیوں کے تجربات کی بنیاد پر آن لائن تشدد کا پتہ لگایا گیا تھا۔ اس مطالعہ کی قیادت آئی سی ایف جے کی گلوبل ریسرچ کی نائب صدر جولی پوسیٹی نے کی۔
آئی سی ایف جے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایوب کو ملےتوہین آمیز ٹوئٹ میں 62 فیصد سے زیادہ ذاتی حملے تھے اور کئی میں ریپ اور جان سے مارنے کی دھمکی تھی، اس کے علاوہ اسلامو فوبک گالیاں دی گئی تھی اور کردار کشی کی گئی تھی۔
اس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ (رعنا) ایوب کے خلاف آن لائن تشدد ‘کافی حد تک ہندو راشٹر واد اور ہندوستان کی حکمران جماعت بی جے پی سے وابستہ ٹوئٹر صارفین کے ذریعےبھڑکا یا گیا’ اور یہ ‘ایوب کی صحافت کے جواب میں ہندوستانی ایجنسیوں کی طرف سے آف لائن قانونی ہراسانی ‘ کا حصہ تھا۔
ایوب، جن کے کالم واشنگٹن پوسٹ میں اکثر شائع ہوتے ہیں، ہندوستان میں کئی قانونی معاملوں کا سامنا کر رہی ہیں، جن میں سے ایک معاملہ منی لانڈرنگ سے متعلق ہے۔
بتادیں کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایوب کی جانب سے دائر کی گئی ایک رٹ پٹیشن کو خارج کر دیا ہے، جس میں اتر پردیش کی ایک خصوصی عدالت کی جانب سے ان کوجاری کیے گئے سمن کو چیلنج کیا گیا تھا۔یہ کیس ڈائریکٹوریٹ آف انفورسمنٹ ای ڈی) کی شکایت سے متعلق ہے۔