گزشتہ 13 مئی کو نیوز 18 کو دیے ایک انٹرویو میں نریندر مودی سے پوچھا گیا تھاکہ انہوں نے کیوں کہا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو وہ رام مندر کے فیصلے کو پلٹ دے گی، تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا بیان نہیں ہے۔ تاہم، 7 مئی کو مدھیہ پردیش کے دھار میں ہوئے ایک انتخابی اجلاس کے ویڈیو میں وہ صاف طور پر یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ مودی کو چار سو سیٹیں اس لیے چاہیےکہ کانگریس ایودھیا کے رام مندر پر بابری تالہ نہ لگا دے۔
نریندر مودی 22 جنوری 2024 کو رام مندر پران پرتشٹھا کی تقریب کے دوران (تصویر: X/@narendramodi)
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی اپنے ایک اور بیان سے مکر گئے ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں ایک انتخابی ریلی میں ہزاروں لوگوں کے سامنے مودی نے کہا تھا کہ اگر انڈیا گٹھ بندھن اقتدار میں آتی ہے تو وہ ایودھیا میں رام مندر پر ‘بابری تالہ’ لگا دے گی۔ اس سال جنوری میں مودی نے رام مندر کی پران-پرتشٹھا کی تقریب میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، 7 مئی کو مدھیہ پردیش کے کھرگون اور دھار میں مودی نے
کہا تھا، ‘مودی کو 400 سیٹیں چاہیے تاکہ کانگریس کشمیر میں دفعہ 370 کو پھر سے چپکا نہ دے۔ مودی کو 400 سیٹیں چاہیے تاکہ کانگریس ایودھیا میں رام مندر پر بابری تالہ نہ لگا دے۔’
مودی کی اس تقریر نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی تھی۔ مودی نے پہلی بار بتایا تھا کہ انہیں 400 سیٹیں کیوں چاہیے۔ نیچے دیے گئے ویڈیو میں مودی 16 منٹ کے بعد یہ بات کہہ رہے ہیں؛
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب ‘400 کو پار’ کا نعرہ بی جے پی کے گلے کی پھانس بن گیا ہے۔ اس نعرے نے ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی میں شکوک شبہات پیدا کر دیے ہیں کہ بی جے پی کو اتنی سیٹیں اس لیے چاہیےکہ وہ آئین میں تبدیلی کر کے ریزرویشن کے نظام کو ختم کر سکے۔
گزشتہ 13 مئی کو نیوز 18 کو دیے ایک انٹرویو میں جب اینکر امیش دیوگن نے مودی سے پوچھا کہ انہوں نے کیوں کہا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو رام مندر کا فیصلہ واپس پلٹ دے گی، تو مودی کا جواب تھا – ‘یہ میرا بیان نہیں ہے’۔ دیوگن نے کہا- ‘آپ نے بولا ہے ایسا۔’ لیکن مودی نے پھرسے کہا، ‘یہ میرا بیان نہیں ہے، مہربانی کرکے میرے منہ میں بیان مت ڈالیے۔’
ایک عوامی ریلی میں ہزاروں لوگوں کے سامنے دیے گئے اور اخبارات میں بڑے پیمانے پر رپورٹ کیے گئے بیان سے مودی کے پیچھے ہٹنے پر دیوگن حیران نظر آتے ہیں۔ نیچے دیے گئے ویڈیو میں 8:43 پر وہ ایسا کہتے ہیں۔
اس سے پہلے بھی پی ایم مودی اپنے ایک اور بیان سے مکر چکے ہیں۔
گزشتہ
21 اپریل کو راجستھان کے بانس واڑہ میں انہوں نے مسلمانوں کے خلاف بیان دیا تھا ۔ انہوں نے اس تقریر کے کچھ حصے بعد کے جلسوں میں بھی دہرائے تھے۔ لیکن، 14 مئی کو وارانسی میں پرچہ نامزدگی داخل کرتے ہوئے مودی نے یہ ماننے سے ہی انکار کردیا کہ انہوں نے ایسا کچھ کہا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘میں جس دن میں ہندو-مسلمان کروں گا، عوامی زندگی میں جینے لائق نہیں رہوں گا۔ میں ہندو-مسلمان نہیں کروں گا، یہ میرا عزم ہے۔’
بعد میں مودی وارانسی میں کہی اپنی باتوں سے بھی مکر گئے اور پھر سے مسلمانوں کے ‘خطرات’ شمار کرنے لگے۔ وہ بتانے لگے کہ اگر اپوزیشن انتخابات جیت جاتی ہے تو کیسے مسلمانوں کو دلتوں، پسماندہ اور قبائلی طبقے کے ریزرویشن کا حصہ دے دیا جائے گا۔
امبانی-اڈانی پر بیان دے کر اپنے حامیوں کو حیران کیا
دریں اثنا، تلنگانہ میں انتخابی مہم کے دوران مودی نے اپنے حامیوں کو یہ کہہ کر حیران کر دیا تھا کہ اڈانی-امبانی ٹیمپو بھر کر اپوزیشن کو بہت سارا پیسہ دے رہے ہیں۔ مودی کے اس بیان پر جب
کابینہ وزیر پیوش گوئل سے ٹائمز ناؤ میں سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، ‘اس کا جواب صرف مودی ہی دے سکتے ہیں۔’
تاہم، مودی نے ابھی تک اپنے بیان پر کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے اور نہ ہی وہ اس بیان سے پیچھے ہٹے ہیں۔
امبانی-اڈانی والے بیان میں اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے مودی نے کہا تھا، ‘کیا سودا ہوا ہے۔ آپ نے راتوں رات امبانی اور اڈانی کو گالی دینا بند کر دیا۔ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ پانچ سال تک امبانی اور اڈانی کو گالی دی اور راتوں رات گالیاں بند ہو گئیں۔ مطلب، کوئی نہ کوئی چوری کا مال، ٹیمپو بھر کر آپ نے پایا ہے۔ ملک کو جواب دینا پڑے گا۔’
تاہم
دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ کانگریس نے امبانی-اڈانی کے بارے میں بات کرنا بند نہیں کیا ہے۔ 8 مئی کو مودی نے کانگریس پر امبانی-اڈانی کے خلاف اپنا منہ بند رکھنے کا الزام لگایا تھا۔ لیکن 24 اپریل کو ہی کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے امبانی-اڈانی کو گھیرا تھا۔ انہوں نے کہا تھا،’اس ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے کہ دو بیچنے والے اور دو خریدار ہیں۔ بیچنے والے مودی اور شاہ ہیں اور خریدار امبانی اور اڈانی ہیں۔’